Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

تقریر وخطابت سے پرہیز کے اسباب

تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی 

ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)

میں فطرتاً بہت بودا ،کمزدر دل ڈرپوک او ربزدل واقع ہواہوں ۔میں تیز وتندجھونکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ،باد مخالف کے تھپیڑوں میں اپنا چراغ جلائے نہیں رکھ سکتا، طوفانوں سے ڈرتا ہوں، شر و فساد سے بھاگتا ہوں ،فتنوں کو دیکھ کر گھرمیں دبک جانے والا انسان ہوں ،میں نے اپنی اتنی زندگی اسی طرح گزاری ہے ۔ میں ہمیشہ اللہ تعالی سے دعا کرتا رہتا ہوں کہ اے اللہ! مجھے زمین وجائداد کے جھگڑے میںنہ ڈال ۔مجھے ہمیشہ شروروفتن سے محفوظ رکھ ۔اسی لیے لوگ مجھے دباتے گئے میں دبتا گیا ۔میرے گھر کے پاس کی زمینوں پر لوگ قبضہ کرتے گئے میں ہٹتا گیا ۔اور میں نے اپنی بیوی او ربچوں کو بھی سمجھا دیا،اور اللہ کا شکرہے کہ اب تک تمام لوٹ گھسوٹ کے باوجود فتنوں سے محفوظ ہوں، ظالموں سے اچھا اللہ تعالی کھلا تا پلا تا ہے۔ اور ماشاء اللہ ہر چیز میں وہ میرے محتاج ہیں۔میں ان کا نہیں۔مہمان آجائیں، کو ئی تقریب ہو تو ان کو میرا ہی گھر نظر آتا ہے ۔بے شرمی اور ڈھٹا ئی سے آتے ہیں او رچیز یںمانگ کرلے جاتے ہیں ۔کبھی واپس کردیتے ہیں ۔اور کبھی اتنا دن رکھے رہ جاتے ہیں کہ چیزیں ذہن سے نکل جاتی ہیں ۔ مانگنے پر انکارکردیتے ہیں کہ ہم نہیں لا ئے تھے۔ یا ہم نے اسی وقت پہونچادیا تھا ۔ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ میں اس اللہ کریم ورحیم کا محتاج ہوں کسی انسان کا محتاج نہیں ۔
۱- ایک مرتبہ کا واقعہ ہے (یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب میں گائوں میں جمعہ پڑھا یا کرتا تھا) کہ میں کسی مشغولیت کی بنا پر ۱۲بج کر۳۱منٹ پر مسجد پہونچامیں نے فوراً سنت شروع کردی لوگ مسجد میں شورغل کررہے تھے ۔ایک صاحب نے پیچھے مڑکر دیکھا تومیرے اوپر ان کی نظر پڑگئی انہوںنے لوگوں سے کہا خاموش رہو فلاں مولانا صاحب آگئے ہیں ۔ سنت پڑھ رہے ہیں سنت سے فراغت حاصل ہو ئی تو اس وقت مؤذن صاحب نے کہا خطبہ کا ٹائم ہو گیا ہے ۔ آپ ممبر پر چلیں امام صاحب نہیں آئے ہیں۔ ان کے کہنے کے بعد میں منبر پر بیٹھا، اذان ہو ئی میں نے خطبہ مسنونہ اور حمدو صلاۃ کے بعد خطبہ شروع کیا تو میں نے ذکر کیا کہ احادیث شریفہ میں ساری ہدایتیں موجود ہیں۔ بس ضرروت ان کے جاننے او ران پر عمل کرنے کی ہے ۔ کبھی نبی اکرم ﷺ کہیں تشریف لے جاتے تو حضرت ابوبکر ؓسے کہہ جاتے کہ نمازپڑھا دینا یا حضرت بلالؓ سے کہہ دیتے کہ ابوبکرؓ سے کہہ دینا کہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے۔ اور اگر کبھی آنے کا امکان ہوتا تو کہہ دیتے کہ اگر میں نہ آسکوں تو ابوبکرؓ سے نماز پڑھانے کے لیے کہہ دینا۔ اور آگر آجاتے تو آپ ہی نماز پڑھاتے تھے ۔اوراگر بغیر اطلاع چلے جاتے تو امکان ہوتا تھا کہ آجائیں گے مگر آنہیں پاتے تھے تو یا حضرت ابوبکرؓ آکر پڑھا دیتے یا جو وقت پر موجود ہوتا وہی پڑھا دیتا تھا مثلاً ایک مرتبہ سفر میں حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھا ئی آپ قضائے حاجت کے لیے گئے تھے،دیر ہوگئی مسبوق ہو کر نماز میں شامل ہو ئے۔
یہ ساری ہدایتیں احادیث میں موجود ہیں ۔اس لیے مسجد میں شوروغل مناسب نہیں۔ جیسی صورت حال ہو ا سی کے مطابق عمل کرلیا جا ئے ۔ یہی ساری باتیں میں نے لوگوں کے سامنے بیان کیں ۔ کسی چغلخور نے امام صاحب سے جاکر کہہ دیا کہ عزیزالرحمٰن نے آپ کے خلاف تقریر کی ہے ۔ پھر تو ان کو تائو آگیا ۔معلوم نہیں کیا کیا کہا ،اور ان کے گھروالے بھی اول فول بکنے لگے ۔اسی وقت سے میں نے گائوں میں جمعہ کا خطبہ دینا چھوڑ دیا۔اور اب میں ایسا کرتا ہوں کہ جمعہ کی اذان سن لیتا ہوں تب میں گھر سے نکلتا ہوں ۔
یہ مذکورہو چکا ہے کہ سارے بزرگان نماز کی امامت کے لیے مجھے آگے بڑھاتے تھے اورمیں ہمیشہ نماز پڑھاتا تھا ،لیکن مجھے لگتا ہے کچھ لوگوں کو میرا آگے بڑھنا ناگوار گزرنے لگا۔ اس لیے تین چا ر مولانامل کرہرنماز سے پہلے آپس میں اس طرح گفتگو کرنے لگے ۔اس میں ایک بزرگ مولانا بھی شامل تھے ۔اور یہ سب کے سب ہم مزاج وہم فطرت تھے ۔ وہ آپس میں ہر نماز کے وقت اس طرح کہتے۔ایک کہتا ’’چلیے امام صاحب، تو دوسرے کہتے ’’چلیے فلاں مولانا صاحب ‘‘ تو وہ تیسرے صاحب بولتے ’’چلیے فلانے صاحب ‘‘ اور اس کے بعد وہ آگے بڑھ کے نماز پڑھاتے۔ یہی صورت میں روز روز اور ہر نماز میں دیکھتا ،میں نے سوچا کہ یہ لوگ شاید امامت کے خواہش مند ہیں ۔ اس لیے میں نے امامت کے لیے آگے بڑھنا چھوڑ دیا۔ اور اب نماز کے لیے اس وقت نکلتا جب میں یہ سوچتا کہ اب نماز شروع ہو چکی ہو گی۔ اس طرح میں نے خود کوفتنہ سے محفوظ کرلینے کی کوشش کی۔ مگر آج سے تقریباً ۱۳؍۱۴ سال پیشتر کی بات ہے کہ گائوں والوں نے ایک مولوی صاحب کو جو جامعہ سلفیہ سے فارغ بھی ہو ئے ہیں ۔پہلے کے امام کے بہت نحیف ولاغر اورعمردراز ہوجانے کے بعد لوگوں نے انہی کو امام بنا دیا پہلے بھی وہ خطبہ دیا کرتے تھے ۔ اب وہ ذمہ داری کے تحت پڑھانے لگے ۔انہوں نے تین چار ماہ متواتر پڑھا یا اور جب کہیں ان کو جانا ہوتا تو دوسروںکو کہہ کرجاتے تھے ۔ اس طرح معاملہ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا ۔ مگر ایک شیخ الحدیث صاحب کو لوگوں کا یہ تعین پسند نہ آیا تو وہ چار ماہ کے بعد عین بقرعید کی نماز کے لیے مصلی پر کھڑ ے ہونے اور ارادہ تکبیر کے بعد یک بیک بول پڑے ’’ ہم لوگ بزرگ امام چاہتے ہیں ‘‘ یہ آواز نکلی ہی تھی کہ شوروغوغا ہونے لگا۔ متعینہ امام صاحب پیچھے ہٹ آئے۔ ایک شخص نے دوسرے عالم کو پکڑکر زبردستی مصلٰی پر کھڑا کردیا اور ان سے سفارش کی کہ کسی طرح دوگانہ ادا کرا دیں۔ بہرحال انہوں نے نماز پڑھا ئی، مختصر خطبہ بھی دیا،اور اس طرح بقرعید کی نماز ادا ہو گئی۔ لیکن ان شیخ الحدیث ’’متقی پارسا ،ہم چوں دیگرے نیست ‘‘ نے ایسا زہر بویا کہ آج ۱۳؍۱۴ سال کے بعد بھی اتحاد پارہ پارہ ہے، گائوں میں دوپارٹیاں ہیں،اور مقدمہ بازی ہو رہی ہے ۔اب یہ معاملہ بظاہر ٹھیک ہے ، باطن کا حال اللہ کو معلوم ہے۔
میں ہمیشہ پارٹیشن سے دوررہا اور کبھی کسی پارٹی کا ساتھ نہیں دیا ۔سب سے راہ ورسم اور علیک سلیک رکھتاتھا ،یہ ہمیشہ سے میرا دستور تھا ۔مگر یہ امام جو گائوں کے عربی مدرسہ میں پڑھاتے تھے او رجن کو گائوں کے لوگوں نے ابھی چند مہینہ پہلے امام بنا یا تھا شاید دوسری پارٹی کے لوگ یہ سوچتے تھے کہ میں اس فریق کا معین ومدد گار ہوں،ایک روز ظہر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا ایک جاہل نے مجھ سے تلخ کلامی شروع کر دی اور گالی بھی دی، اس کے بعد سے میں نے مسجد میں بھی جانا چھوڑ دیا، صرف جمعہ کی اذان سن کر جاتا ہوں،اور سنت عموماً گھر ہی آکر پڑھتا ہوں، اس لیے کہ جمعہ کی نماز ہمارے یہاں ایک ہی مسجد میں ہوتی ہے۔
۲- اسی طرح کا حال جامعہ میں بھی ہوا وہ اس طرح کہ جامعہ کی مسجد میں خطبہ دینے والے اساتذہ اپنی اپنی باری پر جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے کبھی کبھی حالات وظروف کی وجہ سے وقفہ کم وبیش بھی ہوجایا کرتا تھا سعودیہ سے واپسی کے بعد مجھے مسلسل نزلہ وزکام رہنے لگا تھا کبھی ناک بہنے لگتی تو رکنے کا نام نہیں لیتی اور کبھی جام ہوجاتی تو بولنا مشکل ہوجاتا، کبھی مسلسل چھینک آنے لگتی۔ درس میں خصوصاً اس پریشانی کو جھیلنا پڑتا ادھر خطبہ کی باریاں کچھ میں نے مس کردی تھیں اس لیے زیادہ دن ہوگیاتھا میں نے جمعہ کا خطبہ نہیں دیاتھا خطبہ کے لیے تعین او راطلاع کی ذمہ داری شیخ الجامعہ (مولانا عبدالوحیدرحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) کی تھی اور انہوںنے ایک طالب علم کے سپرد کردیاتھا جو اوپر کی جماعت میں پڑھتاتھا۔ وہ تھے مولوی محفوظ الرحمٰن سلفی مئوی، موجودہ جنرل لائبریرین مکتبہ عامہ جامعہ سلفیہ بنارس۔ یہ ۱۹۸۹ء؁ کی بات ہے۔ ناظم اعلیٰ جناب مولانا عبدالوحید عبدالحق سلفی (موجودہ ناظم کے والد صاحب) کا انتقال ایسے وقت ہوا تھا کہ ہم لوگ تعطیل میں گھر تھے۔ وہاں آپ کے انتقال کی خبر ملی تو بڑا غم ہوا اور ہر وہ شخص غم میں ڈوب گیا جو کچھ بھی آپ کو جانتا تھا۔ تعطیل کے بعد جب ہم لوگ جامعہ میں حاضر ہوئے تو پھر یہاں کے ماحول میں آکر رنج وملال دوبارہ عودکرآیا۔
تعطیل کے بعد شاید جامعہ کا پہلا خطبہ جمعہ تھا۔ مولانا محفوظ الرحمٰن صاحب نے مجھ سے پڑھانے کے لیے کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ آپ نے بہت دنوں سے خطبہ دیابھی نہیں ہے۔ ان کے اس طرح کہنے کی وجہ سے میں نے حامی بھرلی۔ جمعہ کا دن آگیا مگر میں نے کچھ سوچا بھی نہیں کہ کیا کہناہے۔ کیا موضوع رہے گا؟ اس معاملہ میں میرا عجیب مزاج ہے۔ میں اگر کچھ کتابیں کسی خاص موضوع پر دیکھ بھی لوں، تو وہ میرے کچھ کام کا نہیں ہوتا۔ منبر پر بیٹھتاہوں تو وقت اور مجمع دیکھ کر کوئی دوسرا موضوع سامنے آجاتاہے اور اسی موضوع پر سب کچھ کہہ جاتا ہوں۔ عموماً میرے موضوع کا تعین منبر پر بیٹھنے کے بعد ہوتاہے اس لیے مطالعہ اور غیر مطالعہ سب برابر ہوتاہے کتنا ہی پہلے سے سوچ کر جائوں منبر پر جاکر عنوان بدل ہی جاتاہے اور اگر تسلسل سے خطبہ دیتا ہوں تو اسی خطبہ میں آئندہ خطبہ کاموضوع متعین ہوجاتاہے۔ اور بسااوقات گفتگو کی فرعیات بھی ذہن میں آجاتی ہیں۔
بہرحال اس جمعہ کو جب میں منبر پر بیٹھا تو ناظم تاسیسی کے نہ رہنے کا غم لوٹ آیا ان کا پررونق روشن چہرہ سامنے آگیا، ایسا لگا کہ ان کو دیکھ رہاہوں وہی ناظم جن کے چہرے کو دیکھ کر ایک اہم عربی شخص نے برجستہ کہاتھا ’’ان ہذا الوجہ لیس بوجہ کذاب‘‘ یہ چہرہ کبھی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔
حمدوثناکے بعد میں نے خطبہ شروع کیا تو میں نے یہی بات دکھانے کی کوشش کی کہ دنیا میں دوطرح کے لوگ پیداہوتے ہیں۔ ایک جماعت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو انسانوں کو اپنا بندہ بناکر رکھتے ہیں ان کا پوری انسانیت پر ظلم ہوتاہے، پوری انسانیت کو پیس کر رکھ دیتے ہیں ان کی موت سے انسانیت سکون وراحت محسوس کرتی ہے اور ذرہ ذرہ مسرور ہوتاہے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ’’فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۠‘‘ ان کی موت پر نہ آسمان ہی رویا اور نہ زمین ہی نے آنسو بہائے۔ یہ قارون ، فرعون، نمرود، ہامان، شداد کی جماعت ہے جن کا تذکرہ صرف عبرت ونصیحت کے طور پر کیا جاتاہے کبھی کوئی اچھائی کے ساتھ انہیں یاد نہیں کرتا قرآن مجید میں ان کا ذکر اسی طور پر کیاگیاہے۔
