نئی دہلی، جماعت اسلامی ہند دہلی کے امیر حلقہ محمد سلیم اللہ خاں نے عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ’’جماعت اسلامی ہند کی جانب سے تمام عالم اسلام کو دل کی گہرائیوں سے عیدالفطر مبارک ہو۔ عید کی خوشیوں میں اپنا اور اپنے گردونواح کے لوگوں کا خیال رکھیں، خدا ہم سب پر رحم فرمائے اور اس ملک کو اپنے حفظ و ا مان میں رکھے۔‘‘نہوں نے کہا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے ہمیں رمضان المبارک کے فرائض و برکات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ عیدالفطر رمضان المبارک کی تکمیل کرتی ہے، جس سے خلوص، نظم وضبط، رواداری ،رحمدلی اور قربانی جیسی خصوصیات ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ رمضا ن المبارک کے دوران مذہبی اور روحانی تجربات سے معاشرے کے کمزور طبقات کی مشکلات کااحساس اجاگر ہوتا ہے۔انہوں نے تلقین کی کہ اپنے عزیزواقارب اورہمسایوں کے ساتھ ساتھ ضرورت مند اورمستحقین کو بھی عید کی خو شیوں میں شامل کریں۔ یہ دن جہاں اپنوں کے ساتھ ایثار اور محبت کا ہے وہاں ضرورت مندوں اور مستحق افراد کی دلجوئی اور انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا بھی دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ عید کا دن یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ اگر انسانیت، ایثار اور صبر و ہمدردی جیسی صفات کو ہم مستقل طور پر اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو اللہ کا انعام ابدی طور پر ہمارا مقدر ہوں گے۔ رمضان المبارک میں روزے کے ذریعے ہم نے اپنی زندگی میں جو تقوی، نظم و ضبط اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کیا تھا، اب ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سال عید الفطر کے موقع پر عالم انسانیت گہری آزمائش سے گزر رہی ہے۔ عید کے موقع پر اپنے فلسطین بھائیوں کو نہ بھولیں جو مسلسل چھ ماہ سے جنگ کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے لیے خصوصی دعائیں کریں جنہوں نے ثابت کریا ہے کہ ایمان سے بڑی کوئی طاقت نہیں، ایمان سے بڑی کوئی دولت نہیں۔انہوں نے مسجد اقصی کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فلسطین، مسجد اقصی اور سرزمین قدس کے ساتھ مسلمانوں کا جو ایمانی و جذباتی تعلق ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو فراموش کر دیا جائے۔ اہل فلسطین کی جرات و عزیمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ غزہ کے علاقے میں ناقابل فراموش بمباری کی گئی جس میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، بچے اور عورتیں تک ماری گئیں لیکن نام نہاد امن پسند دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔ لیکن شاباشی کے قابل ہیں وہ نہتے مجاہدین جو اپنی بے سرو سامانی کے باوجود مزاحمت کررہے ہیں۔ہمارے مظلوم فلسطینی بھائی بہن تو صبر و استقامت کی نئی داستانیں لکھ ہی رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں؟ اس وقت ہمارے کرنے کے کئی کام ہیں۔ پہلا کام تو یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہم آہنگ ی اور تعاون کا اظہار کریں تاکہ انہیں یہ محسوس ہو کہ اس مسئلہ میں ہم اکیلے نہیں ہیں، بلکہ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا رائے عامہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی عادی ہے اس لیے تمام دنیا کے مسلمان اور خاص طور سے برصغیر اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمان فلسطین اور اہل فلسطین کی حمایت میں اپنی آواز کو بلند کریں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کریں تاکہ فلسطینیوں کو ان کا حق دلایا جاسکے، ان کی جو زمینیں چھین لی گئی ہیں وہ انہیں واپس کی جائیں، نیز اسرائیل کی طرف سے جو ظالمانہ اقدامات ہو رہے ہیں ان پر بندش قائم کی جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہم سب کے سب مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی فلسطین اور بالخصوص غزہ کے باشندوں کی حفاظت فرمائے، مسجد اقصی کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمائے۔
next post
Related posts
Click to comment