Articles مضامین

دنیا کے عظیم ترین جھوٹے: اویسی برادران

تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز

دنیا جب سے قائم ہوئی ہے، لوگوں نے اپنے مفادات کے لیے جھوٹ بول کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک دی ہے۔ کئی بار لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے، اور کبھی غیروں کو دھوکہ دینے کیلئے یہ ہتھکنڈہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جھوٹ پکڑنے کا ہنر تو شاید کسی کے پاس نہ ہو، لیکن جھوٹ بولنے والا اپنی ہنرمندی سے عوام کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ کئی بار جھوٹ بولنے والا اپنے جھوٹ میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ کھلے عام پکڑا جاتا ہے، حالانکہ ہر مذہب، خاص طور پر اسلام، جھوٹ کو بہت بری چیز قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "ان میں دل کی بیماری ہے، سو اللہ نے ان کی بیماری بڑھا دی، اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کیلئے دردناک عذاب ہے” (سورة البقرہ: 10)۔ یہ آیت منافقین کی نشاندہی کرتی ہے جن کے جھوٹ نے ان کے دلوں میں بیماری ڈال دی، اور اللہ نے اسے مزید بڑھا دیا۔ احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کو منافقت کی نشانی بتایا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو توڑے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے” (صحیح بخاری و مسلم)۔ مزید برآں، ایک حدیث میں ہے: "جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے، وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے” (صحیح بخاری)۔ یہاں تک کہ دنیاوی کامیابی مل جائے، اللہ کے ہاں حساب عنقریب ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: "پس انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس میں خیانت کی اور جھوٹ بولا، سو ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی گئی” (سورة التوبہ: 77)۔
میرے موضوع کا مرکزی کردار اویسی برادران — اسدالدین اویسی اور اکبرالدین اویسی — ہیں، جو اپنے کھلے جھوٹوں کی وجہ سے دنیا کے عظیم ترین جھوٹوں کا مرتبہ حاصل کرنے کے لائق ہیں۔ ان کے بیانات نہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی روشنی میں جھوٹ ثابت ہوتے ہیں، بلکہ قرآنی و حدیث کے احکامات کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ آئیے ان کے چند مشہور جھوٹوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پہلا عظیم جھوٹ : اسدالدین اویسی کا "15 بوٹل خون” کا دعوی: دنیا کا پہلا عظیم جھوٹا اسدالدین اویسی کو مانا جا سکتا ہے، جنہوں نے ہزاروں جھوٹوں پر پردہ پوشی کے بعد ایک انتخابی جلسے میں ایسا جھوٹ بولا جس کا پوسٹ مارٹم درجنوں افراد اور فیکٹ چیک ویب سائٹس نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا: "یاد کیجیے وہ وقت جب حیدرآباد کے عثمانیہ ہاسپٹل میں کثیر تعداد میں خون کی ضرورت تھی۔ اتفاق سے میں وہاں موجود تھا، ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا کوئی O پازیٹیو کا خون دینے والا ہے؟ میں نے کہا ہاں، میرا ہے۔ اس دن اللہ گواہ ہے کہ میں نے ایک بوٹل نہیں بلکہ 15 بوٹل خون دیا۔ ” اور یہاں بس نہ رکا، بلکہ مزید جھوٹ بولا: اسد اویسی نے کہا کہ”میں وہ خون اپنے جسم سے نکلواتا اور خود ہی لے کر دوڑتا ہوا متاثرین تک پہنچاتا تھا۔ "یہ جھوٹ کس قدر بے وقوفانہ ہے، سائنس اس کی وضاحت کرتی ہے۔ ایک بالغ انسان (تقریباً 70 کلو وزن کا) کے جسم میں کل خون کی مقدار تقریباً 5 لیٹر (5000 ملی لیٹر) ہوتی ہے، جو وزن کے حساب سے 70 ملی لیٹر فی کلو ہے۔ اس میں سے plasma (پانی جیسا سیال) تقریباً 60% (3 لیٹر) اور سرخ خلیات (RBCs) وغیرہ 40% (2 لیٹر) ہوتے ہیں۔ ایک خون کی "بوٹل” یا یونٹ 350-450 ملی لیٹر کا ہوتا ہے، اور محفوظ طور پر ایک شخص ایک دن میں صرف ایک یونٹ (تقریباً 10% خون) ہی دے سکتا ہے، کیونکہ اس سے زیادہ خون کی کمی (hypovolemia) ہو جائے گی، جو جان لے سکتی ہے۔ 15 بوٹل کا مطلب 5250-6750 ملی لیٹر ہو گا، جو انسان کے کل خون سے 105-135% زیادہ ہے—یعنی ناممکن! ٹرانسفیوژن ٹیکنالوجی بھی ایک وقت میں اتنی مقدار نہیں نکال سکتی، اور ڈاکٹر ایسا کبھی نہیں کرتے کیونکہ جسم میں پانی اور سیال کی کمی سے فوری موت واقع ہو سکتی ہے۔ سائنسی طور پر، انسانی جسم کا کل سیال (خون + انٹراسٹی شیئل فلویڈ + لمف) 40-45 لیٹر ہوتا ہے، لیکن خون کی 15 بوٹل نکالنا خودکشی ہے۔ اسدالدین کا "خود دوڑ کر خون پہنچانا” تو مزید مضحکہ خیز ہے—ایک یونٹ دینے کے بعد بھی شخص کمزور ہو جاتا ہے، 15 کے بعد تو کھڑا ہونا بھی ناممکن۔ قرآن اس جھوٹ کو منافقت قرار دیتا ہے: "وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں پر کفر کرتے ہیں، وہی جھوٹے ہیں” (سورة النحل: 105)۔ اللہ گواہ لینا اور پھر جھوٹ بولنا تو اللہ پر جھوٹ ہے، جو بہت بڑا گناہ ہے۔
اکبرالدین اویسی کا "70 چھرا گھونپے اور 25-30 کلہاڑی کے وار”بڑے بھائی سے آگے چھوٹے بھائی اکبرالدین اویسی ہیں، جو 2011 کے حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مجھے 70 بار چھرا گھونپا گیا، 25-30 بار کلہاڑی سے ہاتھ پر مارا گیا، اور پیٹ میں چھرا ڈال کر گول گول گھمایا گیا۔” پہلی بات تو یہ کہ حملے کی میڈیکل رپورٹس اور عدالتی دستاویزات میں صرف کئی چھرا کے زخم اور 3 گولیاں کا ذکر ہے، نہ کہ 70 چھرا یا 30 کلہاڑی۔ اکبرالدین زندہ تو رہے، لیکن سائنس کہتی ہے کہ 70 چھرا گھونپنے سے خون بہاو¿ اتنا ہوگا کہ فوری موت آ جائے گی— ایک چھرا کا گہرا زخم بھی 500 ملی لیٹر خون بہا سکتا ہے، 70 تو ہزاروں ملی لیٹر! 25-30 کلہاڑی کے وار ہاتھ پر ہڈیوں کا قیمہ بنا دیں گے، جیسا کہ فورنزک میڈیسن میں بیان ہے کہ 5-6 وار بھی ہاتھ فینکشنل نہیں رہتا۔ پیٹ میں چھرا گھمانا تو آنتوں اور اعضاءکو تباہ کر دے گا، اور بچنا ناممکن۔ ٹیکنالوجی جیسے CT سکین اور سرجیکل رپورٹس (جو دستیاب ہیں) ایسے زخموں کی تصدیق نہیں کرتیں۔ حدیث شریف میں جھوٹ کی مذمت ہے: "جھوٹ بولنا منافقت کی طرف لے جاتا ہے، اور منافقت جہنم کی طرف” (ترمذی)۔ یہ جھوٹ ہمدردی کیلئے بولا گیا، جو قرآن میں ناپسند ہے: "وہ جھوٹ بولتے ہیں اور اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں، حالانکہ اللہ ان کے دھوکے سے بخوبی آگاہ ہے” (سورہ النساء: 142)۔ تیسرا جھوٹ اکبرالدین کا ہے، جو مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "حملے کے دوران جب مجھے گاڑی میں ڈالا گیا، تو ایک سفید پوش بزرگ آئے اور مجھے لے جانے کو کہا۔ میرے والد سلطان صلاح الدین اویسی نے ان کے پاو¿ں پکڑ لیے اور روتے ہوئے کہا ‘میرے بیٹے کو بخش دیجیے’۔ میں نے سر اٹھایا تو دیکھااور پوچھا کہ آپ کون ہیں تو انہوں نے کہاکہ—وہ محمد رسول اللہ ﷺ تھے۔” یہ جھوٹ نہ صرف تاریخی طور پر غلط ہے (حملے میں ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں)، بلکہ عقائد کے خلاف ہے۔ قرآن میں فرمایا: "اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں، وہ کامیاب نہ ہوں گے” (سورة النحل: 116)۔
حضور ﷺ کی ذات کو موت کے فرشتے کی طرح استعمال کرنا تو گستاخی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: "رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے والا جہنم میں جائے گا”۔ یہ جھوٹ مقلدین کی ہمدردی کیلئے ہے، مگر پڑھے لکھے لوگ اس سے نفرت کریں گے۔ اویسی برادران کے ایسے ہزاروں جھوٹ ہیں، جو قرآن و حدیث میں مردود ہیں۔ سائنس (جیسے بلڈ والیوم کی فزیالوجی) اور ٹیکنالوجی (میڈیکل رپورٹنگ) انہیں جھوٹ ثابت کرتی ہیں۔ اگر خلوص نیت سے سیاست کی ہوتی تو جھوٹ کی ضرورت نہ پڑتی۔ ثبوت یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں— سرچ کریں اور دیکھیں۔اندھے مقلدین قابل رحم ہیں، انہیں مزید گہری کھائی میں نہ دھکیلاجائیے۔ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہیں، براہ مہربانی عوام کو جذباتی نعروں اور جھوٹ سے نہ بہکایاجائیے۔ اللہ ہمیں جھوٹ سے بچائے اور سچائی کی پیروی کی توفیق دے۔ آمین۔

Related posts

اجتماعیت انسان کی فطرت ہے

Paigam Madre Watan

شخصیت پرستی کا بڑھتارجحان نئی نسل کے لیے خطر ناک ہے

Paigam Madre Watan

ادب اورشوبز

Paigam Madre Watan

Leave a Comment