Articles مضامین

دہلی دھماکے کے ملزم کی ویڈیو: خودکش حملے کے دفاع کی مسلم کمیونٹی کی جانب سے پرزور مذمت: عفیف احسن

دہلی دھماکے کے ملزم ڈاکٹر عمر نبی کی ایک ویڈیو آن لائن سامنے آئی ہے جس میں وہ خودکش حملے کا دفاع کرتے ہوئے اسے "شہادت کی کارروائی” (martyrdom operation) قرار دے رہا ہے۔ یہ ویڈیو بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہے، جس پر مسلم کمیونٹی اور مختلف سیاسی شخصیات کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔
10 نومبر کو لال قلعہ علاقے میں ہونے والے دھماکے کے بعد سامنے آنے والی اس خود ساختہ اور بغیر تاریخ کی ویڈیو میں دہشت گرد ماڈیول کا کلیدی رکن ڈاکٹر عمر نبی اپنے نظریے کے بارے میں بات کرتانظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر عمر نبی نے خودکش حملے کا دفاع کیا اور اسے "شہادت کا عمل” قرار دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ویڈیو ایک بنیاد پرست (radicalized) نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے جس کا مقصد دوسروں کو متاثر کرنا ہے۔
ممتاز مسلم شخصیات اور گروپوں نے اس ویڈیو پر بڑے پیمانے پر تنقید کی ہے اور زور دیا ہے کہ اسلام خودکشی اور معصوم افراد کے قتل سے منع کرتا ہے۔ اسد الدین اویسی اور عمران مسعود جیسے رہنماؤں نے اس فعل کو ’’حرام‘‘،’’سنگین گناہ‘‘اور ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ردعمل میں اسی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا، جہاں خودکشی کو اسلام میں ایک بڑا گناہ قرار دیا گیا اور ویڈیو کے خیالات کو انتہا پسندانہ نظریے سے جوڑا گیا۔ مسلم کمیونٹی کا متفقہ فیصلہ ویڈیو میں ظاہر کیے گئے انتہا پسندانہ خیالات کو واضح طور پر مسترد کرنا اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہے، کیونکہ یہ بنیادی اسلامی اصولوں کے منافی ہیں۔
خودکش حملہ آور ڈاکٹر عمر نبی اپنے مزموم اعمال اور تشدد پر مبنی اپنے انتہا پسندانہ خیالات کا جواز پیش کرنے کیلئے اسلام کی اپنی تشریح اور جسے وہ ’’شرعی‘‘ اصول کہتا ہے ، کا سہارا لیتاہے۔نبی کا جوازمرکزی اسلامی نقطہ نظر کے برعکس ہے۔ نبی کے خیالات کے برعکس، مرکزی دھارے کے مسلم مذہبی رہنماؤں نے اس طرح کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔متواتر علما (اسلامی اسکالر) نے بیان دیا کہ اسلام میں کسی بھی بے گناہ شخص کا قتل یا تشدد پھیلانا سختی سے منع (حرام) ہے، اور یہ کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مذہب میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
قرآن کریم واضح طور پر خود کو ہلاک کرنے سے منع کرتا ہے ،سورئہ النساء (4)کی آیت 29 میں ارشاد ہے کہ ’’اے ایمان والو، آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ سوائے اس کے کہ باہمی رضامندی سے تجارت کے ذریعے ہو۔ اور اپنے آپ کو [یا ایک دوسرے کو] قتل مت کرو۔ بے شک اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔‘‘
سورئہ الانعام (6)کی آیت 151 میں ارشاد ہے کہ …’’اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے سوائے حق کے ساتھ [یعنی عدل کے تقاضوں کے مطابق]۔ یہ ہیں اس کے احکامات تمہارے لیے تاکہ تم سمجھو۔‘‘
سورئہ بنی اسرائیل (17)کی آیت 33 میں حکم ہے کہ ’’اور کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سوائے حق کے ساتھ [یعنی عدل کے تقاضوں کے مطابق]۔‘‘
سورئہ البقرہ (2) کی آیت 195 میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو [یعنی بخل کر کے]۔ اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
یہ آیات مسلم علماء اور تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی اور خودکش بمباری کی بطور بڑے گناہ اور اسلامی تعلیمات سے انحراف کے طور پر مذمت کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔
خودکش حملہ آوروں کے موقف اور ان کی دماغی کیفیت کو سمجھنے کے لئے ہم ان کی دلیلوں کو دیکھیں تو ایسے مزموم کام کرنے کے لئے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ شہید کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔حالانکہ یہ خودکشی ہوتی ہے۔ وہ اپنی جان خود لیتے ہیں، جسے اللہ نے منع فرمایا ہے اور جو ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ زندگی اللہ کی نعمت ہے اور اسی کے مطابق ہمیں اپنی زندگی گزارنی ہے۔ اس گناہ کو عمل دینے کے لئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم کفار سے لڑ رہے ہیں۔اور اس کو جائز ٹھہرانے کے لئے وہ کسی کو بھی کفار قرار دے دیتے ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، یہاں تک کے وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں تک کو کافر قرار دیدیتے ہیں۔ لیکن ان کا سارا ظلم معصوم اور نہتوں پر اترتا ہے۔ جبکہ یہ غیر مقاتلین جیسے کہ عورتوں، بچوں، بزرگوںاور نہتوں کو مار رہے ہوتے ہیں، جس سے پیغمبر ِ اسلام نے سخت منع فرمایا ہے۔ وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اس میں عام شہری ضمنی نقصان (Collateral Damage) ہیں۔جبکہ وہ عام شہریوں معصوموں اور عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہے ہوتے ہیں۔’تترس‘ (یعنی دورانِ جنگ شہریوں کا نقصان) کا اطلاق صرف تب ہوتا ہے جب یہ غیر ارادی ہو اور بقا کے لئے ناگزیر ہو۔اس کا اطلاق حالیہ لال قلعہ حملہ جیسے مذموم عمل جس میں سبھی معصوم لوگ بلا تفریق مذہب مارے گئے اور زخمی ہوئے پر نہیں ہوسکتا ہے۔
خودکش حملہ جیسے مذموم عمل کو انجام دینے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ انکا نام نہادمقصد ہی ان کے ذریعہ استعمال کئے گئے ذرائع کا جواز ہے۔ (The end justifies the means) جبکہ اسلام میں ذرائع کا بھی اتنا ہی پاکیزہ ہونا ضروری ہے جتنا کہ مقصد کا۔ یہ لوگ اللہ کی نافرمانی کر کے (یعنی بے گناہوں کو مار کر) اس کی اطاعت نہیں کر سکتے۔
عمر نبی اور اس جیسے دہشت گرد صاف طور پر جیش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی سوچ کے غماز ہیں۔ اس ویڈیو سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس خودکش حملہ میں پاکستان میں بیٹھے ہوئے جیش کے دہشت گردوں کا ہاتھ ہے اور وہی اس دہشت گردی کے ماڈیول کے تلقین عقیدہ (Indoctrination) اور مالی اور اخلاقی حمایت کے ساتھ ساتھ مسلح حمایت کررہے ہیں۔اس دہشت گرد تنظیم کا مقصد صرف اور صرف ہندوستان جیسے کثیر جہتی اور پرامن ملک میں امن و امان کو بگاڑنا اور مذہبی منافرت پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

Related posts

عصری تعلیم مسلمانوں کے لیے ضروری کیوں؟

Paigam Madre Watan

संसद धुंआ कांड को कैसे देखें

Paigam Madre Watan

جس بھوپال نے خاتون کو سلطان کو بنایا، اُسی بھوپال نے سلطان کی وراثت کو ویرانی

Paigam Madre Watan

Leave a Comment