تحریر : مطیع الرحمن عزیز 9911853902
حیدرآباد، جو کبھی اپنی تاریخی اور ثقافتی ورثے کے لیے جانا جاتا تھا، آج کل غیر قانونی زمینوں پر قبضوں کی وجہ سے شدید بحران کا شکار ہے۔ ان قبضوں میں تالابوں اور ندیوں پر ہونے والے غیر قانونی تجاوزات شامل ہیں، جو شہر کے پانی کے ذخائر اور عوامی حفاظت کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ ان غیر قانونی سرگرمیوں میں مشہور سیاستدانوں، خاص طور پر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رہنماؤں کے ملوث ہونے کی اطلاعات نے سنگین تشویشات کو جنم دیا ہے
۔تالابوں اور ندیوں پر قبضے: ایک بڑا بحرانحیدرآباد کے تالاب اور ندیاں، جو شہر کی ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے اور عوام کو بنیادی پانی فراہم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں، آج کل مسلسل غیر قانونی قبضوں کا شکار ہیں۔ ان اہم علاقوں پر قبضے نے پانی کی دستیابی کے لیے شدید خطرہ پیدا کر دیا ہے اور بارش کے موسم میں سیلاب کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ یہ تجاوزات نہ صرف ماحولیات کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے بھی ہیں جو اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے ان پانی کے ذخائر پر انحصار کرتے ہیں۔
سیاستدانوں کا ملوث ہونا: ایک گہرا سکینڈلاس بحران کا سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان غیر قانونی سرگرمیوں میں مشہور سیاستدانوں اور وی آئی پیز کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ بااثر شخصیات، جن پر طاقتور کاروباریوں کے ساتھ ملی بھگت کا الزام ہے، اپنی سیاسی طاقت کا غلط استعمال کرکے قیمتی عوامی زمینیں ہتھیا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ میں اے آئی ایم آئی ایم کے نمایاں رہنما بھی شامل ہیں، جو حیدرآباد کے مسلم کمیونٹی کے مفادات کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان رہنماؤں کا ایسے غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونا نہ صرف عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ اقتدار میں رہنے والوں کا حقیقی ایجنڈا کیا ہے۔
حیدرآباد کا بلڈوزر: ہائیڈرا کی کارروائیایک غیر معمولی کارروائی میں، عوامی زمینوں کی حفاظت کے لیے ذمہ دار ہائیڈرا محکمہ نے حال ہی میں ان غیر قانونی قبضوں کے خلاف جرات مندانہ کریک ڈاؤن شروع کیا۔ غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزرز استعمال کیے گئے، جن میں کئی عمارتیں شامل تھیں جو اے آئی ایم آئی ایم کے رہنماؤں سے منسوب تھیں۔ اس آپریشن، جسے "حیدرآباد کا بلڈوزر” کہا جا رہا ہے، نے سیاسی منظرنامے میں ہلچل مچا دی ہے اور اس نے ان غیر قانونی سرگرمیوں کی وسعت کو بے نقاب کر دیا ہے جو ترقی کے نام پر انجام دی جا رہی تھیں۔اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما تنقید کی زد میںاے آئی ایم آئی ایم کے رہنماؤں سے منسوب عمارتوں کی مسماری نے پارٹی میں پائی جانے والی گہرائی سے جڑتی کرپشن کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے دعووں کے باوجود کہ وہ مسلمانوں اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہیں، اس کے رہنماؤں کا غیر قانونی زمینوں پر قبضوں میں ملوث ہونا ایک بالکل مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ ان انکشافات نے عوام میں غصہ بھڑکا دیا ہے، جو اب اپنے منتخب نمائندوں کی دیانتداری اور مخلصی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
اسدالدین اویسی کے غیر واضح جوابات: ایک فکر انگیز خاموشیان الزامات کے بعد، اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اسدالدین اویسی نے ایک پریس کانفرنس کی، جہاں ان سے ان کی پارٹی کی ان غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے سوالات کیے گئے۔ تاہم، واضح جوابات دینے کے بجائے، اویسی نے سوالات کو ٹالنے کی کوشش کی اور توجہ کو دیگر مسائل کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔ ان کے ان سنگین الزامات کا سیدھے جواب دینے سے انکار نے عوام میں مزید شبہات اور مایوسی کو جنم دیا ہے۔
ہائیڈرا کی کارروائیوں پر تنقید: ایک غلط دفاععوامی زمینوں کی حفاظت اور حیدرآباد کے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہائیڈرا کی کوششوں کی حمایت کرنے کے بجائے، اسدالدین اویسی نے اس محکمہ کی کارروائیوں پر تنقید کی۔ انہوں نے ہائیڈرا کے خلاف کمشنر اور چیف سیکریٹری سے شکایت درج کرنے کا اعلان کیا، الزام لگایا کہ ہائیڈرا نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ یہ موقف بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہے، کیونکہ ہائیڈرا کی کارروائیاں ان غیر قانونی قبضوں کے خلاف تھیں جو شہر کی بقا کے لیے خطرہ ہیں۔ ان ضروری اقدامات کی مخالفت کرکے، اویسی ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے وہ اپنی پارٹی کے مفادات کو عوام کی بھلائی پر ترجیح دے رہے ہیں۔حیدرآباد کے مسلمانوں میں تشویشاویسی کے غیر واضح جوابات اور ان کے دفاع نے حیدرآباد کے مسلمانوں میں گہری تشویش پیدا کی ہے۔ بہت سے لوگ اب یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی اے آئی ایم آئی ایم ان کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے یا پارٹی کی زیادہ توجہ اپنے سیاسی طاقت کو برقرار رکھنے پر ہے۔ ان اہم مسائل پر اویسی کی طرف سے واضح جواب نہ دینے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ ان سے دھوکہ کیا گیا ہے اور پارٹی کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
عام لوگوں کی مشکلات: ایک کھلا تضادجبکہ حیدرآباد کے رہنما عالیشان عمارتیں بنا رہے ہیں اور مشتبہ ذرائع سے دولت جمع کر رہے ہیں، شہر کے عام لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ غربت، بے روزگاری، اور بنیادی سہولتوں کی کمی ہر طرف ہے، جبکہ ان مسائل پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔ سیاستدانوں کی عیش و عشرت کی زندگیوں اور عوام کے سخت حالات کے درمیان بڑھتا ہوا فرق مایوسی اور غصے کو بڑھا رہا ہے۔ہائیڈرا کا کردار: عوامی مفادات کی حفاظت کے لیے کوششیںہائیڈرا، اس تنازعے کے مرکز میں موجود محکمہ، نے واضح کر دیا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد عوام کی جانوں کی حفاظت اور عوامی زمینوں کو غیر قانونی قبضوں سے بچانا ہے۔ بااثر سیاسی شخصیات کی مخالفت کے باوجود، ہائیڈرا اپنے مشن پر قائم ہے۔ تاہم، اس محکمے کی کوششوں کو ایسے لوگوں کی طرف سے ناکام بنایا جا رہا ہے جو اسے بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے حیدرآباد کی عوامی زمینوں اور رہائشیوں کی حفاظت کے مستقبل کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
مسجدوں کی شہادت: ایک متنازعہ موقفمزید تنازعے میں اضافہ کرتے ہوئے، اویسی نے پہلے مسجدوں کی شہادت کے حوالے سے بھی بیانات دیے تھے، جنہیں عوام کی طرف سے ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس حساس مسئلے پر ان کے موقف نے مسلم کمیونٹی کے اندر مزید اختلاف پیدا کیا ہے، جو محسوس کرتے ہیں کہ ان کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو سیاسی مفاد کے لیے قربان کیا جا رہا ہے۔نیکلیس روڈ اور ہمایت ساگر کے حوالے سے سوالاتایک حیران کن موڑ میں، اویسی نے سوال کیا کہ اگر نیکلیس روڈ اور ہمایت ساگر پر غیر قانونی قبضے واقعی غیر قانونی ہیں، تو انہیں کیوں نہیں گرایا گیا؟ اس بیان کو بہت سے لوگوں نے اپنے پارٹی ممبروں کی غیر قانونی سرگرمیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے طور پر دیکھا ہے اور جاری مسماریوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے ایک چال کے طور پر سمجھا جا رہا ہے۔اے آئی ایم آئی ایم رہنماؤں پر منفی نظریہپریس کانفرنس کے دوران، صحافیوں نے اے آئی ایم آئی ایم کے رہنماؤں کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بارے میں سخت سوالات اٹھائے۔ تاہم، ان خدشات کو دور کرنے کے بجائے، اویسی نے ان مسائل کو ٹالنے کی کوشش کی، جس سے پارٹی کی شفافیت اور عوامی مفاد کے لیے اس کی وابستگی پر مزید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
خلاصہ کلام :حیدرآباد کی صورتحال سنگین ہے۔ تالابوں اور ندیوں پر غیر قانونی قبضے، اے آئی ایم آئی ایم کے رہنماؤں کا ان سرگرمیوں میں ملوث ہونا، اور اسدالدین اویسی کے غیر واضح جوابات نے شہر کے رہائشیوں میں بے اعتمادی اور مایوسی پیدا کر دی ہے۔ حیدرآباد کے لوگوں کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو ان کے حقوق کے لیے لڑیں، ماحول کی حفاظت کریں، اور ان کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ جیسے جیسے اس سکینڈل کا پردہ اٹھتا جا رہا ہے، یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ شہر کی قیادت عوام کی خدمت میں ناکام ہو رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ احتساب ہو اور حیدرآباد کے شہریوں کی آواز سنی جائے۔