Articles مضامین

گنگا کنارے خانقاہ منعمیہ کے دوارے

قیام الدین قاسمی سیتامڑھی
پٹنہ میں ایم اے انگلش کا امتحان دینے سلطان گنج آیا ہوا تھا تو خواہش ہوئی کہ کیوں نہ خانقاہ منعمیہ کا بھی دورہ کرلیا جائے اور مولانا شمیم احمد منعمی صاحب سجادہ نشیں خانقاہ منعمیہ سے ملاقات کی جائے، جب سلطان گنج سے خانقاہ کی جانب روانہ ہوا تو راستہ گنگا کنارے تھا، بے حد خوش نما منظر دکھائی دیا، بالکل ساحل سمندر والی فیلنگ آرہی تھی، کاش ٹورزم اور سیاحت کا فروغ سرکار کی ترجیحات میں شامل ہوتا تو معیشت کی ترقی میں اس کا ایک اہم کردار ہوتا، بہرحال گھاٹ پر پہلے سے زیادہ رونق نظر آئی، اور ایسا محسوس ہوا کہ اس جانب پیش رفت کا آغاز ہوچکا ہے۔
خانقاہ بالکل لبِ گنگا واقع ہے، داخل ہوا تو مولانا شمیم احمد منعمی صاحب اپنے اندازِ دلبرانہ میں خطاب فرما رہے تھے، مولانا سے واقفیت پہلی مرتبہ سوشل میڈیا پر یو سی سی کے موضوع پہ اپنے خطبے کے حوالے سے ہوئی تھی، اور ان کی گفتگو بڑی سلیس، سلجھی ہوئی، شستہ اور دانش مندانہ معلوم ہوئی جس کے بعد ان سے ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوگیا تھا، پھر خانقاہ رحمانی میں ان کی آمد ہوئی اور ملاقات ہی نہیں تعارف و تفصیلی گفتگو کا موقع بھی ملا، وہاں معلوم ہوا کہ مولانا صرف خانقاہ کے سجادہ نشیں ہی نہیں بل کہ اورینٹل کالج پٹنہ کے پروفیسر بھی ہیں، مندرجہ ذیل کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں: 1۔ شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی- حیات وخدمات 2۔ تاریخ صوفیاء بہار جلد:اول دوم(اول غیر مطبوعہ) 3۔ مخدوم جہاں جیون اور سندیش( ہندی) 4 ہندوستان کے صوفیاء اور عربی زبان میں ان کی خدمات( غیر مطبوعہ) باقی اب تک بتیس کتابوں پر تقدیم و تحقیق کا کام بھی کرچکے ہیں، اور ایک کتاب پر تحقیق کرتے ہوئے ان کو رات میں معلوم ہوا کہ اس تحقیق کا مرجع کتاب صرف خانقاہ رحمانی میں موجود ہے صبح ہوکر گاڑی لے کر نکل گئے، میں تو حیران و ششدر رہ گیا کہ اس زمانے میں بھی کتابوں کے ایسے رَسِیا اور باذوق احباب موجود ہیں؟ وہ بھی کسی خانقاہ کے پیر کے تئیں اس قسم کا شوق میرے لیے کسی الف لیلوی داستان سے کم نہ تھا، بے حد دلی مسرت ہوئی اور دعا نکلی کہ اللہ ایسے باذوق افراد کو سلامت رکھے اور ان جیسوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ فرمائے۔
جمعہ کے بعد ملاقات ہوئی، حضرت نے دیکھتے ہی پہچان لیا، مصافحہ و معانقہ سے شرف یابی نصیب ہوئی، پھر اپنے بازو میں بٹھاکر ظہرانہ کرایا، دسترخوان پر پھر ان کے آفس میں مسلکی ہم آہنگی کو لے کر گفتگو ہوئی کہ مسلمانوں کو اب یہ سمجھنا پڑے گا کہ مسلک مسلک کھیل کر ہم اپنی ہی ناؤ میں سوراخ کررہے ہیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ پہلے علما میں مسلکی تعصب زیادہ تھا عوام میں کم لیکن اب دھیرے دھیرے علما کے درمیان کم ہوتا جارہا ہے اور عوام میں شدت بڑھ رہی ہے جس پر سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض کی ضرورت ہے، اور برملا کہا کہ ہم بریلوی نہیں خانقاہی ہیں، ساڑھے تین سو سال پرانی خانقاہ کو دیڑھ دو سو سال پرانے مسلک بریلویت سے انتساب کی کوئی تک نہیں بنتی، اور اسی وجہ سے یہاں نہ فجر کے بعد سلام پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی جمعہ کے بعد سلام پڑھا گیا جو کہ مسلک بریلویت کا طغرائے امتیاز سمجھاجاتا ہے۔
اس کے بعد آفس میں مولانا نے نائب صدر مدرس مفتی محب اللہ مصباحی صاحب کو بلایا ان سے تعارف کرایا کہ مفتی قیام الدین صاحب قدیم و جدید کا حسین سنگم ہیں، مفتی بھی ہیں، انگریزی داں بھی ہیں اور پروجیکٹ مینیجر بھی ہیں، انہیں خانقاہ گھما لائیے، مفتی صاحب نے پورے خانقاہ کا دورہ کرایا، مسجد تقریباً ساڑھے تین سو سال پرانی ہے جسے ملا بدیع الدین عالم گیری معروف بہ ملا میتن نے عہد شاہجہاں میں قائم کیا تھا، اور پھر قطب دوراں مولانا منعم پاک نے 1162 ہجری بمطابق 1748کے قریب اسے اپنا آستانہ بنایا، اس کا تہ خانہ متصوفین کے مراقبے اور خشوع و خضوع کے لیے نیز قرآن کی تلاوت کے لیے بہت موزوں معلوم ہوا، خانقاہ کا رقبہ کافی لمبا چوڑا ہے الحمدللہ، صرف خانقاہ نہیں بل کہ یہاں مدرسہ بھی، اسکول بھی ہے، دارالافتاء بھی ہے، شفا خانہ بھی ہے، لائبریری بھی ہے الحمدللہ، خانقاہ کی جن خصوصیات کا میں نے مشاہدہ کیا وہ درج ذیل تھیں:
1 خانقاہ تو عوامی ہوا کرتی ہے لیکن یہاں تقریباً آدھے ایک کلومیٹر تک مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے اس کے باوجود جمعہ میں نمازیوں کے ایک جم غفیر کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اللہ نے اس خانقاہ اور سجادہ نشیں کی محبت کس قدر لوگوں کے دلوں میں پیوست کردی ہے۔
2 یہاں کا شفاخانہ بھی عوامی ہے جہاں روزانہ 120 لوگوں کا چیک اپ ہوتا ہے وہ بھی صرف دس روپے کی رعایتی فیس پر
3 یہاں کی عظیم الشان لائبریری بھی عوامی ہے، اولا تو یہ کہ مولانا کتابوں کے اتنے دل دادہ ہیں کہ بیس سے پچیس اصحاب خیر حضرات نے اپنی پوری زندگی میں جمع کیا ہوا ذخیرۂ کتب ان کی لائبریری کو ہدیہ کردیا ہے، 32000 کے قریب مطبوعات اور 1000 مخطوطات یہاں موجود ہیں، ثانیا یہ لائبریری صرف مدرسے کے طلبا کے لیے مخصوص نہیں بلکہ 80 ٹیبل کرسیاں لگی ہوئی ہیں جہاں باہر سے مختلف اسکولوں کالجوں میں پڑھ رہے طلبا اور مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کرنے والے مساہمین جوق در جوق اس لائبریری میں آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کے مطلب کی ساری کتابیں یہاں مہیا کی گئی ہیں تاکہ وسائل کی کمی کی بنا پر کتابیں نہ خریدپانے والا نوجوان، اپنا مستقبل، تاب ناک بنانے سے محروم نہ رہ سکے، اس بات پر مجھے اس خانقاہ سے قلبی لگاؤ محسوس ہوا۔
مفتی محب اللہ صاحب مصباحی نے تقریباً آدھا پون گھنٹہ پورے خانقاہ کا دیدار کرایا، آڈیٹوریم کی خوب صورتی دیکھ کر بندہ دم بخود رہ گیا، گھومتے ہوئے مختلف موضوعات پر گفتگو بھی جاری رہی ، ان سے بات چیت کرکے ذرہ برابر بھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم دو الگ الگ مسلک کے ماننے والے ہیں، ایک وقت تھا جب شاید مصافحہ کرنا بھی نکاح ٹوننے کے مترادف گردانا جاتا تھا اور آج وہ خیر والا زمانہ ہم نے پایا کہ ہمارا مسلکی اختلاف ہمارے تعلقات و محبت میں دڑار کا سبب نہ بن سکا فللہ الحمد علی ذلک، بڑی خوش اخلاقی و ملن ساری سے پیش آئے، ہم نے بھی انہیں خانقاہ رحمانی تشریف لانے کی دعوت دی، مفتی صاحب نے بتایا کہ جامعہ رحمانی خانقاہ کے استاذ مولانا وسیم صاحب ایران کے سفر میں ہمارے ساتھ تھے انہوں نے بھی دعوت دی تھی لیکن اب آپ سے ملاقات ہوگئی تو خانقاہ کی زیارت کا مزید شوق پیدا ہوگیا ہے، ان شاءاللہ جلد ہی خانقاہ حاضری ہوگی۔
آفس میں پھر مولانا کے سامنے اپنی کتاب "امت کی مجموعی ترقی کا لائحۂ عمل” (فہرست کے مطالعے اور آرڈر کے لیے واٹس ایپ کریں 7070552322) پیش کی تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کتاب کا ٹائٹل اور عنوان ہی اتنا دل چسپ اور فکر انگیز ہے کہ امت کی ترقی سے دل چسپی رکھنے والا ہر کہ و مہ اس کو پڑھنے پر مجبور ہو جائے، میں نے بھی شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ آپ پہلے شخص ہیں جنہیں میں نے کتاب ہدیہ کی ہے صرف اس لیے کہ آپ باذوق قاری و مصنف ہیں، مولانا نے کہا یہ آپ کا حسنِ ظن ہے لیکن ہم اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی ضرور کریں گے ان شاءاللہ، اور پھر گاڑی پر بیٹھتے وقت مفتی محب اللہ صاحب نے مولانا منعمی صاحب کی جانب سے ایک لفافہ چپکے سے پیش کیا، امارت آکر دیکھا تو الحمدللہ کتاب میں مرقوم پورے 550 روپے لفافے میں موجود تھے اور یوں ہمارا پٹنہ سے مونگیر تک کے پٹرول کا انتظام ہوگیا الحمدللہ، فجزاہ اللہ خیرا۔
رخصت ہوتے وقت ہم نے مولانا سے گزارش کی کہ خانقاہ میں موجود بلڈنگس کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جہاں بہت سے ٹریننگ کورسز کروائے جاسکتے ہیں، اور قوم کے نوجوانوں کی ترقی کا ایک بڑا کام یہاں سے انجام دیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس زمانے میں شہر میں انفراسٹرکچر و عمارتیں کھڑی کرنا تو دور زمین خریدنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسے میں اللہ نے نہ صرف آپ کو اتنے بڑے رقبے بل کہ کئی خوبصورت و دیدہ زیب عمارتوں سے بھی نوازا ہے تو اس کا فائدہ اٹھایا جائے اور کئی سارے ووکیشنل کورسز ہیں جو بڑی ہی عمدگی کے ساتھ یہاں انجام دئیے جاسکتے ہیں تو مولانا نے فرمایا بالکل ہم ہمہ وقت اس کے لیے تیار ہیں، آپ آکر یہاں کچھ دن قیام کریں اور پورا نظام مرتب کردیں ان شاءاللہ آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ رہے گا یہ، دعا کریں اللہ ہمارا یہ منتھن امت کے بندھن کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنائے۔
آخری بات یہ کہ کئی بار جب کچھ لوگوں کے سامنے مولانا کا تذکرہ کیا تو ان کی برائیاں کرنے لگے کہ یہ نتیش کے بہت قریبی ہیں، نیتاؤں سے قریب رہ کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ، مگر میرا تجربہ اس کے بالکل برعکس تھا، میں تو ان سے بطور خطیب و محقق متعارف ہوا تھا اور جب ملا تو انہیں امت کے لئے مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے فکر مند و دردمند پایا، علم و تحقیق کا جویا پایا، اور امت کی تقویت و ترقی اور مادی و سیاسی منافع اگر نیتاؤں کی قربت سے حاصل کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ مولانا نے کیا پھر تو ہم بھی رب کریم سے ایسی قربت کی دعا مانگتے ہیں، پتہ نہیں کیوں لوگ کسی کی ایک دو خود مزعومہ کمیوں کی بنا پر اس کی ساری خوبیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں، اسی لیے میرے ہم عصروں اور نئی نسل کو میرا مشورہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اگر کسی بڑے ذمہ دار و قائد کے تعلق سے آپ کے ذہن کو خراب کرنے کی کوشش کریں اور دماغ میں بھوسا بھرنے کی کوشش کرے تو کہ دیجئے کہ بھائی آپ اپنی سنی سنائی باتیں اپنے پاس رکھئے، ہم کسی کی تعریف پر تو یقین کریں گے لیکن کسی کی کمیوں پر اس وقت تک اعتماد نہیں کریں گے جب تک کہ ہم خود مشاہدہ و تجربہ نہ کرلیں، یقین جانیں اس طریقے کو اپنا کر غیبت و چغلی و حسد جیسی کئی بیماریوں اور کبیرہ گناہوں سے اپنی زندگی کو پاک کیا جاسکتا ہے، نیز کما تدین تُدان، جب آپ دوسروں کے ساتھ یہ رویہ اختیار کریں گے تو آپ کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا جائے گا ان شاءاللہ کہ آپ کی خامیوں سے صرف نظر کر لوگ آپ کی خوبیوں کا تذکرہ کریں گے اور اس سے استفادہ کریں گے کیوں کہ کوئی انسان خامیوں سے خالی نہیں۔

Related posts

ملٹی میڈیا موبائل اوقات ضائع کرنے کا سب سے بڑا آلہ ہے: مفتی تقی عثمانی

Paigam Madre Watan

جی ہاں، میں فلسطین ہوں

Paigam Madre Watan

مولانا شمس الدین سلفی کا کتاب ”ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کا دور “ پر تبصرہ

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar