مطیع الرحمن عزیز
دیس راج مضطر ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے صحافت کے شعبے میں اپنی ایمانداری، بیباکی، اور خاموش مزاجی سے ایک منفرد مقام بنایا ہے۔ وہ شاید دنیا کے لیے ایک گمنام صحافی ہوں، لیکن میرے لیے وہ ایک عظیم استاد ہیں جنہوں نے مجھے نہ صرف نوکری دی، بلکہ دس سال کے عرصے میں وہ باریکیاں سکھائیں جو کسی تعلیمی ادارے میں نہیں ملتیں۔ مضطر صاحب وہ صحافی ہیں جو اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ لکھتے ہیں، باریک بینی سے سوالات کرتے ہیں، اور اپنی جدوجہد سے صحافت کی عزت کو برقرار رکھتے ہیں۔
میری مضطر صاحب سے ملاقات ایک دلچسپ واقعے سے شروع ہوئی۔ ایک دوست نے بتایا کہ روزنامہ ہمارا مقصد میں نوکری کی جگہ خالی ہے۔ میں نے اس امید کے ساتھ وہاں قدم رکھا، لیکن تجربے کی کمی کی وجہ سے میرا ابتدائی ٹیسٹ ناکام رہا۔ مایوسی کے عالم میں میں نے ایک دوسرے دوست کو یہ بات بتائی اور کہا کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں وقت سے پہلے تنخواہ ملتی ہے—دہلی کے خودغرض اخبار مالکوں میں یہ خوبی نایاب ہے۔ دوست نے اصرار کیا کہ وہ خود انٹرویو دینا چاہتا ہے، اور میں اسے لے کر دوبارہ مضطر صاحب کے دفتر پہنچا۔ دوست کا انٹرویو ہوا، لیکن اسٹاف نے اس کے اندازِ گفتگو پر اعتراض کیا۔ ناراض ہو کر دوست مجھے لے کر جانے لگا، تب مضطر صاحب نے پوچھا، "کل جو صاحب آئے تھے، ان کا کیا ہوا؟” جب اسٹاف نے میری طرف اشارہ کیا تو انہوں نے مجھے کمپیوٹر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا، "آج سے تم کام شروع کرو۔” میری حیرانی پر کہ مجھے کام نہیں آتا، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹا، کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا۔ یہیں سیکھو، وقت لو، اور تمہیں محنت کا صلہ بھی ملے گا۔”
اس دن سے میرا روزنامہ ہمارا مقصد کے ساتھ دس سالہ سفر شروع ہوا۔ اس عرصے میں مضطر صاحب سے عزت، شفقت، اور پیشہ ورانہ رہنمائی ملی۔ ان کا ادارہ دہلی کے دیگر اخبارات سے منفرد تھا، جہاں تنخواہ ہر مہینے کی آخری تاریخ یا اس سے پہلے مل جاتی تھی۔ ایک بار جب مضطر صاحب کی اہلیہ اسپتال میں زیرِ علاج تھیں، تب بھی انہوں نے اپنے مینیجر کو تنخواہ کے لفافے دفتر بھجوا کر کہا، "میرا علاج دوسروں کی ضرورت کو نہیں روک سکتا۔” یہ سن کر دیگر اداروں میں کام کرنے والے حیران ہوتے کہ کوئی مالک مہینہ ختم ہونے سے پہلے تنخواہ کیسے دے سکتا ہے۔آج، مضطر صاحب سے میری جدائی کو دس سال ہو چکے ہیں، لیکن ان کے ادارے میں آج بھی وہی اصول رائج ہیں۔ یہ ان کی محنت اور دوسروں کی محنت کی قدر کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ محنت کا پسینہ سوکھنے سے پہلے مزدور کا حق ادا کر دینا چاہیے۔
مضطر صاحب کی تحریروں میں سچائی، روانی، اور بیباکی کا وہ رنگ ہے جو شاذ و نادر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تیس سال سے زائد عرصے سے روزنامہ ہمارا مقصد کے اداریے ان کے قلم سے نکلتے ہیں، جو ہر حال میں پڑھنے والوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے متاثر ہو کر میں نے ان کے اداریوں کو جمع کر کے کتابی شکل میں شائع کیا، جس کا نام انہوں نے بے باکی سے "سیاسی چکلے” رکھا۔ یہ نام سن کر مجھے تنقید کا خوف ہوا، لیکن مضطر صاحب نے کہا، "چھاپ دو، دیکھا جائے گا۔”
مضطر صاحب نے مجھے نہ صرف صحافت کے اصول سکھائے بلکہ زندگی کا ایک بڑا سبق دیا: "اپنا فرض ادا کرو، یہ مت سوچو کہ بات کیوں نہیں پہنچ رہی۔” ان کے نزدیک صحافت ایک ایماندارانہ پیشہ ہے، اور اسے تجارت بنانے والوں سے وہ ہمیشہ دور رہے۔ انہوں نے کبھی کسی وزیر یا بااثر شخص سے مفاہمت کی کوشش نہیں کی، حالانکہ انہیں پریس انفارمیشن بیورو، آل انڈیا ریڈیو، اور پارلیمنٹ کی کوریج کے مواقع میسر رہے۔
دیس راج مضطر ایک ایماندار، نڈر، اور بے باک صحافی ہیں جنہوں نے صحافت کی لاج رکھی۔ ان سے سیکھے ہوئے اصول آج بھی میری تحریروں میں جھلکتے ہیں۔ وہ طالب علموں کے لیے ایک عظیم استاد اور صحافت کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، تندرستی، اور طویل عمر عطا فرمائے، اور وہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں۔ آمین۔