Articles مضامین

علامہ عبد الحمید رحمانی: جن کی نیکیاں زندہ ہیں، جن کی خوبیاں باقی

محمد اشرف یاسین*

علامہ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللّٰہ علیہ(21/اپریل 1943-20/اگست 2013) بن عبدالجبار بن عبداللّٰہ(مُلاہے مہتو) بن جَرئی بن بھان۔ بھان اور ان کے بیٹے جَرئی مسلمان تھے۔ علامہ رحمانی ہندوستان کے معروف صوبہ اتر پردیش کے سابق ضلع بستی اور موجودہ ضلع سدھارتھ نگر کے ایک دور افتادہ گاؤں تندوا، پوسٹ بَجْرا بھاری میں پیدا ہوئے۔ یہ اٹوا بازار سے پورب، اتر کونے سے تقریباً 15/ کلومیٹر کی دوری پر اور شہرت گڑھ سے پچھّم، دکھن کونے پر تقریباً 12/ کلومیٹر کی دوری پر مدرہوا بازار سے دکھن اور کٹھیلا بازار سے پورب پڑتا ہے۔ علامہ رحمانی کے چار بھائی اور پانچ بہنیں تھیں، مگر ان میں سے کچھ کا بچپن اور کچھ کا جوانی میں انتقال ہوگیا تھا۔ علامہ رحمانی تین بھائی اور ایک بہن کے ساتھ زندہ رہے۔
علامہ رحمانی نے اپنی ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول کٹھیلا کوٹھی، ضلع بستی(موجودہ ضلع سدھارتھ نگر) اترپردیش، مدرسہ شمس العلوم سمرا، ضلع بستی(موجودہ ضلع سدھارتھ نگر) اترپردیش، جماعت اولیٰ اور ثانیہ متوسطہ (دو سال) مدرسہ بحر العلوم انتری بازار، ضلع بستی(موجودہ ضلع سدھارتھ نگر) اترپردیش، جامعہ سراج العلوم بونڈیہار، ضلع گونڈہ( موجودہ ضلع بلرام پور) اتر پردیش، جماعت ثالثہ (ایک سال)، جامعہ فیض عام، مئوناتھ بھنجن، سابق ضلع اعظم گڑھ (موجودہ ضلع مئو) اتر پردیش، یہاں آپ نے 1958ء سے 1961ء تک تعلیم حاصل کی اور جماعت رابعہ، خامسہ اور سادسہ (تین سال) یہیں سے پاس کیا، مولوی(علوم اسلامیہ) فرسٹ ڈویژن، عربی و فارسی بورڈ، الہ آباد اترپردیش، فروری 1960ء، عالم (علوم اسلامیہ) فرسٹ ڈویژن، عربی و فارسی بورڈ الہ آباد، اتر پردیش، فروری 1961ء، جامعہ رحمانیہ بنارس، اتر پردیش سے تعلیمی سال 1961ء-1962ء اور 1962ء-1963ء جماعت سابعہ و ثامنہ (دو سال) فاضل فرسٹ پوزیشن و ڈویژن سے جنوری 1963ء مطابق شعبان 1382ھ میں پاس کیا، فاضل (علوم اسلامیہ) سیکنڈ ڈویژن، عربی و فارسی بورڈ، الہ آباد، اتر پردیش، جولائی 1963ء، کالج جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ(سعودی عرب) سے تعلیمی سال 1966ء-1967ء سے 1969ء-1970ء تک، یعنی مطابق 1386ھ-1387ھ سے 1389ھ-1390ھ تک (چار سال) میں بی اے (لیسانس) فرسٹ ڈویژن، دعوہ و اصول دین میں پاس کیا۔ اس طرح سے علامہ رحمانی رحمہ اللّٰہ علیہ نے بتدریج اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔
علامہ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللّٰہ علیہ کو جامعہ رحمانیہ بنارس، میں فرسٹ پوزیشن و ڈویژن کی وجہ سے تدریس کا زرّیں موقع دیا گیا۔ اس کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے مدینہ طیبہ کا رُخ کیا اور آپ نے عرب و عجم کے تقریباً دو درجن سے زائد علمائے کرام سے علم حاصل کیا۔ درجنوں علمائے عرب سے استفادہ بھی کیا۔ ہندوستان واپس آکر آپ نے مختلف نوعیت کی سیاسی، دینی، علمی، فکری، تحریکی، ملی، قومی، مسلکی، صحافتی(عربی اور اُردو زبانوں میں) اور تنظیمی خدمات انجام دیں۔ لیکن اپنے اس مضمون میں راقم نے خود کو "علامہ رحمانی کا اندازِ تعلیم و تربیت”، "علامہ رحمانی اور وقت کی پابندی”، اور "علامہ رحمانی کا اپنے ماتحت اور مُلازمین کے ساتھ حسنِ سلوک” جیسے ذیلی عناوین تک خود کو محدود رکھا ہے۔
علامہ رحمانی کا اندازِ تعلیم و تربیت:
10/اکتوبر 2006ء کو جب میرا داخلہ جامعہ اسلامیہ سنابل(نئی دہلی) کے مرحلۂ متوسطہ(اولیٰ متوسطہ) میں ہوا تھا۔ تب سنابل کے انتظامیہ نے ہم نو وارد طلباء کو علامہ رحمانی رحمہ اللّٰہ سے متعارف کرانے کے لیے ایک پروگرام رکھا تھا۔ یہ اجلاس سنابل کیمپس کی ٹین والی مسجد میں منعقد ہوا تھا۔ یہ مسجد کلیہ شرعیہ سے متصل ہوا کرتی تھی جو اب باقی نہیں رہی۔ کیوں کہ اب کیمپس میں مسجدِ عمر بن خطاب کی تعمیر کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسی پرانی ٹین والی مسجد میں یہ پروگرام رکھا گیا تھا۔ استادِ محترم مولانا وسیم احمد مدنی حفظہ اللہ اس پروگرام کی نظامت کر رہے تھے۔ دورانِ نظامت آپ سے سہواً یا سبقتِ لسانی کے طور پر کوئی لفظ غلط استعمال ہوگیا تھا، علامہ رحمانی نے بر سرِ مجلس مولانا وسیم احمد مدنی کی اصلاح کی۔ اس طرح اصلاح کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس مجلس میں موجود سبھی سامعین و ناظرین کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے۔ علامہ رحمانی نے استادِ محترم کو بتایا کہ درست لفظ کیا ہے۔ مزید یہ بھی کہا کہ آپ درست الفاظ استعمال کیا کریں۔ استادِ محترم نے علامہ اقبال رحمتہ اللّٰه علیہ (1877ء-1938ء) کا کوئی شعر بھی پڑھا تھا، جس پر علامہ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللّٰہ نے نکیر کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کی فکر غیر اسلامی ہے اور آپ نے اقبال کے ایک شعر سے استشہاد بھی پیش کیا۔
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا، کیا تُو مِرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخِیلی ہے یہ رزّاقی نہیں ہے(بال جبریل)
(اس موضوع سے متعلق مزید تفصیل کے لیے ابن احمد نقوی(1935ء-2024) کے مضمون ‘فکرِ اقبال’ شائع شدہ ماہنامہ "التوعیہ” (نئی دہلی) اکتوبر 1992ء پر علامہ رحمانی کا تفصیلی حاشیہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تفصیلی حاشیہ کو مجموعۂ مقالات، مولانا عبد الحمید رحمانی، جلد سوم صفحہ نمبر 116 سے 139 پر "فکرِ اقبال نقد کی کسوٹی پر” کے عنوان سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔)
علامہ رحمانی رحمہ اللّٰہ نے اپنے خطاب میں بہت ساری دینی، علمی، تعلیمی اور تربیتی باتیں بتائیں، لیکن مجھے آج بھی بہت اچھے سے یاد ہے کہ اس وقت موسمِ سرما کی آمد آمد تھی اور علامہ رحمانی رحمہ اللّٰہ نے ہم طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ طلباء نہانے کے فوراً بعد صاف کپڑے سے اپنے سر کے بالوں کا پانی سکھا لیا کریں، اس سے آپ نزلہ اور سردی سے محفوظ رہیں گے۔ سر بھیگا رہنے کی وجہ سے آپ طلباء کی طبیعت خراب ہونے کا خدشہ ہے اور طبیعت خراب ہونے سے آپ کی تعلیم کا بہت نقصان ہوگا۔ دہلی میں بہت سخت سردی پڑتی ہے۔ آپ طلباء کو خود اپنا خیال رکھنا ہے۔ علامہ رحمانی کی اس بات سے قارئین علامہ رحمانی کی طلباء کے تئیں تعلیمی فکرمندی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔
مولانا رحمانی اور وقت کی پابندی:
جب میں جامعہ اسلامیہ سنابل میں زیرِ تعلیم تھا تو میں نے ایک مرتبہ جوگابائی کے معہد عثمان بن عفان کی جامع مسجد ابوبکر صدیق میں رمضان المبارک سے قبل سامع کے لیے درخواست دی تھی۔ اتفاق سے میری درخواست منظور بھی کرلی گئی اور مجھے سامع کے لیے مدعو کر لیا گیا۔ اس وقت قاری عبد الحلیم صاحب "ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر” کے تحت چلنے والے اعلیٰ تعلیمی ادارے شعبۂ حفظ کے مدرسہ معہد عثمان بن عفان کے صدر مدرس ہوا کرتے تھے۔ جوگابائی پہنچنے کے بعد مجھے علم ہوا کہ مدرسہ عثمان بن عفان کے ایک طالب محمد شعیب کو بھی مؤذن کی حیثیت سے رکھا گیا ہے۔ ایک مرتبہ محمد شعیب کو فجر کی اذان دینے میں دو سے تین منٹ کی تاخیر ہوگئی حالانکہ اس وقت جوگابائی کی کئی حنفی مساجد سے سائرن کی آوازیں آچکی تھیں، پھر بھی علامہ رحمانی بہت زیادہ غصہ ہوگئے اور آپ نے ہم دونوں کو بلا کر ہماری خوب خوب سر زنش کی اور کہا کہ آپ دونوں اپنی غفلت، سستی اور کاہلی کی وجہ سے پورے جوگابائی والوں کا روزہ خراب کروائیں گے۔ اس واقعے سے علامہ رحمانی کی مسلمانوں کی عبادات کے سلسلے میں فکر مندی اور مولانا کی وقت کی پابندی کا علم ہوتا ہے۔
علامہ رحمانی کا اپنے ماتحت اور مُلازمین کے ساتھ حسنِ سلوک:
جب میں معہد عثمان بن عفان کی مسجد ابوبکر صدیق کا سامع تھا تو اس وقت علامہ رحمانی رحمہ اللّٰہ علیہ بہت پابندی کے ساتھ مغرب سے پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذکر واذکار، تسبیح و تحلیل میں مشغول ہو جاتے۔ میں افطاری کے وقت انہیں تین کھجوریں اور ایک گلاس پانی پیش کرتا۔ اکثر و بیشتر نمازوں کے بعد ہم طلباء آپ سے دعا سلام کرنے چلے جاتے۔ آپ ہماری خیریت دریافت کرتے اور ہمیں دعائیں دیتے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آپ نے ہم طلباء اور مسجد کے اسٹاف کو سو سو روپیہ عیدی بھی تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّٰہ رب العزت آپ کے سیئات کو حسنات میں تبدیل کردیے اور آپ کے تعلیمی کاموں کو آپ کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین ثم آمین

Related posts

قبضہ اور قید: ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی ناقابل تسخیر جدوجہد

Paigam Madre Watan

’’ مٹھی میں دنیا‘‘ کرنے والا شاعر:عظیمؔ انصاری

Paigam Madre Watan

حضرت عیسیٰ ؑکے نام پر خرافات کیوں ؟

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar