تحریر : خواجہ احمد حسین
سب اس بات سے واقف نہیں ہونگے کہ عظیمؔ انصاری نے اپنی ادبی دنیا آپ بنائی ہے۔ آغاز سے گھریلو الجھنیں در پیش نہ آئی ہوتیں تو یہ ادیب و شاعر آج سے چالیس برس قبل ہی آسمان ادب کا روشن ستارا ہوا ہوتا، اس کا اظہار کلیم حاذق جیسے قد آور ناقد وادیب نے بھی محسوس کیا تبھی تو کہہ ڈالا کہ’’ عظیمؔ انصاری نامساعد حالات میں بھی ادب و شاعری کا چراغ جلا رکھا ہے‘‘۔ ان کا یہ جملہ بھی عظیم ؔانصاری کی ادبی حیثیت کے اعتراف کے لئے کافی ہے کہ’’عظیم ؔ انصاری ،مغربی بنگال کے ان سنجیدہ اور معدود چند فنکاروں میں ہیں جو اپنی شاعری، تنقید و تبصرے اور بنگلہ کہانیوں کے اردو تراجم کی پیش کش کی وجہ سے پورے ادبی دنیا میں ادب و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں‘‘۔ کلیم حاذق صاحب کے اس مستند الفاظ کے بعدہمیں نہیں لگتا کہ اب مزید کسی کی سند کی ضرورت ہے۔ عظیم انصاری کی خاکسار ی کا راقم خواجہ احمد حسین برسوں سے قائل ہے۔ زمانہ ٔ طالب علمی سے واقف ہوں ان سے۔ جگتدل میں ہمارے ماموں پروفیسر وحید عرشی کے دوست تھے ڈاکٹر محمد مستقیم مرحوم۔ بہت نیک انسان تھے گھریلو رشتہ تھا ان سے ہمارا۔ عظیمؔ انصاری اور ڈاکٹر صاحب دونوں ھمارے گھر اکثر آتے۔ وحید عرشی اس زمانے میں ڈاکٹر شاھد اختر، خلش امتیازی اور عظیم انصاری کو بہت عزیز رکھتے تھے ۔اس طرح ان لوگوں سے ہمارا رشتہ بھی گہرا ہوگیا۔ آج یہ تینوں بنگال اردو ادب میں محتاجِ تعارف نہیں۔ خیر، ادب میں مجھے صرف شاعری سے ہی شغف رہا۔ اس لئے شاعروں کی بہت عزت کرتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ عظیمؔ انصاری کو بھی پسند کرتا ہوں’’ مدتوں بعد‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ عظیم انصاری کی اس کتاب نے ادبی شخصیات کو بہت متاثر کیا۔ جب دانشوران ِ علم و ادب کی جانب سے داد و تحسین کی بوچھار ہوئی تو حوصلہ بڑھنا تو طے تھا ۔پھر کیا تھا دوسرا دھماکہ کر دیا امبانی کی طرح’’مٹھی میں دنیا‘‘۔ 27/ دسمبر 2023 کی صبح 10بجے خود کتاب لیکر بھانجے کے گھر حاضر ہوگئے بڑا ہی خاکسارانہ انداز تھا کتاب عنایت کرنے کا ۔کتاب دی ۔کتاب کے پہلے ورک پہ اچھا لگا۔ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ دیکھ کر پھر یہ جملہ جو میرے لئے کسی سند سے کم نہ تھا کہ ’’ محبتوں کے ساتھ معروف شاعر و ادیب،ناظم اور مقبول سیاستداں عزیز ی خواجہ احمد حسین کی نذر۔۔۔ عظیم انصاری۔‘‘