Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

ٹکریا کے باشندگان کے عقائد

تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی

ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سلطنت اودھ پر شیعوں کا قبضہ اخیر زمانہ تک باقی رہا اس لیے شیعیت سے متاثر ہوکر ہندوستانی سب محرم مناتے تھے اور تعزیہ بناتے تھے لیکن میرے اپنے خاندان کے بزرگوں نے کبھی تعزیہ داری کی ہو، محرم اور اس کے رسوم منائے ہوں۔ یہ بات بعیداز قیاس لگتی ہے کیوں کہ اپنے خاندان کے کسی بزرگ سے میں نے یہ بات نہیں سنی ہمارے دادا کے ابا جان (حاجی محمدشریف صاحب) پڑھے لکھے اسلامی آدمی تھے ان کے پہلے جو بزرگان تھے ان کے بارے میں اسلامیت ہی کا پتہ چلتاہے کیوں کہ اوپر کے اجداد سورج بنس ٹھاکر تھے ان میں جو مسلمان ہوا ہوگا اس کا عقیدہ پختہ اسلام پر رہاہوگا اسی عقیدہ راسخہ کے ناطے غیراسلامی چیزیں ان میں نہ آسکتی تھیں اس لیے کہ نومسلم کا عقیدہ پشتینی مسلمان کے عقیدہ سے پختہ ہوتاہے اور اس کا عمل بھی درست ہوتاہے پھر چوں کہ یہ رجواڑے تھے اس لیے گائوں میں بھی ان کا اثر و رسوخ رہا ہو گا۔ بعد میں انیسویں صدی کے اخیر سالوں میں مولانا محمدجعفر کا یہ تبلیغی ہیڈکوارٹر تھا اور اسی گائوں کے لوگ ان کے تبلیغی مساعی کے ساتھی تھے۔
اسی طرح ہمارے نانا کا خاندان بھی اسلامی شریعت کا پابند اور بدعات ومحرمات سے دور تھا نانا کے حالات تو مجھے خود ہی معلوم ہیں بڑے متقی، پرہیزگار اور تہجدگزار تھے تعلیم بہت زیادہ تو نہیں تھی لیکن علماء کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسائل کا علم پورے طور پر تھا بہت آسانی سے جمعہ کے خطبے دیتے تھے ویسے علماء کے سامنے تو نہیں کھڑے ہوتے تھے لیکن ان میں سے جب کوئی نہیں رہتا تھا تو آپ ہی خطبہ دیا کرتے تھے۔ نانا کے والد (محمدفاضل صاحب) تو بڑے علم دان، فارسی، عربی کے اچھے عالم اور مثنوی مولانا روم کے بہت خوش گلوقاری تھے اور مولانا محمدجعفر صاحب میر مجھوا کے ساتھ تبلیغی دوروں میں شریک رہتے تھے اسی سے اس بات کا پتہ چلتاہے کہ ٹکریا میں پہلے ہی سے مدرسہ تھا اگر مدرسہ نہیں تھا تو انہوںنے کہاں سے تعلیم حاصل کی؟ اوراگر مدرسہ نہ ہوتا تو جیسے مولانا جعفر صاحب نے موضع اوسان کوئیاں میں مدرسہ قائم کیا اسی طرح کیا اپنے ہیڈکوارٹر ٹکریا میں مدرسہ نہ قائم کرتے؟ بہر حال نانا کے والد صاحب کے اوپر کی بات معلوم نہیں ہے۔
ہمارے دادا جان کی پہلی شادی کولہوی بزرگ میں ہوئی تھی پہلی دادی سے دادا کے دولڑکے تھے عظیم اللہ اور فہیم اللہ اور ان لڑکوں کی پیدائش بھی شادی کے بہت دن گذرجانے کے بعد ہوئی۔ پھر دادی کاانتقال ہوگیا تونانا نے اپنی بہن کی لڑکی سے دادا کی شادی کرادی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نانا کے خاندان سے دادا جان کی پہلے بھی کچھ قرابت داری تھی۔ کیوں کہ نانا کی یہ توجہ اسی بات کی غمازی کرتی ہے اس طرح ہمارے نانا ہمارے ابا کے نانا ہوئے۔ اور نانا کو ہماری دادی ماما کہتی تھیں اس لیے کہ ان کے بہن کی لڑکی تھیں اور ہماری نانی ہماری دادی کو پھوپھی (بوا) تھیں لیکن ہمارے دادا بھی نانا کو ماماہی کہتے تھے اس کا ایک سبب تو دادی بھی ہوسکتی ہیں لیکن ممکن ہے اس سے پہلے بھی کوئی رشتہ داری رہی ہو جس کے ناطے دادا ہمارے نانا کو ماما کہتے ہوں کیوں کہ عمر کے لحاظ سے ہمارے دادا سے نانا صرف ۵؍۶سال بڑے تھے۔
دادا کی جو بعد میں شادی ہوئی وہی ہماری سگی دادی اور ہمارے والد صاحب کی اماں جان تھیں نانا اگرچہ ہمارے دادا سے بڑے تھے لیکن ہمارے دادا کا انتقال مئی ۱۹۶۷ء؁ میںہوا او رنانا کا انتقال ان سے ایک سال بعد جون ۱۹۶۸ء؁ میںہوا۔ انتقال کے وقت دادا کی عمر ان کے بقول تقریباً ۹۵برس تھی اور ناناصاحب ۱۰۰ سال سے اوپر کے تھے بہرحال صراحت کے ساتھ یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ دادا اورنانا کے خاندانوں کے مابین اس سے پہلے بھی کوئی قرابت داری تھی یا نہیں۔ بعد والی دادی سے سولہ بچے پیدا ہوئے ہمارے والدتین بھائی اور تین بہنیں زندہ رہے بقیہ فوت ہو گئے ان دونوں خاندانوں کے مابین تعلقات کی بنا پر ان کے عقائد کا کچھ نہ کچھ پتہ چل جاتاہے اور یہ کہ یہ لوگ مولانا محمدجعفر کی آمد سے پہلے ہی عقیدہ سلف پر تھے مگر مولانا جعفر صاحب کی تبلیغ کے باوجود اور بعد کے بزرگان (مولانا محمدیوسف شمس فیض آبادی، مولانا اللہ بخش بسکوہری، مولانا محمدجعفر پنجابی) کی آمد اور تبلیغ کے باوجود کچھ لوگوں کے یہاں رسوم بدعیہ کا وجود تھا اور میرے ہوش میں آنے تک ایک صاحب کے یہاں محرم میں بجائے جانے والے باجے موجود تھے بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو حج کی توفیق بخشی توانہوںنے باجوں گاجوں کو گھر سے دور کردیا۔
زیادہ ترعقیدہ کی صفائی مولانا ممتاز علی صاحب رحمہ اللہ(وفات ۱۹۷۲ء؁) کی متبرک ذات سے آئی اور انہوںنے اپنی مساعی جمیلہ سے ٹکریاکو ایک مرکز بنادیا۔ تبلیغ کے علاوہ انہوںنے یہاں تدریس بھی کی اور ماموں کے بیان کے مطابق ۲۵-۱۹۲۰ء؁ کے درمیان یہاں فراغت کے طلبہ پڑھتے تھے تین چار فارغین کے نام بھی انہوںنے بتائے تھے اور خود مولانا کے بھائی مولانا اقبال حسین ٹکریا میں مولانا سے ترمذی شریف وغیرہ پڑھتے تھے۔
میرے ہوش میں آنے کے بعد اور اس سے کچھ پہلے بھی محرم ہمارے یہاں ہندومناتے تھے اسی طرح قرب وجوار میں بھی ہندوہی تعزیہ بناتے اور محرم مناتے تھے دوسرے گائوں کے لوگ تعزیہ اٹھاکر باجا بجاتے ہمارے یہاں لاتے پھر کچھ دیر کے بعد وہاں سے سارے تعزیہ اٹھتے اور بابا والی بغیہ میں لاکر ایک پڑائو کرتے وہاںگھوم گھوم کر باجا بجاتے بہت سی مٹھائی کی دوکانیں ہوتیں۔ مسلمان نوجوان یہاں بنوٹ او رگتکا کے کرتب دکھاتے۔ اتنی شرکت اس مجمع میں مسلمانوں کی بھی ہوتی تھی مگر تہوار سمجھ کر نہیں۔ پھر یہاں سے تعزیے اٹھاتے اور تکیہ پر لے جاکر سیراتے اور دفن کرکے واپس لوٹ آتے۔ پھر نہ تیجا ہوتا نہ چالیسواں، حتی کہ بعض مرتبہ ہندوئوں کا کوئی جوان آدمی مرگیا تو اس کے انتقال کی وجہ سے محرم منایاہی نہیں گیا۔ اب بھی اگر محرم میں کچھ ہوتاہے تو وہ سب ہندو ہی کرتے ہیں۔اور اب تو بالکل بند ہو چکا ہے۔
مولانا ممتاز علی رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ میں ایک چیز یہ بھی ہے کہ انہوںنے قرب جوار کے تعزیوں کے چالیس چبوترے کھدواڈالے جن میں سے ایک کے کھودنے میں ہمارے نانا اور دادا بھی تھے یہ دونوں بزرگ کولہوی بزرگ کا چبوترہ راتوں رات منہدم کرکے چلے آئے تھے مگر ایک حقیقت یہ ہے کہ ’’ چراغ تلے اندھیرا‘‘ کی طرح کہ مولانانے خود اور ان کے بہادر ساتھیوں نے ان بہت سے مواضعات کے چبوتروں کا انہدام کیا مگر اپنے گائوں ’’ٹکریا‘‘ کا چبوترہ رہ گیا۔ اور وہ بھی ایسے گھر کے سامنے جو آپ کا ننہال، سسرال او رپیدائش کی جگہ ہے۔ وہ لوگ محرم کبھی نہیں مناتے ۔ معلوم نہیں کیوں مولانا کی او رآپ کے ساتھیوں کی توجہ اس کی طرف نہیں ہوئی۔ میرے خیال میں اس کا سبب یہ ہوگا کہ وہاں چبوترہ کچا تھا، وقتی طور پر لیپ پوت کر تعزیہ بیٹھنے کی جگہ بنالی جاتی تھی پھر سال بھر کوئی پوچھنے والا نہ تھا ان کو یہ گمان رہاہوگا کہ یہ تو ہماری زمین ہے جب چاہیں گے قبضہ کرلیں گے۔ اورچبوترہ کا نام ونشان مٹادیں گے۔ اسی اعتماد پر اسے چھیڑا نہیںگیا۔ ابھی ماضی قریب میں چند سال پیشتر اس گھر کے بعد والی نسل میں بٹوارہ ہوا گھر کے اندر تنگی محسوس ہوئی گھر کے سامنے کافی لمبا چوڑا میدان تھا۔ آگے بڑھ کر کچھ کمرے تعمیر کرلیے جس کی وجہ سے ہندئوں نے احتجاج کیا بات تھانے تک جا پہنچی ، تھانے دار اور پولس موقع پرپہنچی او رمعائنہ کیا۔ معلوم ہوتاہے کہ تھانیدار کچھ سنجیدہ قسم کا آدمی تھا۔ اس نے کہا زمین تو بہرحال انہی کی ہے اور پورا باہر کا میدان انہی کا ہے۔ انہوںنے اگر اپنے گھر سے ملا ہوا حصہ پر کچھ تعمیر کرلیا تو اپنی ہی زمین میں کیا۔ اس سے آگے زمین خالی پڑی ہے آپ لوگ وہاں اپنے تعزیے رکھ سکتے ہیں۔ اگر داروغہ سلجھے ذہن ودماغ کا نہ ہوتا تو اتنی سی چیز پر بڑا بوال ہوسکتا تھا لیکن داروغہ کے سمجھانے کی وجہ سے سارے ہندومان گئے ہمارے گائوں میں ہندوہیں بھی بہت کم، تین گھر کمہار، تین چار گھر پاسی اور یہی لوگ تعزیہ بناتے اور محرم مناتے ہیں۔ایک گھر بڑھئی جس سے اب دوتین گھر ہوگئے اور مشکل سے بٹوارے کے بعد دس گھر چماروں کے ہوں گے۔ ایک گھر سنار کا تھا جو بٹوارے کے بعد چار پانچ گھر ہوگیاتھا۔ وہ لوگ ڈومریاگنج قصبہ میںمنتقل ہوگئے اور یہاں کے گھر کی زمین مسلمانوں کے ہاتھ بیچ ڈالی۔ اور بقیہ آبادی تقریباً تین سوگھر کی مسلمانوں کی ہے جس میں ۴؍۵گھر درزی، اتنے ہی شیخ برادری کے لوگ، ایک گھر میاں، دوگھر دھوبی(ہندو) ایک گھرتیلی، ایک گھر چوریہار جس سے اب تقریباً آٹھ دس گھر ہوچکے ہوں گے ایک گھر دھنیا، ایک گھر سے بٹوارہ کرکے اب دوگھر نائی، تین گھر مسلمان اہر(گوالا) یہ کل آبادی ٹکریا کی ہے۔
میںیہ ذکر کرچکاہوں کہ مولانا ممتاز علی کی تدریس وتبلیغ ٹکریا ہی سے چلی۔ ان کی تدریس کے زمانہ میں طلبہ پڑھتے تھے اور ان کے بھائی مولانا اقبال حسین ترمذی شریف کے طالب علم تھے۔ دورونزدیک ہر جگہ آپ کے دورے ہوئے اور لوگوں نے آپ کی بات بہ دل وجان قبول کی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن مواضعات کے باشندوں کے اصرار کے باوجود آپ نہیں گئے وہ مواصغات آج تک بدعات میں غرق ہیں۔ مثلا: موضع کٹھوتیا جو بڑے بڑے زمین داروں کا گائوں ہے وہاں کے بعض ہاتھی نشین زمین دار قرب وجوار میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ وہاں کے لوگ بار بار آپ کے پاس آئے او راپنے گائوں میں چلنے کے لیے اصرار کیا مگر اللہ جانے کیوں آپ نہیں گئے وہاں سب کے سب بریلوی ہیں۔ موضع برائوں جسے آج برائوں شریف کہاجاتا ہے اور اس وقت وہاں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کچھوچہ اور بہرائچ میں ہوتاہے وہاں بھی آپ نہیں گئے۔ آج وہاں پر بریلویوں کا بہت بڑا ادارہ چل رہاہے جو اشرفیہ مبارکپور کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ سالانہ عرس ہوتاہے۔ سناہے وہاں داخلہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ داخلہ لینے والا طالب علم شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ کو گالیا ں دے جو گالی نہ دے اس کا داخلہ نہ ہو گا، ہوسکتاہے مارپیٹ کر نکال دیا جائے۔
مولانا محترم موضع کرتھی ڈیہہ میں رہتے تھے ان کے بھائی مولانا اقبال حسین صاحب ریواں میں رہتے تھے وہاں ایک مدرسہ قاسم العلوم ہے جسے مولانا ممتاز علی ہی نے قائم کیاتھا۔ بعد میں ان کے بھائی مولانا اقبال حسین اور ان کی اولاد خصوصاً مولانا عبدالاوّل اپنی فراغت کے بعد سے ہی چلاتے تھے،اب وہ بھی مرحوم ہو چکے ہیں۔ مولانا اقبال حسین طبابت اور جھاڑپھونک میں بہت مشہور تھے ۔ دور دورسے لوگ دعا کرانے کے لیے آتے تھے۔ اور مولانا بھی ادھر ادھر بلائے جاتے تھے وہ دعا بھی کرتے اور یونانی دوائوں سے بھی علاج کرتے۔ انہوںنے روغن اخضر کے نام سے ایک تیل بھی ایجاد کیاتھا جس میں دعا کرکے مریض کو مالش کرنے کے لیے دیا کرتے۔ مولانا ممتاز علی کو بڑے مولاناکہا جاتاتھا۔ وہ اپنے بھائی مولانا اقبال حسین کو دنیادار کہا کرتے تھے ان کی اس مشغولیت کو پسند نہ کرتے۔ خلاف شرع کوئی کام برداشت نہیں کرتے تھے ایک بار مدرسہ قاسم العلوم ریواں میں سالانہ جلسہ تھا جس میں فارغین کو سند اور دستار سے نوازاجاتا۔ اس پروگرام میں مولانا کی بہن کے لڑکے (بھانجے) حافظ سعید بھی شریک تھے۔ مولانا کو چارپائی پر اٹھاکر لایاگیاتھا۔ حافظ سعید صاحب انتری بازار سدھارتھ نگر کے رہنے والے تھے کسی مدرسہ سے فراغت کے بعد جامعہ ازہر مصر میں داخل ہوئے۔ اور وہاں سے ایم اے کرکے نکلے۔ وہیں ایک مصری عورت سے شادی کرلی اور جدہ ریڈیو سعودیہ میں کام کرتے ہیں۔ ریواں آنے کے بعد بے حد عزت وتکریم ہوئی انہیں بطور خصوصی ڈائس پر بٹھایاگیا۔ محلوق اللحیہ تھے جب بڑے مولانا نے اپنے ان محلوق اللحیہ بھانجے کو ڈائس پر دیکھا تو فوراً لوگوں سے ناراضگی ظاہر کی او رکہا کہ مجھے اسی وقت کرتھی ڈیہہ میرے گھر پہنچائو۔ میں اس مبغوض محفل میں شریک نہیں ہوسکتا۔ مولانا کا اضطراب اور ناراضگی دیکھ کر لوگوں نے اسی وقت چار پائی پر اٹھاکر ان کے گھر کرتھی ڈیہہ پہنچایا۔ مولانا کے تین لڑکے تھے۔ دوچھوٹے(مولوی عبدالعلی، مولوی عبدالباری) عربی تعلیم یافتہ تھے۔ میرے خیال میں صلاحیت معمولی ہی تھی مگر بڑے لڑکے ڈاکٹر فاروق صاحب نے عربی تعلیم کے بعد لکھنو سے طبابت کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن سبھی اطباء یونانی طریقہ سے گریز کرتے ہیں۔ ایلوپیتھک ، علاج ہی کو ذریعہ معاش بنائے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق بھی اپنے اسی آبائی گھر میں علاج کرتے تھے۔ مریضوں کی بڑی بھیڑ رہتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ اور ان کی دوائوں میں شفا رکھی تھی۔ اس لیے بھیڑ بڑھتی رہتی تھی۔ مولانا نے کبھی پنسلین کا انجکشن لگاتے دیکھ لیا تھا جس میں پانی ملاکر بنایاجاتاہے۔ مولانا پانی ملاتے دیکھ کر بہت برہم ہوئے۔ راستہ میں بیٹھ کر مریضوں کو روکتے، کہاں جاتے ہو واپس جائو۔ فاروق کے پاس مت جائو وہ تو دوا میں پانی ملاتاہے۔ اب ان سے کون بتاتا کہ اس انجکشن کو بغیر پانی ملائے لگایا نہیں جاسکتا۔ میری ان تینوں بھائیوں سے ملاقات اوسان کوئیاں پڑھائی کے لیے آتے جاتے تقریباً روز ہی ملاقات ہوتی تھی۔ ڈاکٹر فاروق بھی اللہ کے عجیب بندے تھے۔ ایک روز ڈاکٹر فاروق صاحب علیک سلیک کے بعد پوچھنے لگے۔ عزیز الرحمٰن ! یہ بتائو سناہے ڈومریاگنج بیدولہ چوراہے تک آباد ہوگیا؟ (پرانی آبادی سے اس چوراہے کا فاصلہ ایک کیلو میٹر ہے) میں نے کہا ہاں! بس تو گیاہے آپ ڈومریاگنج کتنے دن سے نہیں گئے؟ تو انہوںنے بتایا کہ ۱۹۴۷ء؁ کے بعد میں ڈومریاگنج نہیں گیا۔ یہ گفتگو اوسان کوئیاں آتے جاتے ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب تقریباً ۲۵؍۲۶؍سال پہلے ڈومریاگنج گئے تھے یعنی ستر سال پہلے کا ڈومریا گنج انہوں نے دیکھا تھا اس کے بعد نہیں گئے جبکہ ضروریات کے لیے ہر آدمی کو عموماً ہفتہ میں ایک مرتبہ تو جانا ہی پڑتا تھا۔ اور اب تو ڈومریاگنج اور قصبہ ہلورو جبجوا بستے بستے مل گئے ہیں یعنی تقریباً دو کیلومیٹر آبادی مزید بڑھ گئی۔اب یہ سارے مرحوم ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین

Related posts

تدریسی خدمات

Paigam Madre Watan

بچپن کی بعض آدھی ادھوری باتیں

Paigam Madre Watan

طریقۂ تدریس

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar