Articles مضامین

سفر معراج انسانیت کے لیے عروج کی راہ ہموار کرتا ہے

ڈاکٹر سراج الدین ندوی


دور جدید سائنسی ایجادات کا دور ہے۔سائنس کے ذریعہ انسان نے محیرالعقول ایجادات کی ہیں۔قدیم دور کے سفر کی داستان سنتے ہیں تو اندازہ ہوتاہے کہ اس زمانے کے انسان نے کس قدر تکالیف برداشت کی ہوں گی۔پیدل میلوں کا سفر کرنا،جانوروں پر سفر کرنا،کتنا دشوار تھا،ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مہینوں لگ جاتے تھے۔پھر کچھ آسانیاں پیدا ہوئیں تو سمندر میں کشتیاں چلائی گئیں،انجن ایجاد ہوا تو موٹر گاڑیوں کو وجود عطا ہوا،کچھ قدم اور چلے تو ریل کا تحفہ ملا اور سفر میں بہت سی آسانیاں میسر آئیں۔مہینوں کا سفر دنوں میں طے ہونے لگا۔اس کے بعد انسان ہواؤں میں اڑنے لگا اور دنوں کو گھنٹوں میں طے کرنے لگا۔یہ تمام ایجادات مشیت الٰہی سے وجود میں آئیں۔جب جب ضرورت ہوئی اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کی اور کارخانہ قدرت نے ایسے اسباب بہم پہنچائے جس کے ذریعہ انسان نے سفر کی بہت سی دشواریوں پر قابو پالیا۔آج انسان نے مزید ترقی کی اور راکٹ ایجاد کیا جس کے ذریعہ وہ خلاؤں میں پہنچ گیا۔چند ماہ پہلے بھارت کا چندریان کامیابی کے ساتھ چاند پر پہنچا۔یہ تمام ایجادات انسانیت کے لیے بیش قیمت انعام ہیں۔ابھی انسان کو اور آگے بڑھنا ہے۔اس لیے کہ انسان کے عروج کا سفر ابھی ادھورا ہے۔اس کی منزل چرخ نیلی فام سے پرے ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو آسمان کی انتہا تک پہنچا کر انسان کی حد پروا زمتعین فرمادی ہے۔
سفر معراج کی جو تفصیلات کتب احادیث میں ملتی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی ؓکے یہاں آرام فرمارہے تھے کہ آپ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے بیدار کیا گیا اور کعبہ میں لایا گیا۔یہاں آپ کے سینہ اطہر کو چاک کرکے آب زم زم سے غسل دیا گیا۔اس کے بعد ایک تیز رفتار سواری پر آپؐ سوار ہوئے اور بیت المقدس پہنچے،یہاں تمام انبیاء موجود تھے،آپ ؐنے ان کی امامت فرمائی۔پھر آپ ؐکا سفر آسمان کی جانب شروع ہوا۔مختلف آسمانوں پر آپ کی مختلف انبیاء سے ملاقاتیں ہوئیں۔ایک مقام پر جاکر حضرت جبرائیلؑ رک گئے اور آپؐ کو آگے تشریف لے جانے کا اشارہ کیا۔آپؐ آگے بڑھے تو التحیات کی صدا آئی،گویا آپ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔یہاں آپ کو نماز کی فرضیت کے بارے میں بتایا گیا۔جنت دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا۔اس کے بعد واپس حضرت ام ہانیؓ کے مکان پر آپؐ کی آرام گاہ میں چھوڑ دیا گیا۔
نبی اکرم ﷺ کا سفر معراج انسانوں کو بلندی پر پہنچنے کے لیے ایک اشارہ خداوندی ہے۔انسان کو آسمان کی اونچائیا چھونے کے لیے مہمیز کرتا ہے۔آج سے پندرہ سو سال پہلے اللہ نے اپنے نبی ؐ کو مکہ سے سدرۃ المنتہیٰ تک بلا کر نہ صرف اپنے پیغمبر کو اعزاز بخشاتھا بلکہ اس نے پورے انسانی گروہ کو عزت و سربلندی عطا کی تھی۔جس طرح حضرت آدم ؑ کے سامنے فرشتوں نے سجدہ کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا کے بعد اگر کسی کے پاس طاقت و عزت ہے تو وہ انسان ہے،اس کا مقام اللہ کی جملہ مخلوقات سے بلند ہے،ٹھیک اسی طرح حضرت محمد ﷺ کو معراج پر بلا کر اسی اعلان کا اعادہ کیا گیا کہ جہاں انسان پہنچ سکتا ہے وہاں کوئی دوسری مخلوق نہیں پہنچ سکتی۔سفر معراج میں ایک مقام پر جاکر حضرت جبریل ؑ کا نبی ﷺ سے یہ عرض کرنا کہ حضور آگے آپؐ تشریف لے جائیں،میں وہاں نہیں جاسکتا،میری حد پرواز یہیں تک ہے،دراصل اس بات کا اقرار و اثبات تھا کہ انسان کا مقام فرشتوں سے بھی آگے ہے۔
سفر معراج کی حقیقت پر بہت سے نام نہاد دانشوروں نے سوالات اٹھائے ہیں۔لیکن چندریان کے چاند پر پہنچنے کے واقعہ نے ان نے ان کے اعتراضات کو باطل کر دیا ہے۔جب آج کا انسان چاند تک رسائی حاصل کرسکتا ہے،خواہ اس نے وہاں مشینیں ہی بھیجی ہوں،آپ کہہ سکتے ہیں کہ چندریان کے ساتھ کوئی انسان نہیں تھا اس کے باوجود کسی مشن کا چاند تک پہنچنا اور اس سے پہلے آرم اسٹرانگ کا چاند پر قدم رکھنا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ پیغمبر آخرالزماں کومعراج ہوئی تھی۔قرآن یہ نہیں کہتا کہ حضرت محمد ﷺ نے یہ سفر کیا،وہ از خود آسمان پر گئے بلکہ وہ کہتا ہے کہ ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی‘‘۔اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو لے گیا۔جب کسی کام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے تو اس میں ناممکنات کا امکان نہیں رہتا۔آرم اسٹرانگ کے چاند پر قدم رکھنے اور چندریان کے کامیاب ہونے پر تو انگلی اٹھائی جاسکتی ہے کیوں کہ ان کی نسبت انسانوں کی طرف ہے ،لیکن نبی ﷺ کے سفر معراج پر شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔بہر حال سفر معراج سے انسان کو عروج حاصل ہوا، فرشتوں سے آگے تک اس کی رسائی ہوئی،اس کے سر پر عزت و سربلندی کا تاج باندھا گیا۔
سفر معراج کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کو مختلف مناظر دکھائے گئے تھے جس کے بعض مناظر میں لوگوں کو سزائیں دی جارہی تھیں۔یہ اس لیے تھا کہ آپ ؐ اپنی امت کو ان گناہوں سے باز رہنے کی تلقین فرمائیں۔انسان کا مقام بلند اگر افلاک کی بلندی ہے تو اس کی پستی کی انتہا تحت الثریٰ ہے۔یہ انسان کے اپنے اوپر ہے کہ وہ خود کو کس مقام کے لیے تیار کرتا ہے۔اللہ کا بندہ بن کر آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہے یا اس کا باغی بن کر دوز خ کا ایندھن بنتا ہے۔
یہ سوال بھی پیدا ہونا لازمی ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو معراج پر کیوں بلایا ؟وہ کیا مقاصد تھے جن کے تحت یہ سفر ہوا ؟بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ چونکہ طائف میں آپ کو نہایت تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیے آپ کی دل جوئی مقصود تھی ۔مگر قرآن میں اس سفر کا جو مقصد بیان ہوا ہے وہ یہ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِیٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ اٰیَاتِنَا اِنَّہ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (الاسراء ،1)
’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔کچھ ایسی چیزیں جو عام انسانوں کے لیے پردہ غیب میں تھیں ان کا اپنے نبی کو مشاہدہ کرانا چاہتا تھا اس لیے اس نے یہ سفر کرایا۔کوئی بھی حکومت جب کسی کو اپنا نمائندہ مقرر کرتی ہے اور کسی علاقہ میں بھیجتی ہے تو اسے کچھ اہم رازوں سے آشنا کرتی ہے۔وہ چیزیں جو ایک عام انسان کے لیے غیب کا درجہ رکھتی ہیں،مثال کے طور پر جنت کی آسائشیں اور دوزخ کی تکالیف ہم سب کے لیے غیب کا درجہ رکھتی ہیں۔ہمیں صرف زبانی معلومات ہیں۔ہم نے انھیں اپنے ماتھے کی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔جب کسی واقعہ کے ہم چشم دید گواہ نہیں ہوتے تو ہم اس کو بیان کرتے وقت کہیں نہ کہیں تردد کا شکار رہتے ہیں،اور جب اس کا مشاہدہ کرلیتے ہیں تو یقین کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو بعض غیوب کا مشاہدہ کرایا تاکہ رسولؐ اپنی امت کو جو بات بتائے اس میں کامل درجہ کا یقین موجود ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سفر معراج پر سوالات اٹھانے کے بجائے ہم اس پیغام کو سمجھیں جو اس واقعہ سے ہمیں ملتا ہے۔وہ پیغام یہ ہے کہ انسان کا مقام مخلوقات عالم میں سب سے بلند ہے۔انسان کو تسخیر کائنات کی قوت عطا کی گئی ہے۔اس مقام بلند کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ کام نہ کریں جو ہمیں پستی کی طرف لے جانے والے ہوں۔انسان بن کر حیوانیت کے کام کرنا خود کو اس مقام بلند سے نیچے گرا دینا ہے۔آج کے انسان کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ بیشتر انسانوں نے اپنا مقام بلند گنوا دیا ہے۔

Related posts

نہ جانے کیا کمی رہ گئی ہمارے اخلاق میں صاحب

Paigam Madre Watan

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان لوگوں کی قربانی نہیں ہوتی ہے !

Paigam Madre Watan

How can the foe of Allah and His Messenger dare to show even a hint of sympathy towards Muslims

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar