تحریر: محمد فداء المصطفیٰ قادری
رابطہ نمبر: 9037099731
دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپورم،کیرالا
۱۸۷ واں عرسِ ممبرمی کے حسین موقع پر ایک تحقیقی،تجزیاتی اور معقولی تحریر پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ، امیدقوی ہے کہ آپ تمامی حضرات اس تحریر کو پڑھ کر مستفید ہوںگے اور مذہبِ اسلام کے سچے پکے علمبر دار بنیںگے۔ اللہ رب العزت ہمیں توفیق عطا فرمائے،آمین۔
محرم الحرام، اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ، تقویٰ، صبر، قربانی، اور حق پسندی کا وہ تاریخی مہینہ ہے جو روحِ ایمان کو تازگی بخشتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں حضرت امام حسینؓ اور ان کے جاں نثاروں کی بے مثال شہادت کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے دینِ اسلام کی بقاء کے لیے کربلا کے تپتے ریگزار میں سرفروشی کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک کے لیے مشعلِ راہ ہے۔مگر محرم کی روحانی عظمت صرف کربلا کی قربانیوں تک محدود نہیں بلکہ اس کی تجلیات دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف انداز سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ہندوستان کی سرزمین، بالخصوص جنوبی ہند کا علاقہ کیرالا، اس مہینے کی روحانیت سے کچھ اور ہی رنگ میں سرشار ہوتا ہے، اور اس سرشاری کا مرکز و محور ہیں حضور قطب الزمان، حضرت سید علوی مولی الدویلہ ممبرمی رحمۃ اللہ علیہ۔
حضور سید علوی مولی الدویلہ ممبرمیؒ، جنوبی ہند کی وہ عظیم روحانی شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف علم و معرفت کی روشنی پھیلائی بلکہ عوام کے دلوں کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، محبتِ اہلِ بیتؓ، اور خالص اسلام کی دعوت سے منور کیا۔ آپ کا تعلق حضرت سیدنا امام حسینؓ کے سادات گھرانے سے تھا، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی میں شجاعت، تقویٰ، زہد، علم، عمل، حلم، اور جذبئہ خدمتِ خلق نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ کی شخصیت ظاہری و باطنی طور پر اکملیت کا آئینہ تھی۔ آپ کی خانقاہ ”ممبرم شریف” صدیوں سے روحانی تربیت کا مرکز بنی ہوئی ہے، جہاں آنے والے زائرین کو نہ صرف روحانی فیض حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ ایک عملی اسلامی طرزِ حیات کا نمونہ سیکھ کر واپس جاتے ہیں۔
ہر سال سات محرم الحرام کو کیرالا کی سرزمین ایک نورانی ماحول میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ’’عروسِ ممبرمی‘‘ کے نام سے مشہور اس دن کو لاکھوں عقیدت مند ایک روحانی جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ یہاں نہ صرف دینی و روحانی محافل منعقد ہوتی ہیں بلکہ اجتماعی دعائیں، ذکر و اذکار، نعتیہ و منقبتی محفلیں، اور علما و صوفیہ کی تقاریر دلوں کو گرما دیتی ہیں۔ یہ عرس دراصل صرف ایک یادگار تقریب نہیں بلکہ ایک زندہ پیغام ہے ،یہ پیغام کہ اولیاء اللہ کی زندگی اور تعلیمات کو اپنا کر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
