Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

سعودیہ کا دوسرا سفر

تصنیف: مولانا عزیزالرحمن سلفی 

ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)

پہلی مرتبہ سعودیہ کا سفر جامعۃ الملک کے ویزہ پر ہوا تھا۔ جس میں ہندستان سے پاکستان جانا پڑا ، پھر وہاں رہ کر اسلام آباد جانا پڑا اور ویزہ کے حصول میں ایک ہفتہ لگ گیا۔ پھر کراچی لوٹ کے آنا پڑا اس طرح ویزہ کے حصول اور دونوں طرف ٹرین سے آنے جانے میں تقریباً دو ہفتے لگ گئے پھر کراچی سے سعودیہ جامعۃ الملک ہفتہ بھر ابتدائی کاروائی میں لگ گئے، کل پانچ مہینہ کا سفر رہا۔
اب کی بار مولوی عبد العلیم فلاحی کی دعوت پر اور خورشیدہ وسعیدالرحمٰن کی طلب زیارت پر سعودیہ ریاض جانا ہوا۔ سعودیہ کی سرزمین بڑی مبارک ہے۔ وہاں بڑا امن ہے، غلطیاں کرنے والوں کے ساتھ مؤاخذہ ہوتا ہے، فیصلہ کے بعد ان کے ساتھ اسی طرح کا برتائو کیا جاتا ہے۔ جس طرح ان کا جرم متقاضی ہوتا ہے، نظام پختہ ہونے کی وجہ سے وہاں جرائم کی تعداد صفر کے برابر ہوتی ہے۔ ہم یہاں دہلی مطیع الرحمٰن کے پاس پہنچے تو انہوں نے ویزہ اور ٹکٹ کی کوشش کی، یہاںمعلوم ہوا کہ نیا نیا ٹیکس لگا دیا ہے، جس کے اخراجات تین گُنے سے بھی زیادہ پڑ رہے ہیں، خیر یہ بوجھ داماد اور صاحبزادوں نے برداشت کیا اور ٹکٹ و ویزہ مل گیا۔ ہم دونوں میاں بیوی کی ایئر انڈیا فلائٹ سے ہوئی وہاں ملک خالد ایر پورٹ پر پہنچے تو چیک پوسٹ سے گزرنے میں دیر ہوئی، پھر سامان لیا گیا، نکالنے کو سوچا تو معلوم ہوا کہ سب لوگ باہر انتظار میں کھڑے ہیں، ایک بچہ پولیس سے نظر بچا کر اندر آگیا اور سامان باہر لے جانے میں مدد کی۔ اس بار ہم میاں بیوی اپنے اہل وعیال کے ساتھ ان کے ساتھ صناعیہ جدید مستقرپر پہنچے۔ کچھ دنوں کے بعد عمرہ کے لیے مولوی عبد العلیم فلاحی (داماد)لے کر گئے، وہاں صبح صبح ہوٹل میں سامان رکھ کر زیارت حرم کے لیے چلے گئے۔ میں چونکہ فالج زدگی کی وجہ سے کمزور تھا اس لیے ہوٹل میں رکا رہا، یہ لوگ عمرہ پورا کرکے واپس ہوئے الحمد اللہ۔ پھر جمعہ کی نماز ہوئی، وہیں قریب ہی سڑک پر نماز ادا کی گئی۔ پھر عصرکے بعد مجھے عمرہ مولوی عبد العلیم نے وہیل چیئر پر کرایا، پھر مغرب کی نماز ادا کی ، باہر نکلے تو جامعہ ام القری کے دو طالب علم انتظار میں کھڑے تھے، وہ اپنے یہاں یونیورسٹی میں لے گئے۔ سارے طلبہ سے ملاقات ہوئی، وہیں شیخ عزیر شمس سے ملاقات ہوئی ، واپسی میں اپنی گاڑی سے انہوں نے حرم کے پاس چھوڑا۔ پھر دوسرے روز عصر کے بعد ریاض کے لیے روانگی ہوئی۔ پھر ہفتہ عشرہ کے قریب مدینہ کی زیارت کو لے گئے۔ سارے لوگ ہوٹل میں سامان رکھ کر حرم نبوی میں پہنچے۔ پھر مولوی عبد العلیم مجھے لے کر حرم آئے۔ باہر ہی بڑی قالین بچھی تھیں، ہم اس پر بیٹھے، اس سے آگے خورشیدہ ان کی اماں وغیرہ بیٹھی تھیں۔ طلبہ نے میری آمد کی خبر سن لی تھی، اکا دکا شاگردان پہنچنے لگے، پھر عصر کے بعد زیادہ طلبہ جمع ہوگئے، مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد طلبہ کے ساتھ نشست ہوئی، پھر عشاء کے بعد بھی نشست رہی، پھر ڈاکٹر منصور، نور عالم فرحان مجھے لے کر ہوٹل گئے۔ وہاں کھانا کئی قسم کا منگایا ، منع کرتے کرتے بہت سی چیزیں منگوا لیں، جو تھوڑی بھوک تھی دو چار نوالا کھایا اور سارا ٹیبل پر چھوڑ کر اٹھ گئے، پھر مجھے ہوٹل پہنچایا۔ اور خود اپنے مستقر پر پہونچے ۔ آرام کیا۔ صبح پھر مجھے لے کر نکلے بہت ٹہلایا گھمایا۔ جامعہ اسلامیہ بھی لے گئے، جو اب عمارتوں سے بھری ہوئی ہے۔ پہلے آتے تھے تو صرف پانچ عمارتیں تھیں۔ اب دیکھ کر تعجب ہوا۔ سب جگہ ٹہلا گھما کر ہوٹل واپس لائے، تو بس چلنے کو تیار تھی، ہمارے بچے اور اہلیہ منتظر تھیں، سب جا کر بیٹھے۔ گاڑی والے نے یہ خیال رکھا کہ مشہور جگہیں دکھادی جائیں۔ اس سلسلے میں پہلے مسجد قبا کی زیارت ہوئی۔ شہدا ۔ میدان احد، جبل احد پر لے گئے۔ اس کے بعد واپسی کا لمبا راستہ اختیار کیا۔ نماز کے وقت کسی مسجد پر رکے تاکہ لوگ اپنی ضروریات پوری کرلیں اور نماز بھی ادا کر لیں یہی طریقہ راستے میں آتے جاتے رہا کرتا۔ آخر ہم بخیر وعافیت اپنی قیام گاہ پر ریاض پہونچے۔ فالحمد اللہ علی ذالک۔
جب تک ریاض رہنا ہوا تب تک لوگوں کا ملاقات کے لیے آنا لگا رہا، اور ہمارا دعوتیں کھانا جاری رہا، ایک شیخ نعیم الحق اشفاق اللہ کے یہاں دعوت تھی، ایک دن جامعۃ الملک کے طلبہ نے نشست رکھا اور اپنے یہاں بلایا۔ ایک لمبے چوڑے ہال میں بیٹھایا گیا، ایک صاحب نے میرا تعارف پیش کیا پھر مجھ سے کچھ کہنے کی فرمائش کی، میں نے گزرے ہوئے دن جامعۃ الملک میں بتائے ، جو اہم لوگوں کے لیے ایک دلچسپ تاریخ تھی۔ اساتذۂ کرام ہمارا احترام کرتے تھے، اور اسی تعلق سے ان شاگردوں کا بھی ذکر کیا جو اس وقت جامعۃ الملک سعودیہ پڑھنے کے لیے اور ہمارے تعلقات کو طلبہ نے ان سے کسی طرح بیان کیا۔ پھر ہم اور سارے طلبہ خوش خوش اپنی راہ گئے، واپسی میں وہ عمارت بھی دیکھی جس کے ایک کمرے میں شاگردوں کے ساتھ تدریب کے لیے پانچ ماہ گزارے تھے۔
میرے فرزند یہ کہہ رہے تھے کہ ایک مرتبہ عمرہ میں کرائوں گا، چنانچہ انہوں نے مولوی زبیر سلفی سے معاملہ طے کیا وہ ساتھ میں رہتے ہیں انہوں نے اپنے جالیات سے دو بسوں کی ذمہ داری منظور کرالی اور موعودہ دن سعید الرحمٰن مجھے اور اپنی اماں کو نیز سعیدہ نواسی کو ہمراہ لے کر نکلے۔ میرے لیے بس کی آگے کی دو سیٹیں مخصوص کرائیں اور بس چلنے سے پہلے بہت سی ہدایات دیں، جس میں خاص طور سے میرا خیال رکھنے کے لیے کہا گیا۔ انہوں نے کہا یہ میرے استاد ہی نہیں باپ بھی ہیں، اس لیے جتنا آرام پہونچا سکیں اتنا ہی اچھا ہے۔ بس ریاض کے محلہ سلعی سے نکلی۔ ظہر ، عصر، مغرب عشاء کی رک کر نمازیں ادا کی گئیں، ایک ہوٹل میں کھانا کھلایا جس کی ادائیگی جالیات کی طرف سے کی گئی۔ ایک جامعۃ الامام کے طالب علم تھے، اور جن سے پہلے ہی جان پہچان ہو گئی تھی، انہوں نے سعید الرحمٰن سے اور ایک املو مبارک پور کے مولوی صاحب نے اشعار پڑھے اور تقریریں کیں۔ اس طرح یہ کارواں بعافیت مکہ ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوا۔ سامان وغیرہ رکھنے کے بعد مجھے ہوٹل میں چھوڑ کر حرم چلے گئے۔ عمرہ کیا ، تہجد پڑھی، فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد یہ لوگ واپس لوٹے۔ ہم لوگوں کا روم بائیسویں (۲۲) منزل پر تھا ۔ آنے جانے کے لیے لفٹ کا انتظام تھا۔ کھانا اور ناشتہ نیچے سے لے کر آئے تھے، چائے بنانے کا سامان کمرہ میں موجود تھا، سعیدہ نے چائے بنائی، سب کھا پی کر تین بجے پھر مجھ کو لے کر حرم نکلے ، سعیدہ اور ان کی نانی بھی ساتھ میں رہیں، مجھے کرایہ کی وہیل چیئر پر عمرہ کرایا، سعی سے پہلے عصر کی نماز ادا کی گئی، پھر سعی بین الصفا والمروہ کرایا۔ اللہ کے فضل سے یہ عمرہ کا عمل پورا ہوا۔ اللہ تعالیٰ قبولیت سے نوازے، آمین۔ پھر کمرے میں آکر آرام کیا۔ سعید الرحمٰن جا کر کھانا لائے۔ دو طرح کا کھانا تھا۔ اس مبارک سرزمین کا اثر تھا جس کی وجہ ایک ہی کھانا میں سب لوگ سیر ہوگئے۔ ایک کھانا بچ گیا۔ وہ صبح تک ڈھک کر محفوظ رکھا اور کمرہ چھوڑنے تک وہ محفوظ تھا، کمرہ چھوڑنے کے بعد جو صفائی کرنے والے ہوتے ہیں انہوں نے بلا قباحت استعمال کیا ہوگا۔ ہم لوگوں کے ہوٹل کے نیچے صبح ۷؍۸ بجے کے بیچ میں آکر ہماری بس رکی، ہم لوگ بھی کمرے سے نکل کر تیار تھے، بس پر سوار ہوئے، اور بس چل پڑی، تھوڑی دیر کے بعد بس جبل نور پہنچی ، تھوڑی دیر ٹھہری کہ ہم لوگ جبل نور کا نظارہ کر سکیں، کوئی بس سے اترا نہیں۔ کچھ لوگوں کو دیکھا وہ پہاڑ پر چڑھ رہے تھے، ہم لوگوں نے اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے جبل نور کو دیکھا ، یہ وہی پہاڑی ہے جس کے اوپر دوسری سمت میں غارِ حرا واقع ہے، جہاں پہلی وحی کا نزول ہوا تھا، جہاں پر حضرت جبرئیل اترے اور آپ کو نبوت کا پیغام دیا، اور سورہ اقراء کی چند آیتیں آپ کو پڑھائیں، کتنا بڑا شرف حاصل ہے، اس پہاڑ کو اور اس غار کو۔ یہ خیالات دل میں آئے اور بس اپنی منزل کی جانب چل پڑی، اس پہاڑ پر چڑھتے ہوئے اوپر پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ اور نیچے اترنے میں نصف گھنٹہ یہاں بھی بدعتیں شروع کر دی ہیںلوگوں نے ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا
راستہ میں ایک جگہ ظہر کا وقت ہوا، تو بس رکی ، لوگوں نے اپنی ضروریات پوری کیں، وضو کیااور نماز ادا کی، پھر بس میں ہر ایک کو ان کی سیٹ پر کھانا اور پانی دیا گیا۔ سب نے کھایا اور پانی سے سیرابی حاصل کی۔ پھر عصر کے وقت بھی ایک جگہ بس رکی ،و ہاں ضروریات سے فراغت کے بعد عصر کی نماز ادا کی گئی۔ پھر ریاض شہر میں داخلہ سے پہلے مغرب ادا کی گئی۔ پھر ریاض میں سب کے ساتھ قیام گاہ پر پہنچے، مولوی عبد العلیم اپنی گاڑی لے کر موجود تھے، اس پر بیٹھ کر اپنے مستقر پر بخیر وعافیت پہنچ گئے ۔ اللہ کے فضل واحسان سے یہ سفر بھی تمام ہوا۔
ریاض جب سے پہنچے دعوتوں پر دعوتیں ہوا کرتی تھیں، تیس دعوتوں میں شریک رہا، پھر دعوتوں میں جانے سے معذوری ظاہر کردی۔ لیکن میمونہ ہر دعوت میں گئیں، کسی کو نفی میں جواب نہ دیا۔ ان لوگوں کی محبت وچاہت کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزاء خیر سے نوازے۔ آمین
ایک روز جامعۃ الامام کے طلبہ نے اپنے یہاں بلایا ، وہاں اس وقت جامعہ سلفیہ سے فارغین کی تعداد چالیس سے اوپر تھی، ان کے یہاں گئے، اس میں پیش پیش محمد اختر اکرہرا اور عبد الرشید مرتضی اوسان کوئیاں والے تھے۔ محمد اختر نے میری ایک نظم پیش کی ، کچھ مختصر سا کلام میں نے کیا۔ پورا کمرہ بھرا ہوا تھا۔ یہ بڑی تعداد اور ان کا لگائو دیکھ کر طبیعت بہت متاثر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان سارے لوگوں کا ان کی محبت کے صلہ میں جزائے خیر سے نوازے، اور ان کے علم میں برکت عطا کرے، وہاں سے واپسی پر ایک جوڑا کپڑا کا، ایک گھڑی اور کچھ عطریات ہدیہ میں دیں۔ واپسی میں سیکورٹی گارڈ کے لوگوں نے سلام ومصافحہ کیا۔ اور بہت تپاک سے رخصت کیا۔ یہاں کی مسجد میں عشاء کی نماز کا موقع ملا اتنا محفوظ انتظام بہت کم دیکھنے کو ملے گا۔ جامعۃ الامام میں پہلی بار آیا تھا، اس عمارت میں منتقل ہونے کے بعد اسے دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ یہاں سے نکلتے ہی روڈ کی دوسری جانب جامعہ نورا ہے۔ جو صرف طالبات کے لیے خاص ہے۔ دنیا میں صرف یہی ایک یونیورسٹی ہے۔ جو خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ دیگر یونیورسٹیوں میں طالبات کے لیے ایک شعبے ہیں، جو الگ الگ عمارتوں میں چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے خلوص کو قبول فرمائے اور جو علم او رتعلیم کی راہ میں یہ ملک دولت بے شمار خرچ کر رہاہے ، اس کو قبول کرتے ہوئے ان کے علم میں برکت اور اہل وعیال کو نیک نیز مملکت سعودیہ کو تقوی کی راہ پر گامزن رکھے اور دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین
پھر ہندستان کی واپسی قریب ہوئی ، ملاقات کے لیے لوگوں کی آمد کا سلسلہ بڑھ گیا۔ ہر آدمیجس نے سنا ملاقات کے لیے ضرور آیا۔ اور ان ہی دنوں میں دعوت بھی زیادہ ہونے لگی، جس کا ذکر میں نے کیا ہے کہ تیس دعوتیں ہونے پر ہمت جواب دے گئی۔ میں نے دعوتوں میں جانا بند کردیا۔ البتہ میمونہ اور سب بچے برابر جاتے رہے۔ پھر واپسی کی تاریخ آگئی، سامان زیادہ ہو گیا، تو بہت سی چیزیں چھوڑ دینی پڑیں۔ پھر بھی چھ سامان ہوگیا۔کہ اس میں آدھا سامان ایئر پورٹ سے لے جانا پڑا۔ اللہ کی مہربانی کہ استقبالیہ پر سامان لے گئے تو وہاں سعودی بیٹھا تھا، میرا اور مولوی عبد العلیم کا چہرہ دیکھ کر بغیر کچھ وزن کئے ہوئے سارا سامان اتار لیا۔ اور ہم لوگ سیکورٹی چیک کرکے سب لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کرکے اندر ایئر پورٹ پر چلے گئے، ہم لوگوں نے صرف ہلکا ناشتہ کیا تھا۔ اب سب کام سے فراغت ہوئی تو ہم دونوں کو بھوک کا احساس ہوا، دو کیک لیا۔ اور بوتل ٹھنڈا لیا۔ صرف ٹھنڈا استعمال ہوا۔ کیک رہ گیا، جسے بچوں نے دہلی پہونچ کرکھایا، قبل مغرب فلائٹ چلی اور چار گھنٹہ مسلسل پرواز کے بعد دہلی پہنچی۔ تمام جگہ چیکنگ کراکے اپنا سامان اکٹھا کیا تو کچھ اندر مطیع الرحمٰن اور احمد پہنچ گئے تھے، ان سے سلام معانقہ کے بعد باہر نکلے تو سب بچے موجود تھے۔ دو گاڑیاں لے کر آئے تھے، ہم لوگوں کا سامان لوڈ کیا، پھر سب لوگ خوش وخرم ماشاء اللہ اپنے بچوں میں پہنچے۔ یہاں دہلی ایک ہفتہ ٹھہرے، پھر گھر کے لیے واپسی ہوئی، بستی ریلوے اسٹیشن پر عبد الرحمٰن سلمہ گاڑی لے کر موجود تھے اس طرح بخیر وعافیت تقریبا تین ماہ کا یہ سفر تمام ہوا۔

Related posts

تعلیم وتعلم اور اساتذہ کرام

Paigam Madre Watan

اساتذہ کرام

Paigam Madre Watan

بچپن کی بعض آدھی ادھوری باتیں

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar