از : مولانا محمد نعمان رضا علیمی، بنارس
ہندوستان کی ترقی انصاف کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ معاشرتی انصاف، سماجی ہم آہنگی اور فسادات کی روک تھام ہی ہندوستان کی ترقی کی ضامن ہے۔ کوئی بھی ملک اس وقت ہی حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ کہلا سکتا ہے جب وہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔ عوام کی جان و مال اور عزت محفوظ ہوتی ہے۔ جہاں عوام کو حق بات کہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے، وہ بلا خوف و خطر آزادی سے زندگی گزارتے ہیں۔ عوام کو یہ یقین ہو کہ کوئی بھی ان پر ظلم کرے گا تو اس سے اس کا حساب لیا جائے گا۔ قانون پر عمل کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ عدلیہ سے انصاف ملے گا۔ پولس ایمانداری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دے گی، جانچ ایجنسیاں تعصب سے کام نہیں لیں گی۔ ظالموں اور مجرموں کو آئندہ ظلم اور جبر کرنے کی جرات نہیں ہوسکے گی۔ اقلیت اور اکثریت کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی، نسل، ذات، علاقہ اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر معاشرے میں نا انصافی کا دور دورہ ہوگا، عدالتوں میں انصاف نہیں ہوگا، ججز انصاف کرنے کے بجائے فیصلہ سنانے لگیں گے،پولس اور انتظامیہ اقلیتوں اور کمزوروں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کریں گی، اقلیت اور اکثریت کے درمیان امتیاز برتا جائے گا۔ ذات، نسل، نسب، علاقہ اور مذہب کے نام پر کسی کو کمتر سمجھا جائے گا تو ملک تمام برائیوں کا گڑھ بن جائے گا۔ ہر طرف انارکی پھیل جائے گی، غریبوں اور کمزوروں کا جینا مشکل ہوجائے گا، سماج افراتفری اور تباہی کا شکار ہوجائے گا۔ کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں ہوگی۔ معاشرہ میں امن وسکون مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ جب کسی ملک میں یہ بات آجائے کہ عام آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو اور کوئی بڑا آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو تو اس ملک کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے۔ اگر ملک عدل و انصاف سے عاری ہو تو وہ حقیقی ملک نہیں ہو سکتا بلکہ ظلم و جبر اور دہشت و درندگی کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ آج ہمارے ہندوستان میں، انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ عدل و انصاف اٹھ چکا ہے، نظامِ عدل کو زنگ لگ چکا ہے، نہ حکمران عادل رہے، نہ قاضی عادل رہے، نہ معاشرے کا عام فرد اس عدل و انصاف کے پیمانے پر قائم رہا۔ جس کی وجہ سے ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ عمومی طور پر جس کو جہاں کچھ طاقت حاصل ہوتی ہے، وہ وہاں ظلم اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے بہت سارے مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔آئیے ایک مثال کے طور پر ہم اپنے ملک کے معاشی عدل کا جائزہ لیتے ہیں ملک کا معاشی عدل یہ ہے کہ جس روز پٹرول کی قیمتیں بڑھیں پٹرول پمپوں پر موجود پٹرول جو سابقہ نرخوں پر خریدا گیا تھا۔ سابقہ نرخوں پر بیچا جاتا مگر پورے ہندوستان میں ایک پٹرول پمپ بھی ایسا نہیں جس کے مالکان نے یہ معاشی عدل کیا ہو۔ اگر آج قیمتیں کم ہو جائیں تو وہ سٹاک میں موجود تیل کی قیمت کم نہیں کریں گے۔ دوسری طرف قیمتوں میں اضافہ کے اعلان کے ساتھ قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ یہ ہمیں ہر چیز میں دیکھنے کو ملتا ہے۔کوئی عہدے کی بنا پر عدل سے ہٹ جاتا ہے، کوئی اپنی چودھراہٹ کی بنا پر عدل سے ہٹ جاتا ہے، کوئی سیاست داں ہے تو اسے یہ زعم عدل وانصاف پر قائم رہنے نہیں دیتا، کسی کے پاس وزارت ہے، کسی کے پاس مال ہے، کسی کے پاس تعلقات ہیں، اور ان چیزوں کی وجہ سے انسان مغرور ہو کر دوسروں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ اور یہ بھول جاتا ہے کہ ایک ایسی طاقت موجود ہے، ایک ایسی ذات موجود ہے، جو سب طاقتوں سے بڑھ کر ہے، جس کے سامنے ساری مخلوق کا جاہ وجلال، رعب و دبدبہ ہیچ ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا، اور وہ ذات جب کسی کو اس کے ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے پکڑتی ہے تو پھر مہلت نہیں دیتی۔عدل و انصاف ہی سے انسانی زندگی کا لطف حاصل ہوتا ہے، ورنہ اس کے بغیر معاشرہ دہشت و درندگی کا مرکز بن جاتا ہے۔ انصاف کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے، جو انسان کو دنیا و آخرت کی بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے جہاں اخلاقی اور معاشرتی احکام کو بیان فرمایا ہے وہیں عدل و انصاف کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے: ’’اور جب لوگوں کا (خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں) تصفیہ (فیصلہ) کیا کرو تو عدل سے تصفیہ کیا کرو۔‘‘ (سورۃ النساء، آیت نمبر:۸۵)ہمارا مذہب، ہر ہر فرد کو، چاہے وہ حاکم ہو، پھر حاکمِ اعلیٰ سے لے کر اس شخص تک جو ایک یا دو افراد کا ذمہ دار ہو، ہر ایک کو عدل کا حکم دیتا ہے۔ اور عدل و انصاف زندگی کے ہر ہر شعبہ میں مقصود ہے، چاہے گواہی کی صورت ہو، تقسیم کی صورت ہو، گفتگو کی صورت ہو، فیصلے کی صورت ہو یا اس کے علاوہ۔انصاف کے بغیر کسی بھی ملک میں خوشحالی، امن و سلامتی کا قیام جہالت اور غربت کا خاتمہ ممکن نہیں دنیا میں کوئی ایسا ملک موجود نہیں جس نے انصاف کے بغیر ترقی حاصل کی ہو۔ اقلیت اور اکثریت کے درمیان تفریق پیدا کرکے ملک ترقی یافتہ بن گیا ہو۔ ذات، نسل، نسب، زبان اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے کے باجود اس ملک میں خوشحالی آئی ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔ خوشحالی، ترقی، ہم آہنگی، امن وآشتی، غربت کے خاتمہ، علم کے فروغ اور دنیا کے طاقتور ممالک کی صفوں میں شامل ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہاں ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اقلیت، مذہب، نسل اور ذات کی بنیاد پر ذرہ برابر بھی تفریق نہ برتی جائے۔آج ہمارے ہاں عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور ہر طرف ظلم و تعدی کا بازار گرم ہے۔ اگر ہم اپنی قوم کا استحکام اور بقا چاہتے ہیں تو ہمیں صحیح نظام عدل پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ ورنہ ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی۔
ہندوستان کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب اکرام انسانیت کے مشن کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، انسانوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی، ہر ایک کو عزت اور عظمت دی جائے گی، کسی کو بھی اس کی نسل، ذات، علاقہ، زبان، رنگ اور مذہب کی بنیاد پر کمتر، حقیر اور گھٹیا نہیں گردانا جائے گا کیوں کہ وہ انسان ہے اور بطور انسان سبھی برابر ہیں، یکساں حقوق کے حقدار ہیں اور یہی تحریک اور مشن ملک کو ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار نبھاتے ہیں اس لئے مذکورہ تمام امور پر عمل ضروری ہے تبھی ہمارا ملک ترقی یافتہ بن سکتا ہے۔