مشاورت کے صدرنے فیروز احمد ایڈوکیٹ نے این ڈی ایم سی کو خط لکھا، اس کی کارروائی کی سخت مذمت کی،نوٹس کوغیرقانونی بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی کہا
نئی دہلی(پی ایم ڈبلیو نیوز) بھارتیہ مسلمانوں کے ممتاز وفاقی ادارہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے نئی دہلی کی تاریخی سنہری مسجدکے تعلق سے این ڈی ایم سی کو خط لکھ کر اس کی کارروائی کی پرزور مذمت کی ہے۔ صدر مشاورت جناب فیروز احمد ایڈوکیٹ کے دستخط سے این ڈی ایم سی کو بھیجے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اس تاریخی مسجداور قومی و ثقافتی ورثہ کے ہٹانے یا منہدم کرنے کی سازش کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے جس کو نئی دہلی کی تعمیر کے وقت اوردارالحکومت کولکاتہ سے نئی دہلی منتقل کرنے کے دوران برٹش نو آبادیاتی نظام نے بھی نہیں چھوا۔این ڈی ایم سی کے چیف آرکیٹکٹ کو لکھے گئے مکتوب میں کہاگیا ہے کہ سنہری مسجد تاریخی ورثہ ہے، وقف بورڈ کے زیر انتظام ہے، اس کو ہیری ٹیج کمیٹی یا کسی اور محکمہ کے مشورے سے منتقل یا منہدم نہیں کیا جاسکتا ہے، گاڑیوں کی آمدورفت منظم کرنے کی آڑ میںاس قومی ورثہ کومنہدم کرنے کی این ڈی ایم سی کی تجویز متعدد وجوہات کی بنا پر نہ صرف مسائل پیدا کرنے والی ہے بلکہ دہلی میں صدیوں سے قائم اسلامی ورثے کو مٹانے کی مذموم سوچ کا نتیجہ اور ملک کے آئین و قانون پر اس کا حملہ ہے۔مشاورت نے اپنے 9 نکاتی مکتوب میں این ڈی ایم سی کے ارادے کی خلاف آئین و قانون بنیادوں کو گنانے اور ان کی توضیح کرنے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ناقابل قبول نوٹس کو فی الفور واپس لے۔مکتوب کا متن حسب ذیل ہے:
یہ ’ٹائمز آف انڈیا‘، نئی دہلی میں مورخہ 24.12.2023 کو شائع ہونے والے آپ کے عوامی نوٹس کا جواب ہے جس میں ادیوگ بھون سے متصل رفیع مارگ نئی دہلی کے چوراہے پر گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم کرنے اور وہاں واقع تاریخی سنہری باغ مسجد کو ہٹانے کے بارے میں اعتراضات اور مشورے طلب کیے گئے ہیں اور نوٹس کے جوابات دینے کے لیے صرف 8 دن یعنی یکم جنوری 2024 کی شام تک کا وقت دیا گیا ہے:
(1) ملک کی ممتاز مسلم تنظیموں اور افراد کا وفاق’’ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت‘‘ جو 1964سے قائم ہے، این ڈی ایم سی اور/ یا دیگر تمام محکموں کے اس اقدام کی پرزورمذمت کرتا ہے جن کی باتوں پر این ڈی ایم سی گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم کرنے کے بہانے سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنا چاہتی ہے۔
(2)مذکورہ سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنے کی این ڈی ایم سی کی تجویز نہ صرف کئی وجوہات کی بنامسائل پیدا کرنے والی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے دہلی میںصدیوں سے قائم اسلامی ورثے کی نشانیوں کو مٹانے کی خودغرضانہ سوچ کانتیجہ ہے۔
(3)این ڈی ایم سی کے ذریعے سنہری باغ مسجد کو ہٹانے کے ارادے کا پبلک نوٹس دہلی وقفہ بورڈ کی ہائی کورٹ میں پیش کردہ عرضی کو نمٹانے کے صرف 5 دن بعد مورخہ 18 دسمبر 2023 کو جاری کیا گیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے ڈبلیو پی سی سی 8950/2023 اور سی ایم اے پی پی ایل 34086/203 میں مسجد کے انہدام کے تعلق سے این ڈی ایم سی کی طرف سے واضح یقین دہانی کے بعد ہی داخل دفتر کیا ہے کہ کونسل قانونی پوزیشن کی خلاف ورزی نہیں کریگی اور اب جس رفتار سے این ڈی ایم سی نے معزز عدالت کو اپنی یقین دہانی کے ایک ہفتہ کے اندر نوٹس جاری کیا ہے، وہ شرانگیز قدم ہے اور اسے قانونی ابہام کے ساتھ جاری کیا گیا ہے جس کا مقصد سنہری باغ مسجد کے انہدام کو قانونی رنگ دینا ہے۔
(4) سنہری باغ مسجد نہ صرف ایم ڈی سی کے ذریعے کنزرویشن کمیٹی کے مشورے پرنوٹیفائڈ ہیریٹیج سائٹ (تاریخی ورثہ) ہے بلکہ یہ ایک وقف جائیدادبھی ہے جس کا انتظام دہلی وقف بورڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے جودہلی کی حکومت(خطہ قومی راجدھانی)کا ایک خودمختارادارہ ہے اور یہ عملی طور پرایک مسجد ہے۔ صدیوں تک اور یہاں تک کہ برٹش حکومت کے نوآبادیاتی دور میں بھی جب لٹین دہلی تعمیر کی گئی اور دارالحکومت کوکلکتہ سے نئی دہلی منتقل کیاگیا، اسے چھوا نہیں گیا۔
(5)وقف املاک کے ناطے،مذکورہ سنہری باغ مسجد کو ہیریٹیج کمیٹی کے فیصلے کے ذریعے بھی منتقل یا منہدم نہیں کیا جاسکتا۔پارلیمنٹ کے ذریعے نافذالعمل وقف ایکٹ 1995 کی روسے وقف املاک کو فروخت، لیز یاتبادلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے این ڈی ایم سی ایکٹ 1994 کے تحت جاری کردہ محولہ بالا ن پبلک نوٹس سنہری باغ مسجد کے معاملے میں بلاجوازو غیرمتعلق ہے۔
(6)یہ معاندانہ فیصلہ عبادت گاہ (خصوصی انتظامات) ایکٹ 1991 کے التزامات کے منافی بھی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
(7) مذکورہ قابل اعتراض عوامی نوٹس جوتاریخی سنہری باغ مسجد کو ہٹانے/مسمارکرنے کے ارادے کا اعلان کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے،نہ صرف مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق پراین ڈی ایم سی کا حملہ ہے بلکہ یہ ملک کے آئین کی دفعہ 29 کی خلاف ورزی بھی ہے جو شہریوں کو اپنے ثقافت کے تحفظ اور اس کی حفاظت کے حقوق دیتا ہے۔
(8) یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لٹین دہلی میں اور بھی بہت سے چکر(چواراہے) ہیں جو روزانہ کے معمول کے ٹریفک کے بہاؤکے لیے رکاوٹ بنتے ہیں، سب سے اہم کرشی بھون اور جن پتھ-موتی لال نہرو مارگ اور تغلق روڈ-اکبر روڈ کے آس پاس کے گول چکرہیں۔ حیرت انگیز طور پر ٹریفک کو منظم کرنے یا ان چکروں کے دائرے کو مختصر کرنے کے فیصلوں کا فقدان این ڈی ایم سی اور دیگر محکموں کے اصل مقاصد کو واضح طور پر بے نقاب کرتا ہے جن کے مشورے پر تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کے ارادہ کی رفتارتیز کی جا رہی ہے۔
(9) این ڈی ایم سی کو یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ تاریخی سنہری باغ مسجد نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ یہ آزادی کے رہنماؤں اور سب سے اہم مولانا حسرت موہانی کی میٹنگوں کا مرکز تھا جنھوں نے تحریک آزادی کو تیز کرنے کے لیے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ دیا اور 1921 میں پہلی بار کانگریس کے احمد آباد اجلاس میں ’’مکمل آزادی‘‘ کی قرارداد پیش کی۔
نکات بالا کی روشنی میں،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کیاین ڈی ایم سی کے ارادے کوسختی سینامنظور کرتا ہے اور اس بدبختانہ نوٹس کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