پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
چند ایام پہلے پڑوسی ملک ہندوستان کی وزیر برائے اقلیتی امور اسمرتی ایرانی نے ایک سرکاری وفد کے ساتھ جدہ حج وعمرہ سے متعلق ایک کانفرنس میں پہونچیں اور ہندوستانی مسلمانوں کے سفر حج کو کیسے مریح اور آسان بنایا جائے اس پر غور وخوض کرنے کے لئے انہوں نے مدینہ منورہ اور بعض دیگر مقدس مقامات کی بھی ہندوستانی حج کمیٹی کے عملے کے ساتھ زیارت کی اور کچھ ہوٹل وغیرہ کا جائزہ لیا جن میں حجاج کرام ٹھہرتے ہیں ۔
سرکاری وفد کی زیارت کا واقعہ سرخیوں میں ہے اور برصغیر کے کچھ نام نہاد مسلمان جو سعودی عرب کی توحید پرستی سے ہمیشہ نالا رہتے ہیں اور سبائی ٹولے کے بعض نا عاقبت اندیش تحریکی، سنگھی، اور اخوانی اس زیارت سے سعودی عرب اور وہاں کے معزز حکام اور مؤقر علماء اور مستند مفتیان و دعاۃ پر انگشت نمائی کرتے نظر آرہے ہیں ان سب نےمسئلہ کی حقیقت اور اسکی شرعی حیثیت سمجھے بغیر سعودی عرب پر یلغار کا میڈیائی توپ خانہ کھول دیا ہے ۔
بعض لوگ ناجائز تو بعض جائز کے قائل ہیں۔ بعض لوگ سعودی عرب اور اس کے دونوں مقدس شہر مکہ و مدینہ کے احکام میں تفریق کرتے ہیں۔ اور بعض لوگ حرم مکی اور حرم مدنی میں غیر مسلموں کے داخلے کے الگ الگ احکام بیان کرتے ہیں۔
پہلے تو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دین اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اس دین میں کوئی جبر و تشدد نہیں ہے دین اسلام کے اصول و ضوابط احکام و قوانین ہر صاحب بصیرت پر عیاں ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی اور دین اسلام کی حسین تعلیمات کی نشر واشاعت بھی مملکت سعودی عرب کے بلد امین مکہ مکرمہ سے شروع ہوئی۔ تبلیغ اسلام کے راستے میں دشمنان اسلام کی ہرزہ سرائیوں اور یاوہ گوئیوں سے تنگ آکر آپ کو مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کرنا پڑا پہر آپ نے اپنی دعوتی مصروفیات کو مدینہ منورہ سے رواں دواں رکھا۔
تیسری بات: مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہے اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی لیکن دونوں مسجدوں کی الگ الگ اہمیت اور فضیلت ہے دونوں کے احکام اور مسائل جدا جدا ہیں۔
مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ کے حدود ہیں جہاں مسلمانوں کے علاوہ کفار کا داخلہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ممنوع ہے۔ مدینہ منورہ میں موجود مسجد نبوی کے بھی حدود ہیں اور اس کے حرم میں کفار کا داخلہ بشرط اجازت حکومت اور مصلحت و ضرورت کے معینہ وقت کے لئے جائز اور درست ہے۔ جس پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سمیت جمہور فقہاء کا اتفاق ہے۔(الموسوعة الفقهية الكويتيه:٢٠٥/١٧)
حافظ ابن رجب رحمه الله نے فرمایا: جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ولید بن عبد الملک کے زمانہ حکومت میں مسجد نبوی کی تعمیر و اصلاح کے لئے نصرانی مزدوروں کو اجرت پر مقرر کیا تھا۔ (فتح الباری: ١١/ ١٨٣)
ابن قدامة رحمه الله نے فرمایا: غیر مسلمین کے لئے بغرض تجارت وغیرہ سرزمین حجاز میں آمد و رفت جائز اور درست ہے ، خلیفہ دوم امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں غیر مسلم مدینہ منورہ بغرض تجارت آتے تھے۔ (المغنی : ٩ / ٣٥٩)
علامه ابن عثيمين رحمه الله نے فرمایا : حرم مکی میں مشرکین داخل نہیں ہوسکتے جبکہ حرم مدنی میں داخل ہوسکتے ہیں۔ (مجموع فتاوی و رسائل العثیمین : ٢٢/ ٢٤٠)
اسی طرح صحیح بخاری کی روایت کے مطابق امیر یمامہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی کے ستونوں میں باندھا جانا (صحیح بخاری: ٤٣٧٢) اور مسند احمد بن حنبل کی روایت کے مطابق جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے صحابي رسول جناب جبير بن مطعم كا حالت شرک مغرب کی نماز سے قبل مسجد میں داخل ہونا (مسند احمد: ١٦٩٦٦) اسی طرح نجران سے نصاری کا وفد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مباھلہ کے لئے مدینہ آنا یہودیوں کے بعض قبائل بنو قریظہ بنو قینقاع اور بنو نضیر وغیرہ کا مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کرنا نیز عہد صدیقی، عہد فاروقی، عہد عثمانی، حتی کہ چوتھے خلیفہ جناب علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک کے ابتدائی ایام میں مدینہ منورہ کے دار الخلافة برقرار رہنے کی مدت تک وفود اور سفراء کا مدینہ آمد و رفت وغیرہ اس بات کے بین ثبوت ہیں کہ غیر مسلمین تجارت، اور ضرورت کے وقت امن اور صلح کی حالت میں مدینہ منورہ میں داخل ہوسکتے ہیں البتہ وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے سے اسلامی تعلیمات میں منع ہے۔
لیکن افسوس ہوتا ہے روافض، صوفیوں، تحریکیوں، اور سنگھیوں کے ہفوات پر کہ پیش آمدہ مسائل کو شریعت کی کسوٹی پر تولنے کے علاوہ عقلی گھوڑے دوڑانا شروع کر دیتے ہیں اور مملکت سعودی عرب کے تقریبا تمام مسائل میں انہیں خامیاں نظر آتی ہیں۔ ہوس کے پجاریوں کو سمجھنا چاہئے کہ سعودی عرب کے اندر بڑے اور مستند علماء کی ایک باوقار کمیٹی ہے جس کے ممبران مملکت سعودی عرب کے چیدہ اور چنیدہ علماء ہیں۔ وقت اور حالات کے متعلق پیش آمدہ مسائل کی تعلیم و تبلیغ کے لئے فتوی کمیٹی ہے۔ مساجد میں ائمہ ہیں۔ ہر چہار جانب اہل علم اور علم کی کرنیں ہیں۔ قرآن و سنت مملکت سعودی عرب کا اپنا دستور ہے توحید اور امن وسلامتی، اخوت و بھائی چارہ، یکجہتی اور خیر سگالی، وحدت و الفت اور یگانگت آپسی ہم آہنگی کا فروغ ان کا مشن ہے۔ ایسے میں بلاجواز کے کوئی اپنی مرضی سے غیروں کو مسجد نبوی میں داخل کیسے ہونے دے گا۔؟!!!
رب العالمین ہمیں کتاب وسنت کی تعلیمات کو سمجھنے اور عمل کی توفیق دے۔ مملکت سعودی عرب اور اس کے معزز حکام و باشندگان کو حاسدین اور شر پسندوں کی شر سے مامون اور محفوظ رکھے ۔ آمین