بقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین (اکولہ، مہاراشٹر)
عصرِ حاضر کے ڈیجیٹل انقلاب نے جہاں انسانیت کو معلومات کی ایک لامحدود دنیا تک رسائی دی ہے، وہیں یہ ایک نئے فکری انتشار کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں ہر فرد خود کو ایک ماہر، محقق اور مفکر کے طور پر پیش کر سکتا ہے، اور روایتی علمی و تحقیقی نظام کی صدیوں پرانی ساکھ کو ایک یوٹیوب چینل کے ذریعے چیلنج کر سکتا ہے۔ اس ڈیجیٹل لہر پر ابھرنے والی شخصیات میں سے ایک نمایاں نام انجینئر محمد علی مرزا کا ہے، جن کی حالیہ گرفتاری نے ایک بار پھر ان کے متنازع افکار و نظریات کے گرد گھومنے والی بحث کو ایک نئی شدت بخشی ہے۔ یہ واقعہ محض ایک قانونی کارروائی نہیں، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ایک ایسے وسیع تر سماجی اور مذہبی مسئلے کی علامت ہے جو جدید دور میں علم، اتھارٹی (Authority) اور مذہبی روایات کی تفہیم سے متعلق سنگین سوالات کھڑا کرتا ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا کا تعلق پاکستان کے شہر جہلم سے ہے اور ان کا پیشہ مکینیکل انجینئرنگ ہے۔ وہ کسی بھی روایتی دینی درس گاہ سے فارغ التحصیل نہیں، لیکن اپنے آپ کو "قرآن و سنت” کا ایک براہِ راست محقق اور مبلغ قرار دیتے ہیں۔ ان کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ وہ کسی مسلک کی پیروی نہیں کرتے اور چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کے علمی ورثے کو، بہ شمول فقہ، حدیث اور تفسیر کے مسلمہ اصولوں کو، چیلنج کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان کی اپیل کا سب سے بڑا مرکز نوجوان طبقہ ہے جو انھیں مسلک پرستی کے خلاف ایک توانا آواز اور "حقیقی تحقیق” کا علم بردار سمجھتا ہے۔ تاہم، علمائے امت کی عظیم اکثریت اور عوام کی ایک بڑی تعداد انھیں گمراہ، اسلامی آداب سے منحرف اور امت میں فتنہ و فساد پھیلانے والا قرار دیتی ہے۔
مرزا کی فکری اساس اور طریقۂ کار کو سمجھنا اس تنازعے کی جڑوں تک پہنچنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ ان کا منہج بظاہر "خود تحقیق کرو” کے اصول پر مبنی ہے، جو جدید دور کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ حساس ترین مذہبی اور تاریخی موضوعات، خاص طور پر صحابہ کرام کے مابین ہونے والے مشاجرات کو اپنی "تحقیق” کی بنیاد پر زیرِ بحث لاتے ہیں اور پھر رعونت کے ساتھ اپنے نتائج پیش کرتے ہیں۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ "تحقیق” دراصل چودہ صدیوں کے اجماعِ امت اور اسلاف کے علمی کام کو مسترد کرنے کے مترادف ہے، جس کے نتیجے میں ان کی فکر میں شدید فکری انارکی اور گمراہی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ منہج اس خطرناک سوچ پر مبنی ہے کہ کوئی بھی شخص عربی زبان کی بنیادی سمجھ بوجھ کے بغیر، محض تراجم کے سہارے قرآن و حدیث کی تشریح کا اہل ہو سکتا ہے اور اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کے جلیل القدر ائمہ، محدثین اور فقہاء کی آراء کو چیلنج کر دے۔ اس طریقۂ کار کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے پیروکار روایتی دینی علوم سے بیزار ہو کر ایک "خود ساختہ” اسلام کی طرف مائل ہو گئے ہیں، جو کسی علمی ضابطے یا اصول کا پابند نہیں ہے۔
ان کی فکر کا سب سے خطرناک اور ناقابلِ قبول پہلو ادبِ رسالت ﷺ اور عظمتِ صحابہ پر حملہ ہے۔ ایمان کا بنیادی پتھر نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے غیر مشروط محبت، بے پناہ تعظیم اور کامل ادب پر رکھا گیا ہے۔ انجینئر مرزا کی گفتگو میں جو "سادگی” یا "بے باکی” ان کے حامیوں کو پرکشش لگتی ہے، ناقدین کے نزدیک وہ اسی بنیادی اصول سے متصادم ہے۔ ان پر یہ سنگین الزام ہے کہ انھوں نے معاذ اللہ، سید الکونین کے لیے "چھوکرا” جیسا بازاری اور توہین آمیز لفظ استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو کسی بھی سیاق و سباق میں شانِ نبوت پر براہِ راست حملہ ہے۔ اسی طرح ان سے یہ بیان بھی منسوب ہے کہ انھوں نے نبی اکرم ﷺ کی نمازوں کو "فالتو نمازیں” کہا اور سنتِ مؤکدہ، جن پر نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ عمل کیا اور جن کی تاکید فرمائی، کو "فالتو” قرار دیا۔ یہ طرزِ عمل سنت کی اہمیت کو کم کرنے اور اسے ایک غیر ضروری عمل کے طور پر پیش کرنے کے مترادف ہے، جو دین کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ "اگر میں چودہ سو سال پہلے ہوتا تو نبی کریم ﷺ کو مشورے دیتا،” محض ایک تکبرانہ بیان نہیں بلکہ یہ جہالت کی وہ انتہا ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا کے متنازع بیانات کی فہرست میں ایک انتہائی خطرناک اور قابلِ اعتراض بیان یہ ہے کہ وہ بظاہر جرأت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ "جب بھی توحید بیان ہوگی، گستاخیِ رسول تو ہوگی ہی ہوگی”۔ یہ نہ صرف ایک غیر اسلامی اور توہین آمیز بیان ہے بلکہ یہ ان کے فکری انحراف کی انتہا بھی ظاہر کرتا ہے۔
ادبِ رسالت ﷺ کے بعد دوسرا سب سے اہم اصول صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا احترام ہے۔ اہلِ سنت و الجماعت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں، ان کی نیتیں پاک تھیں اور ان کے مابین ہونے والے اجتہادی اختلافات میں ہمیں اپنی زبانیں بند رکھنی چاہئیں۔ تاہم، مرزا خود کو "غیر جانب دار محقق” کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے محدود علم کی بنیاد پر صحابہؓ کے بارے میں فیصلے صادر کرتے ہیں۔ وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو "ظالم” قرار دیتے ہیں اور ان پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے انھیں "ظالم” کہا تھا، حالانکہ اس کا کوئی مستند حوالہ، وہ آج تک دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ وہ جنگِ جمل کے شرکاء کو خوارج سے بھی بڑا مجرم قرار دیتے ہیں اور حضرت علیؓ کے مقابلے میں خوارج کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ وہ سیدنا عقیل بن ابی طالبؓ کو "لالچی” اور حضرت حسن بن علیؓ و حضرت عمر فاروق اعظمؓ کو "کوئی شے ہی نہیں” کہہ کر ان کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ ان کی جرأت یہاں تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں بے ادبی کا ارتکاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ایک گھوڑا ہے شیعوں کا اور ایک ہے سنیوں کا، گھوڑا معاویہ”۔ مزید یہ کہ وہ اپنے اور اپنے شاگردوں کو عشرۂ مبشرہ اور خلفائے راشدین کے ہم پلہ ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کی گمراہیوں کا دائرہ صرف شانِ رسالت اور عظمتِ صحابہ تک محدود نہیں، بلکہ وہ امت کے دیگر متفقہ اصولوں اور شعائر اللہ پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قادیانی بھی امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں اور روزِ قیامت قادیانیوں کے بھی اعضائے وضو چمکیں گے، حالانکہ یہ عقیدہ ختمِ نبوت کے متفقہ اصول کے خلاف ہے۔ ان کا قادیانیوں کو "اہلِ کتاب” کہنا اس فتنے کو مزید ہوا دیتا ہے، کیونکہ اہلِ کتاب ان سچے انبیاء کے پیروکار ہیں جن پر آسمانی کتابیں نازل ہوئیں، جب کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک جھوٹا مدعیِ نبوت تھا جس پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ اسی طرح توحید کی آڑ میں شعائر اللہ کی توہین بھی ان کا وطیرہ رہا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ "خانۂ کعبہ پر جوتیوں سمیت چڑھنا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ہم اس کی عبادت نہیں کرتے،” توحید کی غلط تشریح اور شعائر اللہ کی بے حرمتی کی کھلی دعوت ہے۔ توحید کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی نشانیوں کی بے ادبی کی جائے، بلکہ ان کا احترام بھی اللہ ہی کے حکم کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، وہ قرآن پاک کی تیس پاروں میں تقسیم کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ بیان کہ جنت میں ہر انسان "منی گاڈ” (Mini God) ہوگا، ایک غیر ضروری اور جاہلانہ اعتراض ہے جو امت کے چودہ سو سالہ تعامل کو چیلنج کرتا ہے۔
ان کی گستاخیوں کا سلسلہ امت کے تابعین اور ائمہ کرام تک بھی پہنچتا ہے۔ وہ امام محمد ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ پر لعنت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ "بد عقیدہ شخص” تھے۔ اسی طرح، وہ صحیح مسلم کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے مدینہ کے سو تابعین کو "چڈو” کہتے ہیں اور ان پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے ہیں۔ وہ نہ صرف ان کی علمی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں، جو کسی بھی اسلامی اسکالر کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ وہ امامِ اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بارے میں "بھونکنے” کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ان کی کتاب "الفقہ الاکبر” کو "چھوٹی سی پڑیا” کہتے ہیں۔ اسی طرح وہ امام قدوری رحمہ اللہ کی کتاب "مختصر القدوری” کو "کتورہ یعنی کتے کا بچہ” کہتے ہیں، جس سے ان کی علمی دریدہ دہنی واضح ہوتی ہے۔ وہ حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کے عقائد میں ناصبیت کی بُو تھی اور وہ اہلِ بیت کے مخالف تھے۔ یہ سب جھوٹے اور من گھڑت الزامات ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا کی شخصیت اور فکر محض چند اختلافی نظریات کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ جدید دور کی اس فکری کجی اور علمی انحراف کی ایک مکمل تصویر ہے جو دین کی روح سے صریحاً متصادم ہے۔ وہ "تحقیق” اور "براہِ راست قرآن و سنت” کے دل فریب عنوانات کی آڑ میں امت کے چودہ سو سالہ علمی سرمائے، متفقہ اصولوں اور اسلاف کی حرمت پر کاری ضرب لگا رہے ہیں، جس کا منطقی نتیجہ نوجوان نسل کو اپنی دینی جڑوں سے کاٹ کر ایک ایسے فکری خلا میں دھکیلنا ہے جہاں ہر تقدس پامال اور ہر اصول قابلِ تشکیک ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ فرقہ واریت کے خاتمے کا عَلم بردار بن کر وہ عملاً ایک ایسے نئے اور مہلک گروہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو کسی بھی علمی روایت کا پابند نہیں؛ یہ ایک ایسا منہج ہے جو ہر فرد کی ناقص عقل اور ذاتی خواہشات کو ہی حتمی سند عطا کرتا ہے۔ لہٰذا، ان کے خلاف علمی محاذ پر اٹھنے والی آوازیں اور ریاستی سطح پر ہونے والی کارروائیاں محض ردِ عمل نہیں، بلکہ یہ اس معاشرتی اور ایمانی وجود کو لاحق اس گہرے خطرے کا ادراک ہیں جو اگر بے قابو ہو جائے تو نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کر دے گا بلکہ امّت مسلمہ کی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر کے رکھ دے گا۔