Articles مضامین

تابِ سخن”  ____  ایک مطالعہ

نام کتاب: تابِ سخن
مرتب: مفتی محمد سراج الہدی ندوی ازہری 
استاذ: دار العلوم سبیل السلام، حیدر آباد
*تعارف و تبصرہ: عین الحق امینی قاسمی*، معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے، بہار
سرزمین بہار کے خمیر کی ایک خوبصورت جہت یہ بھی ہے کہ اس کے سپوت ابر باراں کی طرح حسبِ ضرورت کرۂ ارض کے مختلف حصوں کو مستفید کرنا اپنا علمی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے رہے ہیں۔ مولانا سید مسرور احمد مسرور (1950- 2022) بھی ایک ایسی ہی روشن سخن شخصیت کا نام تھا، جو ریاست بہار میں پلے بڑھے ، پڑھے اور کچھ عرصہ مختلف اداروں میں رہ کر خطاطی کا ہنر آزماتے رہے، مگر 1986ء کے اوائل میں بہار سے حیدرآباد کو اپنا مستقل مسکن بنالیا اور وہیں ایک معروف ادارہ دارالعلوم سبیل السلام میں خدمت علم و قلم پر مامور ہوگئے، جہاں تین دہائیوں سے کچھ زیادہ دم واپسیں تک خدمت کرتے رہے؛ بلکہ آخری "آرام گاہ ” بھی اسی شہر گلستاں کے حصے میں آیا۔
مسرور صاحب کام کے آدمی تھے، ان میں چَھپنے سے زیادہ چُھپنے کا ذہن کار فرماتھا، انہوں نے اپنی خاموش طبیعت کی وجہ سے کام اور صرف کام پر توجہ دی، نام سے زیادہ سروکار نہیں رکھا؛ بہ قول آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ:
"وہ اچھے کاتب تھے اور کتابت انہوں نے دار العلوم دیوبند سے سیکھی تھی؛ اس لیے زیادہ وقت کتابت اور بچوں کو خوش خطی سکھانے میں گذرا، حیدرآباد جانے سے قبل ایک زمانہ تک امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کی کتابت وہی کیا کرتے تھے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمہ اللّٰہ سے وطنی قربت بھی تھی، مولانا سید مسرور احمد کے والد چھپرہ سے نقل مکانی کر کے کوٹھی ضلع گیا منتقل ہو گئے تھے، جہاں ان کی سسرال تھی، امیر شریعت سادس کے گاؤں گھوری گھاٹ سے یہ بہت قریب ہے، یہیں پلے بڑھے، مدرسہ عبید یہ کوٹھی اور مدرسہ قاسمیہ گیا سے تعلیم و تربیت حاصل کی، دیو بند کا رُخ کیا ، وہاں سے کتابت کا فن سیکھا اور پوری زندگی اس کام میں لگا دیا۔ شعر و ادب کا ذوق اکتسابی نہیں، وہبی تھا، طبیعت موزوں تھی، مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں نعت، تہنیت، منقبت، سپاس نامے، الوداعی نظمیں، سہرے، نغمہ ہائے شادی، خراج عقیدت اور متفرق چیزیں شامل ہیں؛ لیکن ان کو مرتب کرنے، جمع کرنے اور با قاعدہ محفوظ رکھنے کا خیال ان کے دل میں کبھی نہیں آیا؛ بلکہ مولا نا محمد سراج الہدی ندوی ازہری کے بار بار کے تقاضے کے باوجود وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور بالآخر موت نے انھیں آلیا”۔
زیرِ تبصرہ کتاب در اصل مولانا سید مسرور احمد مسرور کا مجموعۂ کلام ہے، جسے بعد مرگ محترم مولانا محمد سراج الہدی ندوی ازہری، استاذ دارالعلوم  سبیل السلام حیدرآباد نے مرتب فرماکر شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ مسرور صاحب بے نفس قادر الکلام شاعر تھے، ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سبھوں کی ضرورت تھے، جب جنہیں موزوں کلام کی ضرورت پڑی، مسرور صاحب کے کان میں کہہ دیا، اگلی صبح حسب منشاء کلام تیار ملتا۔ ذاتی احساس یہ ہےکہ جس پہلو پر شاعر نے زندگی بھر کبھی کوئی توجہ نہیں دی، پس مرگ اس تھوڑی مدت میں ان کے مجموعہ کلام کا اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ منظر عام پر آجانا "کرامت” ہی کہا جاسکتا ہے، وررنہ آج کسے فرصت جو ایسی گمنام شخصیت کو بے لوث زندہ رکھنے کی جگر کاوی براشت کرے۔
قابل مبارک باد ہیں مولانا ازہری صاحب جو اپنی علمی و فکری خدمات اور صلاحیت و صالحیت کی وجہ سے طبقۂ علماء میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں، طلبۂ مدارس میں صرف درسی افادات ہی مقبول نہیں ہیں؛ بلکہ عوام وخواص کے درمیان بھی وہ گل سرسبد، صاحب قلم، شیریں بیاں خطیب، ذی علم مفسر، بافیض مصنف، مؤلف اور مرتب ہیں۔ صائب الرائے، فکر و نظر میں تابانی رکھنے والے ایک اچھے سلجھے ہوئے دردمند انسان کے روپ میں جانے پہچانے جاتے ہیں، موصوف کے ادبی کارناموں میں "کلام شمس” بھی ایک نایاب اضافہ ہے، انہیں حدیث وفقہ اور تفسیر قرآن کریم سے گہری مناسبت ہے، ان کے گہر بار قلم سے علم و تحقیق اور تعلیق وتحشیہ سے مربوط تفسیر قرآن کریم کی دو ضخیم جلدیں بھی منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ انہوں نے دار العلوم ندوة العلماء، لكهنؤ، جامعۃ الازهر، یونیورسٹی مصر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد اور یونیورسٹی آف کالی کٹ کیرلا وغیرہ سے باضابطہ علم و سند حاصل کیا ہوا ہے ۔ 2006ء میں دبئی (Dubai) کے ایک اسکول میں بھی انہیں چند ماہ تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ فروری 2007ء سے جنوبی ہند کی مشہور و معروف درس گاه دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد میں عالمیت و فضیلت اور تخصصات کے طلبہ کو فیض یاب کررہے ہیں۔ "جامعہ ریاض البنات” ملک پیٹ حیدرآباد میں بھی وہ ایک دہائی سے درس و تدریس سے جڑے ہوئے ہیں، خطابت وصحافت تو ان کے ذوق کی چیزیں ہیں؛ اس لیے اخبار ورسائل میں چھپتے رہتے ہیں ۔ہندوستان کے طول و عرض میں جلسوں، کانفرنسوں اور سمیناروں میں بھی ان کی شرکت ہوتی رہتی ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ مولانا ندوی نے "تاب سخن” مرتب کر نہ صرف ادب نوازوں کو مواد فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے؛ بلکہ حال کے ادیبوں پر بھی واضح کیا ہے کہ شعر وادب کی خدمت محض طبقۂ دانشوری کی میراث نہیں؛ بلکہ چٹائیوں پر بیٹھ کرخاموش مزاج علماء بھی منفرد لب ولہجے میں سخن پروری کر سکتے ہیں اور صدیوں سے بزم شعر وادب کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دیتے بھی رہے ہیں۔
خوبصورت سرورق ،کاغذ کی نفاست، طباعت کی عمدگی، حسن خط، سمیت متعدد خوبیوں کا حامل یہ مجموعہ ہاتھ میں لیجیے، تو جستہ جستہ پڑھ جائیے، اس میں اصناف سخن کا ہر رنگ نظر آئے گا، نعت و منقبت بھی ہے، نظمیں اور سہرے بھی ملیں گے، شادیوں کے نغمے ،خراج عقیدت و تہنیت بھی دل کو شاداں وفرحاں کرتی ہوئی محسوس ہوگی۔
پوری کتاب ایک سو چوراسی صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، والدین کے عظیم احسانات اور محبین وتلامذہ کی جہد آشنا خدمات کے نام "انتساب ” ممنونیت و مشکوریت کا اچھا انداز ہے۔ کتاب کی ترتیب وغیرہ کے سلسلے میں خود مرتب موصوف کے الفاظ یہ ہیں:
” اس مجموعہ کی ترتیب میں میرا طریقہ کار یہ رہا ہے، سب سے پہلے تمام دستیاب منظوم کلام کو پانچ مرکزی عناوین: نعت و منقبت ، خراج عقیدت، الوداعی نظمیں ، سہرے  اور متفرقات کے تحت تقسیم کر دیا؛ اس کے بعد ہر مرکزی عنوان کے تحت جو نظمیں ذکر کی گئیں، ان کی ترتیب تاریخی اعتبار سے رکھی گئی ہے، ہاں! نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعت ومنقبت میں مقدم رکھا گیا ہے، جن نظموں میں تاریخ نہیں تھی، انھیں اس حصے کے اخیر میں رکھا گیا ہے؛ البتہ ایک شخصیت سے متعلق اگر ایک سے زائد نظمیں تھیں، تو انھیں پہلی ہی تاریخ کے بعد تسلسل سے ذکر کر دیا گیا”۔
بعض کتابوں کی طرح مولانا ندوی نے بے وجہ کی تقریظ، کلمات عالیہ اور متواتر بے ربط تحریرات سے” تاب سخن ” کی تابانی کو ماند پڑنے سے بچایا ہے، البتہ ضرورت کی حد تک آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ کے حرف چند کو جگہ دی ہے، جس میں انہوں نے واقعتاً  چند حرفوں کی مدد سے حسب عادت کئی ایک جہتوں کو بیان کردیا ہے ۔
"تاب سخن” کو یوں تو پانچ مرکزی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے ،تاہم اس کا آخری حصہ جو  "متفرقات ” کے عنوان سے ہے، وہ بھی خاصے کی چیز ہے، بالخصوص "بوسنیا کے مجاہدین و شہدا” کے حوالے سے جو طویل نظم کہی گئی ہے، اس کا ایک ایک بند نہ صرف مجاہدین کے حوصلوں کو مہمیز کرتا ہے؛ بلکہ خون سے لت پت حال میں غزہ و فلسطین کے شہدا کے جسم و جاں کو بھی توانائی بخشتی ہے:
شعار سبط پیمبر بتا دیا تم نے
یہی  ہے ر ا ہ منو ر بتا د یا  تم  نے
 بساط دہر پہ چھا کر بتا دیا تم نے
 سروں کو کر کے نچھاور بتا دیا تم نے
ہزار  آفتیں آئیں ہز ار شہر جلے
رضائے داور محشر بتا دیا تم نے
یہو دیت کا معنی ہے روس و امریکہ
 جو بات سچ ہے وہ کھل کر بتا دیا تم نے
جبیں ہے جہد مسلسل سے گرد آلودہ
یہ مشک سے بھی ہے بہتر بتا دیا تم نے
ایک دوسری نظم "آواز جرس” کے عنوان سے بھی ہے، اس نے گویا حال کا مکھوٹا اتار کر رکھ دیا ہے، ملک کے بد باطن حکمرانوں کا رویہ دین وشریعت کے ساتھ کبھی بھی حوصلہ بخش نہیں رہا، پوری نظم میں جس بیداری کو برتنے اور ظالم کی بد نگاہی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت کی طرف اشارہ ہے، اس سےشاعر کی دیدہ وری اور جاں پرسوزی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے :
عجب گردش دوراں ہے جاگتے رہیے
نفاق تاحد امکاں ہے جاگتے رہیے
یہ کیا عجب ہے کہ دینی معاشرے کے لئے
شکست وریخت کا ساماں ہے جاگتے رہیے
کہاں کا لطف ؟کہاں کا خلوص؟ کیسی وفا؟
خزاں کی زد پہ دبستاں ہے جاگتے رہیے
نہ دے سکے کوئی الزام، کم نگاہی کا
یہ آگہی، یہی عرفاں ہے جاگتے رہیے
بسر نشاط و طرب میں جو زندگی ہوگی
وہ اور کچھ نہیں حرماں ہے جاگتے رہیے
اسی طرح سے انہوں نے کئی ایسی منفرد نظمیں بھی کہی ہیں، جن سے روح کو تازگی اور نہ صرف خون جگر میں گرمی  محسوس ہوتی ہے؛ بلکہ غیر متزلزل عزم و یقیں کی کیفیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے، مثلاً ان کی ایک نظم کے یہ اشعاربھی سن لیجئے:
احکام الہی سے ہٹ کر صد حیف ذلیل و خوار ہوئے
 و اللہ ہمارے پیش نظر قرآن نہیں تو کچھ بھی نہیں
اے برق تپاں! ہو موسم گل ، یا دور خزاں کے جھونکے ہوں
 ناموس نبی پہ مرنے کا ایقان نہیں تو کچھ بھی نہیں
تہذیب ہماری پہچاں ہے، ایثار ہمارا شیوہ ہے
 اس طرز عمل کا دنیا پہ فیضان نہیں تو کچھ بھی نہیں
سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہم کتابوں سے دور ہورہے ہیں، تحقیق وتدوین اور فکر و مطالعہ کی عادت، ہم سے رخصت پذیر ہے، تب مسرور احمد مسرور کی یہ نظم بلند آہنگی کے ساتھ دل کو اپیل کرتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے جس میں شکوہ، فغاں، عقیدت، محبت ،نعمت اور انکشافات کا سفینہ بحر تمنا میں غوطہ زن ہے :
کتاب زندہ حقیقت ہے کوئی خواب نہیں
کتاب دہر میں تیرا کوئی جواب نہیں
کتاب دیتی ہے انساں کو تیرگی سے نجات
کتاب کاشف رازحیات بعد ممات
کتاب روشنی وانکشاف راز بھی ہے
کتاب کھوج کی دنیا میں امتیاز بھی ہے
کتاب کے مطالعے کے بعد مجموعی طور پر "تاب سخن” کے تئیں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ
گل نہیں، گلد ستۂ اشعار ہے تاب سخن
شاعری کے حسن سے سرشار ہے تاب سخن

Related posts

"گلدستۂ دینیات” تعارف و تبصرہ

Paigam Madre Watan

عید کی اہمیت و ضروت

Paigam Madre Watan

ओवेसी बंधु झूठे नाटककार और भावुकतावादी हैं

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar