Articles مضامین

مالیات میں خرد برد ۔۔۔ایک لمحہ فکریہ 

مفتی محمد عبداللہ قاسمی 
استاد دارالعلوم حیدرآباد 
فون نمبر :8688514639

               شعبہ مالیات سے متعلق انتظام وانصرام ایک حساس اورنازک ذمہ داری ہے ،مالیہ کی حفاظت ونگہداشت ،اس کی منصفانہ وعادلانہ تقسیم اورصحیح مصرف میں اس کااستعمال نہایت کٹھن اورصبرآزماعمل ہے ،اس خارزاروادی سے وہی شخص بسلامت گزرسکتاہے جوایک طرف امانت ودیانت اورعدل وتقوی کامجسم پیکرہوتودوسری طرف اس کی تقسیم کے طریقہ کاراوراس کے شرعی مصارف سے بھی آشناہو،ورنہ اگریہ نازک منصب کسی خائن اورلٹیرے کے تصرف میں چلاجائے تواس سے جووسیع نقصانات اوربے شمارخرابیاں پیش آئیں گی وہ بیان سے باہرہے، کتنے ہی غرباء ومساکین کے حقوق ضائع ہوں گے؟ کتنے ہی بے سہارااوریتیم بچے نان شبینہ کے لئے ترسیں گے؟ کتنے ہی مزدوروملازمین کے حقوق تلف ہوں گے ؟ صرف یہی نہیں ؛بلکہ کرپشن اورمالی بدعنوانیوں کی وجہ سے معاشرہ کی فضا مکدرہوگی،اوراطمینان وسکون اورچین وامان مفقود ہوجائے گا، اوروہ معاشرہ جو انتشار اوربے اطمینانی کی کیفیت کاشکار ہواس کے افراد علوم وفنون ، صنعت وحرفت اورسیاست ومعیشت کے لحاظ سے مفلوج اورناکارہ ثابت ہوتے ہیں ،اورایسے معاشرہ کے زیرسایہ زندگی بسرکرنے والی قوم تعمیرتمدن اورخدمت انسانیت میں کوئی قابل قدرکردارادانہیں کرسکتی۔
       آج کے اس پرفتن اورمہیب دورمیں جب کہ زندگی کے تما م شعبے انحطاط اورزوال کے شکارہیں وہیں بدقسمتی سے شعبہ مالیات جیسااہم اورنازک شعبہ بھی ایسے حریص اورزرپرست لوگوں کے تصرف میں ہے جوامانت ودیانت کے جوہرسے عاری اوراس کی منصفانہ تقسیم کے طریقہ کارسے ناآشنااورنابلدہیں،چنانچہ یہ ایک تلخ اورتکلیف دہ حقیقت ہے کہ قوم وملت کااجتماعی فنڈجس سے غرباء ومساکین کے گھرچولہاجلناچاہیے تھاآج اسی فنڈسے عہدیدارعیش وعشرت کے مزے لوٹ رہے ہیں ،قوم وملت کاسرمایہ جس سے بے سہارااورنادارلوگوں کو سرچھپانے کے لئے آشیانہ کی تعمیرکی ضرورت تھی اسی سرمایہ سے منصب دارکئی منزلہ بلڈنگیں کھڑی کررہے ہیں،قوم کے پیسوں سے مہنگی سے مہنگی ائیرکنڈیشن کاریں خریدکرغریبوں کی غربت کامذاق اڑارہے ہیں۔
       آپ ﷺ کی زندگی پوری انسانیت کے لئے نمونہ ہے ،اورآپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپناکرہی انسانیت فلاح وکامیابی کوحاصل کرسکتی ہے ، اورعروج واقبال مندی سے ہمکنارہوسکتی ہے ،چنانچہ عہدنبوی میں جب باقاعدہ اسلامی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی،تواسلامی بنیادوں پرجہاں دیگرحکومتی اداروں کی تنظیم وتنسیق کی گئی وہیں بیت المال بھی قائم کیاگیا،بیت المال کاایک مضبو ط اورمنظم نظام تھا،مسلمانوں سے اموال ظاہرہ کی زکاۃ وصول کرنے کے لئے آپ ﷺ نے اپنی دوراندیشی اورمومنانہ فراست سے ذمہ دار اورامانت دارسفراء اورعمال کاانتخاب فرمایاتھا،اوران کے گزربسرکے لئے آپ ﷺ نے معقول تنخواہ مقررکی تھی ؛لیکن خیال رہے کہ آپ ﷺ نے یہ منصب جس سے مالی منفعت وابستہ تھی اپنے خاندان بنوہاشم میں سے کسی فردکونہیں دیا۔
       بیت المال میں جواموال جمع ہوتے تھے وہ کئی طرح کے ہوتے تھے ،ایک توزکاۃ کے اموال تھے ،دوسرے وہ اموال تھے جوصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ثواب اورتقرب خداوندی کے لئے وقتافوقتا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے،اس کوہم نفلی صدقات وعطیات سے تعبیرکرسکتے ہیں،تیسرے فئی اورغنیمت کے اموال تھے جومسلمانوں کو کفارسے جہادکرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتاتھا،چوتھے وہ جزیہ اورٹیکس تھاجوذمی اورمعاہدلوگ اسلامی ریاست میں رہنے کی وجہ سے اداکرتے تھے ،آپﷺ بذات خود محتاج اورنادارلوگوں کے مابین یہ اموال تقسیم فرماتے تھے،اورملی وفلاحی کاموں کے لئے مناسب رقم مختص فرماتے تھے،لیکن ان اموال میں آپ ﷺکی ورع واحتیاط کایہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ آپ ﷺ صدقہ کے کھجورتقسیم فرمارہے تھے ،اتنے میں حضرت حسن ؓ نے ایک کھجوراٹھاکراپنے منہ میں لے لیا،آپ ﷺ بے چین ہوگئے ،اورفرمایا:ارے ! کیاتمہیں معلوم نہیں ہے کہ صدقہ کامال ہمارے لئے حرام ہے۔(مشکاۃ المصابیح ،حدیث نمبر:۱۸۲۲)
       ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریب اورتنگدست صحابہ کے مابین مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے،اسی اثناء میںحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کاشانہ نبوت پر حاضر ہوئیں،اورعرض کیا کہ اے اباجان ! گھریلو کام کاج کرنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے ہیں، آپ ایک باندی ہمیں عنایت فرمادیں ؛تاکہ وہ گھریلو کاموں میں ہمار اہاتھ بٹائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر کو جواب دیاکہ ابھی فقراء مہاجرین کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاسکی ہیں ، ایسی صورت میں میں تمہارے لئے کیسے حصہ لگاسکتاہوں ؟
         آپ کی سیرت طیبہ میں یہ خاموش پیغام ہے کہ مالیہ کی منصفانہ وعادلانہ تقسیم اوراس کاشرعی مصارف میں استعمال شعبہ مالیات کے منتظم ونگراں کی اہم ذمہ داری ہے،اوراجتماعی فنڈمیںتمام مسلمانوں کاحق ہے ،اس پرکسی خاص شخص کی اجارہ داری نہیں ہے،نیزمنصب وعہدہ – جس میں مالی اختیارات لازمی طورپرحاصل ہوتے ہیں- اپنے افرادخاندان کوسپردکرنااورقوم وملت کے پیسوں سے اپنے اعزاء واقارب کو نوازنانہایت مذموم اورناپسندیدہ عمل ہے ،اوراسلامی تعلیمات کے روح کے منافی ہے۔
         آج کے دورمیں محکمۂ مالیات خواہ سرکاری ہوں یاپرائیوٹ ،کسی ملی وفلاحی تنظیم کا ہو یا کسی عصری واسلامی اسکول کایہ ایک ناقابل انکارحقیقت ہے کہ مجموعی طورسے محکمۂ مالیات پر ایسے خائن اورلٹیرے لوگوں کی بالادستی ہے(واضح رہے کہ اس انحطاط پذیر دور میں بھی ایسی متعدد فلاحی تنظیمیں اورمتعدد عصری واسلامی اسکول ہیں جو قوم کی تعمیروترقی میں مصروف ہیں، اوران میں مالیہ کی منصفانہ وعادلانہ تقسیم اورشرعی مصارف میں اس کے استعمال کاجوخاص اہتمام کیاجاتاہے وہ قابل رشک اورقابل تقلیدہے،ایسی تنظیموں اورتعلیمی اداروں کی طرف میراروئے سخن نہیں ہے ) جوقوم وملت کے سرمایہ کاناجائزاستعمال کرتے ہیں،قوم کے پیسوں سے اپنے معیار زندگی کو بلندبنانا اورعیش وعشرت کے اسباب ووسائل جمع کرناایک وبائی مرض کی شکل اختیارکرگیاہے،جس شخص کوکچھ دنوں پہلے رہنے کے لئے مکان میسرنہیں ہوتاجوں ہی وہ کسی عہدہ پرفائز ہوتاہے کئی منزلہ مکانات کھڑے کرلیتاہے،پہلے سواری کے لئے سائیکل تک بھی اسے میسرنہیں تھی عہدہ ملنے کے بعد وہ نہایت مہنگی سواریوں میں گھومتا پھرتا ہے، پہلے معمولی اورسادہ کپڑوں پروہ قناعت کرلیتاتھااب نہایت جاذب نظراوربیش بہاقیمت کے پوشاک زیب تن کرتاہے،اوراس طرح اجتماعی فنڈجس سے عام لوگوں کاحق متعلق ہے کواپنی جاگیرسمجھتاہے کہ جس طرح چاہتاہے اس میں تصرف کرتاہے،نہ ملازمین کے حقوق کاخیال ، نہ ان کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ ،ظاہرہے کہ ہمارے معاشرے کی یہ صورت حال کافی افسوسناک اورغم انگیز ہے،اورفوری طور پر اصلاح طلب ہے۔
        ظاہرہے کہ اجتماعی فنڈمیں خردبرد کرنااوراس کواپنی ذات کے لیے خاص کرلیناغلول ہے،اورغلول کے بارے میں قرآن واحادیث کے اندرکافی سخت وعیدیں آئی ہیں،اللہ تبارک وتعالی کاارشادہے:وماکان لنبی ان یغل ومن یغلل یات بماغل یوم القیامۃ ثم توفی کل نفس ماکسبت وہم لایظلمون(آل عمران :۱۹۱)ایساممکن ہی نہیں ہے کہ نبی سے خیانت ہوجائے ، اورجوشخص خیانت کرے گاوہ قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیزکولے کرحاضرہوگا،پھرہرشخص کو اس کے عمل کاپوراپورابدلہ دیاجائے گا، اوران پرذرابرابرظلم نہیں کیاجائے گا۔ آپ ﷺ کاارشادہے :اے لوگو!ہم جس کوعامل بنائیں ،اورپھروہ ہم سے ایک سوئی یااس سے بھی ہلکی چیزچھپائے تووہ خیانت ہے جسے لے کروہ قیامت کے دن حاضرہوگا(ابوداؤد،حدیث نمبر:۳۵۸۱)حضرت ابومسعودانصاری ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ ﷺ نے عامل بناکربھیجناچاہاتوفرمایا:اے ابومسعود!جاؤایسانہ ہوکہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پراونٹ ہوجوآوازنکال رہاہوجسے تم نے خیانت سے لے لیاہو،میں نے کہا:حضورپھرتومیں نہیں جاتا،آپ ﷺ نے فرمایا:اچھامیں تمہیں زبردستی بھیجتابھی نہیں۔(ابوداؤد،حدیث نمبر:۲۹۴۷)آپ ﷺ نے ایک موقع سے فرمایا:اگرکوئی پتھرجہنم میں ڈالاجائے توسترسال تک چلتارہے ؛لیکن تہہ تک نہیں پہونچتا، خیانت کی چیزکواس طرح جہنم میں پھینک دیاجائے گا،پھرخیانت کرنے والے سے کہاجائے گاجااسے لے آ،یہی اللہ کافرمان ومن یغلل یات بماغل یوم القیامۃ ثم توفی کل نفس ماکسبت وہم لایظلمون کامطلب ہے۔(تفسیرابن کثیر:۲/۱۳۶)اجتماعی سرمایہ میں خیانت کرنے والاشخص دراصل بے حیااوربے شرم ہوتاہے،شروع شروع میں وہ اجتماعی فنڈمیں خاموشی اورچپکے سے خیانت کرتاہے ،پھرمسلسل یہ عمل کرنے کی وجہ سے اتناجری اوربے غیرت ہوجاتاہے کہ اس کے گناہ ہونے کابھی تصوردل سے نکل جاتاہے ،حتی کہ وہ کھلم کھلااورعلی الاعلان خیانت کرنے لگتاہے ،اس کی تائیدحدیث پاک سے بھی ہوتی ہے:حضورﷺ فرماتے ہیں کہ جب اللہ جل شانہ کسی شخص کے ہلاک فرمانے کاارادہ فرمالیتے ہیں توسب سے پہلے اس سے حیااورشرم کوزائل کردیتے ہیں،اورجب وہ بے شرم بن جاتاہے تواس کوتودیکھے گاکہ وہ لوگوں کی نگاہوں میں مبغوض اورناپسندیدہ بن جاتاہے ،اورجب وہ اس حالت کو پہونچ جائے گاتواس سے امانت زائل ہوجائے گی ،اوروہ خائن بن جائے گا،اورعلی الاعلان خیانت کرنے لگے گا،اورجب اس حالت کوپہونچ جائے گاتواس کے دل سے رحمت نکال لی جائے گی،اوروہ مخلوق پرشفقت نہ کرے گا،اورجب وہ اس درجہ پرپہونچ جائے گاتولوگوں کے یہاں ملعون ومردودبن جائے گا،اورجب اس درجہ پرپہونچ جائے گاتوتواس کو دیکھے گااسلام کی رسی اس کے گلے سے نکل جائے گی ۔(الجامع الصغیر،حدیث نمبر:۳۴۶۷)
 ؁ حقیقت یہ ہے کہ شعبہ مالیات سے متعلق ذمہ داریاں بھاری ہیں ، اوراس کے تقاضے کافی اہم ہیں ، اورذراسی غفلت وبے اعتنائی بڑے نقصانات کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ؛اسی لئے صحابہ کرام ، تابعین عظام اورسلف صالحین نے ایسی ذمہ داریاں قبول کرنے سے گریزکیا،اورممکنہ حدتک انہوں نے مالیات سے متعلق عہدوں سے اپنادامن بچایا،اوراگرکسی مصلحت اورمجبوری کی وجہ سے انہوں نے ایسے عہدوں کوقبول بھی کیا تومالیہ کی حفاظت ونگہداشت پرخاص توجہ دی ،اورصحیح مصرف میں اس کے استعمال کو یقینی بنایا،اوراجتماعی فنڈسے اپنے لئے اتنی قلیل اورحقیرتنخواہ مقررکی کہ مشکل سے ان کا گھرچلتاتھا،اوررہن سہن اتناسادہ ہوتاتھاکہ عام آدمی معلوم ہوتے تھے،ذیل میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین… جنہیں آپ ﷺ کی فیض صحبت نے کندن بنادیاتھا،ان میں سے ہرفرداپنے عہد کاگل سرسبد،مینارۂ نوراورنوع انسانی کے لئے باعث شرف وافتخارتھا…کے واقعات لکھے جاتے ہیں جنہیں خلافت سونپی گئی ، اورانہوں نے وسیع وعریض اسلامی خطوں پرحکومت کی ، لیکن مسلمانوں کے اجتماعی فنڈمیں ورع واحتیاط کا یہ عالم تھاکہ اپنے گزربسرکے لئے نہایت معمولی تنخواہ مقررکی ،اورشاہانہ اورپرتعیش زندگی پرانہوں نے فقیرانہ اوردرویشانہ زندگی کوترجیح دی :
        حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ راشد ہیں ، آپ نے اپنے گزر بسر کے لئے بیت المال سے نہایت معمولی اورحقیر تنخواہ مقررکی تھی ،ان کے سوانح نگاروں نے لکھاہے کہ ڈھائی سو دینار سالانہ ان کی تنخواہ تھی۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ : ۱/۲۵۵)ایک مرتبہ گھر والوں نے کچھ پیسے بچاکر حریرہ تیار کرکے ان کے سامنے پیش کیا ، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اتنی مقدار تنخواہ وضع کردی ، اورفرمایاکہ تجربہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوبکر کا گھر اس سے بھی کم میں چل سکتا ہے ۔
        حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، ان کے جاہ وجلال سے باطل کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتاتھا، ان کے رعب ودبدبہ سے دشمنان اسلام کی ہمتیں پست ہوجاتی تھیں ، ان کے نام سے عالم کفر کے بڑے بڑے حکام اوربزم کافر کے قائد ونقیب تھراتے اور کانپتے تھے ؛ لیکن ان کی سادگی اورکسر نفسی کا یہ حال تھاکہ موٹا جھوٹا کپڑاپہنتے جس پر کئی کئی پیوند لگے ہوتے ، فرش زمیں پر آرام فرماتے جس کی وجہ سے ان کی پشت پر سنگ ریزوں کے نشان پڑ جاتے تھے ، ان ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے زمانہ خلافت میں مدینہ کے اندر سخت قحط پڑا ،بھوک مری اوربد حالی کی وجہ سے لوگ بدحال اور پریشان ہوگئے ، اس زمانہ میں انہوں نے دودھ اورگھی کا استعمال ترک کردیا ، اورفرمایا کہ لوگ بھوک سے پریشان ہوں اورعمر دودھ اور گھی کا استعمال کرے ایسانہیں ہوسکتا۔ (محض الصواب فی فضائل امیرالمومنین عمر بن الخطاب :۲/۵۶۷)
         حضرت اسماعیل بن محمد بن سعدبن ابی وقاص ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کے پاس بحرین سے مشک اورعنبرآیا،حضرت عمرؓ نے فرمایا:اللہ کی قسم ٖ!میں چاہتاہوں کہ مجھے کوئی ایسی عورت مل جائے جوتولنااچھی طرح جانتی ہو،اوروہ مجھے یہ خوشبوتول دے تاکہ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کرسکوں ،ان کی بیوی عاتکہ بنت زیدؓنے کہامیں تولنے میں بڑی ماہرہوں،لائیے میں تول دیتی ہوں،حضرت عمرؓ نے فرمایا:نہیں تم سے نہیں تولواناہے ،انہوں نے کہا:کیوں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایامجھے ڈرہے کہ تواسے اپنے ہاتھوں سے ترازومیں رکھے گی(یوں کچھ نہ کچھ خوشبوتیرے ہاتھوںکولگ جائے گی اورکنپٹی اورگردن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)اوریوں تواپنی کنپٹی اورگردن پراپناہاتھ پھیرے گی،اس طرح تجھے مسلمانوں سے زیادہ خوشبومل جائے گی۔(حیاۃ الصحابۃ:۲/۵۰۸)
       حضرت ابن عمرؓفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کچھ اونٹ خریدے،اوران کوبیت المال کی چراگاہ میں چھوڑآیا،جب وہ خوب موٹے ہوگئے تومیں انہیں بیچنے کے لئے بازارلے آیا،اتنے میں حضرت عمرؓ بھی بازارتشریف لے گئے،اورانہیں موٹے موٹے اونٹ نظرآئے توانہوں نے پوچھاکہ یہ اونٹ کس کے ہیں؟لوگوں نے بتایا کہ یہ عبد اللہ بن عمرؓکے اونٹ ہیں ،کہنے لگے واہ امیرالمومنین کے بیٹے ابن عمردوڑے آئے ،اورانہوں نے پوچھاکیابات ہے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا:یہ اونٹ کیسے ہیں؟ابن عمرؓ نے فرمایا کہ میں نے یہ اونٹ خریدے تھے،اوربیت المال کی چراگا ہ میں چرنے کے لئے بھیجے تھے ،اب میں ان کوبازارلے آیاہوں تاکہ میں دوسرے مسلمانوں کی طرح انہیں بیچ کرنفع حاصل کروں،حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں چراگاہ میں لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہوں گے : امیرالمومنین کے بیٹوں کے اونٹ چرائو،اورامیرالمومنین کے بیٹے کے اونٹ کوپانی پلائو،میرے بیٹے ہونے کی وجہ سے تمہارے اونٹ کے ساتھ زیادہ رعایت کی گئی ہوگی ؛اس لئے ان اونٹوں کو بیچو، اورجتنی رقم میں تم نے یہ اونٹ خریدے تھے اتنی رقم لے لو ،باقی رقم بیت المال میں جمع کرو۔(حیاۃ الصحابۃ:۲/۵۱۰)
          حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ ان خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاہی میں جنتی ہونے کی بشارت دی تھی ، پوراملک شام آپ ؓ ہی کی سرکردگی میں فتح ہوا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں شام کا گورنر مقرر کیا تھا،ملک شام مناظر فطرت کا گہوارہ تھا، وہاںکی آب وہوا صحت افزااورفرحت بخش تھی، شام کا خطہ اپنی زرخیزی اورقدرتی مناظر کے لحاظ سے عرب کے صحرا نشینوں کے لئے ایک جنت ارضی سے کم نہ تھا،دوسری طرف ملک شام میںاس وقت کے لحاظ سے انتہائی متمدن اورترقی یافتہ رومی تہذیب کا دوردورہ تھا،سیم وزر اوردولت وثروت کی فراوانی تھی،ہرگام پر عشرت کدے اورعطربیز پھولوں سے مہکتے ہوئے گلزار اورچمن زارتھے؛لیکن آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی بافیض صحبت کی وجہ سے ملک شام کی دلفریب رنگینیاں اور ہوش ربا مناظران پراثرانداز نہیں ہوسکے،اس کا اندازہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ کے ایک واقعہ سے ہوگا،ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ ملک شام تشریف لائے ، اورحضرت ابوعبیدہؓ سے کہا کہ مجھے اپنے گھر لے چلو ، حضرت ابوعبیدہ ؓنے کہا کہ : اے امیرالمومنین آپ میرے گھر جاکر کیا کریں گے ؟ شاید آپ کو گھر چل کر میری حالت زار پر آنسو بہانے کے سواکچھ حاصل نہ ہو ،جب حضر ت عمرؓ نے اصرار کیا تو حضرت ابوعبیدہ ؓ انہیں اپنے گھر لے گئے،حضرت عمرؓ گھر میں داخل ہوئے تو انہیں کچھ سامان ہی نظر نہیں آیا ، حضرت عمرؓ نے حیران ہوکرپوچھا کہ آپ ؓ کاسامان کہاں ہے ؟ یہاں تو بس ایک نمدہ ، ایک پیالہ اورایک مشکیزہ نظر آرہاہے ،آپ ملک شام کے گورنر ہیں ، کیا آپ کے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے ؟ تو حضر ت ابوعبیدہ ؓ ایک طاق کی طرف بڑھے ، اوروہاں سے روٹی کے کچھ ٹکڑے اٹھالائے ، یہ دیکھ کر حضرت عمر ؓ رونے لگے ، حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین !میں نے پہلے ہی کہا تھاکہ کو آپ کو میری حالت زار پر رونے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،پھر حضر ت ابو عبید ہ نے کہا کہ با ت دراصل یہ ہے کہ انسان کے پاس اتنا زاد سفر ہونا چاہیے جو اسے خوا ب گا ہ تک پہونچادے ،حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اے ابوعبیدہ ؓ دنیا کی رنگینیوں نے ہم سب کو بدل ڈالا؛ لیکن تم کو نہیں بدلا۔(سیراعلام النبلاء للذہبی : ۳/۱۳)
