Articles مضامین

فضیلۃ الشیخ شاہد جنید سلفی رحمہ اللہ

عبد الرئوف خاں ندوی
صدر جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم بنارس الہند تاریخ ولادت : اا؍ جولائی ۱۹۵۰ء)

چہرہ خوب صورت اور نورانی ، تدبر وتحمل کا عنوان، پیشانی نور نکہت اور حکمت سے معمور، دل صداقت اور اخلاص و مروت کا خوگر، بے حد متواضع اور منکسر المزاج، طبیعت میں ریاد نمود سے تنفر، کم گو، خوش گو، خوب خو، ملاقات کے وقت طلاق الوجہ اور زیرلب ہلکا تبسم، مجلس میں وقار و ادب کا حسین امتزاج، نہایت ذہین و فطین، خاندانی شرافت و نجابت کے امین، جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس کے میر کارواں، سلفی نسبت کے ساتھ سلفیت کے علمبردار، یہ ہیں مولانا شاہد جنید صاحب سلفی رحمہ اللہ تعالیٰ
نام ونسب اور خاندانی پس منظر:
آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے: شاہد جنید بن ( الحاج) محمد فاروق بن محمد اسماعیل بن(الحاج) تاج محمد بنارسی ۔ والدہ کا نام صفیہ بی بی ہے۔ خاندان کا پس منظر بہت عمدہ اور تابناک ہے۔ یہ خاندان صرف بنارس ہی میں نہیں بلکہ بنارس سے باہر بھی شرافت و مروت ، تہذیب) اخلاق اور سخاوت و فیاضی میں بہت مشہور ہے۔ الحاج محمد فاروق صاحب عالم دین تو نہیں تھے مگر اہل علم سے کم بھی نہیں تھے۔ کتابوں اور مطالعہ کے بڑے شوقین تھے۔ کثرت مطالعہ کی وجہ سے بینائی کمزور ہو گئی تھی، پھر بھی شوق مطالعہ حد کمال کے افق کو چھو رہا تھا، جب ضعف بصارت سے بالکل مجبور ہو گئے تو اپنی نیک صفت بیوی اور شریک حیات سے پڑھواتے اور سنتے تھے۔ آپ علم دوست تھے اور اہل علم کی مجلسوں سے کافی انسیت تھی۔ علماء کی مجالس سے بقدر ظرف کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا لیتے تھے۔ شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ (وفات :1414 ) سے نہایت خوشگوار تعلق تھا۔ شیخ الحدیث جب مرعاۃ المفاتیح شرح مشا المصابیح کی پہلی جلد کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو اسے چھپوانے کی فکر دامنگیر ہوئی۔ آپ سے تذکرہ کیا تو آپ نے اپنی پہلی بیوی ( جو وفات پا چکی تھیں، اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے) کا پورے گہنے بیچ کر اس عظیم الشان اور بے نظیر شرح کی طباعت کے لئے شرح صدر کے ساتھ تعاون فرمایا۔ اس نادرۃ العصر شرح کی پہلی جلد کوئی ایک ڈیڑھ سال کی مدت میں بڑی تقطیع میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آئی اور ہندوستان سے نکل کر عرب علماء جنہیں اپنی قادر الکلامی، لغت عرب میں سلاست وروانی پر ناز تھا، دیکھ کر حیرت و ششدر رہ گئے۔ اسے سراہا اور بیسویں صدی کا عظیم الشان کارنامہ قرار دیا۔
جماعت اہل حدیث بنارس اور اس کے اطراف و جوانب میں ہر جگہ مساجد و اداروں میں الحاج محمد فاروق رحمہ اللہ کی چھاپ دیکھی جاسکتی ہے، اسی طرح مولانا شاہد جنید سلفی حفظہ اللہ نے راقم کی کتاب اسلامی آداب معاشرت 1991ء میں اپنے خرچہ سے چھپوائی۔ اللہ آپ کے حسنات میں اضافہ فرمائے اور نیکیوں سے بھر پور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔ الحاج محمد فاروق صاحب کے برادر کبیر محمد صدیق صاحب بھی داد و دہش اور جود و سخا میں بہت مشہور تھے ۔ سماجی روابط اور دینی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ مدنپورہ میں طیب شاہ کی مسجد اور مالتی باغ میں پاکڑ بلی مسجد کی تعمیر و انصرام میں شریک و سیم رہے۔
تاريخ ولادت و مقام ولادت مولانا شاہد جنید صاحب کی ولادت اا: جولائی ۱۹۵۰ء مطابق ۲۴ / رمضان المبارک ۱۳۹۶ ء کو شہر بنارس کے مشہور خانواد تا جا خاندان میں ہوئی۔ آپ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں، آپ کے بھائیوں کے نام بالترتیب یہ ہیں محمد صالح محمد سالم اور محمد شعیب۔ واضح رہے کہ الحاج محمد صالح کئی سالوں بنارس شہر کے میئر تھے۔ مولانا شاہد جنید سلفی صاحب ابھی دس سال کے تھے کہ پدرانہ شفقت سے محروم ہو گئے۔ والد محترم کے انتقال کے بعد والدہ محترمہ نے پرورش و پرداخت کی۔ آپ کی والدہ نہایت متدین اور صالح خاتون تھیں۔ متقی و پرہیز گار تھیں، دعوت و تبلیغ، ارشاد و رہنمائی سے حددرجہ شگفتگی تھی ، عورتوں میں جا جا کر انہیں معروف اور بھلائی کا حکم دینا اور برائیوں سے بچنے کی تاکید کرنا ان کی مصروفیات کا ایک حصہ تھا۔ عقیدہ کی اصلاح، تزکیہ نفس، سماج میں پھیلے ہوئے غیر اسلامی رسم و رواج اور بدعات و خرافات، دعوت وارشاد کا اصل اور اہم محور تھا۔ ایک اچھی خطیبہ بھی تھیں، تقریر کے فن سے خوب واقف تھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ اپنے ہونہار صاحبزادے مولانا شاہد جنید صاحب سلفی کے ساتھ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے جاتی ہیں تو ارض مقدس پر دعوتی کاز میں بہت زیادہ متحرک نظر آتی ہیں اور دعوت و تبلیغ کا جذبہ از خود پروان چڑھ جاتا ہے۔ امام حرم محترم المقام محمد بن عبداللہ السبیل کی اجازت سے بیت اللہ الحرام میں تقریر کرتی ہیں، درس کی مجلسیں جمتی ہیں۔ عورتوں کے مسائل اور مناسک حج کی عمدہ اور دل پذیر پیرایہ میں تشریح کرتی ہیں اور آمدہ سوالات کا تشفی بخش جواب دیتی ہیں۔ ایسی متقی اور پرہیز گار خاتون کے زیر سایہ پرورش پانے والا بچہ لعل و گہر بن کر ابھرتا ہے۔ یہ حسن تربیت ہے جو مولانا شاہد جنید صاحب کے اخلاق و کردار میں نیر تاباں کی طرح نظر آتی ہے۔
تعلیم و اساتذہ کرام مولانا شاہد جنید صاحب سلفی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، بعد ازاں والد مکرم کی وصیت کے مطابق جامعہ رحمانیہ میں جو اس وقت مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ (وفات: ۱۹۶۵ء) کی نگرانی میں اوج کمال کو پہنچ چکا تھا۔ دینی تعلیم کے لئے داخل کر دیئے گئے جب کہ آپ کے دیگر برادران عصری تعلیم سے مزین ہیں۔ ۱۹۶۷ء تک مذکورہ ادارہ میں رہ کر اپنے مشفق اساتذہ کرام سے علمی استفادہ کرتے رہے۔ آپ کے اساتذہ میں مولا نام عبدالحمید رحمانی (وفات: ۲۰۱۳ء) مولانا عبد الوحید رحمانی، شیخ الجامعہ جامعہ سلفیہ بنارس (۱۳۱۸ ھ ) مولانا عبد السلام رحمانی فیجی والے، مولانا قرۃ العین مبارک پوری (وفات: ۱۴۳۵ ھ ) مولا نا عزیز احمد ندوی اور ماسٹر عبدالحمید جونپوری رحمہم اللہ تعالی ہیں۔ جامعہ سلفیہ ( مرکزی دار العلوم ) بنارس جو سلفیان ہند کا دھڑکتا ہوا دل ہے، اس کی تاسیس ۱۹۶۳ء میں ہوئی تعلیمی آغاز ۱۹۶۶ء میں ہوا، اس کے ایک سال کے بعد ۱۹۶۷ء میں داخل درس ہوئے ، ان دنوں مرکزی دارالعلوم میں اجلہ علماء مسند درس پر جلوہ افروز تھے۔ پوری دلجمعی کے ساتھ کسب فیض میں لگ گئے ۔ یہاں جن اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ان میں مولانا محمد اور میں آزاد رحمانی (وفات: ۱۹۷۸ ء ) مولانا عبدالمعید بنارسی (وفات: ۱۹۸۰ء ) مولانا شمس الحق سلفی (وفات: ۱۹۸۶ء) مولانا عظیم اللہ مئوی (وفات: ۱۹۹۳ء) مولانا رئیس احمد ندوی (وفات: ۲۰۰۲ء ) ڈاکٹر مقتدی حسن از ہری (وفات: ۲۰۰۹ء) کے علاوہ عرب مشائخ بھی تھے ۔ عرب مشائخ کے آنے کے بعد جامعہ سلفیہ کو تعلیم اور عربی زبان و ادب میں ایک نئی سمت ملی ۔ عرب اسا تذہ کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں: ڈاکٹر ربیع ہادی مدخلی ، ڈاکٹر عبداللہ غلیمان، شیخ صالح عراقی ، شیخ بادی، شیخ علی بن مشرف اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور زندوں کو عمل صالح کےساتھ طویل عمر دے اور اپنی حفاظت میں رکھے۔ ۱۹۷۰ء میں جامعہ سلفیہ سے عالمیت کا کورس پاس کیا اور پورے جامعہ میں اول آئے۔ اس وقت جامعہ میں کل ستر (۷۰) یا (۸۰) طلبہ رہتے تھے ، دو یا تین بار ایسا ہوا؟ کہ مولانا شاہد جنید صاحب نہ صرف اپنی کلاس میں اول آئے بلکہ پورے جامعہ میں اول آنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ آپ کے ہم سبق ساتھیوں میں ڈاکٹر جاوید اعظم رحمہ اللہ ، سابق صدر جامعہ سلفیہ، ڈاکٹر ابو حاتم بنارسی، محترم نامق ادیب ڈاکٹر اختر جمال اور ڈاکٹر عبد العزیز مبارک پوری صاحبان ہیں۔ 1951ء میں فضیلت کے سال اول میں تھے کہ عالم اسلام کی مشہور یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ نبویہ میں داخلہ کا پروانہ مل گیا۔ مسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ الہ العالمین کا شکر ادا کیا، مگر یہ خوشی اس وقت کا فور ہوتی نظر آئی جب ہندو پاک کی جنگ کے مہیب سایہ نے مشکلات کی دیوار کھڑی کر دی۔ آپ کے مصاحبین میں سے ڈاکٹر محفوظ الرحمن زین اللہ رحمہ اللہ اور ڈاکٹر صغیر احمد محمد حنیف کو عراق سے ہوتے ہوئے سعودی عربیہ میں دخول کا ویزہ ملا۔ ادھر آنجناب کی خوش قسمتی کہ اسی سال والدہ کے ہمراہ حج کی سعادت نصیب ہوئی لیکن ابھی بھی تعلیم کے لئے ویزہ کے حصول کی پریشانی ملنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ قصہ مختصر یہ کہ والد ہ رحمہا اللہ کے کے ہمراہ حج کے لئے عازم سفر ہوئے ۔ حج کے اسی سفر میں مولانا شاہد جنید صاحب جامعہ اسلامیہ گئے اور ضروری کارروائی کے بعد انہیں درسگاہ میں بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی ۔ تقریباً ایک ماہ تک وہاں کے اجلہ علماء کرام سے خوشہ چینی کی۔ چونکہ ویزہ حج کا تھا اس لئے ہندوستان واپس آنا امر لا بدی تھا۔ ہند واپس آنے کے بعد دوبارہ جانے کے لئے پر عزم ہی تھے کہ خاندان میں ایک ایسا عظیم سانحہ پیش آیا جس نے پورے وجود کو جنجھوڑ دیا اور آپ کے ارادوں کو پابند سلاسل کر گیا۔ اس حادثہ فاجعہ کی وجہ سے آپ کی دیرینہ آرزو حسرت و یاس کے پیکر میں ڈھل گئی۔ وما تشاؤن إلا أن يشاء الله اور وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ رب العالمین کی مشیت ہوتی ہے۔ مرور ایام کے ساتھ غم بھی دھیرے دھیرے مندمل ہونے لگا تا آنکہ وہ پر مسرت لمحہ بھی آگیا جب آپ ۱۹۷۲ ء میںفضیلت کی ڈگری سے سرفراز ہوئے ۔مناصب اور کارنامے بقول آپ کے ” میرا کوئی کارنامہ نہیں ہے جس کو احاطہ تحریر میں لایا جائے“ تا ہم مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ کی تعمیر وترقی اور خدمت کا موقع ملا۔ ناظم اعلی مولانا کی والدہ مولانا شاہد جنید سلفی حفظہ اللہ کے حالات کیلئے راقم الحروف کی کتاب ” عبرت آموز تاریخی واقعات ملاحظہ فرمائیں (عبدالرؤف ندوی)عبد الوحید سلفی رحمہ اللہ (وفات: ۱۹۸۹ء) کو لے مارچ ۱۹۸۹ء کو دل کا دورہ پڑا جس سے ؟ صحت کافی متاثر ہو گئی ۔ تاہم مولانا شاہد جنید صاحب قائم مقام ناظم رہتے ہوئے جامعہ کی دیکھ ریکھ کرتے رہے۔ پھر 1999ء میں انتخاب کے ذریعہ انہیں ناظم الامور مقرر کیا گیا۔ کم عمری کی وجہ سے نظامت کا عہدہ قبول کرنے میں ہچکچا رہے تھے کہ کسی طرح شیخ الحدیث رحمہ اللہ کوخبر پہنچی تو انہوں نے بلا کر سمجھایا جس سے آپ کو کافی ڈھارس ملی ، عزم و حوصلہ ملا۔ ادھر لوگ بھی آپ کے دست و پا بن گئے ۔ اس وقت موجودہ ناظم اعلی مولا نا عبداللہ سعود صاحب نائب ناظم کے عہدہ پر تھے ، بعد میں انہیں ناظم اعلیٰ بنا دیا گیا۔ مولا نا محمد بنارسی کی وفات (۲۰۰۴ء) کے بعد مولانا شاہد جنید صاحب قائم مقام صدر رہے۔ تقریباً دو سال اس منصب جلیل پر رہ کر ہمہ جہت خدمت کی۔ اسی اثناء میں انتخاب جدید عمل میں آیا تو آپ نے ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ سے صدر جامعہ بننے کی درخواست کی اور کافی زور دیا، جس کی وجہ سے از ہری صاحب نے حامی بھر لی۔ اس طرح ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ جامعہ کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے انتقال کے بعد پھر مولانا شاہد جنید صاحب کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا ، کیونکہ اس وقت آپ نائب صدر کے عہدے پر تھے، آپ بڑی محنت و لگن کے ساتھ کام کرتے رہے تا آنکہ اکتوبر ۲۰ ء میں صدارت کی ذمہ داری ڈاکٹر جاوید اعظم رحمہ اللہ کے حصہ میں آگئی ، ڈاکٹر جاوید اعظم رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد اتفاق رائے سے مولانا شاہد جنید صاحب سلفی کو باقاعدہ طور پر جامعہ کا صدر بنا دیا گیا اور تادم تحریر اسی عہدہ جلیلہ پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی عطا فرمائے اور جامعہ کی خدمت کو شرف قبولیت بخشے ۔ آپ کے عہد نظامت میں کافی ترقیاں ہوئیں ۔ آپ صائب الرائے اور حکمت و دانائی کے مجسم ہیں، کوئی فیصلہ احتیاط اور رائے مشورے کے بعد ہی کرتے ہیں اور ہر اس رائے اور مشورے کو قبول کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیتے ہیں جس میں جامعہ کے لئے فلاح اور ترقی مضمر ہو ۔ آپ اپنے جملہ اساتذہ کرام سے بہت ؟ متاثر ہیں ، سب کا احترام کے ساتھ نام لیتے ہیں بالخصوص مولا نا عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ سے کافی متاثر ہیں اور ان سے کافی گہرا ربط بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سب کی مغفرت فرمائے اور صاحب ترجمہ کو صحت و تندرستی کے ساتھ رکھے اور جملہ اعمال صالحہ کو قبول فرمائے اور اس دن کے لئے ذخیرہ بنائے جس دن نہ کوئی اولا د کام آئے گی اور نہ مال و ثروت کام آئے گا۔

Related posts

क्यों आया ऐसा परिणाम 

Paigam Madre Watan

عید کی اہمیت و ضروت

Paigam Madre Watan

عقیدہ، ایمان، تہذیب اورتمدن کی حیثیت اور اہمیت انسانی زندگی میں

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar