Articles مضامین

اویسی !ہندو راشٹر بنانے میں سب سے بڑا مددگار؟

تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز

بھارتی سیاست کے پیچیدہ اور متنازعہ منظر نامے میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ قمر کرانتی کی حالیہ فیس بک پوسٹ میں ایک ایسا دعویٰ کیا گیا ہے جو بظاہر متنازع لگتا ہے، مگر گہرائی سے دیکھیں تو بہت سے سیاسی مبصرین کی رائے سے ہم آہنگ ہے۔ ویڈیو کا کیپشن یوں ہے: "بھارتی سیاست کا اصل کلائمیکس سمجھیں آج۔ اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں سب سے بڑا مددگار اوویسی صاحب ہی ہوں گے؟ ” یہ الفاظ ایک ایسے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو بھارتی مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے رہنما اسد الدین اویسی کی کارکردگی، اور بی جے پی کی ہندوتوا ایجنڈے کے درمیان ایک دلچسپ ربط قائم کرتے ہیں۔ اس مضمون میںقمر کرانتی کے بیان کردہ مواد کو تفصیل سے کھنگالیں گے، سیاسی پس منظر، تاریخی مثالیں، اور موجودہ حالات کی روشنی میں اس دعوے کی صداقت کا جائزہ لیں گے۔ چونکہ قمر کرانتی کے بیانات ایک طویل بحث پر مشتمل ہیں ، اس لیے ہم اسے ایک منظم مضمون کی شکل دیں گے جو نہ صرف قمر کرانتی کے بیانات کی روح کو محفوظ رکھے بلکہ قارئین کو مزید سوچنے پر مجبور کرے۔
بھارت، جو آئین کے مطابق ایک سیکولر جمہوریہ ہے، حالیہ دہائیوں میں ہندوتوا کی لہر کا شکار رہا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے "ہندو راشٹر” کے تصور کو فروغ دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کو ہندو اکثریت کی بنیاد پر ایک مذہبی شناخت دی جائے۔ 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی بھاری جیت، بابری مسجد-رام مندر تنازعہ کا حل، شائمیتھ پریشاد، اور شائمیتھ انڈیا موومنٹ جیسے اقدامات اس ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں۔ مگر یہ ایجنڈا صرف ہندو ووٹوں کی یکجہتی پر منحصر نہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، مخالفین کی غلطیاں اور پولرائزیشن (مذہبی تقسیم) اسے مزید تقویت دیتی ہیں۔ یہاں اسد الدین اویسی کا کردار متنازعہ بن جاتا ہے۔ اویسی، جو حیدرآباد سے اسمبلی ممبر ہیں اور AIMIM کے صدر، مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے اکثر ایسی باتیں کہتے ہیں جو ہندو اکثریت کو ناراض کر دیتی ہیں، جس سے ووٹ بینک کی پولرائزیشن ہوتی ہے۔ قمر کرانتی کا بیان اسی نکتے پر زور دیتا ہے کہ اوویسی کی "مدد” بے مقصد نہیں، بلکہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جو بالآخر ہندوتوا کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
بیان کے ابتدائی بحث میں قمر کر انتی بتاتے ہیں کہ اویسی کی تقریریں اور بیانات ایک مخصوص پیٹرن پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر، 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران اویسی نے کہا تھا کہ "اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی ہندو دھرم سے کبھی بڑھ کر نہیں ہو گی”، جو ایک طرف مسلمانوں کو تسلی دینے کی کوشش تھی مگر دوسری طرف ہندو قوم پرستوں کو یہ تاثر دیا کہ مسلمان "خطرہ” نہیں ہیں، بلکہ ان کی سیاسی جدوجہد ہی انہیں کمزور کر رہی ہے۔
اویسی کی یہ حکمت عملی 2000 کی دہائی سے جاری ہے۔ جب 2009 میں انہوں نے حیدرآباد کی نشست جیتنے کے لیے "مسلمان ووٹوں کی یکجہتی” کا نعرہ دیا، تو یہ کامیاب رہا۔ مگر قومی سطح پر، AIMIM کی توسیع (مثلاً مہاراشٹرا اور بہار میں) نے کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے ووٹوں کو تقسیم کیا، جس سے بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ ویڈیو میں قمر کرانتی پوچھتے ہیں: "کیا اویسی جان بوجھ کر مسلمان ووٹوں کو تقسیم کر رہے ہیں، یا یہ ایک غلطی ہے جو ہندو راشٹر کی راہ ہموار کر رہی ہے؟ "تاریخی مثالوں سے سمجھیں تو، 1992 کے بابری مسجد انہدام کے بعد، مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد نے پولرائزیشن کو جنم دیا، جس کا فائدہ بی جے پی نے اٹھایا۔ اسی طرح، 2020 کی دہلی فسادات کے دوران اویسی کی تنقید نے ہندو ووٹوں کو مزید یکجا کیا۔ قمر کر انتی بیان میں اعداد و شمار پیش کرتے ہیں (جو ممکنہ طور پر انتخابات کے تجزیوں پر مبنی ہیں): بہار 2020 میں AIMIM کی شمولیت سے NDA (بی جے پی اتحاد) کو 5-7 فیصد اضافی ووٹ ملے، جو ہندو راشٹر ایجنڈے کی حمایت میں تبدیل ہوئے۔
قمر کر انتی کے بیان کا اصل جوہر اس کے آخری پانچ منٹوں میں ہے، جہاں قمر کر انتی ایک "انتباہی پیغام” دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان کمیونٹی اویسی جیسی قیادت پر انحصار کرتی رہی، تو یہ ہندو راشٹر کی تعمیر میں "سب سے بڑا مددگار” ثابت ہو گی۔ وجہ؟ کیونکہ اویسی کی جارحانہ تقریریں (جیسے "ہم مسلمان ہیں، ہمارا حق ہے” یا "بی جے پی کی سازشوں کا مقابلہ”) ہندو اکثریت کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ مسلمان "علیحدہ” ہیں، جو آر ایس ایس کے بیانیے کو تقویت دیتی ہے۔قمر کر انتی مزید کہتے ہیں کہ حقیقی حل مسلمانوں کی وسیع تر اتحاد میں ہے – کانگریس، ایس پی، یا دیگر سیکولر فورسز کے ساتھ۔ مثال کے طور پر، 2024 انتخابات میں اگر مسلمان ووٹ متحد ہوتے تو اتر پردیش میں بی جے پی کی 62 نشستیں کم ہو سکتی تھیں۔ قمر کر انتی کا بیان ایک سوال چھوڑتا ہے: "کیا اوویسی صاحب کی ‘جملہ بازی’ (سلوگن بازی) مودی جی کو پیچھے چھوڑ چکی ہے، یا یہ ہندوتوا کی راہ ہموار کر رہی ہے؟” اس دعوے کے اثرات گہرے ہیں۔ ایک طرف، یہ AIMIM کی حکمت عملی پر سوال اٹھاتا ہے، جو صرف حیدرآباد تک محدود رہنے دیتی ہے۔ دوسری طرف، یہ بتاتا ہے کہ ہندو راشٹر کا خواب صرف بی جے پی کا نہیں، بلکہ مخالفین کی غلطیوں سے بھی پورا ہوتا ہے۔ حالیہ مثال چھتیس گڑھ کی "دھرم سنسد” ہے، جہاں ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف بیانات دیے، اور اوویسی کی ردعمل نے اسے مزید ہوا دی۔ مستقبل میں، اگر مسلمان کمیونٹی اس "کلائمیکس” کو سمجھ لے، تو سیاسی منظر نامہ بدل سکتا ہے۔ قمر کر انتی کا بیان ایک کال ٹو ایکشن ہے: "آنکڑے کا استعمال کریں، غلط فہمیاں دور کریں۔” یعنی اعداد و شمار اور منطق سے فیصلے کریں، جذبات سے نہیں۔قمر کر انتی یہ بیان بھارتی سیاست کا ایک ایسا آئینہ ہے جو بریک لگاتا ہے۔ اویسی صاحب، جو مسلمانوں کے لیے لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کی کارکردگی ہندو راشٹر کی تعمیر میں کیسے مددگار بن رہی ہے – یہ سوال آج کے دور کا سب سے بڑا کلائمیکس ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ قمر کر انتی کے بیان کو ضرور سنیں، کیونکہ وہیں اصل سچائی چھپی ہے۔ کیا یہ ایک سازش ہے، یا سیاسی نااہلی؟ فیصلہ آپ کا۔یہ مضمون قمر کر انتی کے بیان کی روح کو تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش ہے، مگر اصل مواد دیکھنے کے لیے براہ راست فیس بک پر جائیں۔ سیاسی بحثوں میں، ہمیشہ حقائق کی بنیاد پر سوچیں – کیونکہ جمہوریت کی بنیاد وہی ہے۔

Related posts

تابناک کل کے لیے : بھارت کی جی 20 صدارت اور ایک نئے کثیر پہلوئی نظام کا طلوع

Paigam Madre Watan

ہیرا گروپ اور عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا اصل مجرم کون؟

Paigam Madre Watan

خدمت قرآن مجید: مملکت سعودی عرب کا طرۂ امتیاز (کل نیپال مسابقہ حفظ قرآن مجید کے تناظر میں)

Paigam Madre Watan

Leave a Comment