نئی دہلی (نیوز رپورٹ : مطیع الرحمن عزیز) – ہیرا گروپ کے سرمایہ کاروں کے پیسوں کی حصولیابی، قانونی پیشرفت کے درمیان توقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ 5500 کروڑ روپئے کا مکمل معاملہ سپریم کورٹ اور ایجنسیوں کے درمیان واضح ہو کر آیا ہے، تمام سرمایہ کاروں کی مکمل تعداد 172000 بتائی جاتی ہے۔ جس میں بڑی تعداد یعنی 80فیصد سے زیادہ لوگ ہیرا گروپ کے پلیٹ فارم پر براجمان ہیں، جب کہ لگ بھگ 20فیصد سے کم افراد نے ایجنسیوں اور عدالتوں کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس درمیان میں یہ بات بھی اہم ہوگی کہ جس طرح سے ایجنسیوں میں جانے والے افراد کے مکمل رقوم کی ادائیگی ہیرا گروپ پر لازم نہیں ہے، اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ مشکل ترین مہنگے عدالتی کارروائیوں کے درمیان کمپنی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے ہزاروں سرمایہ کاروں کو سیکڑوں کروڑ روپئے آمانتیں انہیں لوٹائی دی ہیں۔ جن میں سے شکایت کنندگان کے لئے کمپنی کی دعویداری ہے کہ ایجنسیوں میں جانے والوں کی رقم کا شمار پچاس کروڑ روپئے کے اندر سمٹ جانے والی ہے، جبکہ ایجنسیوں نے اپنے مدعے کو بڑھا چڑھا کر بتاتے ہوئے پانچ سو کروڑ روپئے بتایا ہے، شکایت کنندگان کے تعلق سے ایجنسیوں کے دعوی کے برعکس ہیرا گروپ آف کمپنی کی دعوی داری پختہ اس لئے بھی لگتی ہے کیونکہ ملک کی ایجنسیاں ہمیشہ اپنے کام کو بڑا بتانے کیلئے معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ سرمایہ کار جو کمپنی کے خلاف ایجنسیوں کے پلیٹ فارم پر جاتے ہیں ان کے مطالبات صرف انہی رقم پر باقی رہ جاتی ہے جو انہوں نے ابھی تک حاصل نہیں کی ہے، لیکن شکایت کنندگان نے کمپنی کے چلنے کے دورانیہ میں منافع کے طور پر کما لیا ہوتا ہے وہ کم کر دیا جاتا ہے۔
ہیرا گروپ آف کمپنیز سے تعلق رکھنے والا ہر شخص یہ بات بہتر انداز میں جانتا ہے کہ ای ڈی اور ایس ایف آئی او کمپنی کی جائیدادوں کو غیر قانونی اور ناجائز طور پر نیلام کر رہی ہیں، حالانکہ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک ہیرا گروپ آف کمپنیز کے خلاف ٹرائل کی شروعات بھی نہیں کی گئی ہے، اس طرح سرمایہ کاروں کا وہ طبقہ جو ہیرا گروپ کے پلیٹ فارم پر صبر کئے ہوئے بیٹھے ہیں، ان کیلئے پیسے ملنے کا وقت محدود ہے کہ ان کو کم عرصہ میں ان کی امانتیں میسر ہونا شروع ہو جائیں گی، لیکن ای ڈی (انفارسمنٹ ڈائرکٹوریٹ) جو وزارت خزانہ کے زیر اثر کام کرتا ہے وہ اپنی وزارت کی استفادہ کیلئے کام کرتے ہوئے ہیرا گروپ کی جائیداد کو نیلام کرکے رقم کو ڈپازٹ کر دے گی، اور سرمایہ کاروں پر عدالتی معاملات چھوڑ کر برطرف ہو جائے گی، وہ بھی سرمایہ کار عدالت سے اس وقت رجوع ہو سکیں گے جب ای ڈی تمام جائیدادوں کو نیلام کرکے چارج شیٹ داخل کرکے کمپنی کے خلاف فرد جرم عائد کردے گی، اور اگر ہیرا گروپ آف کمپنیز کیخلاف کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوسکا، جیسا کہ ابھی تک نہیں ہو سکا ہے تو وہ سرمایہ کار جنہوں نے ایجنسیوں کا راستہ اختیار کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے معلق ہو جائیں گے کیونکہ ٹرائل کیس میں کمپنی پر لگائے گئے الزام کو سرمایہ کاروں کو ثابت کرنا ہو گا، وگرنہ ہتک عزت اور کمپنی کو ہونے والے نقصانات کی تلافی کیلئے ہیرا گروپ ان سرمایہ کاروں پر کاﺅنٹر ایف آئی آر کرے گی کہ ہمارے ہوئے نقصانات اور کمپنی کی خراب شبیہ کا ازالہ کرنے کا ہرجانہ پیش کریں، ٹھیک اسی طرح جیسے حیدر آباد کے ممبر پارلیمنٹ اسد اویسی نے ہیرا گروپ کی جانچ پڑتال کیلئے ایف آئی آر کرائی اور شکست فاش سے دو چار ہونے کے بعد نچلی عدالتوں سے بھی شکست کھائی اور فی الوقت سپریم کورٹ تک گھسیٹے گئے، اسد اویسی اپنے ہی دائر مقدمہ میں ابھی تک معلق ہیں، اسد اویسی صاحب کا دائر مقدمہ ان کے ہی گلے کی پھانس بن گیا ہے، جس سے باہر نکلنا اب ان کے بس کی بات نہیں رہ گئی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ممکنہ طور پر ای ڈی نے ہیرا گروپ کی متعدد جائیدادوں کو ضبط کیا اور ان کی نیلامی کا عمل شروع کیا ہے۔ یہ نیلامی ای ڈی کی جانب سے پی ایم ایل اے کے تحت کی جاتی ہے، جس کا مقصد مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر حاصل کردہ اثاثوں کو فروخت کرکے سرمایہ کاروں کے نقصانات کی تلافی کرنا ہے۔ تاہم، اس عمل میں کئی پیچیدگیاں ہیں، ای ڈی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کو وزارت خزانہ کے تحت جمع کر دیتی ہے۔ اس کے بعد سرمایہ کاروں کو اپنے فنڈز کی واپسی کیلئے عدالتوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک طویل عمل ہے جو سرمایہ کاروں کے لیے مایوس کن ثابت ہو سکتا ہے۔ جب تک ای ڈی چارج شیٹ داخل نہیں کرتی اور ہیرا گروپ کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں ہوتی، سرمایہ کاروں کیلئے اپنی امانتوں کی واپسی کے لیے قانونی دعویٰ کرنا مشکل ہے۔ اگر ہیرا گروپ کیخلاف الزامات ثابت نہ ہوئے، تو شکایت کنندہ سرمایہ کاروں کے دعووں کی قانونی حیثیت کمزور ہو سکتی ہے۔اسد اویسی نے ہیرا گروپ کیخلاف ایف آئی آر دائر کی تھی۔ تاہم، یہ مقدمہ ان کے لیے مشکلات کا باعث بن گیا ہے۔ نچلی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک، اویسی کا مقدمہ غیر فیصلہ کن حالت میں ہے، اور ہیرا گروپ کیخلاف الزامات ثابت نہ ہونے کی صورت میں وہ قانونی پیچیدگیوں میں پھنس سکتے ہیں۔ یہ مثال دیگر سرمایہ کاروں کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ ہیرا گروپ کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے سے پہلے مضبوط ثبوتوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہیرا گروپ کے خلاف الزامات ثابت نہ ہوئے، اس صورت میں، کمپنی اپنے پلیٹ فارم پر موجود سرمایہ کاروں کو ان کی امانتیں واپس کرنے کی پوزیشن میں ہو سکتی ہے۔ تاہم، ایجنسیوں سے رجوع کرنے والے سرمایہ کاروں کو اپنے دعووں کو ثابت کرنے کے لیے عدالتوں میں طویل لڑائی لڑنی پڑ سکتی ہے۔ نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم وزارت خزانہ کے پاس جمع ہو جائے گی، اور سرمایہ کاروں کو عدالتوں کے ذریعے اپنے حصے کا دعویٰ کرنا ہو گا۔ یہ عمل وقت طلب اور پیچیدہ ہوگا۔
Related posts
Click to comment