نئی دہلی (نیوز ریلیز) تلنگانہ کی سرزمین لگ بھگ پندرہ سالوں سے اور خاص طور سے راجدھانی حیدر آباد آزادی کے بعد سے غلامی اور عوام اسیری و بے بسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ لیکن کانگریس کی قیادت نے تلنگانہ اور خاص طور سے حیدر آباد سے پیشہ ور مجرموں کو اور تلنگانہ سرکار کی حمایت میں بیٹھے غنڈوں کو سبق سکھانے کا دعوی کیا تھا۔ جو عوام کو پسند آیا اور خاص طور سے حیدر آباد کے عوام نے یہ گمان کیا کہ آزادی کے بعد پہلی بار اگر غنڈہ گردی سے پاک وصاف آب وہوا میں سانس لینے کا موقع مل رہا ہے تو ہمیں حمایت کرنی چاہئے۔ بدعنوانی کا سہارا لے کر حیدر آبادی مافیاﺅں نے اپنی زمین تو بچا لی، مگر تلنگانہ سے غنڈوں کی حمایت والی سرکار ختم ہو گئی۔ اب جب کہ کانگریس کی حکومت تلنگانہ میں بن چکی ہے تو یقین یہی کیا جا رہا ہے کہ ایک ایک کرکے خاطی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور ان سے تمام پرانے حساب چکتا کئے جائیں گے جوپیشہ ور مجرموں نے اپنے آقاﺅں کے شہہ پر کئے تھے، اور آمدن کرکے اپنے آقاﺅں کو بھی خوش کیا گیا تھا اور خود بھی اپنی جیبیں بھری تھیں۔ انہیں پیشہ ورمجرموں میں سے ایک تلنگانہ کے وقف جائیداد معاملوں پر براجمان خواجہ معین الدین نامی شخص بڑے پرتپاک انداز میں راج کر رہا ہے۔ جسے ہزار کرائم کے باوجود اس کے آقاﺅں اور تلنگانہ سرکار کی حمایت حاصل تھی۔ خواجہ معین الدین وقف جائیداد معاملوں کا آفیسر رہنے سے پہلے حیدر آباد ٹریفک پولس کمشنر ہوا کرتا تھا جہاں سے بدعنوانی اور منی لاڈرنگ کے جرم میں سبکدوش کیا گیاتھا، لیکن اپنے آقاﺅں کی سیاسی طاقت اور تلنگانہ حکومت کی کرمنل پالیسی کے تحت اسے اور اونچا درجہ فراہم کر کے وقف جائیداد معاملوں کا عہدیدار منتخب کردیا گیا۔
پیشہ ور مجرم خواجہ معین الدین جو فی الوقت تلنگانہ وقف زمین معاملوں کا آفیسر بنا ہوا ہے اس کے جرائم تو ہزار ہیں لیکن موجودہ کانگریس سرکار کو آئینہ دکھانے کے لئے محض چند ایک کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ جس میں سے خواجہ معین الدین نامی شخص کے بدعنوانی کا ایک معاملہ ہیرا جویلرس کے بنجارہ ہل واقع بنگلہ نمبر 8-2-293-82 روڈ نمبر 86حیدر آباد ہے۔ جس پر خواجہ معین الدین نے اس وقت قبضہ کرلیا اور فرضی کاغذات بنا لئے جب اس بنگلہ کے مالکان دیگر مقامات پرعدالتی کارروائی میں مصروف تھے، وہاں پر موجود سیکورٹی گارڈ کو مار کر بھگا دیا گیا اور بنگلہ میں پڑے جویلریز اور نقدی روپئے اپنے دوستوں کے ساتھ تقسیم کرلیا گیا۔ ان سارے معاملے کی شہادت کے لئے انہی میں سے کچھ اس کے خاطی دوستوں نے ویڈیو بنا لیا اور بعد میں جرم کے کھلنے کے ڈر سے مختلف جگہوں پر پیش کیا۔ مجرم شبیہ خواجہ معین الدین کے خلاف 14.06.2021 کو ایف آئی آر درج کرایا گیا ۔ اپنے معاملات سے فرصت پانے کے بعد ہیرا جویلرس کے کارکنان نے جب بنگلہ کا جائزہ لیا تو وہاں پر قبضہ پا کر پولس ہلپ لائن کو فون کیا ۔ لیکن خواجہ معین الدین اپنے سیاسی آقاﺅں کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نہ وہاں سے نکلا اور نہ ہی ایف آئی آر درج ہو پائی۔ گھنٹوںدرجنوں بار بنگلہ کے سامنے سے فون کرنے کے باوجود پولس مدد نہ پہنچی۔
کچھ اس طرح کے کرائم تلنگانہ اور خاص طور سے حیدر آباد کی نس نس میں سرایت کر گئے ہیں۔ عوام سب کچھ دیکھ اور سن کر خاموش اس لئے ہے کہ وہاں کے حکومت میں براجمان لوکل لیڈران کی غنڈہ گردی کے زد میں وہ بھی نہ آجائیں۔ کیونکہ حیدر آباد کی سڑکوں پر دن دہاڑے قتل، اور زمین مافیا کو نت نئے خالی پلاٹوں کے قبضے اور ہزاروں وقف زمینوں پر ذاتی قبضہ ایک عام بات ہو گئی ہے۔ حکومتی طاقت کے شہہ زوروں پر انتظامیہ بھی انہی لوکل لیڈران کا ساتھ دیتی ہے۔ عوام کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ نصف صدی سے اب تک وہاں کی حکومت میں ان کا حصہ داری ہوا کرتا تھا۔ اب جب کہ حکومت کی تبدیلی عمل میں آئی ہے تو ایک ایک کرکے معاملے سامنے آرہے ہیں اور امید یہی لگائی جا رہی ہے کہ کانگریس سرکار جو کہ یہ دعوی کرکے حکومت پر براجمان ہوئی ہے کہ خاطیوں، مجرموں اور بدعنوان آفیسران اور انتظامیہ کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ لہذا اب وقت ہے کہ کانگریس اپنے وعدے کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے سب سے پہلے ان خاطیوں پر شکنجہ کسے جو سرکاری حمایت سے بڑی جرئت مندی کے ساتھ جرم کرتے اور دھڑلے سے پھرا کرتے تھے۔ خواجہ معین الدین جیسے وقف زمینوں کے معاملے پر بیٹھا کرمنل جلد سے جلد عہدے سے سبکدوش ہونا چاہئے ، اور حکومت کو طے کرنا چاہئے کہ مجرم شبیہ افراد کہاں تک اپنے آقاﺅں کی حمایت سے بدعنوانی میں ملوث ہوکر ریاست تلنگانہ کو کھوکھلا بنا چکے ہیں اور خاص طور سے حیدر آباد میں جرم کو پرورش دے رہے ہیں۔
Related posts
Click to comment