لکھنؤ, مولانا حسن علی راجانی نے 9 جون کو خطیب اکبر مرزا محمد اطہر اور خطیب عرفان مرزا محمد اشفاق کی ہونے والی مجلس برسی میں شرکت کرنے کے بعد کہا کہ مجلس کے پروگرام میں علماء حضرات کی توہین کے علاوہ ان کے ساتھ جس طرح سے ناروا سلوک کیا جا رہا تھا جو ناقابل برداشت تھا مولانا راجانی نے کہا کہ اس برسی کی مجلس میں ہند و بیرون ہند سے علماء و مومنین حضرات کا سمندر ابل رہا تھا تو ایسے میں ہی مولانا یعسوب عباس بھی زہر اگل رہا تھا کہ میرے باپ نے قوم کے لئے دو ادارے بنائیں ہیں. جسمیں ایک شیعہ کالج ہے تو دوسرا آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ ہے جس پر مولانا سید علی حسین قمی نے کہا کہ جو لوگ کل شیعہ کالج میں نوکر تھے وہ آج اس شیعہ کالج کے مالک کہاں سے بن گئے. تو مولانا حسن علی راجانی نے بھی یعسوب عباس کے اس دعوے کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ کسی کے باپ کا مرہون منت نہیں ہے بلکہ آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ میں ہمارا کردار اور ہماری محنت کے علاوہ پورے ملک کے جید علماء کے علاوہ ملک بھر کی سماجی و سیاسی شخصیتوں کی محنت تھی مولانا راجانی نے کہا کہ جب آل انڈیا شیعہ پرسنل لاءبورڈ بنا تب پورے ملک میں میرے علاوہ کوئی ایسا نہ تھا جو کھل کرکسی مسئلہ میں اپنی رائی دے سکتا تھا یا میڈیا کے سامنے روبرو ہو پاتا تھا. ایسے وقت میں میں نے اس محاذ کو سنبھالا تھا جب پورے ملک میں سے کسی ایک بھی شیعہ کی زبان نہیں کھل پا رہی تھی. مولانا راجانی نے پاکستان سے آئے ہوئے بین الاقوامی ذاکر مولانا شہنشاہ حسین نقوی کے اس بات کی بھی سخت مخالفت کی جس میں انہونے کہا کہ مولانا یعسوب عباس کی آواز سے میں آج ہندوستان کی سرزمین لکھنؤ کے بڑے امام باڑے میں ایسا مجمع دیکھ رہا ہوں جیسا مجمع مجھے پاکستان میں سال میں دو یا تین بار ہی دیکھنا نصیب ہوتا ہے جس پر مولانا راجانی نے کہا کہ لکھنؤ کا مجمع پاکستان کے ذاکر کے نام پر آیا تھا نہ کہ یعسوب عباس کے نام پر آیا تھا. ورنہ پورے ہندوستان میں یعسوب عباس یا کوئی یعسوب عباس جیسا جناب فاطمہ زہراء کے مزار کے انہدام کولے کر سو سال پورے ہونے پر بھی پورے ملک میں کوئی پانچ سو سے ہزار مومنین تک جمع نہیں کر پایا تھا اور خود یعسوب عباس صاجب کی دو سو سے تین سو تک کی کہانی رہتی ہیں. مولانا راجانی نے ہندوستان کے تمام شیعہ علماء سے اپیل کی ہیکہ وہ قوم کے مسئلہ کو لے کر خود آگے آگے آئے اور ہر مسئلہ میں اپنی رائی دیں تاکہ کوئی نٹورلال ہماری شیعہ قوم اور شیعہ علماء سے کھلواڑ نہ کریں آخر میں مولانا راجانی نے کہا قوموں کی پہچان اس قوم کے لیڈروں سے ہوتی ہیں نہ کہ گیڈڑوں سے ہوتی ہیں. آخر میں مولانا حسن علی راجانی کو بعد مجلس مجلس میں آئے ہوئے ایک شرابی نے زبردستی گاڑی پر بٹھا کر شیعہ جامع مسجد چھوڑ دیا
previous post
next post
Related posts
Click to comment