تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز
اسدالدین اویسی، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے صدر اور حیدرآباد سے پانچ بار رکن پارلیمنٹ، بھارتی سیاست میں ایک متنازعہ اور نمایاں شخصیت ہیں۔ انہیں ایک طرف مسلم کمیونٹی کا بے باک نمائندہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف ان پر الزام ہے کہ وہ اپنے جارحانہ بیانات سے ہندو۔مسلم پولرائزیشن کو ہوا دیتے ہیں، جس سے بالواسطہ طور پر بی جے پی کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ اویسی "بی جے پی کا بی ٹیم” ہیں، یعنی وہ مسلمانوں کو تقسیم کر کے سیکولر ووٹ بینک کو کمزور کرتے ہیں اور ہندووں میں خوف پیدا کر کے بی جے پی کے ووٹ کو کنسولیڈیٹ کرتے ہیں۔ یہ الزام 2014 کے بعد سے زور پکڑ گیا جب بی جے پی کی مرکزی حکومت بنی۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن کے دوران این ڈی ٹی وی، انڈیا ٹوڈے، ٹائمز ناو، ری پبلک ٹی وی وغیرہ پر اویسی کی کوریج دیگر چھوٹی پارٹیوں کے لیڈروں (مثلاً اکھلیش یادو، مایاوتی، چندرا بابو نائیڈو، تیجسوی یادو، ڈاکٹر ایوب، اروند کیجریوال کے مقابلے میں بھی) کہیں زیادہ تھی۔ مہاراشٹر، بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال اور گجرات اسمبلی الیکشن کے دوران اویسی کو ہر چھوٹے بیان پر بریکنگ نیوز بنایا جاتا ہے، جبکہ دوسری ریجنل پارٹیوں کے لیڈرز کو ایسی کوریج شاذ و نادر ملتی ہے۔ ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق 2019–2024 کے درمیان اویسی کو پرائم ٹائم میں تقریباً 1800+ گھنٹے کوریج ملی۔ یہ کوریج عموماً منفی ہوتی ہے، جو ہندو ناظرین میں غصے کو بھڑکاتی ہے۔ یہ ایک واضح پیٹرن ہے کہ جن صوبوں میں مسلم ووٹر 15–30 فیصد ہیں اور سیکولر اتحاد مضبوط ہے، وہاں الیکشن سے چند ماہ پہلے اویسی کی پارٹی کو اچانک ایکٹو کیا جاتا ہے: صوبہ اتر پردیش-2017, 2022۔اسمبلی الیکشن سے 4–6 ماہ قبل۔2022 میں 100 سیٹیں لڑیں، 0 جیتیں، اپوزیشن ووٹ کاٹا گیا۔ بہار،2020۔الیکشن سے 3 ماہ قبل۔5 سیٹیں جیتیں، مہاگٹھ بندھن کو نقصان۔مغربی بنگال،2021،الیکشن سے چند ہفتے قبل،مسلم اکثریتی علاقوں میں ممتا کے ووٹ کاٹے۔ گجرات، 2022،الیکشن سے چند ماہ قبل، 15–20 ہزار ووٹ ہر حلقے میں کانگریس سے کاٹے۔ مہاراشٹر، 2024، لوک سبھا سے چند ماہ قبل اورنگ آباد، اکولہ وغیرہ میں اپوزیشن ووٹ تقسیم۔
جہاں جہاں اویسی جاتے ہیں، وہاں بی جے پی/آر ایس ایس سے منسلک گروپوں کی طرف سے احتجاج، پتھراو، کالا جھنڈا اور کبھی کبھی حملے ہوتے ہیں۔ 2022: میرٹھ میں پتھراو۔2023: سولاپور، مہاراشٹر میں گولی چلنے کی کوشش۔ 2024: اتر پردیش میں متعدد جگہ کالا جھنڈا۔ یہ واقعات میڈیا میں خوب چلتے ہیں، جس سے "ہندو غصے” کا بیانیہ بنتا ہے اور بی جے پی اسے "ہندووں کا ردعمل” کہہ کر فائدہ اٹھاتی ہے۔ موب لنچنگ اور نفرت کے جرائم میں اضافہ 2014 کے بعد سے موب لنچنگ کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہوا (انڈیا سپینڈس ڈیٹا: 2014–2023 تک 100+ کیسز، جن میں سے 90% مسلمان یا دلت متاثرین)۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اویسی کے جارحانہ بیانات (مثلاً "ہندوتوا دہشت گردی”، "گجرات قصاب” جیسے الفاظ) ٹی وی پر بار بار چلنے سے ہندو نوجوانوں میں غصہ بھڑکتا ہے، جو بعد میں گورکشک گروپس کی شکل میں نکلتا ہے۔ بی جے پی لیڈرز (مثلاً امیت شاہ، یوگی ادتیہ ناتھ) اویسی کو "مسلم یوگی” کہہ کر جواب دیتے ہیں، جو پولرائزیشن کو مزید بڑھاتا ہے۔ یوگندر یادو، پرشانت کشور، اور کئی صحافی (رویش کمار، راہل کانوال وغیرہ) کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ "اویسی بی جے پی کے سب سے بڑے اثاثہ ہیں”۔ سابق کانگریس لیڈر سنجے نروپم نے کہا تھا: "ہر جگہ جہاں اویسی جاتے ہیں، وہاں بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے”۔ ایک تجزیہ کے مطابق اویسی نے 2017 سے 2024 تک کم از کم 40–50 سیٹوں پر اپوزیشن کے ووٹ کاٹ کر بی جے پی کی بالواسطہ مدد کی۔ اسدالدین اویسی کا میڈیا میں غیر معمولی وجود، الیکشن سے عین قبل مخصوص ریاستوں میں انٹری، احتجاج اور حملوں کا ڈرامائی منظر نامہ، اور اس کے نتیجے میں ہندو۔مسلم پولرائزیشن – یہ سب مل کر ایک ایسا تاثر دیتے ہیں کہ وہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ چاہے وہ دانستہ ہو یا انجانے میں، نتیجہ ایک ہی ہے، سیکولر اتحاد کمزور ہوتا ہے، ہندو ووٹ بی جے پی کے پیچھے یکجا ہو جاتا ہے۔یہ رپورٹ حقائق، اعداد و شمار اور سیاسی مبصرین کے حوالوں پر مبنی ہے۔ اگر کوئی اسے "سازش” کہے تو کم از کم یہ "انتہائی فائدہ مند اتفاق” ضرور ہے– اور سیاست میں اتفاق کبھی اتنے درست نہیں ہوتے۔ بھارت ایک کثیر الثقافتی، کثیر المذاہب جمہوری ملک ہے جس کی بنیاد سیکولرازم، مساوات اور انصاف پر رکھی گئی تھی۔ مگر گزشتہ چند دہائیوں سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایک ایسا بیانیہ کھڑا کیا ہے جس کا بنیادی ہدف ملک کے مسلمانوں کو مستقل طور پر مشکوک، غدار اور ”دشمنِ اندرونی“ ثابت کرنا ہے۔ اس بیانیے کی آڑ میں مسلم افراد، ادارے، تنظیمیں اور لیڈرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف اعظم خان جیسے لیڈر، جنہوں نے رام پور میں محمد علی جوہر یونیورسٹی جیسی بڑی درسگاہ قائم کی، ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس کے چھاپوں، جیل اور سیاسی ہراسانی کا شکار ہیں۔ دوسری طرف حیدرآباد کے ایم پی بیرسٹر اسدالدین اویسی کبھی کسی ایجنسی کے ریڈار پر نہیں آتے، ان کی پارٹی مسلسل توسیع کر رہی ہے، ان کے بیانات مین سٹریم میڈیا میں بغیر کسی چیلنج کے چلتے ہیں اور ان کی سیاست کو کبھی ”انتہا پسند“ یا ”دہشت گردی نواز“ قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ تضاد اتفاقی نہیں، اتفاقی بھی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رکھناآر ایس ایس کا بنیادی نظریہ ”ہندو راشٹر“ ہے، جس میں مسلمانوں کو یا تو دوسرے درجے کا شہری بننا ہے یا پھر مستقل طور پر مشتبہ رہنا ہے۔ اس کے لیے تین ہتھیار سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں،مسلم لیڈروں اور اداروں کو ہراساں کرنا تاکہ کوئی بڑی قیادت یا تعلیمی/معاشی خودمختاری نہ ابھر سکے ،اسدالدین اویسی اور ان کی پارٹی AIMIM اس تیسرے ہتھیار کا سب سے موثر آلہ بن چکے ہیں۔ اویسی کی سیاست کا اصل چہرہ مسلم ووٹ کاٹنا، بی جے پی کو فائدہ پہنچانا، 2017، 2018، 2022 کے اتر پردیش، بہار، مہاراشٹر، گجرات، مغربی بنگال اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں جہاں جہاں AIMIM نے امیدوار کھڑے کیے، وہاں مسلم ووٹ تقسیم ہوا اور بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کو سیدھا فائدہ پہنچا۔ مغربی بنگال میں AIMIM نے 6 سیٹیں لڑیں، سب پر ڈپازٹ ضبط ہوئی مگر مسلم ووٹ کٹنے سے بی جے پی کو 3-4 سیٹیں اضافی ملیں۔ مہاراشٹر میں اورنگ آباد، مالے گاوں میں بھی یہی ہوا۔ یہ اتفاق بار بار ہو تو اتفاق نہیں، پالیسی کہلاتا ہے۔
اویسی صاحب کہتے ہیں کہ ”مدرسہ میں بچے بم بنانا سیکھتے ہیں“۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو گودسے، گوگوئی، یوگی، ساکشی مہاراج، پرگیہ ٹھاکر اور کپل مشرا برسوں سے دہراتے آئے ہیں۔ ایک مسلم لیڈر جب یہی زبان بولے تو وہ آر ایس ایس کے لیے سب سے بڑا سرٹیفکیٹ بن جاتا ہے کہ ”دیکھو، خود مسلمان بھی مان رہے ہیں“۔ اس بیان پر نہ تو بی جے پی نے تنقید کی، نہ میڈیا نے شور مچایا، نہ ای ڈی نے نوٹس بھیجا۔ اس سے بڑا ثبوت کیا چاہیے کہ یہ بیان آر ایس ایس کے ایجنڈے تک رسائی کا راستہ تھا؟ ہر جلسے میں اویسی صاحب کہتے ہیں ”مسلمانوں کو ڈرنا نہیں چاہیے، ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے“۔ یہ سننے میں اچھا لگتا ہے مگر عملی طور پر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ غصے میں بھرے نوجوان سوشل میڈیا پر گالیاں دیتے ہیں، ہندووں سے نفرت کرتے ہیں، مین اسٹریم سیاست سے الگجھ جاتے ہیں اور آخر میں یا تو جیل پہنچ جاتے ہیں یا پھر کوئی انتہا پسند تنظیم انہیں اپنا لیتا ہے۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو کل کو کانگریس، سماج وادی پارٹی یا TMC کو ووٹ دے سکتے تھے۔ آج وہ اویسی کے پیچھے لگ کر بی جے پی کو بالواسطہ فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ جب بھی کوئی مسلم یونیورسٹی، مدرسہ یا ویلفیئر ادارہ ای ڈی-سی بی آئی کے نشانے پر آتا ہے، اویسی صاحب خاموش تماشائی بن جاتے ہیں یا پھر کہتے ہیں ”قانون اپنا کام کرے گا“۔ جبکہ اعظم خان، مختار انصاری، ڈاکٹر کفیل خان، عمر خالد، شرجیل امام جیسے لوگ جیلوں میں ہیں، تب بھی AIMIM کی طرف سے کوئی بڑا احتجاج یا قانونی مدد کا پروگرام نظر نہیں آتا۔ اس خاموشی کی قیمت کیا ہے؟ وہ خود محفوظ ہیں، ایجنسیاں ان کے دروازے پر دستک نہیں دیتیں۔
اویسی اب آر ایس ایس کے سب سے قیمتی اثاثہ بن چکے ہیںآر ایس ایس کو ایک ایسے مسلم چہرے کی ضرورت تھی جومسلم ووٹ تقسیم کرے۔ مسلم نوجوانوں کو مین اسٹریم سے الگ کرے۔ مسلم اداروں اور لیڈروں کو بدنام کرنے میں مدد دے۔ خود کبھی ای ڈی-سی بی آئی کے نشانے پر نہ آئے۔اسدالدین اویسی اس ساری فہرست کو پورا کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو اب سمجھنا ہو گا کہ جو قیادت آر ایس ایس کے بیانیے کو آگے بڑھائے، جو مسلم ووٹ تقسیم کر کے بی جے پی کو فائدہ پہنچائے، جو مدرسوں اور مسلم اداروں کو بدنام کرنے میں خاموش تماشائی بن جائے، وہ قیادت دوست نہیں، سب سے بڑا دشمن ہے۔ ملی تنظیموں، علمائ، دانشوروں اور نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اویسی صاحب سے وہی فاصلہ رکھیں جو وہ نریندر مودی، یوگی آدتیہ ناتھ یا امت شاہ سے رکھتے ہیں۔ انہیں سیاست کرنے دیجیے، مگر اپنا کندھا، اپنی تنظیم اور اپنا پلیٹ فارم ہرگز نہ دیجیے کہ وہ اس پر کھڑے ہو کر آر ایس ایس کی بندوق چلائیں۔ کیونکہ آخر میں نقصان صرف اور صرف امت کا ہو رہا ہے، اور فائدہ آر ایس ایس کا۔سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔
جہاں جہاں اویسی جاتے ہیں، وہاں بی جے پی/آر ایس ایس سے منسلک گروپوں کی طرف سے احتجاج، پتھراو، کالا جھنڈا اور کبھی کبھی حملے ہوتے ہیں۔ 2022: میرٹھ میں پتھراو۔2023: سولاپور، مہاراشٹر میں گولی چلنے کی کوشش۔ 2024: اتر پردیش میں متعدد جگہ کالا جھنڈا۔ یہ واقعات میڈیا میں خوب چلتے ہیں، جس سے "ہندو غصے” کا بیانیہ بنتا ہے اور بی جے پی اسے "ہندووں کا ردعمل” کہہ کر فائدہ اٹھاتی ہے۔ موب لنچنگ اور نفرت کے جرائم میں اضافہ 2014 کے بعد سے موب لنچنگ کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہوا (انڈیا سپینڈس ڈیٹا: 2014–2023 تک 100+ کیسز، جن میں سے 90% مسلمان یا دلت متاثرین)۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اویسی کے جارحانہ بیانات (مثلاً "ہندوتوا دہشت گردی”، "گجرات قصاب” جیسے الفاظ) ٹی وی پر بار بار چلنے سے ہندو نوجوانوں میں غصہ بھڑکتا ہے، جو بعد میں گورکشک گروپس کی شکل میں نکلتا ہے۔ بی جے پی لیڈرز (مثلاً امیت شاہ، یوگی ادتیہ ناتھ) اویسی کو "مسلم یوگی” کہہ کر جواب دیتے ہیں، جو پولرائزیشن کو مزید بڑھاتا ہے۔ یوگندر یادو، پرشانت کشور، اور کئی صحافی (رویش کمار، راہل کانوال وغیرہ) کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ "اویسی بی جے پی کے سب سے بڑے اثاثہ ہیں”۔ سابق کانگریس لیڈر سنجے نروپم نے کہا تھا: "ہر جگہ جہاں اویسی جاتے ہیں، وہاں بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے”۔ ایک تجزیہ کے مطابق اویسی نے 2017 سے 2024 تک کم از کم 40–50 سیٹوں پر اپوزیشن کے ووٹ کاٹ کر بی جے پی کی بالواسطہ مدد کی۔ اسدالدین اویسی کا میڈیا میں غیر معمولی وجود، الیکشن سے عین قبل مخصوص ریاستوں میں انٹری، احتجاج اور حملوں کا ڈرامائی منظر نامہ، اور اس کے نتیجے میں ہندو۔مسلم پولرائزیشن – یہ سب مل کر ایک ایسا تاثر دیتے ہیں کہ وہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ چاہے وہ دانستہ ہو یا انجانے میں، نتیجہ ایک ہی ہے، سیکولر اتحاد کمزور ہوتا ہے، ہندو ووٹ بی جے پی کے پیچھے یکجا ہو جاتا ہے۔یہ رپورٹ حقائق، اعداد و شمار اور سیاسی مبصرین کے حوالوں پر مبنی ہے۔ اگر کوئی اسے "سازش” کہے تو کم از کم یہ "انتہائی فائدہ مند اتفاق” ضرور ہے– اور سیاست میں اتفاق کبھی اتنے درست نہیں ہوتے۔ بھارت ایک کثیر الثقافتی، کثیر المذاہب جمہوری ملک ہے جس کی بنیاد سیکولرازم، مساوات اور انصاف پر رکھی گئی تھی۔ مگر گزشتہ چند دہائیوں سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایک ایسا بیانیہ کھڑا کیا ہے جس کا بنیادی ہدف ملک کے مسلمانوں کو مستقل طور پر مشکوک، غدار اور ”دشمنِ اندرونی“ ثابت کرنا ہے۔ اس بیانیے کی آڑ میں مسلم افراد، ادارے، تنظیمیں اور لیڈرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف اعظم خان جیسے لیڈر، جنہوں نے رام پور میں محمد علی جوہر یونیورسٹی جیسی بڑی درسگاہ قائم کی، ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس کے چھاپوں، جیل اور سیاسی ہراسانی کا شکار ہیں۔ دوسری طرف حیدرآباد کے ایم پی بیرسٹر اسدالدین اویسی کبھی کسی ایجنسی کے ریڈار پر نہیں آتے، ان کی پارٹی مسلسل توسیع کر رہی ہے، ان کے بیانات مین سٹریم میڈیا میں بغیر کسی چیلنج کے چلتے ہیں اور ان کی سیاست کو کبھی ”انتہا پسند“ یا ”دہشت گردی نواز“ قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ تضاد اتفاقی نہیں، اتفاقی بھی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رکھناآر ایس ایس کا بنیادی نظریہ ”ہندو راشٹر“ ہے، جس میں مسلمانوں کو یا تو دوسرے درجے کا شہری بننا ہے یا پھر مستقل طور پر مشتبہ رہنا ہے۔ اس کے لیے تین ہتھیار سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں،مسلم لیڈروں اور اداروں کو ہراساں کرنا تاکہ کوئی بڑی قیادت یا تعلیمی/معاشی خودمختاری نہ ابھر سکے ،اسدالدین اویسی اور ان کی پارٹی AIMIM اس تیسرے ہتھیار کا سب سے موثر آلہ بن چکے ہیں۔ اویسی کی سیاست کا اصل چہرہ مسلم ووٹ کاٹنا، بی جے پی کو فائدہ پہنچانا، 2017، 2018، 2022 کے اتر پردیش، بہار، مہاراشٹر، گجرات، مغربی بنگال اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں جہاں جہاں AIMIM نے امیدوار کھڑے کیے، وہاں مسلم ووٹ تقسیم ہوا اور بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کو سیدھا فائدہ پہنچا۔ مغربی بنگال میں AIMIM نے 6 سیٹیں لڑیں، سب پر ڈپازٹ ضبط ہوئی مگر مسلم ووٹ کٹنے سے بی جے پی کو 3-4 سیٹیں اضافی ملیں۔ مہاراشٹر میں اورنگ آباد، مالے گاوں میں بھی یہی ہوا۔ یہ اتفاق بار بار ہو تو اتفاق نہیں، پالیسی کہلاتا ہے۔
اویسی صاحب کہتے ہیں کہ ”مدرسہ میں بچے بم بنانا سیکھتے ہیں“۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو گودسے، گوگوئی، یوگی، ساکشی مہاراج، پرگیہ ٹھاکر اور کپل مشرا برسوں سے دہراتے آئے ہیں۔ ایک مسلم لیڈر جب یہی زبان بولے تو وہ آر ایس ایس کے لیے سب سے بڑا سرٹیفکیٹ بن جاتا ہے کہ ”دیکھو، خود مسلمان بھی مان رہے ہیں“۔ اس بیان پر نہ تو بی جے پی نے تنقید کی، نہ میڈیا نے شور مچایا، نہ ای ڈی نے نوٹس بھیجا۔ اس سے بڑا ثبوت کیا چاہیے کہ یہ بیان آر ایس ایس کے ایجنڈے تک رسائی کا راستہ تھا؟ ہر جلسے میں اویسی صاحب کہتے ہیں ”مسلمانوں کو ڈرنا نہیں چاہیے، ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے“۔ یہ سننے میں اچھا لگتا ہے مگر عملی طور پر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ غصے میں بھرے نوجوان سوشل میڈیا پر گالیاں دیتے ہیں، ہندووں سے نفرت کرتے ہیں، مین اسٹریم سیاست سے الگجھ جاتے ہیں اور آخر میں یا تو جیل پہنچ جاتے ہیں یا پھر کوئی انتہا پسند تنظیم انہیں اپنا لیتا ہے۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو کل کو کانگریس، سماج وادی پارٹی یا TMC کو ووٹ دے سکتے تھے۔ آج وہ اویسی کے پیچھے لگ کر بی جے پی کو بالواسطہ فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ جب بھی کوئی مسلم یونیورسٹی، مدرسہ یا ویلفیئر ادارہ ای ڈی-سی بی آئی کے نشانے پر آتا ہے، اویسی صاحب خاموش تماشائی بن جاتے ہیں یا پھر کہتے ہیں ”قانون اپنا کام کرے گا“۔ جبکہ اعظم خان، مختار انصاری، ڈاکٹر کفیل خان، عمر خالد، شرجیل امام جیسے لوگ جیلوں میں ہیں، تب بھی AIMIM کی طرف سے کوئی بڑا احتجاج یا قانونی مدد کا پروگرام نظر نہیں آتا۔ اس خاموشی کی قیمت کیا ہے؟ وہ خود محفوظ ہیں، ایجنسیاں ان کے دروازے پر دستک نہیں دیتیں۔
اویسی اب آر ایس ایس کے سب سے قیمتی اثاثہ بن چکے ہیںآر ایس ایس کو ایک ایسے مسلم چہرے کی ضرورت تھی جومسلم ووٹ تقسیم کرے۔ مسلم نوجوانوں کو مین اسٹریم سے الگ کرے۔ مسلم اداروں اور لیڈروں کو بدنام کرنے میں مدد دے۔ خود کبھی ای ڈی-سی بی آئی کے نشانے پر نہ آئے۔اسدالدین اویسی اس ساری فہرست کو پورا کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو اب سمجھنا ہو گا کہ جو قیادت آر ایس ایس کے بیانیے کو آگے بڑھائے، جو مسلم ووٹ تقسیم کر کے بی جے پی کو فائدہ پہنچائے، جو مدرسوں اور مسلم اداروں کو بدنام کرنے میں خاموش تماشائی بن جائے، وہ قیادت دوست نہیں، سب سے بڑا دشمن ہے۔ ملی تنظیموں، علمائ، دانشوروں اور نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اویسی صاحب سے وہی فاصلہ رکھیں جو وہ نریندر مودی، یوگی آدتیہ ناتھ یا امت شاہ سے رکھتے ہیں۔ انہیں سیاست کرنے دیجیے، مگر اپنا کندھا، اپنی تنظیم اور اپنا پلیٹ فارم ہرگز نہ دیجیے کہ وہ اس پر کھڑے ہو کر آر ایس ایس کی بندوق چلائیں۔ کیونکہ آخر میں نقصان صرف اور صرف امت کا ہو رہا ہے، اور فائدہ آر ایس ایس کا۔سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔

