وہ پچاس لاکھ لوگ کون ہیں؟اویسی نے جن کی روٹی پر پیر رکھا ہواہے
نئی دہلی (رپورٹ : مطیع الرحمن عزیز)ملک عزیز ہندوستان میں جمہوریت کے جشن اور تیوہار کے طور پر لگ بھگ پورے دو مہینے تک گہما گہمی رہی۔ ہر ایک ہندوستانی باشندہ نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور اپنے مدعوں کی بنیاد پر امیدواروں کو کامیاب بنایا۔ لیڈران نے بھی کافی محنت اور لگن سے کام کیا۔ 4 جون کو نتیجے آئے اور این ڈی اے سب سے بڑی الائنس کے طور پر منظر عام پر آئی۔ انڈیا الائنس نے بھی محنت کی اور امیدسے زیادہ سیٹیں لا کر مضبوط اپوزیشن کے طور پر کھڑے ہونے کا دعوی کر رہی ہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہوں پر حکومت بنانے کیلئے آنکڑے پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے اپنے کچھ تحفظات ہیں انہیں آنے والی حکومت کے سامنے پیش کر دینا چاہتا ہوں۔ اس مقصد میں نئی نویلی سرکار کے کانوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے دیگر ذرائع بھی اپنائے جائیں گے۔ لیکن اس کا آغاز آج اپنی تحریر کے ذریعہ کردینا چاہتا ہوں ، کیونکہ یہ معاملہ لگ بھگ پانچ سال سے زیادہ گزر چکا ہے۔ اور نتیجہ کے طور پر کچھ بھی حل ابھی تک نکل نہیں پایا ہے۔ لاچار مجبور عوام لگ بھگ پچیس تیس لاکھ کے قریب ایسے ہیں جو براہ راست اس معاملے سے منسلک ہیں اور متاثر ہو رہے ہیں۔ نہ صرف پچاس لاکھ عوام متاثر ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھی اس سازشی پہلو کی بدنظری کا شکار ہو رہا ہے اور انکم ٹیکس کے طور پر ملک کو جو امانت پہنچا کرتی تھی اس سے ہمارا پیارا وطن بھی محروم ہواہے۔
میں بات کر رہا ہوں ہیرا گروپ آف کمپنیز کی۔ جو کوئی ایک دو سال سے نہیں بلکہ پندرہ سالوں سے اسد اویسی اور ان کے لوگوں کی غنڈہ گردی کا اور مکر وفریب اور دجل سے متاثر ہو رہے ہیں۔ سن 2012 اسد اویسی صاحب نے اس کمپنی پر ایف آئی آر کیا اور خود شکست فاش سے دو چار ہوئے۔ جس کے پاداش میں اسد اویسی پر ہتک عزت مقدمہ دائر ہوا ،جو اب ہائی کورٹ آف تلنگانہ میں زیر سماعت ہے۔ ہیرا گروپ آف کمپنیز نے سماجی کاموں سے اوپر اٹھ کر جب سیاسی پلیٹ فارم پر آنے کا فیصلہ کیا اور تلنگانہ میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو اسد اویسی جیسے بلبلائے ہوئے شیطان بن گئے۔ ہیرا گروپ آف کمپنیز کے چلتے جہاں اسد اویسی اپنے بینک کے سودی شرح میں نقصان محسوس کر رہے تھے وہ اب اپنے باپ داداﺅں کے ہاتھوں کھڑی کی گئی سیاسی بساط کو سمٹتے ہوئے دیکھنے لگے۔ مقامی سرکاری اہلکار کو عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے پیچھے لگا دیا گیا اور اعلان کرایا گیا کہ کمپنی ڈوب گئی۔ اور اس بات کا بھی اعلان کرایا گیا کہ سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ ایک جگہ سے نکلیں گی دوسری جگہ گرفتاری کرا دی جائے گی اور ایسا ہی کیا گیا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ سماعت کے لئے پہنچنے میں ڈھائی سال کا عرصہ لگ گیا۔ سپریم کورٹ سے ہیرا گروپ سی ای او بازیاب ہوئیں۔ لیکن ابھی تک کمپنی کے اکاﺅنٹ کھلنے نہیں دیا جارہا ہے، اور پراپرٹیز پر ای ڈی کے ذریعہ منجمد کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شہر حیدر آباد کے مختلف علاقوں میں ہیرا گروپ کی پراپرٹیز پر اپنے لوگوں کے ذریعہ ناجائز قبضہ کرانا اور فرضی کاغذات بناکر رہائش اختیار کر لینا یہ عام بات ہو گئی ہے۔
ہیرا گروپ آف کمپنیز کے ان سب معاملوں کے پیچھے اسد اویسی صاحب کی جو کوئی بھی سوچ ہو، لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کمپنی کے پاس وسائل ہونے کے باوجود کیس کو آگے نا بڑھنے دئے جانے کی منشا آخر کیا ہے۔ کمپنی کے وہ سرمایہ کار جو بیس سالوں تک کمپنی سے فائدہ اٹھاتے رہے ، جن میں بزرگ اور بیوہ یتیم اور مجبور بھی تھیں بے سہارا کیوں کر دیا گیا۔ کمپنی غیر ممالک سے کما کر ملک کو مضبوط کرتی تھی۔ اس میں اسد اویسی صاحب کا آخر کار کیا نقصان تھا۔ کمپنی اپنے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دے رہی تھی۔ اسد اویسی صاحب اپنے پلیٹ فارم پر لوگوں کے لئے سہولیت مہیا کراتے۔ کیا ضرورت تھی، سازش اور جعل سازی کے ذریعہ مجبور لوگوں کی روزی روٹی چھیننے کی۔ 2012 سے 2016تک سخت جانچ پڑتال کے درمیان کمپنی کو سرخروئی ملی۔ 2018 سے 2019 تک ضمنی عدالتوں کو کمپنی کے خلاف کچھ غلط نہیں ملا۔ 2019 سے 2020 تک ہائی کورٹ آف تلنگانہ نے پایا کہ کمپنی کو اگر جانچ پڑتال کے دائرے میں لانا ہی ہے تو ایس ایف آئی او میں لایا جاتا، جگہ جگہ برباد کرنے کے لئے ٹھوکر نا مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ 2020 سے 2021 تک سپریم کورٹ نے اپنی جانچ پڑتال میں پایا کہ ہیرا گروپ آف کمپنیز کہیں سے کہیں تک غلط نہیں ہے۔ بس وقت گزاری ہے۔ اور سپریم کورٹ نے ایجنسیوں پر ترس کھاتے ہوئے ہیرا گروپ کے مظلوم ہونے کا دم بھرا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حکومت این ڈی اے کی بنے یا یوپی اے کی۔ دونوں کو اس بات کا خیال رہے کہ جس کمپنی سے ملک کو اور اس کے باشندوں کو راحت ملتی تھی۔ اس کے خلاف شب خون مارنے کی کیوں ضرورت پڑی۔ این ڈے اے حکومت بناتی ہے تو اسے اپنی دس سالہ سابقہ دنوں کے واسطے اپنے تجربات کا استعمال کرنا چاہئے، جس کے چلتے ان تمام معاملوں سے پردہ اٹھایا جا سکے جو کسی نا کسی وجہ سے ان گزشتہ برسوں میں چھپے ہوئے تھے۔ انڈیا کی سرکار حکومت بناتی ہے تو اسے اس بات پر دھیان رہے کہ اس کی الائنس میں جو پارٹیاں آرہی ہیں ان کا عوام کے ساتھ کیا رشتہ رہا ہے۔ کہیں ایسا نا ہو کہ اسد اویسی جیسے مسلم اور ملک دشمن عناصر انڈیا حکومت میں شامل ہو جائیں اور اپنے رسوخ سے اپنی ناپاک سوچ کو پروان چڑھاتے رہیں اور حکومت میں بیٹھ کر ملک اور اس کے باشندوں کی بنیاد کھوکھلی کرتے رہیں۔