عبدالغفارصدیقی
اللہ نے انسان کو اشرف المخلوق بنایا ۔اس کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا کیں ،خود انسان کو سینکڑوں طرح کی صلاحیتیں عطا فرمائیں ۔علاوہ ازیں امت مسلمہ کو تمام انسانیت پر فضیلت بخشی اور اسے خیر امت قرار دیا ۔اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے کام لے کر انسانوں نے محیر العقول کارنامے انجام دیے ۔ان میں وہ لوگ قابل قدر ہیں جنھوں نے عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بے مثال کارنامے انجام دیے ۔خواہ ان کا تعلق کسی بھی دین اور مسلک سے ہو ۔البتہ اگر وہ مسلمان ہیں تو اللہ کے یہاں بھی ان کا اجر محفوظ ہے ۔انسانیت کے لیے خیر اوربھلائی کے کام کرنا مسلمانوں کا فرض منصبی ہے ۔ان کے برپا کیے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ معروفات قائم کریں اور منکرات کا ازالہ کریں ۔اس میدان میں اگر وہ کوئی قابل ذکر خدمات انجام دیتے ہیں تو اس کے لیے دنیا سے انھیں کسی تمغے اور ایوارڈ کی تمنا نہیں کرنا چاہئے ۔
مسلمانوں میں جو خرابیاں اور کمزوریاں پیدا ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کام کم کرتے ہیں اور کریڈٹ زیادہ لیتے ہیں ۔بعض لوگ تو بغیر کام کے ہی ایوارڈ کی خواہش کرتے ہیں ۔اس سلسلہ میں دین داروں کا حال بھی الگ نہیں ہے ۔علماء کے نام کے ساتھ جس قسم کے لاحقے ہم دیکھتے ہیں اتنے لاحقے تو نبی اکرم ؐ کے ساتھ بھی استعمال نہیں کرتے ۔کوئی غوث زمانہ ہے ،کوئی خطیب دوراں ہے ،کوئی ماحئی بدعت ہے ،کوئی حامئی سنت ہے ،کوئی شمشیر براں وغیرہ ہے ۔ان کی قصیدہ خوانی میں زمین و آسمان ایک کردیا جاتا ہے ،ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری خدائی کے اختیارات انھیں کے سپرد کردیے ہیں اور خود کسی گوشہ میں بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے ۔
شخصیات کی بے جا تعریف اور تحسین کا یہ عمل ایک طرف ریا کاری اور چاپلوسی ہے اور دوسری طرف ’’ شخصیت پرستی ‘‘ کہلاتا ہے ۔شخصیت پرستی شرک کی ایک قسم ہے ۔کسی کے انتقال کے بعد اس کی قبر پر پھول چڑھانے ،عرس لگانے ،فاتحہ و قوالی کی محفل سجانے کو لوگ برا سمجھتے ہیں اور اسے شرک تسلیم کرتے ہیں مگر اپنے کسی امیریا حضرت کے انتقال پر سمینار منعقد کرنے کو باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں ۔صرف تعزیت کی حد تک ہی یہ محفل نہیں ہوتی بلکہ مرحوم کے محاسن و مناقب بیان کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیے جاتے ہیں ۔پھر ان مقالات پر مبنی کتابیں شائع ہوتی ہیں اور انھیں خریدنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔اس عمل سے مرحوم کے اہل خانہ یہ سمجھتے ہیں کہ مرحوم ’’بڑے پہنچے ہوئے تھے‘‘ اور ان کے کارنامے ہماری نجات کا سامان ہیں ۔حالانکہ ان مرحومین میں سے کتنے ہی ایسے ہوتے ہیں جنھوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہوتا کہ اللہ کی مخلوق مستفید ہوسکے ۔لیکن چونکہ وہ جماعت اور حلقہ اثر میں نمایاں تھے اس لیے ان پر کانفرنس کرنا ،مقالے لکھوانا اور سمینار منعقد کرنا ضروری سمجھاجاتا ہے ۔
شخصیت پرستی کا مرض اس قدر بڑھ گیا ہے کہ علماء سے جڑنے کی مہم چلائی جارہی ہے ۔آج کل دینی جلسوں میں یہ بات بڑے زورو شور سے کہی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے علماء سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے ۔حالانکہ مسلمانوں کے زوال کااصلی سبب یہ ہے ان کا تعلق اللہ ،اس کی کتاب اور اس کے رسول سے کمزور ہوگیا ہے ۔
شخصیات کے کارناموں کا تذکرہ کرنا اگرچہ بذات خود کوئی معیوب عمل نہیں ہے لیکن اس سے بہت سی خرابیاں امت میں در آئی ہیں اور مزیدکا اندیشہ ہے ۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ شخصیات ہمارے درمیان ’’ نمونہ اور اسوہ ‘‘ قرار دے دی جاتی ہیں ۔جب کہ اسلام میں صرف رسول کی ذات ہی اسوہ ہے ۔کسی دوسری شخصیت کو یہ مقام نہیں دیا جاسکتا ۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ مرحوم شخصیات کے معتقدین ان سے بہت سی کرامات وابستہ کرتے ہیں جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی ؒ ،حضرت نظام الدین دہلویؒاور حضرت صابر کلیری ؒ اور ن بعد کے لوگوں کے متعلق ہم سنتے اور کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ آج ان بزرگوں کو ان کے عقیدت مندوں نے کیا بنادیا ہے اور ان کی قبروں پر کیا کیا نہیں ہورہا ہے ؟کیا بعید ہے کہ آج جن کے نام پر صرف مقالے پڑھے جارہے ہیںکل ان کے مزار نہیں بنیں گے اور ان پر پھول نہیں چڑھائے جائیں گے ۔تیسرا نقصان یہ ہے کہ ان کے کارناموں پر مشتمل لٹریچر کی اشاعت کے بعد قرآن و حدیث اور سیرت رسول و صحابہ پر مشتمل لٹریچر پس پشت ڈال دیاجاتا ہے۔اردو زبان میں جتنی کتابیں صحابہ کرام کے کارناموں پر شائع نہیںہوئیں اس سے زیادہ خود برصغیر میں پیدا ہونے والی شخصیات پر شائع ہوچکی ہیں ۔چوتھا نقصان یہ ہے اس سے ’’پدرم سلطان بود ‘‘کی بیماری لاحق ہوتی ہے ۔انسان اپنے اجداد کے کارناموں پر فخر کرنے کو ہی کام سمجھنے لگتا ہے اور خود نکما ہوجاتا ہے ۔پانچواں نقصان یہ ہے کہ ان شخصیات کو ہی نجات دہندہ مان لیا جاتا ہے اور اللہ کے ساتھ تعلق میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔چھٹا نقصان یہ ہے کہ شخصیتوں کے نام پر مسلک بن جاتے ہیں اور فرقہ بندی میں اضافہ ہوتاہے۔
یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شخصیات کے کارناموں کا تذکرہ کیا ہے ۔پیغمبروں کے علاوہ غیر پیغمبر حضرت لقمان اور حضرت مریم کا نام لے کر ان کی تحسین فرمائی ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی بھی نام سے کوئی فرقہ ،مسلک یا جماعت نہیں بنائی ۔کسی نبی کی امت کو اس کے نبی کی جانب منسوب کرکے نیا دین نہیں قائم کیا ۔کوئی براہیمی ،کوئی اسحاقی یا کوئی سلیمانی اور دائودی نہیں ہوا ۔اس کے بجائے فرمایا کہ :’’ ہم نے تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی تمہارا نام مسلم ہے ۔‘‘(الحج۔78) اگر کہیں کسی کو کسی نام سے مخاطب کیا ہے تو پوری قوم کو مخاطب کیا ہے جیسے ’’ اے بنی اسرائیل‘‘۔اللہ نے قرآن میں اجداد کی اتباع کو دلیل بنانے کی روش کوبھی غلط قرار دیا اور فرمایا کہ ’’ ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟ ‘‘ ۔(البقرہ۔170)
شخصیتوں کی جانب منسوب کرکے الگ مسلک بنا لیے گئے ۔حضرت امام ابو حنیفہ کے ماننے والے ’’ حنفی ‘‘ اور امام شافعی کے پیروکار ’’ شافعی ‘‘ ہوگئے ،ان کے علاوہ مالکی ،حنبلی ،چشتی ،قادری ،صابری،نقش بندی،اسماعیلی،دائودی اور نہ معلوم کتنے گروہ اور فرقے ایسے ہیں جو اپنے بانیوں کے نام سے مشہور ہیں۔آج امت میں درجنوں مسلک ہیں جو کسی نہ کسی شخصیت کی طرف منسوب ہیں ۔ان شخصیات کی پیروی کو بھی لازم کردیا گیا ۔ان کی اطاعت کو مسلمان ہونے کے لیے شرط قرار دے دیا گیا ۔عرف عام میں مشہور ہے کہ’’ چاروں امام برحق ہیں ،لیکن انسان کو کسی ایک امام کی تقلید کرنا چاہئے ۔‘‘یہ جملہ اس طرح مشہور ہوا کہ ایمانیات کاجز بن گیا حالانکہ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نہیں اتاری ۔جس نے شخصیت پرستی سے انکار کیا اسے ’’ بزرگان دین کا گستاخ ‘‘قرار دے دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر شخصیات کے کارناموں کو شائع نہ کیا جائے تو تاریخ کس طرح محفوظ رہے گی ۔میں مطلقاً اس عمل کو غلط نہیں سمجھتا بلکہ اس میں غلو کو غیر مناسب سمجھتا ہوں ۔ شخصیات کے کارناموں سے نئی نسل کو واقف کرانا چاہئے مگر انھیں شخصیات کا گرویدہ نہیں بنانا چاہئے ۔ان دونوں میں جو فرق ہے اسے ملحوظ رکھنا چاہئے ۔شخصیت ایک الگ اکائی ہے اور اس کے ذریعہ انجام پانے والاکوئی غیرمعمولی کام ایک الگ اکائی ہے ۔ ہمارے یہاں کام سے زیادہ شخصیت زیر بحث رہتی ہے ۔جب کام زیر بحث آئے گا تو اس کے دونوں پہلو(حسن و قبح) سامنے رکھے جائیں گے ۔اس کامقصد بھی واضح ہونا چاہئے کہ ہماری نئی نسل ان کارناموں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھے اور نت نئی راہیں تلاش کرے ۔ادھورے کاموں کو مکمل کرے نہ کہ ان کارناموں پر فخر کرکے مطمئن ہوجائے ۔
اسلام میں پرستش کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے ۔یہاں تک پیغمبروں کو بھی سجدہ نہیں کیاجاسکتا ۔ان کی بھی پوجا اور پرستش نہیں کی جاسکتی ۔تعبدی اعمال میں کسی کو یہ مقام حاصل نہیں جو اللہ تعالیٰ کو ہے ۔پیغمبروں کا مقام یہ ہے کہ انھوں نے جس طرح اللہ کی پرستش کی ،جس طرح عبادت و اطاعت کی ان کی امت کو بھی بالکل ٹھیک اسی طرح کرنا ہے ۔جب پیغمبروں یہاں تک کہ خاتم النبئین ؐ کی عبادت اور پرستش نہیں کی جاسکتی ،انھیں سجدہ اور رکوع نہیں کیا جاسکتا ،ان کے لیے نماز نہیں پڑھی جاسکتی اور ان کے نام پر قربانی کا جانور ذبح نہیں کیا جاسکتا تو باقی کی حیثیت کیا ہے ۔عبادت اور پرستش تو دور کی بات ہے اللہ کی محبت پر کسی دوسرے کی محبت غالب نہیں آنی چاہئے ورنہ اسلام سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ارشاد باری ہے:’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور اُن کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔‘‘(البقرہ۔ 165)
گزشتہ چارسو سال سے مسلمانوں نے علمی ،تحقیقی اور سائنسی دنیا میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے اگر دیا ہوتا تو امت مسلمہ پر زوال ہی کیوں آتا ۔اسی طرح دینی میدان میں بھی سوائے کتابیں لکھنے اور تقریریں کرنے کے علاوہ ہم نے کونسا نمایاں کام کیا ہے ؟اگر کیا ہوتا تومسلمانوں کی گمراہی میں اضافہ نہ ہوتا ،نہ سماجی اصلاح کے لیے ہمارے اندر کسی مصلح نے جنم لیا ،اگر لیا ہوتا تو ہماری نئی نسل شراب و شباب کی برائیوں میں ملوث نہ ہوتی ۔ہم نے تو اجتہاد کا دروازہ ہی بند کردیا ۔ہم تو فخر سے فرمانے لگے کہ ’’ ہم مقلدوں کے مقلد ہیں ‘‘ پھر کوئی قابل ذکر کارنامہ کہاں سے ظاہر ہوگا ۔گزشتہ چارسو سال میں برصغیر کی جن شخصیات پر کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سے چار نے بھی کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جو ان سے پہلے انجام نہ دیا جاسکا ہو ۔قابل تعریف کام وہ ہے جس کو دنیا تسلیم کرے ۔صرف اپنے متعلقین و احباب سے تعریفی مقالات لکھوا کر کوئی شخص عظیم نہیں ہوسکتا۔قوموں کو عروج صرف اچھی شاعری کرنے ،ناول لکھ دینے ،گیت کے نئے سر نکالنے ،فن خطابت کے جوہر دکھانے اور قلم کی جولانیوں کو کاغذ پر اتارنے سے نہیں ملتا ،بلکہ میدان کارزار میں ہم عصر قوموں سے آگے رہنے سے ملتا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اس معاملہ میںہم ان سے بہت پیچھے ہیں ۔