از قلم : حکیم محمد شیراز
کتنے اللہ کے بندے ہیں کہ جن کے لئے انہی اوقات میں سب چیزوں کی گنجائش نکل آتی ہے جن اوقات میں لوگ بڑے مصروف ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نور اللہ مرقدہ با وجود ضعف اور پیرانہ سالی کے مغرب کے بعد نوافل میں سوا پارہ پڑھنا یا سنانا اور اس کے بعدآدھ گھنٹہ کھانا وغیرہ ضروریات کے بعد ہندوستان کے قیام میں تقریبا دو سوا دو گھنٹے تراویح میں خرچ ہوتے تھے اور مدینہ پاک کے قیام میں تقریبا تین گھنٹے میں عشاء اور تراویح سے فراغت ہوتی اس کے بعد آپ حسب اختلاف مو سم دو تین گھنٹے آرام فرمانے کے بعد تہجد میں تلاوت فرماتے اور صبح سے نصف گھنٹہ قبل سحر تناول فرماتے۔اس کے بعد صبح کی نماز تک کبھی حفظ تلاوت فرماتے اور کبھی اور ادو ار ووظائف میں مشغول رہتے اسفار یعنی چاندنی میں صبح کی نماز پڑھ کر اشراق تک مراقبہ میں رہتے اور اشراق کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ آرام فرماتے اس کے بعد تقریباًبارہ بجے تک اور گرمیوں میں ایک بجے تک بذل المجہود تحریر فرماتے اور ڈاک وغیرہ ملاحظہ فرما کر جواب لکھواتے۔ اس کے بعد ظہر کی نماز تک آرام فرماتے اور ظہر سے عصر تک تلاوت فرماتے عصر سے مغرب تک تسبیح میں مشغول رہتے اور حاضرین سے بات چیت بھی فرماتے بذل المجہود ختم ہو جانے کے بعد صبح کا کچھ حصہ تلاوت اور کچھ کتب بینی میں صرف کرتے تھے۔ بذل المجہود اور وفاء الوفاء زیادہ تر اس وقت زیر نظر رہتی تھی۔یہ اس پر تھا کہ رمضان المبارک میں معمولات میں کوئی خاص تغیر نہ تھا کہ نوافل کا یہ معمول دائمی تھا اور نوافل مذکورہ کاتمام سال بھی اہتمام رہتا تھا البتہ رکعت کے طول میں رمضان المبارک میں اضافہ ہو جاتا تھا ورنہ جن اکابر کے یہاں رمضان المبارک کے خاص معمولات مستقل تھے ان کا اتباع تو ہر شخص سے نبھنا بھی مشکل ہے۔
حضرت مولانا شیخ الہند رحمۃاللہ علیہ تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے اور یکے بعد دیگرے متفرق حفاظ سے کلام مجید ہی سنتے رہتے تھے اور مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری قدس سرہ کے تو رمضان المبارک کا مہینہ دن و رات تلاوت کا ہی ہوتا تھا کہ ا س میں ڈاک بھی بند اور ملاقات بھی ذرا گوارا نہ تھی بعض مخصوص خدام کو اتنی اجازت ہوتی تھی کہ تراویح کے بعد جتنی دیر حضرت سادی چائے کے ایک دو فنجان نوش فرمائیں اتنی دیر حاضر خدمت ہو جایا کریں۔
اس مہینے کو کلام اللہ شریف سے خاص مناسبت ہے۔اسی وجہ سے عموماً اللہ جل شانہ‘ کی تمام کتابیں اسی ماہ میں نازل ہوئی ہیں چنانچہ قرآن پاک لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر تمام کا تمام اسی ماہ میں نازل ہوا اور وہاں سے حسب موقع تھوڑا تھوڑا تیئس سال کے عرصہ میں نازل ہوا اس کے علاوہ حضرت ابراہیم کے صحیفے اسی ماہ کی یکم یا تین تاریخ کو عطا ہوئے اور حضرت داؤدؑ کو زبور 18 یا 12 رمضان کو ملی اور حضرت موسیٰ کو تورات ۶ رمضان المبارک کو عطا ہوئی اور حضرت عیسیٰ کو انجیل12 یا 13 رمضان المبارک کو ملی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو کلام الٰہی کے ساتھ خاص مناسبت ہے اسی وجہ سے تلاوت کی کثرت اسی مہینہ میں منقول ہے اور مشائخ کا معمول۔الحمدللہ صرف رمضان ا لمبارک کے مہینہ میں پوری دنیا میں جتنا قرآن پاک پڑھا جاتا ہے شاید سال بھر میں بھی انتا نہ پڑھا جاتا ہوگا۔اہل اللہ اور شائقین عبادت کے لئے یہ مقدس مہینہ موسم بہار بن کر آتا ہے، رمضان کا چاند دیکھتے ہی ان کے ذوق وشوق اور نشاط میں بے مثال اضافہ ہوجاتا ہے۔حضرت جبرائیل ہر سال رمضان میں تمام قرآن شریف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے(بخاری شریف) اور بعض روایات میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے تھے۔ علماء نے ان دونوں حدیثوں کے ملانے سے قرآن پاک کو دَور کرنے کا جو عام طور پر رائج ہے استحباب نکالا ہے بالجملہ تلاوت کا خاص اہتمام جتنا بھی ممکن ہو سکے کرے اور جو وقت تلاوت سے بچے اس کو بھی ضائع کرنا مناسب نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی حدیث کے آخر میں چار چیزوں کی طرف خاص طور سے متوجہ کیا ہے اور اس مہینہ میں کلمہ طیبہ اور استغفار اور جنت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کی دعا کی کثرت کا حکم فرمایا اس لئے جتنا بھی وقت مل سکے ان چیزوں میں صرف کرنا سعادت سمجھے۔ امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ
قطب عالم امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کا رمضان المبارک میں مجاہدہ اس قدر بڑھا جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کو رحم آجاتا، ۰۷/ سال کی عمر میں بھی عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر کے روزہ کے بعد اوبین کی بیس رکعتوں میں کم از کم دو پارے تلاوت فرماتے، تروایح بھی نہایت اہتمام اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادا فرماتے، بچے ہوئے وقت میں زبانی تلاوت جاری رہتی، تہجد میں بھی دو ڈھائی گھنٹہ صرف ہوتے، نماز فجر کے بعد اشراق تک وظائف میں مشغول رہتے، دن کے اکثر اوقات بھی تلاوت واذکار اور مراقبہ میں گزرتے تھے، اس میں بھی یومیہ کم از کم 15/ پارے قرآن کریم پڑھنے کا معمول تھا… (اکابر کا رمضان) حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ
حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ نے رمضان المبارک میں سفر حجاز کے دوران ایک ایک پارہ یاد کرکے حفظِ قرآن مکمل فرمایا، پھر بکثرت قرآن پاک کا ورد رکھتے تھے اور تروایح میں بڑی مقدار میں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے… شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ کا رمضان المبارک اور اس کی عبادات میں انہماک زبان زد خاص وعام اور ضرب المثل ہے۔ 42سال تک رمضان المبارک میں روزانہ30، 35 پارے پڑھنے کا معمول تھا، رمضان کی راتیں تدبر کے ساتھ تلاوت کلام پاک میں گزارتے۔ خط وکتابت بالکل بند رہتی، ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بہت کم ہوجاتا،1384ھ سے آپ نے پورے ماہِ مبارک کا اعتکاف فرمانا شروع کیا، آئندہ سالوں میں شائقین ومحبین کی تعداد روز افزوں ہوتی رہی اور یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ اس کی نظیر قریبی بزرگوں کے حالات میں نہیں ملتی۔سہارنپور کے علاوہ آپ نے مدینہ منورہ، فیصل آباد (پاکستان) اور اسٹینگر(جنوبی افریقہ) میں بھی رمضان میں قیام فرمایا۔
آپ کی خانقاہ میں رمضان المبارک کی راتیں دن کا سماں پیش کرتی تھیں۔ بہت لوگ جاگ کر ذکر وتلاوت میں مشغول رہتے اور صبح کی نماز کے بعد آرام کا معمول ہوتا۔ دس بجے کوئی اصلاحی بیان ہوتا، پھر ظہر تک ذکر میں مشغول رہتے تھے۔ عصر کے بعد سلوک وتصوف سے متعلق کتابوں (امداد السلوک اوراکمال الشیم) کی سماعت ہوتی۔ افطار سے 20 منٹ قبل یہ سلسلہ موقوف ہوجاتا، پھر مغرب کے بعد کھانے سے فراغت کے بعد حضرت کی خصوصی مجلس ہوتی۔ تروایح میں تین پارے پڑھے جاتے جس میں ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا، وتر سورۃ یٰسین کے ختم او40 درود شریف پڑھنے کے بعد دعا کا معمول ہوتا۔ حضرت شیخ رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں اعتکاف میں فضول بات چیت اور مجلسی گفتگو سخت ناپسند تھی، اور آپ اپنے معتمد حضرات کے ذریعہ اس پر پوری نگاہ رکھتے تھے اور اگر کسی کی کوتا ہی ظاہر ہوتی تو اس پر نکیر فرماتے تھے۔ (معمولات رمضان وغیرہ)
فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ
فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی مفتی اعظم دار العلوم دیوبند رحمتہ اللہ علیہ کا رمضان دیکھ کر رشک آتا تھا، اس ضعف ونقاہت کے عالم میں بھی عبادت کی ہمت کے ساتھ ادائیگی آپ ہی کا حصہ تھا۔ جب تک طاقت رہی رمضان میں روزانہ تیس پارے پڑھنے کا معمول رہا، اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد کے علاوہ نمازوں کی سنن موکدہ میں طویل قرآت کا اہتمام فرماتے تھے۔ چھتہ کی مسجد دیوبند میں آپ اکثر رمضان میں قیام فرماتے تھے، سالوں سے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمانے کا معمول رہا۔ سینکڑوں متوسلین اس موقع کو غنیمت جان کر آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوتے تھے، مسجد وچھتہ کی رونق رمضان میں دوبالا ہوجاتی تھی۔ بعد میں بنگلہ دیش اور میل وشارم(مدارس) میں بھی قیام فرمایا، جس کا عظیم الشان دینی فائدہ ان علاقوں میں ظاہر ہوا۔
آپ کی خانقاہ میں دن رات تلاوت، ذکر اور مجاہدہ کا سماں رہتا تھا۔ صبح 11سے 12 بجے تک الاعتدال گلدستہ سلام وغیرہ کتابوں کی تعلیم ہوتی۔ظہر سے عصر کے درمیان ختم خواجگان اور ذکر جہری کا معمول تھا۔ عصر کے بعد فضائل رمضان، اکابر کا رمضان اور اکمال الشیم وغیرہ کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔
تروایح میں تین یا کم از کم دو کلام پاک پڑھے جاتے تھے، تہجد کی جماعت کا اہتمام نہیں تھا، لوگ الگ الگ یا دو تین ساتھی مل کر ادا کرتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کثرت سے تلاوت میں مشغول رہتے، ظہر کی اذان ہوتے ہی سنت کی نیت باندھ لیتے اور جماعت کے قریب تک نماز میں تلاوت کرتے رہتے تھے۔ یہی کیفیت ظہر اور عشاء کی سنتوں میں بھی رہتی۔ اسی طرح چاشت کی نماز میں بھی طویل قرآت فرماتے تھے، بالخصوص رمضان المبارک میں آپ کے چہرے پر انوار وبرکات کا ایسا اثر دکھائی دیتا تھا کہ نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں اور اس قدر مسلسل عبادت کے با وجود آپ کے روئے انور سے تکان کا احساس بھی نہ ہوتا تھا۔ اے اللہ! اپنے فضل سے ہمیں بھی ایسا ہی شوق تلاوت وعبادت عطاء فرمادے، آمین۔
حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمتہ اللہ علیہ
عارف باللہ حضرت قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی رحمتہ اللہ علیہ رمضان المبارک کا خاص اہتمام فرماتے تھے، عرص? دراز تک باندہ کی جامع مسجد میں شروع کے دس دنوں میں تروایح میں ایک قرآن پاک سنانے کا معمول رہا۔دوسرے عشرہ میں اپنے اکابر حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود صاحب گنگوہی وغیرہ کی خدمت میں چند یوم قیام کا معمول رہا… اس کے بعد اخیر عشرہ سے پہلے پہلے واپس ہتھورا تشریف لے آتے اور آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تے اور اس اعتکاف کا ایسا التزام تھا کہ فرماتے تھے کہ ۶۱ سال کی عمر کے بعد سے کبھی اعتکاف کا ناغہ نہیں ہوا۔
پہلے یہ اعتکاف ہتھورا کی گاؤں کی مسجد میں ہوتا تھا، بعد میں مدرسہ کی مسجد میں ہونے لگا، اور مجمع بھی آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔
آخری عشرہ میں بھی ۳، ۳ پارے سناکر تروایح میں ایک ختم اور فرمایا کرتے تھے۔ رمضان المبارک کے اکثر اوقات ذکر وفکر اور تلاوت میں گزرتے اور وقت کا ضیاع بالکل پسند نہ فرماتے تھے۔فرماتے تھے رمضان المبارک میں طبعیت تو یہ چاہتی ہے کہ میں ہوں اور کچھ ہم مزاج احباب ہوں، قرآن پاک کی تلاوت ہو اور اس کی یاد ہو لیکن کیا کروں مجبوری ہے ان دنوں اگر کوئی مجھ سے (بلا مقصد) بات کرتا ہو تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے مجھ پر گولی چلادی ہے‘‘… (تذکرۃ الصدیق)
رمضان المبارک میں آپ سحری سے کافی پہلے بیدار ہوکر نوافل تہجد میں مشغول ہوجاتے، پھر سحری کے بعد اول وقت فجر کی نماز ادا کی جاتی، اس کے بعد آپ کا یاکسی مہمان عالم کا اصلاحی بیان ہوتا، اس کے بعد آپ نماز اشراق ادا کرکے آرام فرماتے۔ دس بجے کے قریب بیدار ہوکر نماز چاشت ادا فرماتے اور پھر تلاوت میں مشغول ہوجاتے، اس دوران ضروری ملاقاتوں ور دیگر امور کی تکمیل کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔نماز ظہر سے کچھ پہلے آرام فرماتے، پھر ظہر کے بعد ایک گھنٹہ کے قریب بیان فرماتے، اس کے بعد پھر تلاوت کا سلسلہ شروع ہوجاتا، بہت سے معتکفین چھوٹے چھوٹے تعلیمی حلقے قائم کرکے قرآن مجید کی تصیح اور علمی مذاکرہ میں مشغول رہتے، عصر کے بعد فضائل رمضان کتاب سنائی جاتی پھر ذکر کرنے والے حضرات ذکر میں مشغول رہتے اور حضرت اس وقت دیکھ کر تلاوت فرماتے تھے، اور تروایح
کے بعد زاد السعید سے درود پاک سنانے اور دعا کا معمول تھا، آپ عموماً تروایح کے بعد ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے۔
الحمد للہ وفات کے سال تک یہ معمولات برابر جاری رہا، اور آپ کی طرف سے ہر طرح کے تکلفات سے اجتناب کے باوجود بڑی تعداد میں شائقین سے اکتسابِ فیض کے لئے ہتھورا پہنچتے رہے۔ (تحفہ رمضان) خلاصہ:
بزرگوں کے یہ معمولات اس لئے نہیں لکھے جاتے کہ سرسری نگاہ سے ان کو پڑھ لیا جائے، یا کوئی تفریحی فقرہ ان پر کہہ دیا جائے بلکہ اس لئے ہیں کہ اپنی ہمت کے موافق ان کا اتباع کیا جائے اور حتی الوسع پورا کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ جو لوگ دنیاوی مشاغل سے مجبور نہیں ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ گیارہ مہینے ضائع کر دینے کے بعد ایک مہینہ مر مٹنے کی کوشش کر لیں ملازم پیشہ حضرات جو دس بجے سے چار بجے تک دفتر میں رہنے کے پابند ہیں اگر صبح دس بجے تک کم از کم رمضان المبارک کا مہینہ تلاوت میں خرچ کر دیں تو کیا دقت ہے آخر دنیوی ضروریات کے لئے دفتر کے علاوہ اوقات میں سے وقت نکالا ہی جاتا ہے اور کھیتی کرنے والے تو نہ کسی کے نوکر، نہ اوقات کے تغیر میں ان کو ایسی پابندی کہ اس کو بدل نہ سکیں یا کھیتی پر بٹھے بیٹھے تلاوت نہ کر سکیں اور تاجروں کے لئے تو اس میں کوئی دقت ہی نہیں کہ اس مبارک مہینہ میں دوکان کا وقت تھوڑا سا کم کر دیں یا کم از کم دوکان پر ہی تجارت کے ساتھ تلاوت بھی کرتے رہیں۔
حوالہ جات:
1.اکابر کا رمضان
2.فضائل رمضان