عدالت کی اجازت کے بغیر ملزمین کی کلکتہ سے باہر جانے پر پابندی
کلکتہ (پی ایم ڈبلیو نیوز)گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ نے عمر قید کی سزا کاٹ رہے دو مسلم ملزمین کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے تھے اور ٹرائل کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ ضمانت کی شرائط طے کرے۔سپریم کورٹ کا حکم نامہ لیکر ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے پہلے علی پور سینٹرل جیل حکام سے ملاقات اور پھر ٹرائل کورٹ میں عرضداشت داخل کرکے عدالت سے ضمانت کی شرائط طے کرنے کی گذارش کی ۔عرضداشت کی سماعت کے بعد ٹرائل کورٹ نے ضمانت کی شرائط طے کردی جس کے مطابق پچاس ہزار روپئے کے مچلکہ اور دو ضامن دار وںکے عوض ملزمین کو ضمانت پررہا کیا جاسکتا ہے ، عدالت نے ملزمین پر مزید شرائط عائد کی ہیں جس کے مطابق ملزمین تلجلا پولس اسٹیشن کی حدود سے باہر نہیں جاسکتے نیز ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو انہیں تلجلا پولس اسٹیشن میں حاضری لگانا ہوگی۔اسی کے ساتھ ساتھ ملزمین کو اپنے پاسپورٹ بھی پولس اسٹیشن میں جمع کرنے ہوں گے۔ملزمین نور محمد عبدالمالک انصاری (ممبئی، مہاراشٹر) اور جلال ملا رشید ملا (مغربی پرگنہ ، مغربی بنگال) کو قانونی امداد جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) نے فراہم کی ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ابھئے ایس اوکا اور جسٹس پنکج متل نے گذشتہ 6؍ نومبر کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے تھے۔ نچلی عدالت کے شرائط کی تکمیل کے بعد ہی ملزمین کی جیل سے رہائی ہوگی،ملزمین گذشتہ اٹھارہ سالوں سے زائد عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہیں ۔ ملزمین کے اہل خانہ ٹرائل کورٹ کی شرائط کی روشنی میں ضامن داروں کا بندوبست کررہے ہیں، ضامن داروں کا بندوبست ہوجانے اور دیگر دستاویزات تیار ہوتے ہی نچلی عدالت سے دوبارہ رجوع کیا جائے گا۔ ملزمین پر الزام ہے کہ انہوں نے 23؍جولائی 2001ء کو مغربی بنگال کے شہر کولکاتہ کی مشہور جوتے کی کمپنی کے مالک روئے برمن کو اغواء کرنے والے معاملے میں ملوث تھے نیز اغواء سے حاصل ہونے والی رقم کو انہوں نے کولکاتہ امریکن سینٹر پر حملہ میں استعمال کیا تھا۔نچلی عدالت سے ملزمین کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی جس کے بعد کولکاتہ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی ، ایک جانب جہاں کولکاتہ ہائی کورٹ نے اپیل سماعت کے لیئے قبول کرلی وہیں ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں مسترد کرد ی تھی لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور ہونے کے بعد اب ملزمین کی رہائی ممکن ہوپائے گی، سپریم کورٹ کے حکم کا فائدہ دیگر ملزمین کو بھی ملنے کی امید ہے۔ واضح رہے کہ اس مقدمہ میں پولس نے پہلے 22؍ لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا جس میں سے 17؍ ملزمین باعزت بری ہوئے تھے اور بقیہ پانچ ملزمین کو 21؍ مئی 2009ء عمر قید کی سزا ہوئی تھی لیکن مقدمہ ختم ہوجانے کے بعد پولس نے آٹھ دیگر ملزمین کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف تعزیزات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا جن کے خلاف 65؍ سرکاری گواہوں نے گواہی دی جس کے بعد علی پور جیل میں قائم خصوصی عدالت نے انہیں بھی عمر قید کی سزا سنا دی جس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا ۔