دوسرا طبقہ وہ ہوتاہے جس کے اٹھ جانے پر پوری دنیا رنج وغم میں ڈوب جاتی ہے پورا عالم ان کی وفات پر روتاہے۔ جب کبھی ان کا ذکر ہوتاہے تو ہمیشہ خیر کے ساتھ اور دعائوں کے ساتھ ہوتاہے آج ناظم صاحب نہیں رہے پورا جامعہ اور جمعیت غم زدہ ہے سب کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں رنج والم ہے۔ جامعہ کے تمام اساتذہ ، تمام طلبہ، پورا بنارس ، پورے ہندوستان کی اہل حدیث جماعت کے افراد بلکہ جامعہ کی ایک ایک اینٹ رورہی ہے۔ ایک مومن، ایک عالم، ایک منتظم، ایک مدبر، پورے ہندوستان کے محسن، سب کے دکھ کو اپنا دکھ اور سب کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھنے والے آج اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ وہ اللہ کے یہاں چلے گئے، ان کی یاد باقی ہے۔ ہر شخص کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ سب انہیں خیر سے یاد کرتے ہیں۔
یہی وہ خطبہ تھا جس کے سننے کے لیے میرے دوست شیخ اجمل یوسف سخت تکلیف کے باوجود مسجد میں محض خطبہ سننے کی غرض سے چلے آئے تھے اور سارے لوگوں نے اس خطبہ کی تعریف کی تھی۔
بہرحال خطبہ ونماز ختم ہوئی میں سنت پڑھ کر باہر نکلا تو مولوی محفوظ الرحمٰن پھر ملے، اور کہا کہ اگر اگلا جمعہ آپ پڑھادیں تو پھر سال کے اختتام تک آپ کی باری نہیں آئے گی۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے میں پڑھادوں گا۔
شنبہ کی صبح کو گھنٹی کے وقت نیچے اتر ا تو شیخ الجامعہ مولانا عبدالوحید رحمانی(استاذ گرامی) نے مجھ کو اپنے پاس بلایا اور بیٹھنے کے لیے کہا۔ میرے بیٹھنے کے بعد انہوںنے مجھ سے پوچھا: کل کس نے خطبہ دیا۔ میں نے جواباً کہا کل میری باری تھی۔ میں نے خطبہ دیاہے۔ پوچھا: موضوع کیاتھا؟ میں نے عرض کیا کہ میرے خطبہ کا عموماً کوئی موضوع نہیںہوتا۔ لیکن کل خطبہ کے لیے کھڑا ہوا تو ناظم صاحب کی وفات کا غم عودکرآیا میںنے یہی ذکر کیا کہ انسان دوقسم کے ہوتے ہیں۔ ایک شخص وہ ہوتاہے جس کے مرنے پر پوری انسانیت راحت محسوس کرتی ہے ۔ کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں ہوتاہے بلکہ خوشی ہوتی ہے۔ اور دوسری قسم کا وہ آدمی ہوتاہے جس کی وفات پر زمانہ روتا ہے۔ پوری انسانیت غم میں ڈوب جاتی ہے اور یہ درد وکرب ایک عرصہ تک باقی رہتاہے۔ ہمارے ناظم صاحب کی شخصیت ان ہی لوگوں میں سے تھی۔
میری بات ختم ہونے کے بعد شیخ الجامعہ نے فرمایا کہ تم سے پہلی بار نہیں پوچھ رہا ہوں۔تم سے پہلے میں تین آدمیوں سے پوچھ چکا ہوں کہ کل کس کا خطبہ تھا اور کیا کہاہے؟ وہ تینوں ہیں: ۱۔ شیخ محمدمستقیم سلفی(میرے ہم سبق ساتھی تھے)۲۔شیخ علی حسین سلفی(استادجامعہ جو اسی سال ۲۰۲۰ء؁ میں مرحوم ہوئے) اور شیخ اجمل یوسف (جنرل لائبریرین مکتبہ عامہ) اور سب نے یہی بات کہی ہے جو تم نے بتائی ہے۔ اس میں تو کوئی قابل اعتراض بات نہیں لگتی اور نہ ہی آسکتی ہے۔
لیکن کسی نے فلاںذمہ دار سے یہ چغل خوری کی ہے کہ پوری تقریر آپ کے خلاف تھی۔ وہ میرے پاس آئے تھے، بہت غصہ میں تھے تو میں نے سوچا کہ تم سے پہلے معلوم کرنے کے بجائے دوسروں سے پوچھ لوں کہ ان لوگوں کا کیاتاثر ہے؟ پھر تم کو بلاکر پوچھوں لیکن ان لوگوں نے بھی وہی بات بتائی جو تم نے کہی ہے۔ آخر ان کے چغل خور کو کہاں سے مواد مل گیا کہ اس کو ان کے خلاف محمول کرکے تمہارے خلاف ان کے دل میں آگ لگادی۔ اچھا جائو اگر تم سے کوئی کچھ کہے بھی توتم کچھ مت بولنا میرے پاس بھیج دینا۔
میں نے شیخ الجامعہ سے کہا کہ ابھی تو میں آئندہ جمعہ پھر پڑھائوں گا۔ اس لیے کہ جمعہ سے نکلتے وقت مولوی محفوظ الرحمٰن نے مجھ سے کہا کہ اگر ایک جمعہ آئندہ والا پڑھادیں تو سالانہ تک آپ کی باری نہیں آئے گی۔ ان کے کہنے پر میں نے آئندہ جمعہ پڑھانے کا وعدہ کرلیاہے۔ اس لیے وعدہ تو پورا ہی کروں گا لیکن اس کے بعد کبھی نہیں پڑھائوں گا یہ کہہ کر میںاٹھ کر چلاآیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک جامعہ کی مسجد میں میں نے خطبہ نہیں دیا۔ درمیان میں ایک بار میرے دوست اور ہم کلاس شیخ مستقیم سلفی (بزرگوار) نے بہت اصرار کیا بلکہ ضد کرلی تو درمیان میں فقط ایک بار جامعہ کی مسجد میں ان کی بات رکھنے کے لیے کھڑا ہوگیاتھا۔ آج تقریباً ۲۶سال ہونے کو ہیں میں نے جامعہ کی مسجد میں جمعہ کاخطبہ نہیں دیا۔
یہ ہے تاریخ جامعہ میں میرے خطبہ بندکرنے کی۔ ادھر گائوں میں پہلے ہی خطبہ دینا چھوڑ چکا تھا اور یہاں بنارس جامعہ کے علاوہ بھی شہر کے مساجد میں خطبہ کے لیے آناجانا بند کردیا۔
بہت سے دوستوں نے بار بار اصرار کیا ۔ بزرگوں نے بار بار عتاب کیا مگر طبیعت گوارہ نہیں کرتی ۔ شیخ الجامعہ مرحوم جب تک حیات رہے ، کبھی ڈانٹتے جھڑکتے، کبھی سمجھاتے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت علم اور زبان کو یاددلاتے، کہتے کہ ذرا سوچو اللہ تعالیٰ نے علم دیا ، زبان دی، قوت گویائی دی، مافی الضمیر کی ادائیگی کی قوت بخشی، دس آدمی سے اچھا بول لیتے ہو، پھر بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان محسنین کی مغفرت فرمائے اور میرے قصوروخطا کو درگذر کرتے ہوئے دامن عفو میںجگہ دے ۔آمین
بنارسی طلبہ نے جامعہ سے فراغت کے بعد ایک تحریک جمعیۃ الشبان المسلین بنائی۔ پھر بعد میں ایک تحریک ’’ اتحاد ابناء السلفیہ‘ ‘ کی بنی، دونوں الگ الگ علاقوں میں چلتی ہیں۔ جمعیۃ الشبان المسلمین کے قواعد الگ ہیں اور اتحاد ابناء السلفیہ کے اراکین الگ، مختلف مواقع پر مختلف لوگ اس کے ذمہ دار ہوئے۔ کبھی کبھار جمعیۃ الشبان کے بعض تبلیغی جلسوں میں شرکت کا موقع ملا اور خطاب بھی کیا۔ جب شیخ عبدالمتین مدنی(جامعہ سے فراغت کے بعد) جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے پڑھ کر لوٹے تو ان کو لوگوں نے ذمہ دار بنایا۔ انہوںنے کئی جگہ پروگرام کئے۔ ان کی دعوت (بحیثیت استاذ ہونے کے) میں نے قبول کی اور دل پر جبر ڈال کر لوگوں کو خطاب کیا۔ پھر جب ان کے بھائی مولوی عبداللہ طیب(جامعہ سے فراغت کے بعد) جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے لیسانس(بی اے) کرکے واپس لوٹے تو ان کو لوگوں نے ذمہ دار بنادیا۔ انہوںنے اپنے دور نظامت میں کافی منظم کام کیا اور ان کی محنت اور لگن دیکھ کر (یہ بھی شاگرد ہی تھے) ان کے اصرار پر میں نے ان کے پروگراموں میں شرکت کرنی شروع کردی۔ ان کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا جمعہ گزرا ہو جس میں خطبہ نہ دینا پڑاہو۔ یعنی جامعہ کے باہر، پھر ایک بار زنگ آلود زبان اور دماغ کھلا اور پھر ایسا ہونے لگا کہ کچھ لوگ معلوم کیا کرتے تھے کہ عزیزالرحمٰن کا خطبہ کہاں ہے؟ جہاں معلوم ہوتا وہیں جمعہ پڑھنے جایا کرتے۔ ایک روز میں کسی کام سے باگڑبلی مدنپورہ کی طرف کسی ضرورت سے جارہاتھا ایک صاحب سے ملاقات ہوئی انہوںنے علیک سلیک کے بعد پوچھا: مولاناآئندہ جمعہ کو آپ کا خطبہ کہاں رہے گا؟ میں نے پوچھا ، کیوں کیا بات ہے؟ تو انہوںنے فرمایا کہ ہم لوگ معلوم کرکے وہیں جایا کرتے ہیں جہاں آپ کا خطبہ ہوتاہے۔ شیخ احسن جمیل مدنی باگڑبلی مسجد کے خطیب ہیں۔ وہ جب بھی مشغول ہوتے مجھ ہی کو ٹیلی فون کرتے ایک بار مسلسل تین جمعہ کاخطبہ ان ہی کی مسجد میں دیا۔ پھر چوتھے کے لیے بھی ان کا اصرار ہوا تو میں نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تسلسل کے ساتھ خطبہ مجھ سے نہ دلوائیے۔ نمازی اور سامعین مختلف خیالات اور مزاج کے ہوتے ہیں۔ کسی کو برا لگے تو کیاہوگا؟ انہوںنے کہا کہ جس کو برا لگے، گراں گذرے گذرا کرے آپ کو کیا پرواہ؟ جس کو کچھ کہنا ہو مجھ سے کہے۔ یہ پرانے ناظم کے بھتیجہ اور نئے ناظم کے چچیرے بھائی، حافظ عبدالبصیر کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ جامعہ سلفیہ میں اعزازی طور پر چودہ سال تک مختلف کتابیں پڑھاچکے ہیں۔ پہلے شیخ الجامعہ کے انتقال کے بعد انہی کو شیخ الجامعہ بنایاگیاتھا تقریباً ۵،۶سال تک وہ شیخ الجامعہ تھے چوں کہ وہ عالم ہیں جامعہ سلفیہ سے فارغ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے لیسانس(بی اے) کئے ہوئے ہیں اس لیے علم سے ان کو دلچسپی ہے۔ علماء کی قدر جانتے ہیں۔ دونوں بھائیوں میں (نئے ناظم اور شیخ الجامعہ شیخ احسن جمیل) میں بنی نہیں اس لیے شیخ الجامعہ کے عہدہ سے دست بردار ہوگئے اور تدریس سے بھی علاحدہ ہوگئے۔ بہت بڑی تجارت ہے۔ چچالوگوں میں تقسیم کے بعد خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا اور روز افزوں تجارت کا دائرہ ماشاء اللہ بڑھتاہی جارہاہے۔ باقاعدہ زکوٰۃ نکالنے کی پابندی کرتے ہیں۔ ان کے بعد ڈاکٹر رضا ء اللہ (مرحوم) کو شیخ الجامعہ بنایاگیا جو مارچ ۲۰۰۳؁ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس کے بعد تو کئی آدمی شیخ الجامعہ بنے۔
بہرحال تقریباسات سال پہلے تک میں نے خوب خطبے دیے اور پروگراموں میں شرکت کی۔ اتفاق سے (اللہ کی مصلحت) اب یہ مدت زیادہ ہوگئی ہے اس لیے کہ اس کے بعد کئی بیماریاں آئیں۔ اور اسی وجہ سے تدریس سے علیحدہ ہونا (اللہم احفظنا من كل بلاء في الدنيا وعذاب في الآخرة،وجنِّبنا مكائد الشيطان،والظلم والخيانة والكيد والحسد وغيرها،من الآفات إنك سميع الدعاء ،،) سات سال پہلے ابتداء سال میں ہی مجھے ریڑھ کی آخری ہڈی میں درد ہوگیا۔ بڑا بھیانک درد، درد بڑھا ہوا دیکھا تو ایک بچے کے ساتھ اہلیہ کو بنارس بلوالیا۔ درد کا یہ حال ہوا کہ ہر دم بے چینی، درد کی اتنی شدت کہ پیر نہ سیدھا ہوپائے اور نہ مڑے، سونے، اٹھنے بیٹھنے اور کھڑے ہونے میں پریشانی، کئی ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔۱۵دن کے بعد جب کچھ افاقہ ہوا کہ دوچار قدم چل سکوں تو دہلی چلاگیا۔ اپنے دوست اور معاصر ساتھی ڈاکٹر(حکیم) عبدالحنان سے رجوع کیا۔ انہوںنے کئی چیک اپ کروائے۔ چیک اپ کا جونتیجہ معلوم ہوا وہ یہ کہ ریڑھ کی نچلی ہڈی سے کوئی رگ دب رہی ہے اور وہاں سوجن ہے، اللہ کا نام لے کر ان ہی کی دوا شروع کی۔ ایک ماہ کے لیے بیڈ ریسٹ بتایا۔ پھر اس کے بعد ایک مرتبہ نیچے اترنے کی اجازت دی۔ تین ماہ تک مشکل قسم کا پرہیز بتایا۔ پھر اس کے بعد دکھانے گیاتو دال کھانے کی اجازت دی۔ اور کبھی کبھار مرغ کا گوشت لینے کے لیے کہا۔ دوسری سہ ماہی پر دکھانے گیا تو انہوںنے کہا کہ احتیاط باقی رکھئے گا۔ اور دوا جیسے چلتی ہے چلتی رہے گی۔ ماشاء اللہ اس بیماری میں جتنا فائدہ آپ کو ہوگیاہے اتنا فائدہ کم ہی لوگوں کو ہوپاتاہے۔ اسی وقت سے دوا چل رہی ہے۔ اپنی کوشش کے مطابق احتیاط باقی ہے۔ چوبیس گھنٹہ میں ایک بار نیچے اترتاہوں۔ ۴؍گھنٹی پڑھاکر اوپر کمرے میں آجاتاہوں۔پانچوں وقت کی نماز یں کمرے میں پڑھتاہوں اللہ کا شکر ہے کہ اس کے بعد پھر سخت قسم کا درد نہیں اٹھا۔ اگر کبھی ہوا بھی تو ایک دوخوراک انگریزی دوالینے کی اجازت ہے وہی لے لیتاہوں۔ اللہ کا شکر ہے بیٹھے بیٹھے لیٹے لیٹے مطالعہ وغیرہ کا کام کرلیتاہوں۔
اس دوران یعنی جب سے درد اٹھاکتنے لوگوں نے سفارش کی، اصرار کیا جمعہ پڑھانے، اور پروگراموں میں شرکت کے لیے، تقریر کرنے کے لیے، مگر معذرت کرتا آرہاہوں حتیٰ کہ بعض بعض بڑے بڑے سن رسیدہ لوگوں نے بھی کہا اور دوسرے سے کہلوایا کہ ایک بار آکر کے خطبہ دیدیں۔ہم آواز تو سن لیں، بہت یاد آتی ہے۔ حتیٰ کہ مولانا احسن جمیل مدنی کے والد بزرگوار نے بھی کئی مرتبہ لوگوں سے کہلوایا کہ عزیزالرحمٰن سے کہو کہ ایک مرتبہ آکر کے خطبہ دے دیں لیکن ہر ایک سے ہمیشہ میں معذرت ہی کرتا رہا۔ اس ڈر سے کہ اگر ایک جگہ چلاجائوں گا تو پھر دوسرا اسی کو مثال بنالے گا۔ اور پھر انکار مشکل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے او رمیرے محبین ومحسنین کو اجرعظیم سے نوازے آمین۔(اسی سال ۳۰مارچ ۲۰۱۵ء؁ کو فالج کا عارضہ ہو گیا۔ دوا چل رہی ہے۔ مسلسل جاری ہے اسی لیے ناظم صاحب نے مجھے کام سے علیحدہ کر دیا۔ اللہ عافیت دے اور اپنی مرضی سے کام لے۔
اس بیماری کا بچوں پر بڑا گہرا اثر پڑا، ابھی تک ان لوگوں نے مجھے مریض نہ دیکھا تھا، کبھی کبھی ہلکا پھلکا اثر دیکھا ہو گا، ایک بار جو مجھے کراہتا دیکھا اور اٹھنے بیٹھنے سے لاچار دیکھا تو پڑھائی چھوڑ دی۔ مطیع الرحمٰن کا عالمیت کا کورس مکمل ہو گیا تھا، انہوں نے اپنی اماں کو بنارس پہنچایا اور چند روز خدمت کی۔ کچھ افاقہ دیکھا تو دہلی چلے آئے اور کہیں ملازمت کر لی، ماشاءاللہ وہ محنت کے عادی ہیں، کئی جگہ ملازمت کی، میری حالت سن کر روتے بھی تھے۔ ساتھیوں کے سمجھانے پر رکے۔ بہر حال ملازمت بدلتے رہے، بعد میں ان کو روزنامہ ہمارا مقصد اخبار میں ملازمت ملی، ساتھ میں اور بھی کئی اخبار کا کام کرتے رہے، بڑی محنت کرتے۔ رات دس بجے آفس سے آکر فوراً کمپیوٹر پر بیٹھ جاتے، صبح وہیں پر کام کرتے کرتے چائے ناشتہ کرتے۔ پھر یہ سلسلہ ۳؍ بجے دن اور رات کو دو تین بجے تک چلتا رہتا، ، کام ختم کرکے کھانا کھاتے اور سو جاتے یہی روزانہ کا دستور تھا۔ اب تو ماشاء اللہ اپنا اخبار ’’پیغام مادر وطن ‘‘ نکالتے ہیں، فلیٹ اپنا ہوگیا ہے۔ اب وزیر آباد میں ان کا گھر اور پیغام مادر وطن کا دفتر بھی ہے۔ ماشاء اللہ خوش حال ہیں۔ اللہ تعالیٰ صحت وعافیت کے ساتھ نیک عمل کی توفیق دے۔ آمین، ان کے چار بچیاں اور دو بچے ہیں۔ بچیوں کے نام وردہ، حامدہ ،نوہیرا اور حمیرہ ہے اور لڑکوں کا نام حماد اور حمود ہے۔
دوسرے لڑکے سعیدالرحمٰن نے جب میری حالت دیکھا تو ابھی عالم اول میں داخل ہوئے تھے کہ پڑھائی چھوڑ کر بھاگ گئے اور کوئی مشکل کام ممبئی میں پکڑ لیا۔ بڑی تلاش کے بعد پتہ لگا تو میرے داماد مولوی رضوان احمد سلفی لے کر احمد نگر آئے، یہیں پر وہ امام وخطیب اور مدرس ہیں اور پھر وہاں سے بنارس بھیجا ، بڑی مشکل سے پھر داخلہ مل سکا۔ عالمیت کا کورس مکمل کیا اور فضیلت اول پڑھا، حفظ پہلے ہی سلفیہ سے کرچکے تھے۔ پھر پڑھائی چھوڑ کر ملازمت میں چلے گئے۔ کچھ دن سعودی عرب کے ریاض شہر میں برسر روزگار رہے، فی الوقت راجستھان میں قصبہ مانگرول کی مسجد اہل حدیث میں امام وخطیب ومدرس ہیں، ماشاء اللہ اپنے بچوںکے ساتھ ہیں، کام میں لگے ہیں ان کے دو لڑکے اوریک لڑکی ہے، لڑکوں کے نام سجاد اور حسان ہے اور لڑکی کا نام ازکی ہے۔ اللہ تعالی سب کو صحت وعافیت اور خوش وخرم رکھے اور ہمیشہ نیک عمل کی توفیق دے۔ آمین
سب سے بڑے لڑکے عبد الرحمٰن سلفیہ سے حفظ کرکے عربی جماعت میں آئے۔ پھر فیض عام سے عالمیت مکمل کیا، کئی طرح کا کام کیا۔ اب آج کل ایک مدرسہ میں مدرس ہیں اور گھر کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دو لڑکے بشار ، ریحان اور ایک لڑکی سنبل سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو صحت وعافیت اور خوش حال رکھے۔ اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی توفیق دے۔ آمین
چھوٹے لڑکے شعیب الرحمٰن ہیں، عربی کی تعلیم ثانویہ تک ہے، پھر انگلش میں ہائی اسکول، انٹر میڈیٹ کیا، بی اے سال اول کا امتحان پاس کرکے چھوڑ دیا۔ اب اخبار میں ملازمت کر رہے ہیں، اور ماشاء اللہ کامیاب ہیں، شادی ہوچکی ہے، اہلیہ کے ساتھ دہلی میں ہی ہیں۔ آگے بڑھنے کی خواہش ہے، اللہ تعالی ان سب بچوں کو صحت وعافیت کے ساتھ خوش حال رکھے اور زیادہ سے زیادہ کارخیر کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ بچیوں سے نوازا ہے، چار بچیاں سب بچوں سے بڑی ہیں اور ایک سب سے چھوٹی ہے۔
پہلی بچی کا نام عزیزہ شہناز ہے۔ ان کی شادی مولوی ابوالکلام سلفی (پرینا اٹوا بازار) سے ہوئی ہے۔ ماشاء اللہ دو لڑکے احمد اور عامر ہیں، بہت دن سعودیہ میں برسر روزگار رہے، فی الوقت دہلی میں ملازمت کرتے ہیں، اپنا وزیر آباد میں فلیٹ ہے، بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
دوسری بچی کا نام خورشیدہ پروین ہے، ان کی شادی مولوی عبد العلیم فلاحی (تلکہناپرانے نوگڈھ) سے ہوئی ہے، بہت دن سعودیہ میں اہل وعیال کے ساتھ رہے۔ آج کل ممبئی میں رہتے ہیں، ان کی دو بچیاں اور تین لڑکے ہیں۔ سعیدہ، سمیحہ، مبشر، یاسر، آصف۔ اللہ تعالیٰ سب کو خیروعافیت سے رکھے۔
تیسری بچی کا نام صبا شہناز ہے، ان کی شادی مولوی رضوان احمد سلفی (آدم پورضلع بستی)سے ہوئی ہے۔ بہت دن سے احمد نگر میں ملازمت کرتے ہیں۔ امام وخطیب اور مدرس ہیں۔ وہیں سب اہل وعیال کے ساتھ مقیم ہیں، ان کے ایک لڑکا، تین لڑکیاں ہیں۔ لڑکا سب سے بڑا جس کا نام فیصل ہے اور بچیوں کا نام تسنیم، رفعت، عفت ہے، سبھی تعلیم کی راہ میں لگے ہیں۔
چوتھی بچی کا نام وحیدہ نسرین ہے، ان کی شادی مولوی شمس الدین سلفی (موضع سمری ضلع کپلوستو نیپال) سے ہوئی ہے، کچھ دن قطر میں رہے۔ اب اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں مدرس امام وخطیب ہیں، بچوں کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے دو لڑکے عزیر اور زہیر ہیں، ماشا اللہ تعلیم میں لگے ہیں۔
چھوٹی بچی کا نام عبیدہ یاسمین ہے۔ ان کی شادی اشفاق الرحمٰن صاحب (کوہنڈاضلع بستی) سے ہوئی ہے۔ دہلی میں اے آر گرافکس کے نام سے پبلشنگ دفتر چلاتے ہیں اور بچوں کے ساتھ وہیں رہتے ہیں۔ دو بچیاں آپریشن سے پیدا ہوئیں مگر اللہ کی مصلحت سے دونوں ۴؍۵ دن میں انتقال ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو خیروعافیت سے رکھے۔ خوشحال بنائے۔ اور زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
جنوری۲۰۱۳ء؁میں آنکھ کا عارضہ ہوا، کچھ بینائی میں کمی محسوس ہوئی تو بنارس ڈاکٹر تسنیم صدیقی کو دکھایا، انہوں نے پندرہ روز کے لیے دوا دی پھر دوبارہ دکھانے کے لیے گیا تو انہوں نے دیکھ کر کہا آپ کی داہنی آنکھ میں رگ پھٹ گئی ہے، اس کے چھینٹے پوری آنکھ میں بکھر گئے ہیں، اس کا علاج بنارس میں نہیں ہو سکتا۔ آپ کو رہنے کا ٹھکانہ مل جائے تو دہلی چلے جائیے وہاں شراف اسپتال میں اس کا علاج ہوتا ہے، وہاں سب مشینیں ہیں، اور ڈاکٹر بھی ہیں، مطیع الرحمٰن چونکہ دہلی میں رہتے تھے، کرایہ کا کمرہ تھا، چنانچہ میں دہلی لچھمی نگر چلا آیا۔ دوسرے دن مطیع الرحمٰن لے کر اسپتال شراف گئے اور سینئر خاتون ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے پہلے اپنا نام بتایا اس کے بعد مشین سے چیک کیا۔ اور کہا دیر کر دیا۔ میں اس مرض کے مخصوص ڈاکٹر کے پاس اسی ہاسپٹل میں بھیج رہی ہوں، ان ڈاکٹر صاحب نے تو بتیس ہزار کا انجکشن لکھا۔ دوسرے روز انجیکشن لگایا اس کے علاوہ کئی قسم کے ڈراپ اور کھانے کی دوائیں لکھیں۔ ڈیڑھ مہینہ تک وہیں رہ گیا، مزید ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا جو اس فلیٹ میں تھا۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد بنارس آیا۔ پھر ڈاکٹر کے وعدہ کے مطابق گیا تو ایک انجکشن پھر بتیس ہزاور کا دیا ۔ پھر ان کے بلانے کے مطابق بنارس سے آتا جا تا رہا۔ پانچ مرتبہ لیزر لگایا ، بیس بائیس مرتبہ سٹی اسکین کیا۔ انجیو گرافی کیا۔ ان تمام علاج کے بعد کہا کہ آپ اب ٹھیک ہو گئے ہیں۔ اب تین ماہ پر دکھانا ہے۔ بڑا مہنگا علاج، احباب نے سن کر کے بڑا تعاون کیا اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا کرے۔ اس علاج کے باوجود اور ڈاکٹر کے کہنے کے باوجود کہ بیماری ٹھیک ہو گئی، آنکھ میں روشنی نہیں لوٹ سکی۔ آخر سہ ماہی میں ڈاکٹر کو دکھانے گیا، اب مطیع الرحمٰن اپنے فلیٹ وزیر آباد میں رہائش پذیر تھے۔ لے جا کر ڈاکٹر کو دکھایا انہوں نے کہا مرض ٹھیک ہو چکا ہے۔ مگر بائیں آنکھ میں موتیا بند کا پانی آرہا ہے، فلاں ڈاکٹر کے پاس جائیے اور ان سے آپریشن کا تاریخ لے لیجئے۔ چنانچہ ان کے پاس لے گئے، وہ بڑی عزت سے پیش آئے اور کہا تین ماہ بعد جب ڈاکٹر صاحب کو دکھانے آئیے گا تو اسی موقع پر آنکھ کا آپریشن کر دیں گے۔ لینس کا بتیس ہزار لگے گا، یہ کہہ انہوںنے ہاتھ جوڑ کر سلام کیا اور ہم لوگ باہر چلے گئے۔
دوسرے دن کا ٹکٹ مل گیا ، بنارس واپس پہنچا اس دن اتوار تھا، ممتاز میرے دوست تھے۔ ان سے کہا کہ آج پڑھانے نہیں جائوں گا، کل سے ان شا ء اللہ پڑھائوں گا۔ میں آرام کرتا رہا سویا نہیں۔ شام تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، دوپہر میں نے کھانا کھایا، پھر عصر بعد معمول کے مطابق چائے اور شام کو عشاء کی نماز کے بعد ممتاز بھائی کے ساتھ کھانا کھایا۔ ۱۱؍بجے سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو ڈھیڑھ بجے تک نیند نہیں آئی۔ اٹھ کر استنجاء سے فراغت حاصل کی۔ منجن کیا اور دوبارہ لیٹ گیا۔ اس بار نیند آگئی، اذان فجر کے وقت آنکھ کھل گئی۔ سوچا پہلے دروازہ کھول دوں، اس لیے کہ کبھی کبھی ممتاز بھائی یہیں آکر فجر کے لیے وضو کرتے تھے۔ ضروریات پوری کرتے، یہاں آسانی سے سارا کام ہو جاتا، نیچے بھیڑ میں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ابھی تک مجھے کوئی احساس نہ تھا، چار پائی سے اٹھ کر کھڑا ہونا چاہا تو زمین پر گر پڑا، میں نے کہا یا اللہ یہ کیا ہوگیا، میں کیوں گر پڑا۔ ہاتھ پیر میں کوئی جھنجھناہٹ بھی نہیں ہے، تھوڑی دیر بعد کوشش کرکے پھر چوکی پر بیٹھ گیا اور یہی سب خیالات دل میں ہیں۔ کچھ دیر بعد پھر دروازہ کھولنے کو سوچا دیوار پکڑ کر آہستہ آہستہ آکر دروازہ کھولا ، پھر اپنے بستر پر لوٹ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد سوچا نماز کو دیر ہو رہی ہے، جائوں وضو کر کے نماز تو پڑھ لیں، اس خیال سے اٹھا تو پھر گر پڑا، اب بے ہنگم بیٹھا، سوچ رہا ہوں، پیر کی چپل ادھر ادھر پڑی ہے۔ اسی حالت میں ممتاز بھائی آئے پہلے کمرہ کا دروازہ کھول کر کچن میں گئے، چائے چڑھا دی، اور قرآن شریف پڑھنے لگے۔ جب اپنا مقرر پڑھ چکے تو چائے بھی تیار ہوگئی۔ وہ مجھے بلانے کی غرض سے چار مرتبہ آئے ، میری حالت دیکھ کر سمجھے شاید کچھ کتاب دیکھ رہے ہیں اس لیے کہ میں کتاب کی الماری اور چوکی کے بیچ میں بے ہنگم زمین پر بیٹھا تھا۔ کبھی کبھی کچھ ضروری چیزیں میں اس طرح زمین پر بیٹھ کر دیکھا کرتا۔ آخری بار آئے تو انہوں نے پوچھا، کیا ہوا؟ آپ اس طرح کیوں بیٹھے ہیں، میں تو سمجھ رہا تھا کہ کتاب دیکھ رہے ہیں، اتنا کہنے کے بعد میں نے کہا کہ مجھے اٹھا کر چوکی پر بٹھا دیجئے۔ اور تیمم کرا دیجئے ، میں نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے۔ تب ان کو احساس ہوا اور چار پائی پر بٹھایا اور تیمم کرایا، میں نے نماز ادا کی، پھر انہوں نے مطیع الرحمٰن کو ٹیلی فون کیا۔ اور حالت بتائی۔ مطیع الرحمٰن نے اپنی آمد کے بارے میں کہا۔ پھر ممتاز بھائی نے مولوی عبد المتین سے حال بتا کر ڈاکٹر کے بارے میں مشورہ کیا۔ انہوں نے بتایا اس مرض کے ڈاکٹر تین بجے کے بعد مل سکیں گے۔ اس کے علاوہ وہ جامعہ کے طلبہ اور اساتذہ سے حال مخفی رکھیں۔مگر یکا دکا طلبہ سنتے اور آتے رہتے۔ لیکن سب سے یہی کہا جاتا کہ حالت کسی کو بتانا نہیں۔ ورنہ اتنی بھیڑ لگ جائے گی کہ کنٹرول مشکل ہوجائے گا۔ قریب ۱۱؍بجے ناظم اعلیٰ عبداللہ سعود کسی سے سن کر کمرہ میں تشریف لائے۔ دیکھا بھالا اور یہ رائے دی کہ دہلی گنگا رام ہاسپٹل لے جائیں وہاں اچھا رہے گا۔ اور چند لوگوں کا نام لیا جن کا علاج وہاں سے چل رہا ہے۔ پھر چلے گئے ، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر سے نوازے۔ لیکن سنتے ہیں کہ اس سے پہلے بیمار لوگوں کو علاج کے لیے پورا پیسہ ناظم صاحب نے دیا ہے۔ یا کسی کسی کو خطیر رقم دی ہے۔ مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ عیادت کے لیے آئے ، حالت دیکھی اور سنی ، علاج کے لیے رائے دی مگر اخراجات کے لیے نہ پوچھا نہ کچھ دیااور نہ وعدہ کیا۔ مطیع الرحمٰن فلائٹ سے آئے اور ماشاء اللہ ۹؍بجے سر شام پہنچ گئے۔ ۳۰؍۳۱مارچ ۲۰۱۵ء؁ کا واقعہ ہے۔ رات گزری دن میں کچھ علاج کے بارے میں رپورٹ لے کر مشورہ کیا۔ ایک ڈاکٹر کو دکھایا جا چکا تھا ، کچھ چیک اپ ہو چکا تھا۔ طلبہ مجھے لے کر نیچے آئے پھر ڈاکٹر کے یہاں لائے گئے ۔ پھر اوپر پہنچا یا ۔ پھر گھر اطلاع دی۔ اور شام کا ٹکٹ تھرڈ اے سی کا مل گیا ، سیکڑوں طلبہ یہاں بھی آئے باہر سے اٹھا کر اس پلیٹ فارم تک پہونچایا گیا، کچھ دیر بعد گاڑی آئی مجھے برتھ تک پہونچایا۔ میرے دوست ماسٹر نیر احمد بھی آئے تھے، بہت روئے۔ ممتاز بھائی بھی آئے تھے۔ مطیع الرحمٰن نے ایک طالب علم عبد الرحمٰن مبارک کو ساتھ لیا اور بقیہ لوگ دعائیں دیتے واپس ہوگئے۔
صبح دہلی آنند وہار پہنچے۔ وہیل چیئر کے ذریعہ مجھ کو باہر پہنچایا ، وزیر آباد پہنچے تو وہاں بھی مطیع الرحمٰن اطلاع دے چکے تھے، بہت نوجوان گائوں کے جو سونیا وہار رہتے ہیں وہاں انتظار میں تھے، انہوں نے اٹھا کر مجھے اوپر پہنچایا۔ اور ۶؍بجے شام کو ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے لے گئے۔ ان کا نام راجیش مہتا ہے، راجوری گارڈن میں رہتے ہیں، پہلے فوج میں ڈاکٹر تھے، جلد ہی ریٹائرمنٹ لے لیا اور گھر پر پریکٹس کرتے ہیں، زیادہ بھیڑ بھاڑ پسند نہیں کرتے، بس ایک ڈاکٹری سے تعلق بنائے ہیں، بڑے سیدھے سادے ہیں، مریضوں کے دیکھنے کے لیے اوپر کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ میرے لیے نیچے کا کمرہ کھولا، مطیع الرحمٰن پکڑ کر اندر لے گئے، دیر تک دیکھا اور بہت سا چیک اپ لکھا اور ایک ہفتہ کے بعد سارا ٹیسٹ لے کر بلایا اور ڈاکٹر نے ایک اکسر سائز اکسپرٹ طے کرنے کے لیے کہہ دیا، دوائیں لکھیں۔ مطیع الرحمٰن نے ایک اکسر سائز ڈاکٹر بلایا جو گھر پر اکسر سائز کرائے۔ یہ سب یکم اپریل ۲۰۱۵ء؁ کی باتیں ہیں، ادھر سعید الرحمٰن پریشان تھے ، پہلی مرتبہ سعودیہ کام کے لیے جا رہے تھے، شاید اپریل ۲۰۱۵ء؁ کو ان کی فلائٹ تھی، بہر حال مجھ کو دکھانے کے بعد ان کو لوگوں نے تسلی دلائی کہ آپ بے فکر ہوکر اپنے کام پر جائو ادھر ڈاکٹر دیکھ چکے ہیں، انہوں نے کافی تسلی دلائی ہے۔ دوائیں شروع ہو چکی ہیں۔ اور اکسر سائز والے ڈاکٹر برابر گھر پر آرہے ہیں۔ ان شاء اللہ دھیرے دھیرے آرام ہوگا۔ ایک روز بعد میری اہلیہ اور ان کے بھائی خاطر اور میرے دوست مہربان مولوی عبد الرب یعنی مطیع الرحمٰن کے سسر بھی پہنچ گئے۔ تین چار روز کے بعد میرے مخلص دوست ممتاز احمد بھائی بھی پہنچے ، اسی درمیان خبر پاکر وکیع اللہ مستری میرے پھوبھی زاد بھائی بھی پہنچے۔ صبا اور مولوی رضوان سلفی احمد نگر سے آئے ، نسرین اور مولوی شمس الدین بھی بچوں کے ساتھ آئے۔ الغرض میری بیماری سن کر ایک بھیڑ اکھٹی ہوگئی، ادھر گائوں کے لوگوں نے تو سونیا وہار سے دس دس پندرہ پندرہ کی تعداد میں آئے روزانہ کا یہی طریقہ تھا۔ مولوی جنید سلفی بنارس نے سنا تو وہ بھی آئے ، مولوی اصغر نے سنا تو وہ بھی آئے، الغرض جس نے سنا تیمار داری کے لیے ضرور آیا، بعض لوگوں نے دوائوں میں تعاون کے لیے کچھ دیا بھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر سے نوازے۔ مولوی ضیاء الحق پہلے دن چار کبوتر لے کر آئے۔ اس طرح جس سے جو ہو سکا وہ کیا۔ ڈاکٹر راجیش مہتا کو دوبارہ دکھایا تو انہوں نے کچھ ہدایات دیں، اور تسلی دلائی۔ کچھ دنوں افاقہ ہوا۔ مگر اس مرض میں افاقہ بہت دھیرے دھیرے ہوتا ہے۔ کچھ دن بعد ڈاکٹر ثاقب اکسر سائز نے کھڑا ہونے کا طریقہ بتایا اور دو چار قدم چلنا سکھایا۔ جب یہ ہوا کہ خود کھڑاہونے لگا اور دس قدم چلنے لگا تو میری اہلیہ مجھے نیچے لیکر ٹہلانے جانے لگیں۔ مہمان جو تیماری داری کو آئے تھے وہ چلے گئے۔ تقریبا ڈیڑھ ماہ کے بعد ڈاکٹر راجیش مہتا نے سہ بارہ دیکھا اور کہا کہ اچھا ہے کہ گائوں چلے جائیں ، وہاں کھلی ہوا ملے گی اور ہاتھ کی مشق کے لیے الگ بتایا اور پیر کی مضبوطی کے لیے ٹہلنا بتایا ، مسلسل میری اہلیہ کئی ماہ تک سرشام مغرب کے بعد ٹہلانے کے لیے جاتیں ، مگر جون میں برسات آئی اور میراٹہلنا بند ہو گیا۔ یہ مرض ایسا ہے کہ دیکھ ریکھ اور علاج کے بعد چہ تمام اعضاء سالم وصحیح پڑتے مگر اس کے باوجود پوری طاقت نہیں آپاتی۔ دو ڈھائی سال تک استنجاء کے لیے بیٹھ جاتا تو بیٹھے بیٹھے داہنا پیر پھسل جاتا اور گر جاتا اور پھر خود سے نہیں اٹھ پاتا ، کسی نہ کسی کو جا کر اٹھانا پڑتا۔ چلنا پھرنا ہوتا ہے مگر جلدی جلدی پیر کا اٹھنا اور تیز رفتاری کے ساتھ چلنا نہیں ہوپاتا۔ ایک کیلو میٹر چلنا بھی دشوار ہے۔ موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھ کر چلنے میں دشواری محسوس کرتا۔ اس کی تیز رفتاری سے ڈر محسوس ہوتا کہ کہیں ہاتھ چھوٹ کر گر نہ جائوں۔ یہ سب عارضہ مستقل ہو چکے ہیں، چار پہیہ گاڑی پر چڑھنا اور اترنا مشکل ہوتا ہے، کسی نہ کسی کو ہاتھ لگانا پڑتا ہے۔ کوئی تحریر لکھتا ہوں تو خود اپنی تحریر پر بڑا تعجب ہوتا ہے، اور دو چار سطر لکھ کر رکھ دیتا ہوں۔ پھر کسی موقع پر چوبیس گھنٹہ کے بعد کچھ تحریر کرتا ہوں تو بہت سی باتیں ذہن سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ اللہ میرے اوپر رحم فرمائے اور زیادہ سے زیادہ کارخیر کی توفیق دے۔ آمین
اس بیماری کے موقع پر بہت سے احباب نے بڑی ہمت دکھلائی۔ مثلاً عبد الرحمٰن مبارک اٹوا، یہ میرے ساتھ دہلی تک گئے، پھر ہفتہ بھر رہ کر واپس آئے۔ یوں جامعہ میں رہ کر یہ بڑی خدمت کرتے رہے، ان کے علاوہ محمد ابراہیم، احمد بن ابرہیم ، مجیب الرحمٰن ، عطاء الرحمٰن ، یہ لوگ ہفتہ کی جمعہ کا دن میرے لیے خاص رکھتے، کپڑے دھلنا، کمرہ صاف کرنا اور دیگر ضروریات پوری کرنا مثلا بازار سے خریداری وغیرہ سارا کام یہی لوگ کرتے۔ ماشاء اللہ بڑی محبت رکھتے۔ ویسے ممتاز بھائی ڈیوٹی کے علاوہ سارا ٹائم میرے پاس گزارتے ، دوپہر اور شام کا کھانا میرے ساتھ کھاتے کبھی کبھی جمشید بھائی آجاتے ، جمشید بنکٹوا ضلع گونڈہ کے ہیں اور ممتاز بھائی چپراسی کی نوکری کرتے ہیں، سرکاری نوکری کہئے، کبھی ہفتہ کبھی پندرہ دن میں گھر جاتے۔ ۱۹۸۲ء؁ (غالباً) تقرری رہی، کچھ دن رحمانیہ بلڈنگ میں رہے۔ کچھ دن بیلنس بلڈنگ میں تھے، جامعہ میں رہنے لگے تو گیٹ سے قریب جو کمرے بنے ہیں ان میں مشترکہ طور پر رہتے، جامعہ کا جو کام ہوتا انجام دیتے ، درس کی گھنٹی لگانا ، کچھ درسگاہوں کی صفائی ، جامعہ کے مہمانوں کی خدمت الغرض جامعہ کا جو کام ہوتا اسے بڑے سلیقہ سے انجام دیتے ۔ میری بیماری پر انہوں نے بڑی خدمت انجام دی۔ پھر دہلی بھی آئے، چار پانچ روز رہے ، اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو صحت وعافیت کے ساتھ رکھے اور زیادہ سے زیادہ کارخیر کی توفیق دے۔ آمین
ویسے ان سے رابطہ باقی ہے، خیریت دریافت کیا کرتے ، جون پور میں ایک گائوں رہٹی ہے وہیں کے رہنے والے ہیں، یہاں علماء کا دورہ ہوتا رہتا ہے، اور ان کی میزبانی اکثر بیشتر ممتاز بھائی کرتے ہیں، میں بھی دو مرتبہ ان کے یہاں جا چکا ہوں اور دونوں مرتبہ جمعہ کا خطبہ میں نے ہی دیا۔ اور مہمان نوازی کا شرف ممتاز بھائی کو حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ انہیں بصحت وعافیت رکھے۔ آمین۔ کھیتی باڑی تو نہیں مگر دل کے غنی ہیں۔ ان کے گھر کے سامنے مدرسہ چشم حیات جاری ہے اور اپنی تعلیمی خدمت انجام دے رہا ہے۔ جامعہ سلفیہ سے ملحق اداروں میں ایک یہ بھی ہے۔ ثانویہ ثانیہ سے جامعہ آکر ششماہی وسالانہ امتحان دیتے ہیں۔ کامیاب ہونے پر ان کا بغیر امتحان جامعہ کے عالم اول میں داخلہ مل جاتا پھر طلبہ اپنی طبیعت کے مطابق عالمیت اور فضیلت کا کورس مکمل کرتے ہیں۔

Related posts

اسناد

Paigam Madre Watan

طریقۂ تدریس

Paigam Madre Watan

تعلیم وتعلم اور اساتذہ کرام

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar