ڈاکٹر علیم خان فلکی
ہر سمجھدار نما شخص ایک ہی رٹ لگا رہا ہے کہ اگر اپنی بقا چاہئے تو کانگریس کو ہی ووٹ دو۔ اِس بارتو خود ووٹ ڈالنے کی ہی نہیں بلکہ ووٹ ڈلوانے کی بھی مہم چِھڑی ہوئی ہے۔ دینی جماعتیں ہوں کہ سماجی تنظیمیں، آٹو ڈرائیور ہوں کہ ڈاکٹر، ساروں کو ہی یہی فکر ہے کہ کانگریس یا انڈیا اتحاد برسرِاقتدار آجائیں گے تو مسلمانوں کی خیر ہے ورنہ نہیں۔ راہل گاندھی پرینکا کے معصوم چہروں اور بے باک تقریروں پر نئے ووٹرز کی نسل اسی طرح فریفتہ ہے جس طرح ہم پرانے ووٹرز کبھی راجیوگاندھی اور اس کے بعد سونیاگاندھی کے چہروں اور بے باک تقریروں پر فریفتہ ہوئے تھے۔ مگر کیا ملا؟ کانگریس کے اِن چہروں کے پیچھے تو وہی دماغ کام کررہے تھے جو آج کے تمام زعفرانیوں کے پیچھے ہیں۔ بابری مسجد کو منہدم کرنیوالے، گجرات کے اصل مجرم کو کلین چِٹ د ینے والے، این آرسی اور سی اے اے کا پہلا بِل لانے والے، ہر ہر دھماکے کے الزام میں مسلمانوں کو دہشت گرد کا لبیل لگانے کی سازش کرنے والے، میسا، پوٹا، یواے پی اے جیسے قوانین لانے والے کون تھے؟ ان کا سرغنہ تو وہی تھا جو زندگی بھر اندراگاندھی اور راجیوگاندھی کی فائیلوں کا بریف کیس پکڑ کر وفادار سکریٹری کی طرح پیچھے پیچھے چلتا تھا۔بی جے پی نے اِن قوانین کو لایا نہیں بلکہ صرف اِن کو فافذ کیا۔ لیکن ہماری مجبوری یہی ہے کہ 75 سال بعد بھی قوم اسی طوائف کی طرح مجبور ہے جس کے اپنے ہی دلال ہیں، جنہوں نے اُسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ دلدل سے نکلنا تو چاہتی ہے لیکن نکل کر جائیگی کہاں؟
75 سال سے میوزیکل چیر کا یہ کھیل کِھلایا جارہا ہے۔ اس پر کبھی زعفرانی بیٹھ جاتے ہیں، کبھی کانگریسی، اگر کوئی دوسرے بیٹھیں بھی تو کھیل کِھلانے والوں کی مرضی کے خلاف چل کر ایک دن بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔فاشسزم کی جو فصل اُگائی جاچکی ہے اس کے زہر کو ختم کرنا اب ناممکن ہے۔ ایسے ہزار راہل گاندھی اور پیدا ہو بھی جائیں تب بھی زعفرانیوں نے جو ایک ایک ہندو کو مسلمانوں سے نفرت اور جنگ میں مبتلا کردیا ہے، اس سے نجات نہیں دلاسکتے۔ آج ہر ہر ڈپارٹمنٹ میں چپراسی سے لے کر اعلیٰ ترین بااختیار سیوکوںکو بٹھادیا گیا، کوئی راہل گاندھی ان کو نہیں ہٹا سکتا، تاوقتکہ یہ مرجائیں اور نئی نسل اس زعفرانی زہر سے پاک ہو۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ بی جے پی ایماندار ہے، جو جراء ت کے ساتھ یہ کہہ رہی ہے کہ اب نہ پارلیمنٹ میں کوئی مسلمان ہوگا اور نہ اسمبلی میں، نہ محکموں کا کوئی ڈائرکٹر مسلمان ہوگا اور نہ میڈیا میں کسی مسلمان کی کوئی مثبت خبر ہوگی۔ ہندو علاقوں کے مسلمانوں پر تو لازم ہے کہ چاہے جس پارٹی کا ہو، وہ ہندو ہو یا دلت، ایس ٹی ہو کہ بی سی، ووٹ اسی کو دینا ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان انہی پارٹیوں کے ٹکٹ پر کھڑا ہوجائے تو کوئی ہندو اس کو ہرگز ووٹ نہیں دے گا۔ خود اس پارٹی کا ہندو اس کو ووٹ نہیں دے گا چاہے وہ مسلمان پارٹی کا کتنا ہی وفادار ممبر کیوں نہ ہو۔ اگر مسلمان اکثریت کے علاقے سے کوئی جیت کر آجائے تو اور بات ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان علاقوں سے ایک ہندو تو جیت کر آسکتا ہے لیکن کانگریس یا کوئی بھی پارٹی ہندو علاقے سے کسی بھی مسلمان کو جِتوا کر نہیں لاسکتی؟
آج جتنی ریاستوں میں کانگریس کی یا دوسری غیر بی جے پی حکومت ہے، وہاں اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ہی نہیں مختلف محکموں کے ڈائرکٹرس کی لِسٹ دیکھ لیجئے، پولیس ، فوج، جوڈیشیری اورتجارت میں دیکھ لیجئے ، وہاں کتنے مسلمانوں کی شرکت ہے۔ اگر ہے بھی تو ایسے مسلمانوں کی جن کا نہ ہونا کہیں زیادہ بہتر تھا۔ وہ بے چارے اپنی عزت، کرسی، اور نیک نامی کی خاطر سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں کی مدد کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی ان پر مسلمان نواز ہونے کا الزام نہ آئے۔ اس لئے مسلمان شیرہوتے ہوئے بھی اب گھاس پر شکرگزار اور قناعت پسند ہوگئے ہیں۔ کہیں قبرستان کی زمین دے کر ان سے ووٹ لیا جاسکتا ہے، کہیں روزگار کے نام پر کچھ آٹو، ٹیکسی دے کر، کہیں شادی مبارک کے نام پر تو کہیں افطار پارٹیوں میں ٹوپی پہن کر ان سے ووٹ لے لیا جاسکتا ہے۔ اور ووٹ دِلوانے والوں کا شعور بھی تو اسی بلندی تک پہنچتا ہے۔
کل تک جن کی تشنہ لبی کو دریا بھی ناکافی تھے
آج وہی اربابِ عزیمت شکرگزارِ شبنم ہیں
ان سب شکایتوں کے باوجود ہم بھی یہی سفارش کرنے پر مجبور ہیں کہ خدارا کانگریس یا انڈیا اتحاد ہی کو ووٹ دیجئے۔ وجہ ایک ہی ہے کہ اب ہم اقتدار میں شریک ہونے کا اعزاز تو حاصل نہیں کرسکتے، یہی کرسکتے ہیں کہ ووٹ انہی کو دیں جو ہمارے ساتھ ذرا کم ناانصافی کریں گے، جو ہمیں جوتے تو لگائیں گے لیکن اِن فاشسٹوں سے تھوڑے کم جوتے لگائیں گے۔ درد تو ہوگا لیکن اتنا زیادہ درد نہیں ہوگا جتنا موجودہ فاشسٹوں کی مار کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ، لاالہ اِلّااللہ کی تسبیح پڑھنے سے منع تو نہیں کریں گے لیکن ’’لا‘‘ پر زور دینے والوں پر ایسے ہی الزامات لگائیں گے جیسے پی ایف آئی پر لگے ہیں۔ گوگوئی جیسے جج تو شائد دوبارہ نہ آئیں لیکن عبدالنظیر جیسے جج تو ضرور رہیں گے۔
ووٹ ایک بار، آخری بار کانگریس کو ضرور دیں ، لیکن اگلے الیکشن تک اپنی اجتماعی طاقت کو پیدا کرنے کا آغاز کرنے کا وقت آچکا ہے۔یہ کس طرح ہوگا یہ تو ہم بعد میں بتائیں گے لیکن اس سے پہلے موجودہ سیاسی لیڈروں کی پوری کھیپ کو اسکراپ کرنا پڑے گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کی قیادت تو شائد تھوڑی بہت کرتے ہیں، لیکن اسلام کی قیادت ان کے نہ بس کی بات ہے اور نہ وہ خود اس کے قائل ہیں۔ مذہبی قیادت جس کے پیچھے ہم صدیوں سے چلتے ہوئے آج یہاں تک آئے ہیں اور سیاسی، دینی، سماجی اور اخلاقی طور پر جہاں پہنچے ہیں، اب اس قیادت کو شکریہ اور خداحافظ کہنے کی ضرورت ہے۔ جمعہ کے خطبوں کے منبروں کو قدامت پسند دین کے ٹھیکیداروں سے خالی کرکے موجودہ حالات کا صحیح شعور رکھنے والے سچے دردمند صحافیوں، اسلام کا شعور رکھنے والے ایجوکیٹیڈ لوگوں، اور دعوت کی صحیح منصوبہ بندی کرنے والے افراد کو ان کی جگہ لانا پڑے گا۔ مذہبی قیادت کو اب دوبارہ امت کی قیادت کا منصب نہیں سونپا جاسکتا۔ سونپا بھی کیسے جاسکتا ہے جب کہ ان لوگوں نے امت کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے کہ اب یہ لوگ اتحاد قائم کریں گے یہ ناممکن ہے۔ کہیں کسی جلسے میں دوچار گھنٹوں کے لئے باہم مل کر اتحاد کے موضوع پر تقریریں کرنے سے اتحاد قیامت تک پیدا ہونے والا نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے؟ جس طرح فاشسٹوں نے اسلام اور مسلمانوںسے جو نفرت ہر ہر غیرمسلم کے ذہن میں بٹھا دی ہے، اس سے کہیں زیادہ توخود ہماری مذہبی قیادت نے مسلمانوں ہی کے ذہنوںمیں بٹھا دی ہے۔ایک فرقہ کے بانی جب یہ کہہ چکے ہیں کہ فلاں فلاںگستاخِ رسول ہیں،ان کے گھر رشتہ کرنا جائز نہیں، اگر وہ لوگ ہماری مسجد میں آجائیں تو مسجد کو دھونا لازمی ہے، اگر یہ لوگ مرجائیں تو ان کو کپڑے میں لپٹ کر دفنا دو، ان کی نمازِ جنازہ جائز نہیں، ایک فرقہ کے اکابرین دوسرے فرقے کے آدمی کے پیچھے نماز کو جائز نہیں کہتے،ایک فرقہ کہتا ہے کہ جو فاطمہ ؓ کے لال کے غم میں ماتم اور سینہ کوبی نہ کرے وہ کافر ہے۔ ایک فرقے کے بانی نے دوزخ کے داروغہ کو تنبیہ کردی ہے کہ وہ اِن کے فرقے کے کسی بھی مرید کو دوزخ میں داخل نہیں کرے گا۔ لہذا اس عقیدے کے حاملین اور مخالفین ایک دوسرے کو کافر، مشرک، بدعتی، اور فاسق وغیرہ سے مخاطب کرتے ہیں۔جب ہر فرقے کے اکابرین نے ذہنوں میں یہ بٹھادیا ہے کہ وہی حقیقت میں 73 واں فرقہ ہیں، باقی اگر کافر نہیں بھی ہیں تو دوسرے تیسرے درجے کے مسلمان ہیں،ہم ہی برحق ہیں اور باقی سارے باطل ہیں، تو ایسی صورت میں یہ سارے قائدین ایک دوسرے سے ظاہری طور پر مل کر جلسوں میں ڈِپلومیسی دکھائیں بھی تو ان کے دلوں میں کیا ہے، یہ ان کے مخالف عقیدے کو لوگوں کو بھی اور خود اِن کے معتقدین کو بھی اچھی طرح معلوم ہے۔ لوگ کہتے ہیںکہ اتحاد کے لئے ہم کو مذہبی، مسلکی اور عقیدوں کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آنا ہوگا۔ اگر ایسا واقعی ہو بھی تو یہ بھی ایک بڑے درجے کی منافقت ہوگی، اسی طرح کی منافقت جس طرح کے آج فاشسٹ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ مسلمان ہمارے بھائی ہیں، اردو ہمارے دیش کی زبان ہے وغیرہ ۔ دلوں میں چھپے ہوئے بلکہ مسلکوں اور عقیدوں کے بانیوں کی طرف سے بٹھائے گئے عقیدوں کو بالائے طاق رکھ کر نہیں بلکہ دفن کرکے آنے کی ضرورت ہے۔ اپنے لباس ، چال چلن، اطوار اور ظاہر سے بھی کسی بھی فرقے کی وابستگی یا پہچان کو بھی دفن کرکے آگے آنے کی ضرورت ہے، مگر یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ اِس فطرتِ انسانی کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں کی ہے کہ ’’واذاقیل لہم اتبعوا ما انزل اللہ قالوا بل نتبعوا ما الفینا علیہ آباء نا‘‘ یعنی ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لائو اس چیز پر جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں ہرگز نہیں، ہم تو اسی پر ایمان لائیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے‘‘۔یہ بھی فطرتِ انسانی ہے کہ ’’اتحذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ‘‘ یعنی’’ ان لوگوں نے اپنے مرشدوں اور لیڈروں کو اپنا رب بنالیا ہے‘‘۔ چونکہ قرآن کوئی پڑھنا چاہتا ہے اور نہ سمجھنا چاہتا ہے، ایسی قوم پر بدترین حکمرانوں ہی کا تسلط اللہ تعالیٰ ہی کی طرف عذاب کی ایک شکل ہے۔ اب یہ پھرتے رہیں کانگریس اور بی جے پی کے پیچھے، یا پھر ان کے پیچھے جو انہی کی قوم کے سب سے نیچ اور اچھوت ہیں۔ ان میں کوئی مسلمان کے پیچھے تو نہیں چلے گا، مسلمان ہی اپنی اپنی جھولی پھیلا کر ان کے پیچھے چلیں ، شائد جس طرح کبھی کبھی کوئی فقیر کی جھولی میں سو کا یا پانچ سوکا نوٹ ڈال بھی دیتا ہے، اسی طرح یہ مسلمان جن کی وفاداری کریں گے وہ آقا بھی شائد کوئی نہ کوئی سو کا یاپانچ سو کا نوٹ ان کی جھولی میں ڈال ہی دیں گے۔