ڈاکٹر محمد وسیم کی قلم سے یہ تحریر
اوکھلا، نئی دہلی، اِنڈیا
اوکھلا، نئی دہلی، اِنڈیا
اِن کی اپنی کوئی پارٹی نہیں ہے، یہ سماج وادی پارٹی کے مؤسّسین میں سے ہیں، دس بار ایم ایل اے، ایک بار راجّیہ سبھا کے ایم پی، چار بار وزیر اور لوک سبھا کے ایم پی رہ چکے ہیں، اِنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، یوپی کے شہر رامپور میں محمد علی جوہر یونیورسٹی کے نام سے اِنھوں نے یونیورسٹی بنائی بائیں طرف اسدالدّین اویسی صاحب ہیں، اِن کی اپنی پارٹی ہے، نام ہے آل انڈیا مجلسِ اتّحاد المسلمین، یہ مسلمانوں کی سیاست اور ترقی کی بات کرتی ہے، اِسی پارٹی سے وہ ایم پی بن رہے ہیں، ماضی میں اِن کی پارٹی نے کانگریس سے اتّحاد کیا تھا، حیدرآباد/تلنگانہ میں اِن کی پارٹی ایک بڑی پارٹی ہے، لیکن پھر بھی اِس پارٹی سے نہ تو کوئی کبھی ڈپٹی سی ایم، نہ ہی وزیر اور نہ ہی وِدھان سبھا کا اِسپیکر بنا، اسدالدّین اویسی صاحب کی تعلیم برطانیہ میں ہوئی ہے یہ دونوں بڑے نیتا ہیں، دونوں وکیل ہیں، اپنی اپنی باتیں بڑی مضبوطی سے رکھتے ہیں، دونوں ہی بہت پڑھے لکھے ہیں، ہندوستان کی میڈیا جو مسلم چہرے کو برداشت کرنا گوارا نہیں کرتی ہے، مگر یہی میڈیا اسدالدّین اویسی صاحب کو خوب جگہ دیتی ہے اعظم خان صاحب کی بات ہی الگ ہے، جیل سے باہر آنے کے بعد اُن کی باتوں سے پڑھا لکھا طبقہ بے حد متاثّر ہُوا ہے، اعظم خان صاحب نے اپنی تقریر سے لوگوں کے دِلوں میں جگہ بنا لی ہے، اعظم خان صاحب نے کہا ہے کہ "مَیں نے اپنی قوم کے نوجوانوں کو قلم دیا ہے”، اعظم خان کے قد کو اویسی صاحب کبھی نہیں پہنچ سکتے ہیں، یا اُن کے قد تک پہنچنے میں کئی سال لگ جائیں گے ایک سَو سے زائد مقدّمات اور کئی سال جیل میں زندگی گزارنے کے باوجود بھی اعظم خان صاحب ڈرے اور گھبراۓ نہیں، بلکہ وہ مزید بے خوف، باہمّت اور بیباک ہو گئے، اعظم خان صاحب ماضی میں کیا تھے اور کیسے تھے، یہ آج کے نوجوانوں کو معلوم نہیں، لیکن آج وہ اپنی گُفتار اور اپنے کردار سے وہ ایک مقبول اور مثالی شخص بن چکے ہیں، سیاست کی تاریخ میں ایسا مرتبہ اور مقبولیت بہت ہی کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے اعظم خان صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کو ہر بیماری سے شِفاء عطاء فرمائے، آپ کو صحت و تندرستی کی زندگی عطاء فرمائے، آپ کو ہمیشہ خوش اور سلامت رکھے_آمین