ڈاکٹر شہاب الدین مدنی
ہندوستانی وزیر برائے اقلیتی امور محترمہ اسمرتی ایرانی نے اپنے ہمراہ ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے مدینہ منورہ جیسی مقدس سرزمین کا دورہ کیا ہے ۔ یہ دورہ بہت معنی خیز اور پر تاثیر ہے ۔ بلکہ یہ پروگرام جس کسی نے بھی ترتیب دیا ہے مبارکباد کا مستحق ہے ۔ کیونکہ ملکوں کے درمیان اس طرح کی سرگرمی ہر زاویہ سے خیر کا باعث ہوتی ہے جسے بحسن و خوبی جاری رکھنی چاہیے ۔ پھر مخصوص لوگوں کے ساتھ خیرسگالی کا ایسا پروگرام جہاں تک ممکن ہو وہاں تک ان کی رسائی کروانی چاہئے ۔ اس سے متعلق مختلف دینی سیاحتی مقامات کی زیارت کا باقاعدہ پروگرام شیڈول ہونا چاہئے ، اور گاہے بہ گاہے سیاسی وفد کا پرزور استقبال ہونا چاہیے ۔
دیکھا گیا ہے بہت سے سیاسی رہنما ایسے ہوتے ہیں جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر رواداری اور پر امن بقائے باہمی کے لئے بڑے کردار ادا کرسکتے ہیں جنہیں ہماری طرف سے کوئی خاطر خواہ صلہ نہیں ملتا ہے ، اسلامی حکومتوں کو چاہئے کہ اس جانب خاص توجہ دیکر ایسے افراد کی ہمت افزائی کے لئے عالمی سطح کا تفریحی و سیاسی پروگرام ترتیب دیں ۔ انہیں حکومتی اخراجات پر شرکت کے مواقع فراہم کریں ۔ کہ ان اقدام سے بڑھتی منافرت اور ملکی کشیدگی کو بریک لگے گی ۔
محترمہ اسمرتی ایرانی صاحبہ ہندوستان کی ایک بڑی پارٹی بی جے پی کی مقبول رہنما ہیں، اور وزیراعظم ہند کی محبوب نظر ہیں اور حکومت میں بھی ان کا بہت اثر و رسوخ ہے ۔ لہذا ایسی شخصیت کا مقدس سرزمین کی زیارت کرانا خیر سگالی کا باعث ہوسکتا ہے اور مزید بہتری کا پیش خیمہ بھی ۔ واضح رہے اس سمت ایک عرصہ سے خلا محسوس کیا جارہا تھا اور آپسی تال میل کا فقدان نظر آرہا تھا جبکہ اسلام نے ایسی محبت کی تعلیمات کو عام کردیا ہے ۔ مفاہمت کی ترغیب دی ہے اور امن وآشتی کو ہمیشہ ترجیح میں رکھا ہے.
مزید یہ کہ اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کا جو بھی کارآمد ذریعہ ہو سکتا ہے اس کا مختلف پہلو سے جائزہ لے کر مثبت انداز میں دعوتی امور کا استعمال کیا جانا چاہئے، خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی پیہم کوشش ہونی چاہئے، اسلامی ملکوں کے سفارتخانے اس تعلق سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ انہیں حالات سے واقفیت ہوتی رہتی ہے وہ اپنے تعلقات استعمال کرکے مناسب اقدامات کرسکتے ہیں اور سب کو ادراک ہے ”جبلت النفوس علی حب من أحسن إلیہا“ اس لئے تاریخی ثقافتی سیاحتی اور تعارفی جو بھی پروگرام ممکن ہو اسے ترتیب دیا جائے اور مسلمانوں کے لئے پلکیں بچھانے والے افراد کو مدعو کیا جائے ۔ اس سلسلہ میں دیگر عام افراد کو بھی شرکت کے لئے مدعو کیا جاسکتا ہے مگر ترجیحات میں خاص اشخاص ہوں تو بہتر ہے ۔ ہم مسلمانوں کا مقصدِ زندگی اسلامی دعوت وتعليمات سے اوروں کو واقفیت کرانا ہے، ہمیں تو سبھی مواقع کو غنیمت جاننا چاہئے اور اس طرح کے وفد کا باوقار استقبال ہونا چاہئے ، اسے اسلامی ثقافت وشناخت سے روشناس کرایا جائے، اللہ تعالیٰ کب کس کو ہدایت دے دے کوئی نہیں جانتا.
کچھ لوگ دلیل پر مبنی گفتگو کی بجائے جذباتی گفتگو کرتے ہیں اور اپنے اپنے ملک کے سیاسی زاویہ سے اسے دیکھتے ہیں ، بلکہ بعضےاپنے اندر کے بغض وحسد کو ظاہر کرکے لوگوں کو خواہ مخواہ کی بحث میں الجھاتے ہیں ۔ اسی طرح محترمہ اسمرتی ایرانی کی مدینہ منورہ آمد کو معمہ بناتے ہوئے سعودی عرب کے فرمانروا کو گالیاں دیتے ہیں ۔ حالانکہ دلیل کی روشنی میں کافر کا مدینہ میں داخل ہونا ہرگز منع نہیں ہے، امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب أحکام أھل الذمۃ میں لکھا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ نجران کے عیسائیوں کو آپ نے اپنی مسجد میں ٹھہرایا تھا اور جب ان کی نماز کا وقت ہوا تو اسی مسجد میں انہوں نے اپنی نماز ادا کی. یہ واقعہ عام الوفود کا ہے.
ثمامہ بن أثال رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے سے پہلے مسجد کے ستون سے باندھا گیا تھا، ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں تشریف لے گئے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل ایک مجوسی غلام ابو لؤ لؤ تھا اور یہ واقعہ مدینہ میں پیش آیا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرہ بہ وقت وفات ایک یہودی کے پاس گروی رکھا ہوا تھا، دو زنا کرنے والے یہودی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونے اور رجم سے متعلق دریافت والا واقعہ بھی اس کی دلیل ہے، بہت سے غیر اسلامی وفد کا ورود بھی مدینہ میں ہوا کرتا تھا.
ان روایات وواقعات سے بخوبی واقف رہنے والا سمجھ سکتا ہے کہ کافر مدینہ میں داخل ہو سکتا ہے یا نہیں.
بلکہ موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں اس اختلاف سے اوپر اٹھ کر ہمیں مسلمانوں کی فکر دامن گیر ہونی چاہئے، ان کی سلامتی کے لئے فکرمند رہنا چاہئے، ساتھ ہی اسلامی دعوت کو دیگر اقوام و افراد تک کیسے پہنچایا جائے اس کے لئے حکمت عملی اور منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے، مثبت طرز عمل سے مؤثر انداز میں دعوتی کاز کو عام کرنا ہوگا . اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک جذبہ کے ساتھ آپسی حسن سلوک اور صالح عمل کی توفیق عطا فرمائے. آمین