آج ہم اُنکی بات کرینگے جو رات دِن اپنی سانسیں گن رہے ہیں اور ہر وقت کلمہ شہادت کا ذکر لبوں پر سجائے ہوئے ہیں کہ کب کوئی بم آگرے اور سانسوں کی یہ ڈوری ٹوٹ جائے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو ایسے قصے سناتے ہیں جس سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور ایمان مضبوط ہو جاتا ہے ۔ اُن بچّوں کے ایمان کے بارے میں کیا کہیں پورا بدن زخمی ہے مگر خدا کا ذکر اور اسلام کا دامن کبھی نہیں چھوڑتیں ۔ بہن جو ابھی داغِ مفارقت دینے والی ہے بھائی بے چینی سے کلمہ شہادت کی تلقین کر رہا ہے اب اور کیا دیکھنے کو ہے۔آج اہل فلسطین پریشان حال ہیں مگر ہم چین کے نیند سو رہے ہیں۔
کیا کہیں اُن احسان فراموش اور انسانیت سے عاری صہیونی دہشت گردوں کے بارے میں جو 80 سال پہلے غلامی کے بد ترین ایام گزار رہے تھے۔ نہ کہیں عزت تھی نا کوئی پناہ دے رہا تھا، اس قوم کی فطرت ہی ایسی ہے کون بھروسہ کر سکتا ہے۔ جنہیں ذلیل اور رسوا کرکے بھگایا جارہا تھا، ہاتھوں میں زنجیریں بندھی ہوئی تھیں، دانے دانے کو ترس رہے تھے، پیروں سے کچلے جارہے تھے، جنکا کوئی سہارا نہیں تھا، تمام ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مدد کی بھیک مانگ رہے تھے، مگر نہ کہیں امن تھا نہ کوئی پرسانِ حال یہاں تک کہ خود مغربی ممالک انہیں قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔
ہٹلر جیسے تاناشاہ نے 1948ء میں ہولوکاسٹ کے بعد اُنکی حالت کیڑے مکوڑوں کی سی کر دی تھی، اور سب کو ننگے بدن بھگایا تھا، اس وقت جنہوں نے سلام یا اُمی، سلام یا اُختی كہہ کر ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ فلسطینی مسلمان ہی تھے، انہیں اپنا کھانا کھلایا ، پہننے کو کپڑے، رہنے کو گھر اور زمینیں دیں۔ جس کا بدلہ آج یہ احسان فراموش میزائلوں کی بارش اور ننھے مسلمانوں کا قتل عام کرکے چکا رہے ہیں ، حالانکہ جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ وہی لوگ جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے آج معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی کچل رہے ہیں، بم اور بارود کی بو سے پورا فلسطین بالخصوص غزہ آلود ہے، اور انکے جوان بچوں کو یتیم، ماؤوں کو بیوہ اور مسلمانوں کی بے دردی سے شہید کررہے ہیں، کیا خونِ مسلم اتنا ارزاں ہوگیا ہے کہ ۲۴ گھنٹوں میں ۵۰۰ فلسطینی زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں، اور جو پیشانی مسجد اقصیٰ میں سجدہ کیلئے تڑپ رہی ہو اسے گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دل کے گوشے گوشے رنج و الم کے سمندر میں ہچکولے کھا رہے ہیں۔
آج فلسطینی مسلمانوں کا حال دیکھ کر بھی ہم مسلمانوں کے اندر اتحاد قائم نہیں ہو پا رہا ہے، ہم انتشار و خلفشار کے شکار ہو رہے ہیں، ہمارے مسلمان بھائیوں کو درندگی کا شکار بنایا جا رہا ہے، یہودی قومیں ہمیں مٹانے کے در پہ آ کھڑی ہے پھر بھی ہم خواب و غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔ ان فلسطینی بچوں کی یہ صدائے ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے آتی دھڑکنوں سے مسلسل یہ صدا لبیک لبیک لبیک یا فلسطین۔ مسجد اقصی کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں مگر پھر بھی ہم ان اسلامی خواتین اور اسلامی بھائیوں سے سبق حاصل نہیں کر رہے ہیں خدارا وقت ہے ہمیں خود کو سنبھالنے کا، وقت ہے اب بھی اللہ کی عذاب سے ڈرنے کا۔ ڈرو مسلمانوں اور ان فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کے لیے کھڑا ہو جاؤ یقینا اللہ تمہاری مدد فرمائے گا
بس ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ دوبارہ کوئی صلاح الدین ایوبی بھیج دے جو مظلوموں کے لئے آہنی دیوار بن کر کھڑا ہو اور دشمنوں کے کفریہ کردار کو تہش نہش کردے ۔ یا اللہ عزوجل غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں پر رحم فرما، بچوں اور عورتوں کی غیبی مدد فرما، ابابیلوں کے ذریعےخانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے میرے رب! مسجد اقصی کو ظالموں کے چنگل سے آزاد فرما۔ ابرہا کے لشکر کو معمولی پرندوں کے ذریعے ہلاک کرنے والے میرے رب صہیونیوں کو اپنی قدرت کے کرشمے دکھا دے۔ غزوہ بدر میں آسمان سے فرشتے اتارنے والے میرے معبود قبلہ اول کی حفاظت کے لئے ہمارے اعصاب مضبوط فرما دے۔ آمین یارب العالمین۔