         ایران فتح ہونے کے بعد حضرت عمر ؓنے حضرت حذیفہ ؓ کو امیر مدائن مقرر کیا،جب وہ مدائن تشریف لے گئے تو اہل شہر نے ان کاگرمجوشانہ استقبال کیا ، اور پیشکش کی کہ آپ کی جو خواہش ہو ہم اسے پوراکرنے کے لئے تیار ہیں ، انہوں نے فرمایا :طعاما آکلہ وعلف حماری ہذامن تبن۔ (سیر اعلام النبلاء:۴/۳۰) میرے لئے بس اتنا کافی ہے کہ کھانے کے لئے مجھے کھانا مل جائے ، اور میری اس سواری کے لئے چارہ ،حضرت عمر ؓ کو جب ان کے مدینہ آنے کی اطلاع ملی تو راستہ میں چھپ کر بیٹھ گئے ، مقصد یہ تھا کہ اگر وہ مدائن سے مال ودولت جمع کرکے لائے ہیں تو اس کا پتہ چل جائے ؛ لیکن انہوں نے ان کو اسی حال میں دیکھا جس حال میں وہ مدینہ سے گئے تھے ، تو خوشی سے ان کو اپنے گلے لگالیا ۔(حوالہ بالا)
          حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کچھ دنوں مدائن کے گورنر رہے ، اتنی سادہ اورمعمولی زندگی گزارتے تھے کہ انہیں دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ مدائن کے امیر ہیں ، عام لوگوں کی طرح سادہ اورعام لباس میں را ہ پر چلتے پھرتے ، ایک مرتبہ شام کے تاجر نے انہیں مزدور سمجھ کر گٹھری اٹھانے کو کہا، انہوں نے بلاکسی توقف اورتامل کے گٹھری اٹھالیا ، کچھ دور چلنے کے بعد لوگوں نے تاجر سے کہا کہ یہ مدائن کے امیر ہیں ، تو تاجر بڑاحیران ہو ااوردل دل میں شرمندہ بھی ، اس نے حضرت سلمان فارسی ؓ سے معذرت کی ، اورگٹھری رکھنے کے لئے کہا ؛ لیکن حضرت سلمان ؓ اس پر تیار نہیں ہوئے ، اورفرمایا کہ میں نے ایک نیکی کرنے کا ارادہ کرلیا ہے ؛ لہذاجب تک میں اس کو پورانہیں کروں گا سامان نیچے نہیں رکھوں گا ، بالآخر سامان گھر پہونچاکر ہی دم لیا ۔(طبقات ابن سعد :۴/۶۶)
        حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتاہے، انہیں تجدیدی کارناموں کی وجہ سے اپنے عہد کا مجدد کہاجاسکتاہے ، بنوامیہ کی حکومت نے بہت سی برائیوں کو جنم دیا تھا، جاہلی تفاخر ، نسل پرستی، عصبیت اوراقرباء پروری نبوت اورخلافت کی برکت سے دب گئے تھے ، بنوامیہ کے دور عہد میں پوری طرح ازسرنو زور پکڑ چکے تھے ، بیت المال پرشاہی خاندان کی اجارہ داری تھی ، نومسلموں سے جزیہ وصول کیا جاتاتھا، ایسے حالات میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے زمام خلافت سنبھالا ، اورخلافت علی منہاج النبوۃ قائم فرمائی ، عدل وانصاف کو عام کیا ، جا ہلی تفاخر اوراقرباء پروری کو ختم کیا ،مجلس سلطنت جس نے کسری وقیصر کارنگ وروغن اختیار کرلیاتھا،انہوں نے اسے نہایت سادہ بنایا، ان کی ابتدائی زندگی نہایت نازو نعم میں گزری تھی ، خوشحال اورامیر زادہ کی طرح زندگی بسر کرتے تھے ، وہ جس راہ سے گزرتے وہ راہ ان کے لگائے ہوئے مشک وعنبرکی خوشبو سے بس جاتی، اور آنے جانے والوں کے لئے ان کی نشان راہ کی خبر دیتا ، لوگ دھوبی کو کپڑادیتے وقت تاکید کرتے کہ میراکپڑا عمربن عبدالعزیز کے کپڑے کے ساتھ دھونا ؛تاکہ ان کے کپڑے کی خوشبو میرے کپڑے میں بھی بس جائے ؛(سیرۃ بن عمر بن عبد العزیز:۲۵) لیکن زمام خلافت سنبھالنے کے بعد ان کی زندگی بدل گئی ، فراخ دستی کی جگہ تنگ دستی آگئی ، خوش حالی کی جگہ بد حالی آگئی ، شاہانہ زندگی کی جگہ فقیرانہ اوردرویشانہ زندگی نے لے لی ، ان ہی کا واقعہ ملتاہے کہ کبھی کبھی کپڑاسوکھنے کا انتظارکرنے کی وجہ سے جمعہ کی نماز کے لئے تاخیر سے پہونچتے ۔ایک مرتبہ ان کی صاحبزادی ان سے بات کے دوران منھ پر کپڑارکھ لیتی تھی ، وجہ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ کھانے میں صرف دال اور پیاز کھائی ہے جس کی وجہ سے منھ میں بدبو پید اہوگئی ہے۔ ان کے دووقت کھانے کا صرفہ دودرہم یومیہ سے زیادہ نہ تھا۔(حوالہ بالا)
      حضر ت سلطان صلاح ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے سے کون مسلمان ناواقف ہوگا؟ انہوں نے ہی صلیبی فوجوں کی صفوں میں انتشار برپاکیا ، فلسطین اورمسجد اقصی کو سامراجی طاقتوں کی چنگل سے آزاد کیا،اپنی بے مثال جنگی مہارتوں سے شکست خوردہ مسلمانوں کو سہارادیا ،اس مر د مجاہد نے مصر میں چوبیس سال اورشام میں انیس سال حکومت کی ، لیکن ان کی سادگی اور دنیاوی سازوسامان سے بے رغبتی کا یہ حال تھا کہ کبھی ان پر زکاۃ فرض نہیں ہوئی ، انہو ں نے اپنے ترکہ میں صرف ایک دینار اور سینتالیس درہم چھوڑے ، ان کے پاس اس کے علاوہ نہ کوئی جائیداد تھی اورنہ ہی سوناچاندی ۔(دیکھئے الاعلام للزرکلی ، النوادر السلطانیۃ )
          اس وقت پوری انسانیت جن کٹھن اورصبرآزماحالات سے گزررہی ہے وہ کسی حساس اوردل دردمندرکھنے والے شخص پرمخفی نہیں ہے،ایک طرف معاشی وسائل کی قلت اورآسمان چھوتی ہوئی مہنگائی کااسے سامناہے تودوسری طرف فقروفاقہ اورافلاس وبھوک مری کاشکارہے ،ہرکوئی جورزماں اورنامساعدحالات کاشاکی ہے،ہرشخص مہنگائی اورافراط زرکاشکوہ کررہاہے،ہرآدمی قلیل آمدنی اورمعمولی تنخواہ کاگلہ کررہاہے،ان دگرگوں حالات اورسلسلہ وارمصائب کے پیچھے بہت سے اسباب وعوامل کارفرماہیں،جن میں اہم اوربنیادی سبب محکمۂ مالیات میں ناجائزتصرف اوراس کاغلط استعمال ہے، ضرورت ہے اس بات کی مالیات کے شعبہ کو مضبوط اورمنظم بنایاجائے،اوریہ نازک اوراہم منصب ایسے لوگوں کوسپردکیاجائے جوامانت ودیانت کے جوہرسے آراستہ ہوں ، اورقوم وملت کی خدمت کا بے لوث جذبہ رکھتے ہوں ، تب ہی امت مسلمہ کوان مشکلات سے نجات ملے گی، اوراسلامی بنیادوں پرایک صحت منداورخوش گوارمعاشرے کی تعمیر ممکن ہوسکے گی ۔
      میری اس تحریرکامقصد کسی خاص شخصیت پرتنقید یااس کی تحقیرنہیں ہے،بلکہ معاشرے کی ایک تکلیف دہ صورت حال کااظہارہے،رہبروں کے ہاتھ قوم وملت کے جولٹنے کاغم ہے ممکن ہے اس نے قلم کو تیر ونشتر کردیا ہو، اگراس سے کسی کے آبگینۂ دل کوٹھیس پہونچی ہوتوغالب کے اس شعرکے ساتھ معذرت خواہ ہوں
معاف رکھناغالب کو اس تلخ نوائی پر
آج میرے دل میں دردسواہوتاہے

Related posts

ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب حَمیدی حفظہ اللہ

Paigam Madre Watan

قبضہ اور قید: ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی ناقابل تسخیر جدوجہد

Paigam Madre Watan

رسالہ معاصر اور ان کے چند قلم کار

Paigam Madre Watan

Leave a Comment