تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی
ماخوذ: رشحات قلم (مطوع)
میں جب تدریسی عمل میں داخل ہوا توعلماء ٹکریا کے مشورے سے ایک تحریک ’’لجنۃ العلماء‘‘ کے نام سے بنائی، جس کا مقصد تبلیغ کرنا اور باشندگان کو مسجد سے جوڑنا تھا اس کے اجلاس پندرہ روز پر ہوا کرتے تھے او راس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسجد میں نمازیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ بعد میں ’’لجنۃ العلماء‘‘ کو حلقہ واری جمعیت اہل حدیث ڈومریاگنج میں ضم کردیاگیا۔ اس کے اجلاس پندرہ روز پر الگ الگ مواضعات میں ہوتے رہے ۔لوگوں نے مجھ کو اس کا سکریٹری بناناچاہا تو میں نے نظامت کا عہدہ ڈاکٹر محفوظ الرحمٰن سلفی صاحب جو اس وقت مدرسہ انوارالعلوم پرساد عماد میں مدرس تھے ان کے سپردکردیا اور میں ان کا نائب رہا۔ میرا اپنا مزا ج یہ ہے کہ میں عہدہ قبول کرنے سے بھاگتاہوں البتہ کام جو بھی کہیں کرنے کے لیے تیاررہتاہوں بعد میں جب شیخ محفوظ الرحمٰن جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ چلے گئے تو پھر ایک مرتبہ لوگوں نے مجھ کو نظامت کا عہدہ دینا چاہا مگر اس بار بھی میں نے قبول نہ کیا۔ موضع ٹکریا ہی کے مولانا غیث اللہ ریاضی صاحب کو یہ عہدہ دیدیاگیا اور میں ان کا نائب رہا، اطراف وجوانب میں ۱۵؍۲۰؍ کیلومیٹر کے دائرہ میں تقریباً ہر گائوں میں اس کے تبلیغی جلسے ہوئے۔مولانا عبدالقدوس صاحب ناظم مدرسہ مظہرالعلوم اوسان کوئیاں ضلع سدھارتھ نگر کی قیادت میں یہ کاروان چلتاتھا ۔عمردرازی کے باوجود مولانا عبدالقدوس صاحب پیش پیش رہتے اور اختتام اجلاس پر نماز کی اور مسجد کی پابندی کا عہد اور بیعت لیتے۔ بیت المال کا قیام کیا جاتا اور ہر گائوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی جو اس کی دیکھ بھال کرتی رہے۔ اس حلقہ وار جمعیت کے کچھ ممبران تھے جن میں علماء اور عوام دونوں تھے۔ ہر اجلاس میں تمام ممبران کی شرکت ضروری اور لازمی تھی۔ لیکن کبھی کبھی موسم کے مزا ج کے مطابق یا اپنے گھریلو احوال وظروف اور طبیعت کی سازگاری اور ناسازگاری کے ناطے بعض لوگ نہیں پہنچ پاتے تھے۔ اسی زمانہ میں ۱۹۷۲ء میں قصبہ ڈومریاگنج میں ایک بڑی کانفرنس منعقد ہوئی جس کے اصل ذمہ دار توضلعی جمعیت بستی کے ارکان تھے۔ لیکن حلقہ وار تمام جمعیتوں کا تعاون اور شرکت تھی۔ اسی لیے ہم لوگ کئی روزپہلے سے مختلف انتظامات کے لیے ڈومر یا گنج میں مو جود تھے۔ بحمد اللہ… یہ کانفرنس کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
بہار کا موسم شروع ہونے پر جو مختلف گاؤں کے لوگ یا مدارس جلسے کرتے ہیں۔ اس میں بہ اصرار مجھے بھی لو گ بلاتے تھے۔ ایسا لگتا کہ جیسے میرے بغیر کوئی جلسہ کا میاب ہی نہیں ہو سکتا۔ اور جلسہ پر پہونچنے کے بعد بڑی تکریم کرتے ۔ قرآن کی تلاوت کراتے۔ جلسہ کی نظامت میرے سپرد کر دیتے۔ اور نظم تو ہر جگہ سنتے ، میں اپنی ہی نظمیں پڑھتا تھا سننے والے وقت کے حساب سے انعام بھی دیتے تھے۔ ایک بار ہمارے ساتھی اور دوست مولوی عبد الرب صاحب سلفی نے اپنے گاؤں میں جلسہ کیا۔ اور مجھ سے استقبالیہ نظم کے لیے اصرار کیا۔ بہر حال میں نے اپنی بساط کے مطابق نظم لکھی جسے سن کر لوگوں نے بہت پسند کیا اور کافی انعام سے نوازا۔ دوشبی اجلاس تھا۔ جب میں وہاں سے رخصت ہو نے لگا تو مو لا نا موصوف نے کہا تمہیں بڑا انعام ملا ہے۔ اس میں سے مجھے بھی دو۔ چنانچہ انہوں نے میری جیب سے روپئے نکال لیے۔ آدھا خود لے لیا۔ اور آدھا میری جیب میں ڈال دیا۔ بڑے خوش مزاج آدمی ہیں۔ روتے کو بھی ہنسا دینے کافن انہیں حاصل ہے۔ جہاں بھی رہتے ہیں اپنی ظرافت سے محفل کو زعفران زار بنائے رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ و فکر بہت اچھی ہے کوئی شخص اگر کسی چیز کے بارے میں مشورہ کر تا ہے تو بہت اچھی اور کامیاب رائے دیتے ہیں۔ جامعہ سلفیہ سے عالمیت کرنے کے بعد کچھ گھریلو حالات کے پیش نظر تدریس میں لگ گئے اسی تدریس کے زمانہ میں ’’بی ،اے‘‘ اور ’’ایم،اے‘‘ پاس کیا۔ ایم اے کی سند حاصل کرنے کے بعد جو گیا انٹرکالج میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے تقررہوا۔ یہاں کالج کی لازمی گھنٹیوں کے علاوہ بہت سے مسلمان طلبہ کو قرآن شریف ناظرہ پڑھایا۔ تقریباً ۶؍سال یا ۸ سال؍پہلے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ اپنی چھوٹی بچی ساجدہ خاتون کی شادی ہمارے فرزند مطیع الرحمٰن عزیز سے کی ہے۔ اس طرح دوستانہ کی قربت کے ساتھ ساتھ سمبندھی کی قرابت داری بھی پیداہوگئی ہے۔ ماشاء اللہ مطیع الرحمٰن کو اللہ تعالیٰ نے چھ(۶) اولاد (دو لڑکا اور چار لڑکیوں) سے نوازا، اللہ تعالیٰ دونوں کو خوش وخرم رکھے۔ اور صحت وعافیت کے ساتھ رکھ کر نیک عمل کی توفیق سے بہرہ ور کرے۔ اور اللہ کرے مولانا عبدالرب بھی صحت وعافیت کے ساتھ رہ کر زیادہ سے زیادہ اعمال خیر میں لگے رہیں۔ آمین
یہ توجلسوں کا حال تھا جہاں تک جمعہ کے خطبہ کا تعلق ہے تو میں جب تک گائوں کے قریب مدرسوں میں کام کرتا تھا۔ اس وقت اپنے گائوں کی مسجدمیں سال کے دوتہائی جمعہ کے خطبے میں ہی دیتاتھا مولانا عبدالقدوس صاحب رحمتہ اللہ علیہ (ناظم مدرسہ مظہرالعلوم اوسان کوئیاں ضلع سدھارتھ نگر) نے میری قرأت اور آواز کو اتنا مشتہر کیا کہ کہیں بھی رہوں سارے بزرگان مجھے ہی امامت کے لیے آگے بڑھاتے تھے۔ پنج وقتہ نماز ہو یا رمضان کی تراویح، میری موجودگی میں کوئی دوسرا امامت کے لیے آگے نہیں بڑھتاتھا۔ شب قدر میں لوگ اصرار کرکے تقریر کراتے اور نظم پڑھاتے۔ کبھی کبھی اگر وتر کے بعد میں جلدی سے اٹھ کر گھر چلاآتا تو لوگ گھر پہنچ جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی مجبور ہوکر جانا ہی پڑتا تھا اور بعض مرتبہ کوئی عذر مقبول بھی ہوجایا کرتا تھا۔
جب میں گائوں پر جمعہ کا خطبہ دیتاتھاتو بڑے بزرگ میرا چہرہ دیکھتے رہتے تھے اب وہ لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب بزرگوں کی مغفرت فرمائے۔ ایک مرتبہ جمعہ کا خطبہ اور نماز ختم ہونے کے بعد مولانا عبدالغفور صاحب (رحمتہ اللہ علیہ ) فرمانے لگے۔ طبیعت ٹھیک نہیں تھی، مسجد میں آنے کی بالکل ہمت نہیں تھی مگر جب زبیدہ کی اماں (ان کی اہلیہ) نے آپ کی آواز سنی تو مجھ سے آکر کہنے لگیں ارے عزیزالرحمٰن خطبہ دے رہے ہیں۔ مسجد چلے جائیے۔ اس لیے آپ کی تقریر سننے کے لیے آنا پڑا۔
اسی طرح ایک مرتبہ گائوں کی مسجدمیں خطبہ دے رہاتھا جمعہ کی نماز کے بعد مولانا عبدالسلام مدنی ( جو خود بھی بہت اچھے مقررتھے اور تقریر کا شوق بھی تھا) نے کہا: مجھ کو بخار تھا مسجد میں آنے کے لیے طبیعت بالکل ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ آپ کی آواز جب آمنہ (ان کی بیوی) نے سنی تو انہوںنے مجھ کو بتایا کہ عزیزالرحمٰن خطبہ دے رہے ہیں مسجد جائیے میں مجبورہوکر آپ کا خطبہ سننے کے لیے آگیا۔
ایک مرتبہ شب قدر میں (واضح ہوکہ ہمارے یہاں شب قدر میں اگر تقریر ہوتی تو ساڑھے دس یا گیارہ بجے تک) میں وتر پڑھ کر گھر آنا چاہتاتھا مگر لوگوں نے مجھ کو گھیرلیا اور زبردستی کرکے کہنے لگے آج بغیر کچھ سنائے جانے نہ دیں گے۔ مجبورہوکر رکنا پڑا۔ پہلے مولانا عبدالسلام مدنی (جن کی تقریر بہت مشہور تھی) نے تقریرکی پھر میری باری تھی۔ کچھ شادی بیاہ کے تعلق سے بات نکل آئی اور تقریباً ایک گھنٹہ تقریر ہوئی۔ آواز سن کر جو لوگ مسجد نہیں آئے تھے یا جو پہلے ہی نکل گئے تھے وہ لوگ بھی آکر مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے۔ تقریر ختم ہوئی تو میرے گائوں ہی کے مولانا عبدالرب ریاضی (جو اب مرحوم ہوچکے ہیں) نے کہا: آج کی تقریر ٹیپ کرکے محفوظ کرنے کے لائق تھی۔ اور جب وہ اپنے گھر پہنچے تو ان کی اہلیہ نے بھی یہی بات کہی کہ پہلے سے معلوم نہیں تھا ورنہ عزیزالرحمٰن کی تقریر ٹیپ کرنے کے لائق تھی۔
ایک مرتبہ جامعہ کی مسجد میں میرا خطبہ تھا میرے دوست مولانا محمداجمل یوسف کو بہت بڑا پھوڑا کولہے پر نکلا ہواتھا جس کی وجہ سے ان کا چلنا پھرنا مشکل تھا۔ میری آواز سن کر بہ دقت تمام مسجد کے گوشہ میں آکر بیٹھ گئے جمعہ کی نماز ختم ہونے کے بعد خود کہنے لگے : دیکھو میرا حال یہ ہے کہ چلنا پھر نا، اٹھنا بیٹھنا مشکل ہے مگر آپ کی آواز سن کر اور تقریر کا موضوع سوچ کر بے قرار ہو گیا۔ اور تقریر سننے کے لیے مجبوراً آنا پڑا ( مولانا اجمل یوسف سلفی میرے دوست تھے۔ جامعہ کے مکتبۂ عامہ میں جنرل لائبریرین تھے۔ اب اس وقت ماشاء اللہ مکتبہ جمعہ الماجد دبئی کے شعبۂ مخطوطات میں کام کر رہے ہیں۔)
گائوں کی مسجد میں جب بھی میں خطبہ دیتا میرے ایک خالہ زادبھائی جو میرے والد صاحب سے بھی عمر میں بڑے ہیں(اب انتقال کر چکے) وہ پورے خطبہ کے دوران سن کرروتے ہی رہتے ہیں بعد میں مجھ سے کہتے ہیں (کاش آج اگر رابعہ خالہ میری اماں جان جن کا میرے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا)ہوتیں تو تمہارے خطبہ اور تقریر سن کر ان کا کلیجہ کتنا بڑا ہو جاتا اور کس قدرخوش ہوتیں۔ اسی بات کو سوچ سوچ کر مجھے رلا ئی آتی ہے۔ اورخطبہ کے شروع سے اختتام تک روتا ہی رہتا ہوں۔ اللہ تعالی برادر مکرم کوجنت الفردوس میں جگہ دے۔اورمیری والدہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور ان کی نیکیوں کا ثواب دے۔ آمین
بچپن سے لے کر آج تک میں گائوں کی کسی گلی سے گزرتا ہوںتو تمام سن رسیدہ عورتیں مجھے دیکھ کر ایک ہی جملہ کہتی ہیں ! رابعہ بہن یہی ایک نشانی چھوڑگئی ہیں۔ چوں کہ میری اما جان اسی گائوں کی لڑکی تھیں۔ اورخوش خلقی میں پورے گائوں میں مقبول تھیں۔ اس لیے کبھی کسی گھر کا دروازہ میرے لیے بند نہ ہوا۔ پردہ دار خواتین بھی مجھے بلا کر اندر بیٹھاتی تھیں۔ اور والدہ مرحومہ کی وجہ سے میرے ساتھ عزت سے پیش آتی تھیں۔ مگر سن شعور کو پہونچنے کے بعد میں نے خود سے گھروں کے اندر جانا چھوڑدیا ۔یعنی ایک طرح میں نے پردہ کرنا شروع کر دیا۔ اتنی عمر گزرنے کے باوجود جب کہ میرا سن (پینسٹھ؍۶۵) سے اوپر ہوچلا ہے ۔گائوں میں کسی کام سے جاتا ہوں توبوڑھی عورتیں جو میری اماں کی ہم سن ہوںگی ۔یاان کو دیکھا ہوگا وہ پردہ نہیں کرتیں،میرے سامنے آجاتی ہیں۔جبکہ میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ بغیران کو خبر کئے کسی بچے یا بوڑھے سے کام کروالوں ۔اللہ تعالی تمام میرے چاہنے والو ں اورمیری ما ںسے محبت رکھنے والوں کو دونوں جہاں کی فوز وفلاح سے سرفراز کرے ۔آمین
جامعہ کی مسجد میں اساتذہ جامعہ باری باری جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ میری باری تھی میں نے خطبہ دیا اور جمعہ کی سنتیں ادا کرکے مسجد سے نکلنے لگا تو استاذگرامی مولانا عبدالمعید صاحب (رحمۃاللہ) فرمانے لگے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کوجامعہ کی مسجد کا مستقل خطیب بنا دیا جائے ۔کبار اساتدہ کی یہ ہمت افزائیاں بڑی سودمند تھیں ۔ مگر میں نے ان کا پورا لحاظ نہ رکھا ۔اس کے کچھ اسباب ذیل میںآئیں گے۔
مولانا صوفی نذیر احمد کشمیر ی (رحمتہ اللہ علیہ) کتنے بڑے عالم دین او رکتنے پکے سچے مومن تھے، زمانہ جانتا ہے، فارسی اور اردو کے قادرالکلام شاعر تھے۔ کبھی کبھی امنگ میں ہوتے تو اپنی فارسی اوراردوشاعری ہم لوگوں کوسناتے ۔ ان کا کو ئی گھر نہ تھا ۔ حق گوتھے ،اسی لیے سیاسی لوگوں کی آنکھ میں کھٹکتے تھے ۔جہاں جاتے پڑائوڈال دیتے ۔وہاں سے جانے کا نام نہ لیتے، اس لیے ان کا کوئی گھر نہ تھا ،اورایسے لوگ دستیاب بھی نہیں جو ان کی اسلامی تنقیدات برداشت کرسکیں ۔ او راپنے گھر رکھ کر کھلا ئیں پلا ئیں بھی، بہت عرصہ تک جامعہ سلفیہ میں مقیم رہے ۔ایک بار جامعہ کی مسجد میں جمعہ پڑھا کر باہر نکلے توصوفی صاحب مسجد کے شمالی گیٹ پر آکر مجھ سے کہنے لگے، تقریر تو بڑی اچھی کرتے ہو لیکن تمہاری داڑھی قادیانیوںکی طرح ہے۔ اس بزرگ کی یہ تعریف اور یہ تنقید بڑی بھلی لگی میں خاموش رہا کچھ بولا نہیں، پہلے میں لمبائی چوڑائی سے داڑھی ایک ڈیڑھ انگلی کی کر لیتا تھا۔ اب بھی کاٹتا ہوں۔مگرپہلے سے کم(اب پوری داڑھی چھوڑ دیا ہے)اللہ تعالی مجھے اصلاح کی توفیق مرحمت فرما ئے ۔آمین
ایک بار میرے ایک دوست نے (جواب مرحوم ہوچکے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے) اوسان کو ئیاں میں میری دعوت کی (یہ اوسان کوئیاں مدرسہ میں پڑھانے کے بعد کی بات ہے ) رات وہیں بسر کرنی تھی ۔عشاء کی نماز کے لیے مسجد آئے ۔نماز کاو قت ہو ا تو انہوں نے نماز پڑھا نے کے لیے مجھ کو آگے کردیا ۔ میں نے نماز پڑھا ئی، نماز سے فراغت کے بعد جب میں مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھا ۔تو ایک صاحب اپنی صف سے پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئے اور بولے :کیا بتائوں؟ آج تو میری نماز نہیں ہوئی۔لوگوں نے پوچھا ،آخر وجہ کیا ہے ؟ کیوں نہیں ہو ئی ؟تو فرما نے لگے :آدمی جب ایسی آوازمیں قرآن پڑھے گا تو مقتدی کی توجہ اس کی قرأت کی آواز کی طرف رہے گی یا نماز میں دل لگے گا ۔کیسے نماز میں د ل لگے گا ؟ اور جب نماز میں دل نہیں لگے گا تو نماز کیسے ہوگی ؟ میں قرأت ہی سنتا رہ گیا ،ان کی بات سن کر تمام لوگ ہنسنے لگے ۔ یہ صاحب تھے شمش الحق ایڈوکیٹ کے والد ماجد جناب محمد ادریس چودھری، قرب وجوار کے مانے جانے لوگوں میں تھے ۔ جن کی رائے کسی اہم معاملہ میں معتبر سمجھی جاتی تھی ۔
میںشروع میں بہت صوفی تھا ۔کالروالی قمیص نہیں پہنتا تھا ۔داڑھی تو فراغت کے بعد والے سال صرف ٹھوڑی پر آئی ۔اس کے بعد بحکم ناظم اعلی کتابوں کی فہرست سازی پر مامور تھا۔ جامعہ میں سب معاصر ساتھی ہی تھے۔ کچھ عمر میں بڑے اورکچھ برابر مگر پڑھنے کے حساب سے جونیر ۔اس لیے طلبہ کے کمروں میں جاتا آتا رہتا تھا ۔ایک مرتبہ ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ او رکو ئی رسالہ یا کتاب دیکھ رہا تھا ۔دوطلبہ آہستہ آہستہ باتیں کررہے تھے وہ سمجھ رہے تھے کہ میں پڑھنے میں مصروف ہو ں اس لیے ان کی بات نہیں سن رہا ہوں،مگر میںنے ان کی بات سن لی ۔ ان میں ایک کہہ رہا تھا کہ یہ شخص داڑھی کاٹتا ہے ۔دوسرا کہتا نہیں ۔ابھی اتنی داڑھی ہے بھی نہیں کہ کاٹنے کے بارے میں سوچا جائے۔ ان دونوں کی گفتگو سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ داڑھی نہ کٹنے کے باوجود جب لوگوں کا یہ تبصرہ ہے تو اب لا ئو کاٹا ہی جائے۔ چنانچہ اسی وقت سے کٹنے کا سلسلہ جو شروع ہو ا تو ا ب تک باقی ہے ۔(اب نہیں کاٹتا) اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما ئے او راصلاح عمل کی توفیق دے۔ آمین
علامہ عبدالمعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ حافظ اور مجود قاری تھے ۔ان کے ذریعہ فراغت کے بعد میری قرآن خوانی میں دو اصلاحات ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت میں جگہ دی۔ آمین
۱- فراغت کے بعد میں جس زمانہ میں مکتبہ کی فہرست ساز ی میں مصروف تھا ۔شیخ الجامعہ مولانا عبدالوحید صاحب رحمانی کی درس گاہ کمرہ نمبر ۴میں مقیم تھادن کے وقت چار پائی اور بستر ایک طرف کردیتا تھا۔ مولانا عبدالمعید صاحب رحمۃ اللہ طب وحکمت اور فلسفہ میں اعلی درجہ رکھتے تھے روز فجر کی نماز کے بعد کیاریوں کے پاس جو جامعہ کی شمالی سمت بنے ہو ئے کمروں کے پاس دونوںطرف لگی ہو ئی ہیں ۔ وہ ٹہلتے اور ہرے بھرے پودوں کو دیکھتے رہتے ۔او رفرماتے کہ یہ آنکھوں کی روشنی کے لیے فائد ہ بخش ہیں۔ میں فجر کے بعد اپنے کمرہ سے باہر شمالی جانب برآمدہ میں چارپا ئی پر بیٹھا بلند آواز میں قرآن پڑھتا تھا۔ مولانا ٹہلتے ہو ئے میرے قریب پہونچے تو میں یہ آیت پڑھ رہا تھا ’’بِسۡمِ اللّٰہِ مَجۡؔرٖىہَا وَ مُرۡسٰىہَا‘‘وہ زیر اور کسرہ کی اشباع کے ساتھ پڑھا تھا۔ مولیٰنا نے فوراً ٹوکا۔ یہ صرف امالہ ہے۔ وہ زیر اورکسرہ نہیں جسے یاء معروف کی طرح اشباع کے ساتھ پڑھا جائے ۔پھر میں نے دوبارہ غلطی نہیں کی۔ اصل میں قرآن ناظرہ میں نے کسی استادسے نہیں پڑھا تھا۔ہمارے خالہ زاد بھا ئی کی بیوی دونوں اعتبار سے حافظ تھیں۔ یعنی بینائی بچپن ہی میں چیچک سے چلی گئی۔ اس کے بعد انہوںنے قرآن حفظ کیا۔ ذہین تھیں۔ دوتین بار کو ئی پڑھ دیتا تو ان کو یاد ہوجاتا ۔اسی لیے کچھ اور کتابیں ان کو ازبر تھیں ۔ مثلاً ر سالہ بے نماز، فقہ محمدیہ، طریق محمدیہ ،شاہ نامہ اسلام ،دیوان گلشن کا کچھ حصہ ،اور جو یاد ہوگیا پتھر کی لکیر ہوگیا ۔اسی لیے قرآن شریف اور یہ ساری کتابیں آج تک ان کو یاد ہیں ۔(اب مرحومہ ہو چکی ہیں) بینائی نہ ہو نے کے باوجود وہ بچیوں کو پڑھا یا کرتیں ،غربت بھی تھی، شوہر کما نہیں پاتے تھے اسی طرح کچھ مدد ہوجا یا کرتی تھی۔ او رکچھ بچیاں گھر کا کام کر دیتیں۔آج سے ساٹھ سال پہلے یہ خود کنواں سے پانی بھر لاتیں۔ او رگھڑا بھی کچا مٹی کا ہوتا۔کھانا پکالیتیں۔ اب خود تو ماشاء اللہ ان کے دوبیٹے سیٹھ ہیں بہرحال انہی کے پاس چند ورق قرآن شریف پڑھا تھا۔ پھر بقیہ حصہ ان ہی کے پاس بیٹھ کر خود ہی پڑھ ڈالا۔
دوسری بات یہ کہ تجوید میں نے جن اساتذہ سے مشق کی ان میں ایک مولانا عبداللہ سعیدی جمنوی تھے۔ جو مدرسہ مفتاح العلوم ٹکریا میں پڑھاتے تھے ۔کاتب بھی تھے ۔قرأت (تجوید) اور کتابت طلبہ کودرسی اوقات کے علاوہ میں للہ فی اللہ پڑھاتے تھے ۔ اس کا کوئی معاوضہ نہ طلبہ سے لیتے تھے نہ ہی مدرسہ سے لیتے تھے۔ ان کے سامنے کبھی مجھ کو اس آیت کے پڑھنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔اور یہاں جامعہ میں قاری ماسٹر عبدالحمید صاحب جامعہ کی طرف سے معاوضہ لے کر بعد نماز مغرب قرأت پڑھاتے تھے ۔ ان کے سامنے بھی یہ آیت کبھی نہ گزری ۔اسی لیے غلطی ہو ئی ۔لیکن یہ بات سن کر بڑ ا تعجب ہو ا کہ ہمارے یہاں حفاظ تو تقریباً چالیس سال سے حفظ قرآن پڑھاتے تھے ۔وہ اس آیت میں غلطی کرتے تھے ۔جامعہ میں تجوید کا شعبہ کھلا اوردومولانا جامعہ کے حساب پر لکھنؤ سے قرأت وتجوید پڑھ کر آئے اور پڑھانے لگے ۔تو ان لوگوں نے ان حفاظ کو درست کرایا ۔
۲- جامعہ سلفیہ میں جب میری تقرری ہوئی تو استادمکرم مولاناشمس الحق سلفی صاحب نماز پڑھا یا کرتے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں عموماًلوگ مجھے آگے بڑھا دیا کرتے تھے۔ ایک روز مغرب کی نماز پڑھاکر سنت کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکل رہاتھا کہ مولانا سے ملاقات ہو گئی ۔ انہوں نے فرما یا تمہارا (سین) کا تلفظ درست نہیں ہے۔ ٹھیک سے سین نہیں نکلتی۔ اسی وقت سے مجھے یہ بات یادہے ۔معلوم نہیں اب اس کی اصلاح ہوئی یا نہیں یا ابھی تک وہ غلطی باقی ہے۔
کیا کوئی عبدالمعید اس دورمیں پھر آئے گا (۲۲ دسمبر ۱۹۸۰ء بروز دوشنبہ)
ِّٓاستاذگرامی عبدالمعید صاحب کا انتقال ۲۲دسمبر ۱۹۸۰ء دن ڈوبنے کے بعد کی شب میں ساڑھے آٹھ بجے ہو ا، ابھی حالت زیادہ مخدوش ہونے کے بعد ایک گھنٹہ پیشتر گھر پہونچاگیا تھا اورتدفین ۲۳ دسمبر ۱۹۸۰ءبروز سہ شنبہ ۲ بجے دن میں ہو ئی ۔ ۲۴ دسمبر چہار شنبہ کو جب تعلیم کی گھنٹی لگی تو سارے اساتدہ اپنی اپنی گھنٹی کے لیے اترے ۔مولانا محمد رئیس ندوی (رحمۃ اللہ علیہ ) بھی اترے جو فن حدیث ورجال میں استناد کا درجہ رکھتے تھے ۔ مولانا عبدالمعید صاحب کے بنددروازہ کی طرف دیکھ کر فرما یا اور مجھے مخاطب کیا ۔ اب کیا ہوگا مولانا! جب تک مولانا (عبدالمعید ) تھے کو ئی دشوار مسئلہ پیش آتا تھا کسی بھی فن میں ،مولیٰنا کے پاس پہنچتے ابھی سوال پورا ختم نہ ہوتا تھا کہ نقد انقد جواب مل جاتا تھا ۔ اب کون ہماری علمی مشکلات کو حل کرے گا ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا’’ یہ ہے ایک عالم کی دوسرے بڑے عالم کے لیے سچی عقید ت او رخراج تحسین بھی ‘‘اللہ تعالی دونوں کو اپنی رحمت میں جگہ دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین