نئی دہلی،اسلامی اقدار نئی غزل کے روشن استعارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خدا کا تصور، اس کی وحدانیت اور تاریکی میں خدا کے روشن ہونے کا استعارہ نئی غزلوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تجلی اور نور کو اس پر آشوب عہد میں نئے غزل گویوں نے اپنے فکر کا حصہ بنائے رکھا ہے۔ نئی غزل کا غالب میلان الحاد اور انکار کے بجائے اللہ کی ربوبیت اور اس کے وجود کا اقرار ہے۔ تصوف کی روایت سے متاثر ہو کر نئی غزل میں بھی خودی، خودداری، ترک دنیا، ایثار، قناعت پسندی اور قلندی وغیرہ کا عنصر اپنی پوری قوت کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ادارۂ ادب اسلامی ہند، حلقہ دہلی کے زیر اہتمام کانفرنس ہال مرکز جماعت اسلامی ہند میں پہلے توسیعی خطبے میں پروفیسر کوثر مظہری نے کیا۔ اس توسیعی خطبے کا عنوان ’اردو غزل اور اسلامی اقدار‘ تھا۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب خدا، مذہب اور آخرت پر تشکیک اور اس کی تضحیک کا زمانہ لد گیا۔ آج کی شاعری مذہبی معتقدات کے خمیر سے نموپذیر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
پروفیسر حسن رضا (صدر ادارۂ ادب اسلامی ہند) نے صدارتی خطبے میں کہا کہ حیات و کائنات کے تمام مظاہر کی اصل بنیاد تصورِ اقدار پر ہے۔ کسی بھی زبان، ادب اور تہذیب کا تصورِ قدر جیسا ہوگا اسی بنا پر اس کا وجود اور ظہور ہوگا۔ اسلام کا بھی اپنا ایک تصور اقدار ہے۔ جس کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت پر ہے۔ اسلام کا تصور حق خدا سے وابستہ ہے، تصور خیر اسوۂ رسول سے منسلک ہے اور اس کا تصور جمال اخروی فلاح یعنی جنت پر مبنی ہے۔ اب ان بنیادوں پر جو بھی ادب وجود میں آئے گا وہ اسلامی ادب ہوگا۔ اس موقع پر معروف ادیب پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ اس خطبے کا عنوان اور اس خطبے کے مباحث عمومی ادبی فضا سے مختلف ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس موضوع پر باضابطہ ایک سمینار کا انعقاد کیا جائے۔ ڈاکٹر خالد مبشر (صدر ادارۂ ادب اسلامی ہند، حلقہ دہلی) نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ حلقہ دہلی کی جانب سے پہلا توسیعی خطبہ ہے، لہٰذا یہ موقع ہمارے لیے نہایت مسرت اور سعادت کا ہے۔ اس خطبے کے خطیب، صدر اور معزز حاضرین موجودہ ادبی منظرنامے میں تخلیقی اور تنقیدی سطح پر غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی موجودگی نے اس جلسے کو یادگار بنا دیا ہے۔
Related posts
Click to comment