سازش کے علاوہ انہیں کیا میسر ہوا؟ ڈاکٹر نوہیرا شیخ
نئی دہلی، (نیوز رپورٹ : مطیع الرحمن عزیز) – ملک کی معیشت کو سبھالا دینے والی کمپنی ہیرا گروپ آف کمپنیز کی جانچ 2012 میں ممبر پارلیمنٹ اسد اویسی کے ایف آئی آر سے شروع کیا گیا، جو اب تک کسی نا کسی شکل میں جاری ہے، پہلے چار سال کمپنی کے چلنے کے ساتھ ہیرا گروپ آف کمپنیز کی سخت ترین جانچ پڑتال کی گئی، لیکن ہیرا گروپ آف کمپنیز اپنی حقانیت اور سچائی کی بدولت سرخروئی سے دو چار ہوئی، اور اسد اویسی کو اپنے ہی دائر مقدمے میں شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا، لیکن اس کے بعد ایک نئے طریقے کی سازش رچی گئی، اور کمپنی کی سی ای او کو چلتے بزنس سے اٹھایا اور جیل بھیج کر جبرا تالہ ڈال کر اس کے ڈیٹا کو سرکاری عملہ کے ذریعہ کاٹ کر لے جایا گیا، سازش کے دوسرے مرحلہ کے بعد اب تک لگ بھگ پندرہ سال گزر چکے ہیں، ملک کی ہر ایک ایجنسی نے اپنی اپنی کوشش کی اور ہمیشہ کی طرح انہیں کچھ میسر نہیں ہوا۔ لیکن ان سب کے باوجود ابھی تک وہی حال ہے، کہ کمپنی اگر غلط ہوتی تو اس کے خلاف کچھ میسر ہوتا، لیکن جانچ ایجنسیوں کے الجھاﺅں میں ہر کوئی کمپنی کو توڑنے اور برباد کرنے کے فراق میں لگا ہوا ہے، لاکھوں سرمایہ کاروں کو ان کی امانتیں واپس کرنے کی مہلت مہیا نہیں کی جا رہی ہے، ایک جانچ ایجنسی کے ذریعہ تمام پراپرٹیز کو اٹیچ کر کے کمپنی کے ہاتھ پاﺅں باندھے گئے ہیں، سی ای او اور دیگر حامیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے جا رہے ہیں، مگر اصل مدعے پر بات چیت کرنے کے بجائے کمپنی کو نقصان پہنچانے والی ہر کوشش پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے۔ ان حقائق کی نشاندہی ہیرا گروپ آف کمپنیز کی سی ای عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے اپنے جاری ایک بیان میں کیا ہے۔ ڈاکٹرنوہیرا شیخ نے کہا کہ ان سازشوں اور من مانیوں میں ڈپارٹمنٹ مکمل شامل دکھائی دے رہا ہے، ایک جانب سپریم کورٹ آف انڈیا ہدایت دیتا ہے کہ پی ایم ایل اے ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعہ ہیرا گروپ کے معاملے کو شفافیت کے ساتھ یقینی بنایا جائے، دوسری جانب ایجنسیاں پراپرٹیوں کو نیلام کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ایک جانچ ایجنسی سرمایہ کاروں کی تعداد اور پیسوں کی مقدار بڑھانے کیلئے ڈیٹا میں ہیر پھیر کرکے ایک ایک نام کو کئی کئی بار شمار کیا اور پیسوں کی مقدار 640 کروڑ کا دعوی پیش کیا، جب کہ کمپنی نے ایجنسی کی طرف سے دئے گئے ڈیٹا کو شمار کیا تو کل پچاس کروڑ روپئے کے اندر ہی کا معاملہ نکلا۔ اس طرح سے ہر سازش کار کے پیچھے سرکاری مشنری شامل حال ہوئی ہے اور عدالتوں کے احکام کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ہیرا گروپ آف کمپنیز کو برباد کرنے کے پیچھے دن رات لگے ہوئے ہیں۔
سب کچھ 2012 میں بدل گیا جب حیدرآباد سے ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی جو ایم آئی ایم کے صدر ہیں، نے ہیرا گروپ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔ اویسی نے ایک اخبار کے اشتہار کی بنیاد پر الزام لگایا کہ کمپنی ان کی حلقہ انتخاب کے سرمایہ کاروں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ یہ ایف آئی آر حیدرآباد کی سنٹرل کرائم اسٹیشن پولیس نے درج کی، اور اس کے بعد کمپنی پر شدید نظر رکھا جانا شروع ہو گیا۔ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے بیان کے مطابق، اویسی کی یہ شکایت ایک "نئی سازش” کا حصہ تھی، جو ان کی سیاسی مخالفت کی وجہ سے کی گئی۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا دعویٰ ہے کہ اویسی کمپنی پر قبضہ یا سیاسی دباو ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے، جو ناکام رہی۔ پہلے چار سالوں (2012-2016) میں، کمپنی کے چلنے کے ساتھ ساتھ، اس کی سخت ترین جانچ پڑتال کی گئی۔ مختلف ایجنسیاں، بشمول انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) اور سی بی آئی، نے چھاپے مارے اور دستاویزات ضبط کیں۔ مگر کمپنی کی حقانیت اور سچائی کی بدولت” یہ تمام الزامات مسترد ہو گئے، اور اویسی کو اپنے مقدمے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سازشوں کا دوسرا بڑا مرحلہ 2018 میں پیش آیا جب نوہیرا شیخ کو 15 اکتوبر کو جبرا گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے ساتھ کمپنی کے تمام دفاتر بند کر دیے گئے، اور سرکاری عملہ نے ڈیٹا اور دستاویزات ضبط کر لیں۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے وکلاءنے عدالت میں کہا کہ یہ "جھوٹی پروپیگنڈہ” ہے، اور 2012 کی ایف آئی آر کی طرح یہ بھی سیاسی انتقام ہے۔ ایجنسیوں 2018 میں کمپنی کے دفاتر اور شیخ کی پراپرٹیز پر چھاپے مارے، جہاں مالیاتی دستاویزات اور پراپرٹی پیپرز ضبط کر لئے گئے۔ یہ سب "سازش” کا حصہ تھا، جس میں سرکاری مشینری شامل تھی۔ انہوں نے کہا کہ "کمپنی اگر غلط ہوتی تو کچھ نہ کچھ ثابت ہو جاتا، مگر 15 سال گزرنے کے باوجود کچھ نہیں ملا”۔ آج 2025 تک، ہیرا گروپ کا کیس مختلف مراحل سے گزر چکا ہے۔ ملک کی ہر ایجنسی نے اپنی کوششیں کیں، مگر "ہمیشہ کی طرح کچھ میسر نہیں ہوا”۔ ای ڈی نے تمام پراپرٹیز کو منجمد کر دیا، جس سے کمپنی کے "ہاتھ پاوں باندھ” دیے گئے۔ غیر قانونی طریقے سے 30 معاملے درج ہوئے، مگر تین سال گزرنے کے باوجود چارج شیٹس فائل نہیں ہوئیں، جو کمپنی کی برائت کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک ایجنسی نے سرمایہ کاروں کی تعداد اور رقم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا – 640 کروڑ روپے کا دعویٰ کیا، جبکہ کمپنی کے حساب سے یہ صرف 50 کروڑ روپے تھا۔ ایک نام کو کئی بار گنا جاتا رہا۔