محرم ہمیں صرف غم نہیں سکھاتا، بلکہ یہ ایمان کی پختگی، حق کی حمایت، اور باطل سے ٹکرانے کی ہمت عطا کرتا ہے۔ یہی پیغام ہمیں سید علوی مولی الدویلہ ممبرمیؒ کی تعلیمات میں بھی نظر آتا ہے۔ آپ نے ہمیشہ امت کو دین کی اصل روح سے جوڑے رکھنے کی کوشش کی۔ آپ کے نزدیک دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو عدل، محبت، اخوت، اور شریعت کے قیام پر قائم ہے۔ آپ نے سادگی، زہد، اور توکل کے ساتھ زندگی بسر کی، اور عوام کو بھی ان اصولوں پر چلنے کی تلقین کی۔ آپ کا ہر کلام، ہر فعل، اور ہر نصیحت قرآن و سنت کے مطابق تھی۔ آپ نے ہندوستانی مسلمانوں کو باہم اتحاد، اخلاقی تربیت، دینی تعلیم اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اپنانے کی ترغیب دی۔
کیرالا، جو ظاہراً ایک ساحلی علاقہ ہے، باطناً ایک روحانی چمنستان ہے۔ یہاں کئی صوفیہ کرام اور اولیائے کاملین نے دینِ اسلام کو محبت و حکمت کے ذریعے پھیلایا۔ سید علوی مولی الدویلہ ممبرمیؒ کی موجودگی نے اس خطے کو وہ روحانی برکت عطا کی جس کی خوشبو آج بھی فضا میں محسوس کی جاتی ہے۔ عرس کے موقع پر مختلف مسالک و مذاہب کے لوگ بھی احتراماً شریک ہوتے ہیں، جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولیائے کرام کے دل سب کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ وہ محبت کے سفیر ہوتے ہیں، اور ان کی زندگیوں کا ہر لمحہ امن، رواداری، اور انسانیت کا پیغام ہوتا ہے۔
آج جب ہم عرسِ ممبر می کی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں، نعتیں پڑھتے ہیں، سلام کہتے ہیں، تو کیا یہ کافی ہے؟ کیا ہم نے اولیاء کے پیغام کو اپنی زندگیوں میں اتار لیا ہے؟ کیا ہم نے امام حسینؓ کی قربانی کو صرف ذکر و مجلس تک محدود کر دیا ہے؟ نہیں! ہمیں اب اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو آج انفرادی و اجتماعی طور پر کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ سیاسی، سماجی، تعلیمی اور مذہبی سطح پر ہمیں بیداری کی ضرورت ہے۔ سید علوی مولی الدویلہ ممبرمیؒ جیسے بزرگوں کی تعلیمات سے ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ:
دین و دنیا میں توازن قائم کریں:نہ صرف نماز، روزہ بلکہ علم، صحت، تجارت، اور تہذیب میں بھی اسلامی اقدار کو اپنائیں۔
آپسی اتحاد کو فروغ دیں:فرقہ واریت، مسلکی جھگڑوں، اور ذاتی انا کو چھوڑ کر امت کے اجتماعی مفاد کے لیے کام کریں۔
اخلاقی و روحانی تربیت کو عام کریں:اولیاء کی صحبتوں کا فیض حاصل کریں، اور نسلِ نو کو اُن کی سیرت سے روشناس کروائیں۔
دینی تعلیم کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں: مدارس، خانقاہوں، اور اسلامی اداروں کو وقت، مال، اور علم کے ذریعے مضبوط کریں۔
اسلامی تہذیب و ثقافت کا دفاع کریں: مغربی یلغار سے بچتے ہوئے اسلامی شعائر، پردہ، اذان، درود، ذکر، اور جمعہ کی اہمیت کو برقرار رکھیں۔
محرم الحرام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دین اسلام کی حفاظت صرف قربانی سے ممکن ہے۔ اور اولیاء اللہ، جیسے سید علوی مولی الدویلہ ممبرمیؒ، ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ قربانی صرف تلوار سے نہیں بلکہ تقویٰ، علم، صبر، اور محبت سے بھی دی جا سکتی ہے۔ آئیے ہم محرم کے اس مہینے میں یہ عہد کریں کہ ہم نہ صرف ظاہری عبادات، بلکہ باطنی صفائی، سماجی خدمت، دینی بیداری، اور ملی اتحاد کی راہ پر بھی قدم رکھیں گے۔ ہم اپنے بچوں کو سیرتِ اولیاء اور شہداء کربلا سے روشناس کروائیں گے۔ ہم درگاہوں کو صرف زیارت کا مقام نہیں، بلکہ تعلیم و تربیت کا مرکز بنائیں گے۔