مشاہیر علمائے کرام

شیخ غلام علی الٰہ آبادی

تصنیف: مولانا عزیزالرحمن سلفی
ماخوذ: مشاہیرا علماء کرام (زیر طبع)

جونپور سے یہ قافلہ مچھلی شہر اور میو ہوتا ہوا ’مہروڑا‘ پہونچا ،جو شیخ غلام علی الہ آبادی کا وطن تھا، شیخ نے معمول کے مطابق خاطرداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، رخصت کے وقت مجاہدین کی خدمت میں مختلف قسم کے ہتھیار مثلاً تلواریں ، کٹاریںاور ڈھالیں ان کے علاوہ جاجم، دیگچے، طباق، پیالے وغیرہ پیش کئے، نقد رقم بھی دی ہو گی جس کی مقدار معلوم نہ ہو سکی، شیخ صاحب ان دنوں سخت پریشانیوں میں مبتلا تھے مہاراجہ بنارس نے ان پر گراں قدر رقم بطور تاوان ڈال دی تھی اور ان کا بڑا لڑکا اس عہد کے نوجوان امیروں کی طرح آزادانہ روش اختیار کر چکا تھا۔
گتنی ، کانپوراور قنوج:
مہروڑا سے یہ لوگ گتنی پہنچے، جہاں امجد خاں سے ملاقات ہوئی، وہ مستورات کے قافلے کو ٹونک پہنچا کر واپس آئے تھے، سید صاحب کے عزیز سید محمدظاہر بھی تکیہ شریفہ سے امجد خاں کی ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے، خان نے اپنا یابو مجاہدین کی خدمت میں پیش کیا، پالان شتر کی درستی کے لیے ایک دن گتنی میں گزار کر یہ لوگ کٹرا اور فتح پور ہوتے ہوئے کانپور میں وارد ہوئے، وہاں چُنگی کے دو مسلمان کارکنوں نے قافلے کا سامان روک لیا، ایک ہندو کارکن مصری لال نے جو سید جعفر علی کے چچا سید احمد علی کا دوست تھا سامان چھڑایا۔
کانپور میں وہ قافلہ چار روز مقیم رہا، سید جعفر علی اس شخص کو ساتھ لے لیتے جو جہاد کے لیے آمادگی ظاہر کرتا تھا، کانپور میں ایک شخص الٰہی بخش نام کا ساتھ ہو گیا، اس نے اہل قافلہ کو بڑی پریشانیوں میں مبتلا کیا، یہ لوگ قنوج پہونچ کر سید اولاد حسن سے ملے جو اس زمانے میں سرحد سے واپس آئے تھے میر احمد علی رئیس قنوج نے سید صاحب کے لیے ایک نہایت عمدہ تلوار سید جعفر علی کے حوالے کی، ان سے الٰہی بخش کے حالات پوچھے تو جواب ملا کہ یہ شخص مفسد ہے اور ضرور کوئی فتنہ برپا کرے گا، سید جعفر علی نیک طبعی کے باعث گھوڑا اس کے حوالے کر چکے تھے، سردی کا موسم شروع ہو گیا تھا، اس لیے قنوج میں مولوی صاحب نے اپنے ساتھیوں کے لیے لحاف بنوائے، قنوج سے مین پوری ہوتے ہوئے محمود گنج پہنچے، سید جعفر علی نے لکھا ہے کہ بہت سے ساتھی بیمار ہو گئے تھے، اور ان میں سے بعض ساتھ نہ چل سکتے تھے، ایک بیمار کو قنوج میں چھوڑا، دوسرے کو یابو پر سوار کرا کے مین پوری پہونچایا، جن بیماروں کو ساتھ لے لیا تھا وہ بھی زیادہ دور چلنے سے معذور تھے، سید جعفر علی نے ایک شخص کو یہ پیغام دے کر مین پوری بھیج دیا کہ وہاں کے بیمار کی بخوبی دیکھ بھال کی جائے، خود ــ’یابو‘ لے کر لوٹے تو قنوج والے بیمار کو سوار کرا لائیں، عین اس موقعہ پر الہی بخش نے آنکھیں پھیر لیں اور بولا: تمہارے ساتھی بہت برے ہیں میں الگ ہوتا ہوں، میری آرزو تھی کہ ایک ہزار کا قافلہ تیار کرتا، ان لوگوں کے ساتھ گھوڑے، اونٹ اور قیمتی اسلحہ ہوتے، لیکن تمہیں منظور نہیں۔
سید جعفر علی کے ساتھیوں میں سے منصور خاں بہت قوی تھا، اس نے کہا کہ اگرچہ میں بیمار ہوں لیکن اسے پکڑ لوں تو ہڈیاں توڑ ڈالوں، سید صاحب نے ہاتھا پائی سے روک دیا، لیکن رفیقوں نے کہہ دیا: یہ ہمارا ساتھی نہیں، خواہ مخواہ ہمیں ایذا پہنچاتا ہے۔
غرض سید صاحب رفیقوں کی بیماری کے باعث آہستہ آہستہ چلے، الٰہی بخش گھوڑا دوڑاتا ہوا آگے نکل گیا اور محمود گنج کی مسجد میں جا اترا، اس نے لوگوں کو بتایا کہ میں قافلۂ مجاہدین کا سالار ہوں، پیچھے ایک مولوی آرہا ہے اس کے ساتھی بیمار ہیں، انہیں مسجد میں نہ ٹھہرنے دینا۔چنانچہ سید جعفر علی بیماروں کے ساتھ جب محمود گنج پہونچے تو لوگوں نے مسجد میں اترنے سے روک دیا اور انہیں چھ آنے یومیہ کرائے پر سرائے میں حجرے لینے پڑے۔
آزمائش در آزمائش:
سید جعفر علی کا گھوڑا اور میر احمد علی رئیس قنوج کی دی ہوئی تلوار الٰہی بخش کے پاس تھی، اب مولوی صاحب نے تلوار مانگی تو اس نے جھگڑا شروع کر دیا، آخر میں پھر بولا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں جاتا، میں چاہتا تھا کہ کم از کم ایک ہزار جوانوں کا قافلہ تیار ہو جائے، سب کے پاس قیمتی ہتھیار ، گھوڑے اور اونٹ ہوں، لیکن تمہیں یہ منظور نہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں، مجھے کوئی ہتھیار دے دو تو چلا جاؤں ۔
دو تلواریں تھیں ان سے ایک اس کے حوالے کر دی، وہ بھری ہوئی بندوق کا منہ سید جعفر علی کی طرف کر کے لڑنے کے لیے تیار ہو گیا، بڑی مشکل سے یہ مصیبت ختم ہوئی۔
ساتھیوں کی بیماری کم پریشانی کا باعث نہ تھی، محمود گنج پہنچ کر رکن الدین کو سرسام ہو گیا، سید جعفر علی رات دن اس کی خدمت کرتے تھے، ایک رات وہ اچانک اٹھ کر باہر نکل گیا، بہت تلاش کیا، کچھ پتہ نہ چلا، بعد میں معلوم ہو ا کہ ایک کنویں میں گر کر جاں بحق ہو گیا۔
یہ’ سکیٹ‘ ہوتے ہوئے بھیکم پور پہونچے تو وہاں کے رئیس داؤد خان نے دو گھوڑے اور پچیس روپئے بطور نذر پیش کئے ایک ’یابو‘ ان کی ہمشیرہ نے دیا، وہاں سے چلے تو ’خورجہ ‘کے قریب ایک ویرانے میں ٹھہرے، جہاں مسجد اور کنواں تھا، اشیائے خوردنی کے لیے آدمی بازار بھیجا تو وہاں کا ایک زمیندار دوست خاں آگیا اور پورے قافلہ کو ساتھ لے گیابڑی تواضع سے پیش آیا وہاں سے چند منزل طے کر کے دہلی پہنچے۔
قیام دہلی:
دہلی میں خاصی دیر ٹھہرے رہے ، شاہ محمد اسحاق اور شاہ محمد یعقوب سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ ایک قاصد جنگ زیدہ میں سید صاحب کی کامیابی کی خبر لایا ہے، قافلے کے پاس نقد روپئے کم تھے اس لیے دو یابو فروخت کئے ،ان کی قیمت سے کچھ قرابنیں بنوا لیں، وہاں ایک جوان نے آ کر کہا کہ میں سیٹھ کا بیٹا ہوں،اور شاہ اسحاق کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں، سید جعفر علی نے اس کی خوب خاطر داری کی اور اپنی دلائی اسے اوڑھنے کے لیے دے دی، وہ دلائی لے کر بھاگ گیا اور اسے فروخت کر کے پیسے جوئے میں ہار گیا۔
دہلی سے’ نور وزبیگ‘ نامی ایک شخص کو پندرہ روپئے پر رہبری کے لیے ساتھ لے لیا وہاں سے سونی پت ، پانی پت اور انبالہ کا راستہ اختیار کیا، سونی پت میں ایک شخص بندوق، تلوار اور کچھ سامان لے کر بھاگ گیا، سردھنہ میں وہ پکڑا گیا، چوری ثابت ہو گئی لیکن مال نہ ملا۔
انبالہ:
انبالہ میں سید جعفر علی نے وہاں کے ایک رئیس شمس الدین سے ملاقات کی تاکہ محفوظ راستے کے بند وبست میں مدد مل سکے، مولوی صاحب نے اگرئی وگلا اور سبزدستار پہن رکھی تھی۔ کمر میں تلوار لٹک رہی تھی، شمس الدین شطرنج کھیل رہا تھا، مولوی صاحب کی ظاہری وضع دیکھ کر سمجھا کہ کوئی اَن پڑھ آدمی ہے۔
مولوی صاحب نے کہا کہ شطرنج جائز نہیں۔
شمس الدین نے جواب دیا کہ امام شافعیؒ کے نزدیک جائز ہے۔
مولوی صاحب: چاروں ائمہ رحمہ اللہ کے نزدیک ناجائز ہے، امام شافعی نے پہلے جواز کا فتوی دیا تھا، پھر اس سے رجوع کر لیا۔
شمس الدین: تم حنفی ہو یا شافعی؟
مولوی صاحب: آپ کو اس سے کیا غرض؟ مسئلہ کی صحیح صورت میں نے عرض کر دی۔
شمس الدین: میرے مکان سے نکل جاؤ!
مولوی صاحب: بہتر! میں نے تو خیر خواہی سے ایک شرعی بات بتائی تھی۔
غرض مولوی صاحب لوٹ گئے، دوسرے روز مسجد میں دوبارہ ملاقات ہوئی اور شمس الدین مولوی صاحب کے ایک ساتھی منصور خاں کی طرف متوجہ ہوا، جو بہت وجیہ تھا، اس نے کہا کہ مولوی صاحب سے بات کیجئے، اس وقت شمس الدین نے اپنے سابقہ طرز عمل پر معذرت کی، اور غور ومشورہ کے بعد تجویز کیا کہ پٹیالہ، مالیر کوٹلہ، جگراؤں اور ممدوٹ کا راستہ اختیار کیا جائے، چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے قافلہ کے ساتھ یہی راستہ اختیار کیا۔
پٹیالہ سے سرحد
پٹیالہ سے ممدوٹ:
ریاست پٹیالہ کے ایک گاؤں میں قافلے کے ایک آدمی نے بندوق سے مور کا شکار کیا، گاؤں کے لوگ لاٹھیاں لے کر نکل آئے، اور بڑا ہنگامہ بپا ہوا، اہل قافلہ کو علم نہ تھا کہ ریاست کے حدود میں مور کا شکارممنوع ہے، بڑی مشکل سے یہ مصیبت ختم ہوئی، ممدوٹ پہونچے تو وہاںنواب قطب الدین اس زمانے میں رئیس تھا، اس کے بھائی شمس الدین کی معرفت درخواست کی گئی کہ دریائے ستلج سے پار اترنے کا بندوبست کردیجئے، تیسرے روز نواب سے ملاقات ہوئی تو اس نے صاف جواب دے دیا اور بولا کہ اس طرح میں سکھوں کی سرکارمیں بدنام ہو جاؤں گا، ناچار سید جعفر علی نے ممدوٹ سے بہاول پور کا قصد کر لیا راستے میں تبارک اللہ نامی ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی جو رئیس ممدوٹ سے ناراض ہو کر ریاست بہاول پور کے حدود میں جا بیٹھا تھا۔
بہاول پور:
بہاول پور میںمولانا عبد الحئی کے ایک شاگرد مولانا محمد کامل تھے جنھیں اس بنا پرہندوستانیوں سے ملاقات پر ممانعت کر دی گئی تھی کہ حیات انبیاء کے مسئلہ پر وہ عام بہاول پوری علماء سے مختلف الرایٔ تھے اور کہتے کہ انبیاء اور علماء یقینا عند اللہ زندہ ہیں، لیکن ان کے لیے حیات دنیا ثابت کرنا محال ہے، سید جعفر علی کو اتفاقیہ ان سے ملاقات کرنے کا موقعہ مل گیا، نیز ان کے بیٹے محمد اکمل سے ملاقات کی، انہی کے مشورہ سے یہ قرار پایا کہ احمد پور شرقیہ ہوتے ہوئے تونسہ جانا چاہیے، احمد پور شرقیہ میں امین شاہ اور احمد شاہ سے بھی ملاقات کی تاکید کی، سید جعفر علی نے لکھا ہے کہ بہاول پور میں ہر جگہ گیارہویں شریف اور دوسرے محدثات کا دور دورہ تھا لیکن تمام پڑھے لکھے آدمی محمد کامل کا نام احترام سے لیتے تھے، بہاول پور سے تین منزل پر نور پور میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جن کی داڑھی اور مونچھیں وزیر ریاست نے اس وجہ سے منڈوا دی تھیں کہ وہ اتباع سنت پر زور دیتے تھے۔
تونسہ:
غرض قافلے نے بھکّرپہنچ کر دریا عبور کیا، ڈیرہ غازی خاں میں شیخ نور علی جونپوری سے ملاقات ہوئی، وہاں سے براہ بادیہ تونسہ پہنچے اور وقت کے عظیم المرتبہ شیخ خواجہ سلیمان تونسوی سے ملاقات کی، سید جعفر علی لکھتے ہیں ’’خواجہ صاحب فرش پر بیٹھے تھے، چاروں طرف لوگوں نے حلقہ باندھ رکھا تھا، میں نے عرض کیا کہ کسی واقف کاررہبر کے ذریعہ سے آگے پہونچا دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ یہ ارادہ ٹھیک نہیں، راستہ خطرناک ہے سکھوں کی فوج کے آدمی چھاپے مار رہے ہیں، اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنا منع ہے‘‘۔
خواجہ سلیمان سے گفتگو:
ساتھ ہی فرمایا: {ولا تلقوا بأیدیکم إلی التھلکۃ} میں نے عرض کیا کہ اس آیت کا مضمون میں خوب سمجھتا ہوں، یہ راہ خدا میں خرچ کرنے کے متعلق آئی ہے اس پر وہ خاموش ہو گئے، میں نے اجیر کی درخواست کی تو خواجہ صاحب نے فرمایا:
’’اجیر نایاب ہے، لوگ پریشان حال ہیں، دشمنوں کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے،نہ آگے جانے کی صورت ہے، نہ پیچھے ہٹنے کی، اور نہ ٹھہرنے میں محفوظ رہنے کی کوئی امید ہے‘‘۔
سید جعفر علی : آپ کیا کریں گے؟
خواجہ صاحب: میں پہاڑوں میں چلا جاؤں گا۔
سید جعفر علی: ہمیں بھی ساتھ لے لیجئے۔
خواجہ صاحب: بلوچ تمہیں مار ڈالیں گے۔
سید جعفرعلی: جنگل کا راستہ بتا دیجئے۔
خواجہ صاحب: جنگل میں پانی نہ ملے گا اور ہلاک ہو جاؤ گے۔
پھر فرمایا: بہتر یہ ہے کہ بہاول خاں رئیس بہاول پور کی نوکری کر لو، راستہ صاف ہو جائے گا، تو آگے چلے جانا، ساتھیوں میں سے نوروزبیگ اس کے لیے تیار ہو گیا لیکن سید جعفر علی نے صاف صاف عرض کر دیا کہ ہم لوگ نوکری کے لیے نہیں، جہاد فی سبیل اللہ کے لیے آئے ہیں، ہمیں راستہ بتا دیجئے اور رہبر دے دیجئے ہم رات کے وقت نکل جائیں گے فرمایا: ’’اس کا انتظام نہیں ہو سکتا‘‘۔
رہبر اور سامان سفر:
مایوسی کے بعد سید جعفر علی نے بطور خود آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا، تونسہ سے پانچ کوس آگے موضع کسرانی میں پہونچے تو ایک سید سے ملاقات ہوئی، وہ قافلہ کو اپنی مسجد میں لے گیا، خاطر تواضع کی، پھر دو بلوچوں کو لایا، اپنی داڑھی انکے ہاتھ میں دے کر سید جعفر علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: سیدھے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بہ حفاظت منزل مقصود پر پہونچانے کا حلف اٹھاؤ، گو یا اس سید کی مہربانی سے قدم آگے بڑھانے کا انتظام ہوا۔
رہبروں کا انتظام ہو گیا تو سفر کی تیاری شروع کر دی، قافلے میں روزانہ سولہ سیر آٹا خرچ ہوتا تھا سید جعفر علی نے بیس سیر آٹا خریدنے کے لیے رقم آدمی کے حوالے کر دی، اس لیے کہ دو بلوچ رہبروں کے اضافہ کے باعث خرچہ بڑھ گیا تھا، وہاں اتفاقیہ نزاع کی صورت پیدا ہو گئی اور پانچ سیر سے زیادہ آٹا نہ مل سکا، سید جعفر علی زاد راہ سے بالکل بے پروا ہو کر چلنے کے لیے تیار ہو گئے، ایک گھوڑے اور ایک یابو پر سامان رکھا، ایک گھوڑا اور ساتھ تھا، لکھتے ہیں:’’میں نے نیت کر لی تھی کہ ساتھیوں میں جو تھک جائے گا اسے سوار کرادوں گا، خود پیدل چلوں گا‘‘۔
کمال ہمت وعزیمت:
اب راہ حق کے ان مسافروں کی حالت کا تصور کیجئے، کھانے پینے کو کوئی چیز ساتھ نہیں، منزل نہایت کٹھن، راستہ کوہستانی یا صحرائی جہاں دور دور تک کھانے پینے کو کچھ نہ ملتا تھا، ہر وقت سکھوں کے حملے کا خطرہ تھا، جن کے جیش گھاس چارے کے لیے مسلسل ان حصوں میں گردش کرتے رہتے تھے، سید جعفر علی بار بار اپنے ساتھیوں سے کہتے کہ بھائیو! ہمت کرو، ہم انّیس آدمی ہیں اور مسلح ہیں، سکھوں سے مڈبھیڑ ہو جائے گی تو انہیں مار کر گھوڑے اور اونٹ لے لیں گے، پھر دو دو منزلیں ایک ایک دن میں طے کر کے امیر المؤمنین کے پاس پہونچ جائیں گے۔
سفر کی صعوبتیں:
چلے تو مطلع ابر آلود تھا، ٹھنڈی ہوا چلنے لگی، ظہر عصر اور مغرب کی نماز یں راستے میں ادا کیں،پھربادل چھٹ گئے اور چاند نکل آیا، ایک جگہ بیریوں کے درخت تھے، وہاں سے پکے ہوئے بیر چنے کچھ کھا لیے اور کچھ ساتھ لے لیے، رات باقی ہی تھی کہ ایک گاؤںمیں پہونچے جسے سکھ جلا کر راکھ بنا چکے تھے، مسجد کے صحن میں ایک بے آب حوض پر ٹھہرے، تیمم سے صبح کی نماز ادا کی، رہبروں نے ادھر اُدھر پھرکر دو تین گڑریوں سے تھوڑا سا پانی لیا، کھانا تیار کیا اور کھا کر تھوڑی دیر کے لیے سو گئے، اسی دوران بارش شروع ہو گئی۔
برتنوں میں بارش کا جو پانی جمع ہوا تھا وہ ساتھ لے لیا اور مزید بارہ کوس کی مسافت طے کر کے ظہر کے وقت ایک دریا پر پہنچے۔(تونسہ سے ڈیرہ اسماعیل خاں اور اس کے بعد عیسیٰ خیل کی طرف جائیں تو چھوٹی بڑی کئی ندیاں ہیں، جو کوہستان سلیمان سے نکل کر دریا سندھ میں ملتی ہیں، جس دریا کا ذکر ہے اس سے مراد غالباً ’’وہایو‘‘ ہے اس سے آگے بڑا دریا لونی ہے جو ڈیرھ اسماعیل خاں کے قریب ہے)
وہاں سے رہبر ایک پہاڑی راستہ بتا کر واپس چلے گئے،مجاہدین نے کچھ منزل طے کر لی تو راستے کا نشان گم ہو گیا، ایک جگہ دیکھا کہ کوئی شخص جانور چرا رہا ہے، راستہ پوچھنے کے لیے اس کی طرف پلٹے تو وہ اس خیال سے ریوڑ چھوڑ کر بھاگ گیا کہ یہ لٹیرے ہیں، پھر ایک گائے کے پیچھے روانہ ہوئے اور ایک آبادی میںپہنچے۔
اس سلسلے میں سید جعفر علی نے اپنے سفر نامہ میں جن مقامات کا ذکر کیا ہے یہ ہیں: اوجھ کوہی، مروت، چوڈوان (چوڈوان سے مراد غالباً چھنڈواں ہے جو کوہ سلیمان کے نزدیک ہے)، درہ بند، لونی، کوئلہ ممر یز خاں، عیسی خیل، کالاباغ۔
اوجھ کوہی سے سولہ سیر آٹا ، بارہ سیر دانہ، اور گھاس خریدنا چاہی، وہاں کے ملاّنے گھاس بھی مہیا کر دی اور کھانا بھی کھلایا، نیز نصیحت کی کہ آگے رہزن ملیں گے، ان سے کہنا کہ ہم سید ہیں،چنانچہ راستہ میں کئی جگہ مشتبہ آدمیوں سے سابقہ پڑا، ایک رات چوڈواں میں بسر کی، درہ بند میں ایک ملاّنے بڑی تواضع کی، اس مقام اور کوٹلہ ممریزخاں کے درمیاں لونی کے علاوہ دو منزلوں کا ذکر آیا ہے، لونی سے جو رہبر ساتھ لیا تھا، اس کا نام ابو بکر صدیق تھا، اس سے اگلے دو مقاموں کے رہبروں کے نام بالترتیب عمر خطاب اور عثمان غنی تھے، عیسی خیل کے رئیس احمد خاں نے بڑی خاطر تواضع کی، ایک رات راستے میں گزار کر کالاباغ پہنچ گئے، جہاں کا نواب اللہ یاد خاں سکھوں کی تابعیت قبول کر چکا تھا، یہیں دس اور اصحاب ملے، جو سید صاحب کے پاس جا رہے تھے، وزیر خاں پانی پتی، غلام رسول خاں ملتانی، مولا بخش گولا اندازٹونک، احمد خاں قاصد، علیم الدین بنگالی (برادر زاد مولوی امام الدین)نیز پانچ اور اصحاب۔
منزل مقصود:
سید جعفر علی اور وزیر خاں پانی پتی نے نواب سے ملاقات کی تاکہ کسی اچھے رہبر کا بندوبست ہو جائے، اس کی مجلس میں سکھوں کی کثرت تھی، لہذایہ مدعا بیان کئے بغیر لوٹ آئے، تخلیے میں ملاقات کر کے رہبر کا انتطام کرایا،اس نے ایک دو کوس چل کر اجرت مانگی چوں کہ وہ ہر قدم پرشر پیدا کرتا تھا اس لیے اجرت دے کر اسے واپس کر دیا۔
آگے صرف دو منزلوں کے نام معلوم ہو سکے، ایک ٹولہ جہاں سید جعفر علی نے دو گھوڑوں کے نعل بندھوائے تھے، دوسرا استدغی، لنڈے دریا کو عبور کر کے انتیس آدمیوں کا یہ قافلہ ۹؍رمضان المبارک ۱۲۴۵؁ھ (۴؍مارچ ۱۸۳۰ء؁ ) کو پنجتار پہونچا، سید صاحب اس زمانے میں بمقام امب تشریف فرما تھے، ان کے بھانجے سید احمد علی کسی کام کے سلسلے میں پنجتار آئے ہوئے تھے ان سے ملاقات کی، ایک روز وہاں ٹھہرے، ایک رات گندف میں گزاری ۱۲؍ رمضان المبارک کو عصر کے وقت ستھانہ پہونچے، سید اکبر شاہ نے ٹھہرانا چاہا، جعفر علی نے عرض کیا کہ اب امیر المؤمنین سے ملنے کا اشتیاق ہے، عشرہ میں حافظ عبد اللطیف اور مولانا مظہر علی سے بھی نہ ملے، اور سیدھے امب گئے، سید صاحب کو آمد کی اطلاع پہلے مل چکی تھی اور دو مرتبہ استقبال کی غرض سے باہر آکر واپس چلے گئے تھے، ایک آدمی بھاگا بھاگا راستہ میں ملا کہ جلد بندوق سر کردو، تاکہ آمد کا حال معلوم ہو جائے، سید صاحب اژدر پر سوار ہو کر پچاس سواروں کے ساتھ آم کے درخت تک آئے، بہ آواز بلند السلام علیکم کہا، پھر مجاہدین کو دو صفیں بنا لینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں جب کہوں بسم اللہ اللہ اکبر ، سب بندوق سر کریں، سید جعفر علی کے قافلے سے کہا کہ آہستہ آئیں، خود تیز چلے گئے، اس لیے کہ افطار کا وقت قریب تھا، راستہ میں افطار کا سامان آگیا ،دال مونگ میں نمک مرچ ڈال کر لائے، افطار کے بعد جلد از جلد مسجد میں پہونچ کر سید صاحب کی امامت میں نماز ادا کی۔
ذکر وموعظت:
یہ حالات اس خیال سے تفصیلاً بیان کئے گئے کہ سید صاحب کی شان مردم گری کا ایک حد تک اندازہ ہو جائے، سید جعفر علی نے سید صاحب کو دیکھا نہ تھا اور براہ راست ان سے بیعت بھی نہ کی تھی، صرف اپنے والد اور بھائی کے واسطے سے کسب فیض کیا تھا لیکن غور فرمائیے کہ اس بالواسطہ فیض نے بھی انہیں عزیمت کا کیسا عجیب وغریب پیکر بنا دیا ، ذرا تصور کیجئے کہ کہاں گورکھپور ہے اور کہاں پنجتار، راستہ سراسر صعوبتوں سے لبریز ، قدم قدم پر ندیاں اور دریا، یا صحرا اور پہاڑ، سواریاںمفقود، ہر جگہ جان کا خطرہ، اکثر مقامات پر لوگ غیر ہمدرد جو معاون بننے کے بجائے مزاحم ہوتے رہے، اور یہ لوگ نوکری یا تجارت کے لیے نہ نکلے تھے کہ شدائد وصعب کی برداشت تحصیل زر کا ایک لازمہ سمجھی جاتی، وہ راحت بھری زندگیاں چھوڑ کر ایک بلند اسلامی نصب العین کی تکمیل اور ثواب اُخروی کی تحصیل کے لیے نکلے تھے، آج کتنے مسلمان ہیں جو ان کی طرح خدا کی راہ میں صرف خدا کی خوشنودی کے لیے ایسے چند دن بھی بسر کر سکیں، سید جعفر علی اور ان کے ساتھیوں نے کم وبیش دس مہینے بسر کیے۔
کاروبار جہاد:
سید جعفر علی نقوی تقریباً ایک سال مصروف جہاد رہے، پھر بالاکوٹ کا واقعہ پیش آگیا، ان کی تحریر بہت اچھی تھی اس لیے انہیں منشی خانہ میں لے لیا گیا تھا، یعنی وہ کاروبار جہاد کے علاوہ منشی گیری کا کام بھی انجام دیتے تھے، اس سلسلے میں بعض واقعات صاف طور پر قابل ذکر ہیں، مثلاً:
۱- ایک موقعہ پر شیخ بلند بخت دیوبندی کو ایک معتمد علیہ آدمی کی ضرورت پڑی، جسے پائندہ خاں تنولی کی زنبورکیں لانے کے لیے بھیجنا تھا، وہ شیخ محمد اسحاق گورکھپوری کی تلاش میں آئے جو دن بھر پھرتے پھراتے واپس آکر سو گئے تھے، سید جعفر علی خود اس کام کے لیے تیار ہو گئے راتوں رات امب سے چھتربائی پہنچے، عبور دریا کے بعد اس مقام پر گئے، جہاں زنبورکیں پڑی تھیں، چار سلامت مل گئیں، پانچویں ایک گاؤں میں زیر مرمت تھی، سید جعفر علی نے پانچوں بہ حفاظت اونٹوں پر بار کرائیں اور سکھوں کی چوکی کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں لے آئے، اگرچہ مشقت کے باعث بخار آگیا تھا لیکن جب تک زنبورکیں منزل مقصود پر نہ پہنچا لیں ایک لمحے کے لیے بھی آرام نہ کیا۔
۲- وہ شاہ اسماعیل کے ساتھ’ سچّوں‘ سے بالاکوٹ جا رہے تھے، برف باری کا زمانہ تھا، پہاڑ کی چڑھائی پر سردی کی شدت کے باعث بے بس ہو گئے، اپنے ہتھیار اور دوسری چیزیں ایک شخص کے حوالے کر دیں کہ اگر میں مر جاؤں تو یہ چیزیں بیت المال میں دے دینا، پھر ایک گوجر سے کہا کہ میری دستار لے لو، اور کسی طرح مجھے گاؤں پہونچا دو، صرف دستار کی پیش کش اس لیے کی، کہ جو سامان وہ گھر سے لائے تھے اس میں سے صرف دستار رہ گئی تھی، باقی کپڑے بیت المال کے تھے، اور ان کی شان اتقا اس بات کی روا دار نہ تھی کہ بیت المال کی کوئی چیز ذاتی کام کے معاوضے میں کسی کو دیں، غرض انہیں چارپائی پر ڈال کر گاؤں پہونچایا گیا، اور کئی روز کے بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے۔
بالاکوٹ کے میدان میں وہ سید صاحب کے قریب تھے، جب افواہ پھیلی کہ سید صاحب کو گوجر پہاڑوں میں لے گئے ہیں تو دوسرے مجاہدین کے ساتھ سید جعفر علی بھی پہاڑ پر چلے گئے، پھر ناصر خاں بھٹ گرامی کی معیت میں شملئی پہونچے، جہاں سید صاحب کی اہلیہ اور دوسری مستورات تھیں۔
سفر مراجعت
قصد مراجعت:
جب سید صاحب کی شہادت میں کوئی شبہ نہ رہا تو وطن واپس آنے کا فیصلہ کر لیا، اس وقت تک شیخ ولی محمد پھلتی جماعت میں سب سے بڑھ کر معزز اور بزرگ مانے جاتے تھے، اور انہیںباقاعدہ امیر بنا لیا گیا تھا، بے شک جماعت کے نزدیک وہی امیری کے اہل تھے، سید جعفر علی ان کی خدمت میں پہونچے اور عرض کیا کہ آپ کو ہمیشہ شفیق اور بزرگ بھائی سمجھا، اب گھر جانا چاہتا ہوں، اگرکچھ نقد ہو تو راستہ کے خرچ کے لیے عنایت فرمائیں، نقد نہ ہو تو میرے اچھے ہتھیار لے لیں اور ناقص ہتھیار دے دیں تاکہ میں ضرورت پیش آنے پر انہیں بیچ کر زاد راہ کا انتظام کر لوں، شیخ ولی محمد نے کچھ ہتھیار دے دیئے، ان کے علاوہ سید جعفر علی نے شیخ کی اجازت سے ایک قلم دان، ایک قینچی، چند خطوط، جن پر سید صاحب کی مہریں اور دستخط تھے اور شاہ اسماعیل کی چند تحریرات لے لیں، ۲۷؍ ذی الحجہ ۱۲۴۶؁ھ مطابق (۸؍جون ۱۸۳۱ء ؁) کو روانہ ہوئے، اس وقت سید صاحب کی شہادت پر ایک مہینہ اور تین دن گزر چکے تھے، اور سید جعفر علی صاحب کو سرحد پہونچے ہوئے سوا سال ہو چکا تھا، مجاہدین میں سے رجب خاں خان پوری، حاجی سکندر ساکن مئو، اور چند اصحاب ہمراہ تھے، سب نے شیخ ولی محمد اور دوسرے اصحاب سے سوء ادب وغیرہ کی تقصیریں معاف کرائیں۔
سفر:
راستے میں سید جعفر علی کا قلمدان چوری ہو گیا اس میں سید صاحب کے خطوط اور شاہ اسماعیل کی تحریریں بھی گئیں، سید جعفر علی نے ہر چند اعلان کیا کہ قلم دان معاف کرتا ہوں ،تحریر یں واپس دے دی جائیں لیکن کچھ نہ بنا، حاجی سکندر کی سپر ایک جگہ نو روپئے پربکتی تھی وہ بھی کوئی چوری کر لے گیا۔
مدّا خیل میں سید غلام خاں اور فتّو خاں کے پاس ٹھہرے، انہیں کے آدمیوں نے چنئی کے راستے ستھانہ پہونچایا، اس سفر میں مرزا جان اخوند زادہ اور اخوند محتشم سے بھی ملاقات کی۔
ستھانہ میں سید اکبر شاہ نے بہت مدارات فرمائی، ہر وقت ساتھ رکھتے تھے، اور گھر جانے کی اجازت نہ دیتے تھے، سید اکبر شاہ کے ایک عزیز نے اجازت لے دی، وہاں سے خان زمان خاںکے پاس گنگر پہونچے، وہ بھی اصرار کر رہے تھے کہ ملازمت کر لو، جتنے روپے کہو گھر بھیج دیتا ہوں، سواری کے لیے گھوڑا دوں گا اور آپ کی خدمت الگ کروں گا، سید جعفر علی نے معذرت کی، خان پور، راولپنڈی اور رہتاس ہوتے ہوئے کھاریاں (ضلع گجرات) پہونچے، وہاں بخار آگیا جس نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ سرسام ہو گیا، گاؤں کے رئیس نے بڑے اہتمام سے علاج کرایا، تندرست ہوئے تو لاہور اور امرت سر ہوتے ہوئے جالندھر پہونچے، خود فرماتے ہیں کہ سکھ حکومت میں مسلمانوں کی حالت بہت خراب تھی یہاں تک کہ اقامت کی طرح اذان ’’بہ خفض صوت‘‘ دیتے تھے، اور بہ حالت آزردگی دعائیں مانگتے تھے، کہ اللہ تعالیٰ جلد اس ملک سے باہر لے جائے۔
ایک عجیب واقعہ:
سید جعفر علی نے جالندھر کا ایک عجیب واقعہ لکھا ہے، کہتے ہیں: ’’میں مسجد میں ٹھہرا ہوا تھا، وہاں سو گیا، اسی حالت میں ایک شخص میرے پیر دابنے لگا، میں جاگا تو اس نے بے توقف کچھ روپے پیش کئے، میرے استفسار پر بتایا کہ میں صنعت جانتا ہوں، بال بچے ہیں نہیں، جو کچھ کماتا ہوں اس میں کھا پی کر خاص رقم بچ رہتی ہے، وہ مسافروں میں صرف کرتا ہوں‘‘۔
لدھیانہ:
جالندھر سے پھلور پہونچے اور دریائے ستلج کو عبور کیا اس حصۂ ملک کی امتیازی خصوصیت سید جعفر علی نے یہ لکھی ہے کہ وہاں اذان اور گاؤکُشی بخوبی ہوتی تھی لدھیانہ پہونچ کر شاہ شجاع کی مسجد میں قیام کیا۔ لکھتے ہیںکہ حافظ عبد اللطیف نیوتنوی بھی مجھ سے پہلے اسی مسجد میں ٹھہرے تھے، امام مسجد مجاہدین کی تکفیر کرتا تھا اس سے لڑ کر حافظ صاحب دہلی چلے گئے تھے، میری صورت دیکھ کر امام نے برا بھلا کہنا شروع کیا، میں چپ بیٹھا رہا، دوسرے روز احمد خاں سے ملاقات ہوئی، جسے مولوی سید محمد علی رام پوری نے تحقیق احوال کے لیے بالاکوٹ بھیجا تھا، سید جعفر علی نے اسے اپنے چشم دید واقعات سنا دیئے پھر شاہ شجاع کے وزیر ملاّشکور سے ملاقات ہوئی اس نے کہا کہ نمک حرام ہمارے ملک پر قابض ہیں، ساتھ ہو جاؤ اور ہمارا حق دلاؤ، سید جعفر علی نے جواب دیا کہ ہم خدا کے لیے جنگ کرنے گئے تھے کسی بادشاہ یا دعویدار شاہی کے حق کے لیے نہیں، امیر المؤمنین کا حق کسی نے نہ چھیناتھا، ملاّ شکور نے جواب دیا کہ یہ تو ارفع واعلیٰ مرتبہ ہے، لیکن حق دار کو حق دلانا بھی نیکی کا کام ہے۔
پھر زمان شاہ کا وکیل جمال العین آکر ساتھ لے گیا، ایک حویلی میں ٹھہرایا اور شاہ کی طرف سے کھانا مقرر کر دیا، شاہ سے ملاقات ہوئی تو بڑی عزت سے پیش آیا، اس کے پاس ایک حکیم موجود تھا، پوچھا: یہ عالم آدمی ہیں؟جو اب اثبات میں ملنے پر کھڑے ہو کر مصافحہ کیا اور برابر بٹھایا، پھر کہا کہ جب امیر المؤمنین نے نمک حراموں کو پشاور واپس کر دیا تو ہمیں بہت دکھ ہوا، ہم جانتے تھے کہ جن منافقوں نے ہم سے وفا نہ کی وہ امیر المؤمنین سے کیا وفا کریں گے؟ ہمارا وکیل بھی نہ تھا جو امیر المؤمنین کو ہماری یاد دلاتا۔
غرض زمان شاہ نے سید جعفر علی کو سات روز اپنے پاس ٹھیرائے رکھا ،ایک روز طعام خاص بھیجا، جس کے ساتھ قسم قسم کے آم تھے، جو شخص کھانا لایا تھا، اس نے کہا کہ شاہ کے طعام خاص کے لیے اٹھئے، سید جعفر علی نے جواب دیا کہ میں آپ کی تعظیم کرتا ہوں اور یہ کافی ہے، طعام کی تعظیم اس کے سوا کچھ نہیں کہ ضائع نہ ہو۔
دہلی:
لدھیانہ سید جعفر علی، انبالہ، کرنال، پانی پت ہوتے ہوئے دہلی پہونچے، راستے میں محمد سعید خاں رسالدار کنج پوری سے ملاقات ہوئی جو سکھوں کے پاس ملازم تھا اور ملازمت چھوڑ کر سید صاحب کی خدمت میں پہونچنا چاہتا تھا، اس کے ساتھ بیس سوار اور پیادے تھے، سید صاحب کے حالات سن کر ان کی صحت پر یقین نہ کیا اور سمجھا کہ سید جعفر علی وہاں سے بھاگ آئے ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے پوچھا تو جو کچھ مجھے معلوم تھا بتا دیا، آپ میرا بیان صحیح نہیں سمجھتے تو خود چھان بین کر لیجئے۔
دہلی پہنچ کر مسجد نہر میں ٹھہرے جو لاہوری دروازے کے قریب تھی، اگرچہ رات کا وقت تھا لیکن لوگوں نے پہچان لیا، وہ بہت افسوس کرتے تھے، ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ یہ شخص پانچ گھوڑے، ایک اونٹ اور قافلہ لے کر گیا تھا، اب اس حال میں واپس آیا ہے، کھانا کھلایا، خود بخود نئے کپڑے بنوا دیئے، مولانا سید محمد علی ان دنوں اکبر آبادی مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے، معلوم ہوا تو آدمی بھیج کر بلوایا، تمام حالات سنے، لیکن شہادت کی تصدیق نہ کی۔
چودہ روز دہلی میں مقیم رہے، شاہ اسحاق ، شاہ یعقوب اور دوسرے اکابر سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، سید جعفر علی سے پیشتر مولوی امام الدین اور حافظ عبد اللطیف پہونچ چکے تھے، اور وہ بے تکلف شاہ اسماعیل کی شہادت کا واقعہ بیان کر رہے تھے، شاہ اسحاق ، شاہ یعقوب اور دوسرے متعلقین کے نزدیک یہ بات مستحسن نہ تھی، ایک روز شاہ اسماعیل کی ہمشیر نے سید جعفر علی، حافظ عبد اللطیف، مولوی امام الدین کو جمع کیا اور فرمایا:
’’وہ میرے بھائی تھے، اس انتہائی قریبی رشتے کے علاوہ انہوں نے مجھ پر ایسے احسان کئے، جو بہت کم بھائیوں نے بہنوں پر کئے ہوں گے، میری حالت یہ ہے کہ اگر مر جاؤں تو اسحاق اور یعقوب کے سوا دفن کرنے والا بھی کوئی نہیں، اگر ہمارے بھائی نے شہادت پائی تو ہم اپنے پروردگار سے راضی ہیں، جزع فزع نہیں کرتے، جانتے ہیں کہ وہ بڑوں کے طریقوں پر چلے‘‘۔
پھر مجھ سے پوچھا: ’’آپ نے ہمارے بھائی کو شہید ہوتے دیکھا؟ میں نے نفی میں جواب دیا، تو بی بی رقیہ نے فرمایا: بہتر یہی ہے کہ آپ شہادت کی خبر بیان نہ کریں، اظہار میں دو قباحتیں ہیں، ایک یہ کہ لوگ طعنے دیتے ہیں، دوسرے یہ کہ یہاں جانشینی اور دستار بندی کا معاملہ شروع ہو جائے گا‘‘۔
لکھنؤ اور وطن:
دہلی سے سید جعفر علی، مولانا سید محمد علی کے ہمراہ روانہ ہوئے، بھیکم پور، قنوج اور نیوتنہ میں بھی ٹھہرے، لکھنؤپہنچ کر جوہری محلے کی مسجد میں قیام کیا، وہاں اپنے استاد مولوی حیدر علی، سید ابوالقاسم بن سید احمد علی شہید (خواہر زادۂ سید صاحب) اور سید محمد سے بھی ملاقاتیں ہوئیں ان سب کو واقعۂ شہادت کی تفصیلات سنائیں، مولوی حیدر علی سید صاحب کی شہادت کی خبر سن کر بہت روئے، انہوں نے ہی فقیر محمد خاں رسالدار تک یہ خبر پہونچائی اس وقت سے انہیں سید صاحب کی شہادت کا یقین ہوا۔
لکھنؤ سے سید جعفر علی فیض آباد گئے اور شاہ ٹاٹ کی مسجد میں قیام کیا، وہیں ان کے ماموں استقبال کے لیے آگئے، گورکھپور میں ان کے بھائی اور دوسرے عزیزوں نے استقبال کیا، وہاں سے اپنے وطن مجھوا میر پہنچے۔
دو قابل قدر خدمتیں:
جنگ بالاکوٹ سے واپسی کے بعد سید جعفر علی کی دو خدمتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اول یہ کہ آپ نے اپنی بستی سے چھ میل کے فاصلے پر کرہی میں ’’ہدایت المسلمین‘‘ کے نام سے دینی درسگاہ قائم کی، جو اب تک جاری ہے۔
دوسرے نواب وزیر الدولہ والی ٹونک اور آپ کے صاحب زادے نواب محمد علی خان کی فرمائش پر سید صاحب اور جماعت مجاہدین کے حالات پر مبنی ایک مفصل کتاب بہ زبان فارسی لکھی، جس کا ایک نام ’’منظورۃ السعداء فی احوال الغزاۃ والشہداء‘‘ اور دوسرا نام ’’تاریخ احمدی ‘‘ ہے، اس میں ابتدائی حالات سید صاحب کے نیازمندوں سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہیں، جنگوں کے متعلق کچھ حالات انہوں نے مستند ذرائع سے سنے، باقی ان کے چشم دید تھے، یہ کتاب بڑی ہی قیمتی معلومات سے لبریز ہے افسوس کہ اب تک چھپ نہ سکی۔
منظورہ کی ترتیب:
منظورۃ السعداء کی ترتیب کا حال خود سید جعفر علی نے یوں بیان کیا ہے کہ ایک دوست مولانا جمال الدین مدار المہام بھوپال کا ایک رسالہ میرے پاس لائے، جو سید صاحب کے حالات پر مشتمل تھا، اور کہا کہ اس کی روایتیں دیکھ کر درست کر دیجئے، اسے دیکھا تو عبارت خوب تھی، لیکن مطالب میں غلطیاں تھیں اس لیے کہ حالات لوگوں سے سن کر لکھے تھے، نواب وزیر الدولہ نے ٹونک سے کئی قاصد میرے پاس بھیجے، حالانکہ میرا وطن ٹونک سے ایک مہینے کی مسافت پر تھا، آخر میں ٹونک گیا وہاں اور لوگ بھی تھے، جنھوں نے سید صاحب کو دیکھا تھا، سید صاحب کے خاص رفیقوں میں سے اکثر شربت شہادت پی چکے تھے، بعض کا پیمانۂ حیات طبعی طور پر پُر ہو چکا تھا،خطرہ تھا کہ ثقات کی وفات کے بعدحالات لکھنے والا کوئی نہ ہو گا،لہذا جلد سے جلد جو کچھ کسی کو یاد ہو قلمبند کر دینا چاہئے۔
میں نے وہی حالات لکھے، جو خود دیکھے یا سید صاحب کی زبان سے سنے یا شاہ اسماعیل اور دوسرے معتمد علیہ بزرگوں نے حکایتاً میرے سامنے بیان کئے۔
وفات:
سید جعفر علی صاحب نے رمضان المبارک ۱۲۸۸؁ھ (نومبر ۱۸۷۱ء؁) میں وفات پائی، تاریخ پیدائش ۱۲۱۸؁ھ تھی، ستر برس کی عمر ہوئی، وفات سے پیشتر ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک آراستہ مقام ہے، وہاں شاہ عبد العزیز ، سید احمد ، شاہ اسماعیل اور کچھ دوسرے اصحاب کرسیوں پر بیٹھے ہیں، ایک کرسی خالی ہے، کسی نے پوچھا یہ کس کے لیے ہے؟ جواب ملا: جعفر علی کے لیے۔
اولاد میں صرف ایک صاحبزادی تھی بی بی زینب، ان کے کوئی اولاد نہ ہوئی، چھوٹے بھائی سید حسن علی کے صاحبزادے محمد زکریا کی اولاد میں سے سید محمد مصطفی ، سید محمد احمد اور سید محمد صالح ۱۹۴۱ء؁ تک زندہ رہے۔ (جماعت مجاہدین، صفحہ: ۱۹۲ تا ۲۰۹)
سید جعفر علی نقوی کے متعلق ان کے خاندان کے ایک فرد سید عبد السلام (محلہ بشیر گنج کانپور) سے مزید حالات معلوم ہوئے، جو خلاصہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:
۱- آٹھویں صدی ہجری میں اس خاندان کا پہلا فرد جس کا نام سید جلال الدین تھا، ہندوستان آیا، اور اس کے افراد اجودھیا کے محلہ سیّدواڑہ میں مقیم رہے۔
۲- غالباً گیارہویں صدی ہجری میں اس کی ایک شاخ مجھوا میر میں مقیم ہوئی، جو پہلے گورکھپور میں شامل تھا، آج کل ضلع بستی میں ہے۔
۳- سید جعفر علی نقوی کی دو شادیاں ہوئیں، پہلی شادی خاندان میں کی تھی، یہ بی بی عمر میں سید جعفر علی سے بڑی تھیں، دوسری شادی سید احمد علی رام پوری کی صاحبزادی سے کی، جن کا نام غالباً فاطمہ بی بی تھا، سید جعفر علی نے اپنے ایک گاؤں کی آمدنی میں ایک چوتھائی حصہ اس بی بی کے مہر میں لکھ دیا تھا، ان کے بھتیجے سید محمد زکریا نے اس کے خلاف دعوی دائر کیا، خاندان کے لوگوں نے مصالحت کرا دی اور طے ہو گیا کہ سید جعفر علی کے حصہ میں سے ۱؍۸ بی بی صاحبہ کے پاس رہے، اور ۱؍۸ سید محمد زکریا کو دے دیا جائے۔
۴- سید جعفر علی کی صاحبزادی سیدہ زینب کی شادی محلہ قافلہ ٹونک کے سید شریف حسن بن سید مہدی حسن سے ہوئی تھی، وہی سید جعفر علی کے خلیفہ مقرر ہوئے، اور انہیں سیدہ زینب کے ذریعہ سے جو جائیداد ملی تھی وہ اپنے بھائی سید لطیف حسن کے نام ہبہ کر دی۔
۵- سید جعفر علی کی دونوں بیویاںموجودہ عیسوی صدی کے اوائل تک زندہ رہیں، سید عبد السلام لکھتے ہیں کہ میں نے بچپن میں انہیں دیکھا تھا، ان کا دستور یہ تھا کہ نماز فجر کے بعد چارپائی پر بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرتیں، روٹیوں کے ٹکڑے مل کر پاس رکھتیں اور چڑیوں کو ڈالتی جاتیں، چڑیاں ان سے اس قدر مانوس ہو گئی تھیں کہ چارپائی اور بدن پر آبیٹھتیں، ان کے انتقال سے دس بارہ برس بعد سیدہ زینب نے وفات پائی۔
۶- سید جعفر علی کا حلیہ یہ تھا، دہرا بدن، خوب قد آور،داڑھی گھنی، گھوڑے کی سواری کے شائق تھے، ان کی کچی قبر اب تک محفوظ ہے۔
۷- سید عبد السلام فرماتے ہیں، کہ خاندانی روایتوں میں شاہ عبد العزیز سے تعلیم پانے کا بھی ذکرہے، بتایا جاتا ہے کہ اجازت لیے بغیر چپ چاپ گھر سے نکل کر دہلی پہونچ گئے تھے، گھر سے جتنے خط ان کے پاس گئے وہ سب بندکے بند پڑے رہے، تعلیم مکمل کر چکنے کے بعد انہیں کھول کر پڑھا۔
مہر صاحب لکھتے ہیں کہ میری معلومات کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں ہے، سید جعفر علی نے تعلیم کی تکمیل لکھنؤ میں کی، وہ بہ سلسلۂ جہاد امب پہونچے (رمضان ۱۲۴۵ھ) تو پہلی مرتبہ سید صاحب کو دیکھا، البتہ ان کے والد سید قطب علی اور بھائی سید حسن علی تکیہ شریفہ پہونچ کر سید صاحب سے بیعت کر چکے تھے۔
۸- سید جعفر علی کے والد سید قطب علی کے بھائی سید احمد علی تھے، ان کے دو فرزند ہوئے، سید اصغر علی اور سید اکبر علی، مؤخر الذکر کے فرزند کا نام سید فرزند علی تھا، سید اصغر علی کے ا خلاف کی کیفیت یہ ہے:
سید اصغر علی
سید محمد حاجی سید محمد یحیٰی
سید ریاضت حسین سید ہدایت حسین سید ولایت حسین
سید عبد السلام سید محمد اکرام سید محمد میاں سید محمد ابراہیم
(جماعت مجاہدین، جلد:۳ ، صفحہ: ۳۰۲ تا ۳۰۳،ضمیمہ:۳)
اس کے علاوہ موضع اوسان کوئیاں میں ایک مدرسہ بنام اسلامیہ قائم کیا، جس کا سن تأسیس ۱۸۶۲ء؁ ہے، اس میں علامہ اللہ بخش بسکوہری نے تدریسی فریضہ انجام دیا تھا، بعد میں مولانا عبدالقدوس صاحب مرحوم نے مظہر العلوم کے نام اسی کی نشاۃ ثانیہ ۱۹۵۱ء؁ میں کی۔
مزید برآں مولانا علی میاں اور نزہۃ الخواطر کی روایت کے مطابق آپ نے مادھوپور اور سمرا میں بھی مدرسہ قائم کئے، نیز مدرسہ دارالہدی یوسف پور کے قیام میں بھی آپ کا مشورہ شامل تھا۔
بالاکوٹ سے واپسی کے بعد جتنے دنوں آپ وطن میں رہے تبلیغی دورے کیا کرتے، گاؤں گاؤں جاتے اور تقریریں کرتے، موضع ٹکریا آپ کا خاص مستقر ہوتا، وہاں کے ایک بزرگ محمد فاضل صاحب مولانا شکر اللہ صاحب کے دادا بڑے اچھے فارسی خواں تھے، ان کو اپنے تبلیغی دوروں میں ساتھ رکھتے، اور اپنے جلسوں میں ان سے مثنوی مولانا روم پڑھاتے، اسی تعلق اور یہاں کی آمد سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ٹکریا میں بھی ضرور انہوں نے مدرسہ قائم کیا ہو گا، جو مختلف ادوار میں مختلف مدارج سے گزرا ہو گا، یہاں تک ۱۹۲۰ء ؁کے لگ بھگ اور ۱۹۲۵ء؁ کے بعد مولانا عبد الغفور پنجابی اور مولانا ممتاز علی رحمہم اللہ اس میں باہر کے بچوں کو رکھتے تھے اور عربی کی اونچی اونچی جماعتوں کی تعلیم ہوتی تھی، لیکن کوئی ایسا معمر بزرگ نہ مل سکا جس سے مولانا مرحوم کے یہاں مدرسہ قائم کرنے کا ثبوت فراہم ہو سکے۔

Related posts

دلاور خاں ، عبد السبحان خاں، منصور خاں ، عبد اللہ خاں گورکھپوری

Paigam Madre Watan

سید قطب علی (متوفی ۱۸۳۳ءتقریباً)

Paigam Madre Watan

شیخ محمد اسحاق گورکھپوری

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar