Articles مضامین

” اردو ناول کی پیش رفت”

اردو میں مضامین کی تدویں کاری ادبی سطح پرنئی فکر،نیارجحان ، نیا مواد، جدت وندارت پر مبنی مشمولات عطا کرتے ہیں ان کا مواد بہتے پانی کے مانند ہوتا ہے جو صاف و شفاف بھی ہوتا ہے۔ اردو کے ادبی رسائل ہمیشہ سے زبان و ادب میں نئی چیز کو پیش کرتے رہے اور ناول داستان اور افسانہ لکھنے کا محرک بھی ادبی رسائل رہے ہیں مگر مرتب دہ کتابوں مین بھی زندہ اور دستاویز کے صورت میں زندہ رہتے ہیں۔۔تادم تحریر اردو کے ادبی رسائل کی دنیا سونی پڑی ہوئی ہے۔ پہلے زمانے میں اردو والے اردو کے اخبارات و رسائل اور کتابوں سے ذوق وشوق کے حد تک دلچسپی رکھتے تھے اور ماحول میں پڑھنے کی عادت دی ہوگئی تھی۔ لوگ ناول،افسانے، پاکٹ سائز ناول، کتابیں اور اخبارات و ادبی رسائل اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ایک اچھا رجحان ناول کی انتقادات اور تفہیمات می میں اردو کے چند لائق اور ایک مولف نے ناول کے نقادوں کے مضامین اور مقالات کو ایک کتابی صورت میں یکجا کیا۔ تاکہ اردو کا قاری رسائل میں بکھرے ہوئے مضامین کو ایک گل دستے کے صورت میں دیکھتا ہے اور اپنی مرضی اور ذوق کے مطابق ان کی قرات کرتا ہے۔ جس میں مدیر یا موئف کا ” جبر” شامل نہیں ہوتا کہ اس کی پسندیدہ مضامین یا نظریاتی پروپگنڈے کو قاری پڑحے۔ اچھا مولف دروازہ کھلا رکھتا ہے اور متنوع مزاج کے مضامین کو قاری کی پسند پر چھوڑدیتا ہے۔ منصور خوشتر نے "اردو ناول کی پیش رفت” عنوان سے چھتیس {36} مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تمام مضامین مختلف فکری اور تنقیدی مزاج کے ہیں۔ کچھ مضامین اردو ناول کے تجزیات اور اردو کے کلاسیکل ناول مگر زیادہ تر عصری ناولوں پر پڑے پائے کی مضامین چنے ہیں۔ اب ناول نگاروں کو نقاد کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیوں کہ اب اردو ناول کا سرمایہ پچھلے پچا ساٹھ سال سے زیادہ توانا اور تازی تر ہے۔ اور ناقدیں کو ناول کے بخیے اودھیڑنے بھی آتے ہیں اور ناول کی ماہیت کی شعری جمالیات سے بھی ان کو آگاہی ہے۔ کیونکہ اب اردو کا ناول نگار میں بشری تجربوں، مشاہدات، اعصابی تناو، حسی اور منطقی داخلیت اور معروضیت، خلا کا احساس، مغائرت اور ناسٹلجیاء کیفیات کو ناول کے نامیاتی سراپے میں سمونے کی مہارت اور اہلیت ہوتی ہے۔
اردو میں مولفین زیادہ تر وہی لوگ ہیں تو معاشی ضرورتوں کے تحت یہ کام کرتے ہیں۔ اور کچھ جامعات اور کالجوں کے اساتذہ ہ اپنی ترقی اور تنخواہ کی زیادہ ملنے کی لالچ میں اس مضامین جمع کرے اپنے نام سے کتابی صورت میں چھاپ دیتے ہیں۔ جو جس ہمارے تعلیمی ارادوں میں ایک ” تحقیقی کام یا کاوش” کے طور پر قبول کرلیا جاتا ہے۔ اور پروفیسر صاحب کی ترقی ہوتی ہے۔ یہ کوئی تحقیقی کام نہیں ہے۔ سنا کی کسی جامعہ یا کالج میں اس قسم کے جعلی دھندے ہوتے ہیں۔ منصور خوشتر نے نہ کسی جامعہ یا کالج میں پڑھاتے ہیں کہ مضامین کو جمع کرکے اس کو چھپوائیں اور اس کی بنیاد پر ان کو” پیشہ ورانہ ترقی دی جائے۔ انھوں نے اس کتاب کو ترتیب دے کر یہ کام مالی فوائد اور پیسہ کمانے کے لیے نہیں کیا ہے۔ اس کتاب میں اردو ناول پر اچھے جاَیزے اور تبصرے پیش کئے گئے۔ کچھ اچھے ” تضریہ[MICROISM] یا مائیکرو لیول کے اچھے تجزیات اور تقابل بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔مگر بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر کوئی بھی مضموں اس کتاب میں شامل نہیں جس میں ناول کے جدید تر عملی، اطلاقی اور نظریے کے توسط سے بات کی گئی ہو۔ دور عصر میں ناول کا مطالعہ بہت سائینسی اور عملیاتیا علمیاتی ہوگیا ہے۔ جس میں ” منطق اور استدلال” کی بات ہوتی ہے۔ ادھر ادھر کی باتِیں ہوا میں نہیں چھوڑی جاتی ہیں۔ اور” مرکوز مطالعہ” کیا جاتا ہے۔ اور ان باتوں کا ذکر نہیں ہوتا جو ناول کے افسانے میں سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ زتی نظر کاتب میں اردو ناول کے حوالے سے کچھ تاریضی حقائق کو درج کیا گیا ہے۔ چند ملاخطہ فرمائیں:
1۔ بہار میں سب سے پہلا ناول 1876 میں ” صور? الخیال” کے نام سے شاد عظیم آبادی نے شائع کروایا تھا۔
2۔ ہندوستان کی پہلی خاتون ناول نگار رشید? النسا ء￿ کا تعلق بہار ہی سے تھا۔۔ 1894 میں ان کا ایک ناول ” اصلاح النساء￿ کے نام سے شائع ہو۔
3۔ 1927 میں ” روشن بیگم ” کے نام سے مسز ا۔ ط حسن نے ایک ناول لکھا جو مکالماتی انداز کا ایک اچھا ناول ہے۔ { صفحہ 178}
ترتیب دی گئی کتابوں میں کسی ایک موضوع پر قلم کاروں کے مکتلس زاوئیوں اور نقطہ نظر سے مضامین ہوتے ہیں اور بیشتر میں یکسانیت ہوتی ہے۔ جن میں متعدد ادبّا اور ناقدیں کے مضامین ہوتے ہیں جو بڑے متنوع اور جدا جدا اندازِ نگارش کے ساتھ انتہائی معلومات افزا ہوتے ہیں۔۔ یہ قاموسی بھی ہوتے ہیں اور تاریخ اور معاشرت کو ٹولتے بھی ہیں۔ منصورخوشتر لکھتے ہیں۔۔۔” اردو کے ہیت آشنا ناول نگار کی آنخحِن، کان اور آواز شعور کے عامل ہیں اور ان کا زہن ان عوامل کے زریعے متاثر ہوتا رہتا ہے کیونکہ آج اکیسوی صدی میں انسانیت کی قسمت ان لوگوں کے ساتھ ہیں ہے جن کا روایتی فخر انسانیت کی بنیاد ہے۔” {صفحہ ۱۱} اس کتاب مین عبدالصمد اپنے مضموں ” اردون ناول کے ساتھ دو چار قدم ” میں اردو ناول کے حال اور مستقبل سے مشکوک نظر آتے ہیں۔ جو ایک قنوطی رسائی ہے۔ عبد الصمد لکھتے ہیں۔۔” آج اردو ناول پڑھنیوالوں کی کیسی بہار آئی ہوئی ہے اور یہ بہار جرور ایسے پھول بھی کھلاتی ہے جن کی مہک سے ہمارا ناول سرشار رہتا۔
اچھے زیرک مولفیں اور تحقیق نگاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی لیے ان کی اشاریہ سازی (Indexing) کا فن بھی ایک صورت میں وجود میں آیا اوراب اہم ترتیب شدہ مولفی کتابیں کی اشاریہ سازی کا وظیفہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کام کی اپنی افادیت ہے۔ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو کسی ایک موضوع پرتحقیقی اور ناقدانہ کام کر رہے ہوں۔
منصور خوشترنے بڑی محنت اور لگن اور بڑے محتاط انداز میں کتاب میں شامل مضامین کو ایک ” میزانیے کے کلیّے کیتحت ایک لڑی میں پرویا ہے۔ یہ ایک علمی ادبی تحقیقی کی دستاویز ہے جس کو اساتذہ اور طلبا اپنی نصابی ضرورتوں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب اردو ناول کے انتقادیات اور تحقیق کو قدرومزلت دے گی۔ جو شاید اردو کے ناول کی کلاسک تنقیدی اور تحقیقی دستاویز بھی ثابت ہو گی۔ ***

Related posts

دولت اور صحت کی بربادی

Paigam Madre Watan

ملک عزیز نیپال میں حفظ قرآن کا تاریخی انعامی مقابلہ

Paigam Madre Watan

مطالعہ کتب کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar