Blog

ماسٹر احمد حسین رحمہ اللہ (وفات 2023): خلوص، علم، اخلاق اور تواضع کا مرقع

جامعہ سلفیہ بنارس کے ایک مایہ ناز استاذ کی یاد میں،


✍️ڈاکٹر اشفاق احمد خان سلفی علیگ، حیدرآباد دکن
drashfaq.ccras@gmail.com

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے



ماسٹر احمد حسین رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آغاز کہاں سے کروں۔ ایک مربی، ایک رہنما، ایک مشفق، ایک مہربان، ایک معلم، ایسی ہمہ جہت شخصیت کہ جن کے بارے میں جتنی یادیں اور جتنے واقعات ذہن میں ابھرتے ہیں، اگر انہیں قلمبند کیا جائے تو ایک پوری کتاب وجود میں آ سکتی ہے۔
ماسٹر احمد حسین رحمہ اللہ کی پوری زندگی اخلاص و ایثار اور خدمتِ خلق سے عبارت تھی۔ وہ انکسار و تواضع، شفقت و محبت، حسنِ اخلاق، دیانت و تقویٰ کے ایسے نادر پیکر تھے جن کی ذات چھوٹوں کے لیے سایۂ رحمت اور بڑوں کے لیے احترام و عزت کا استعارہ بن گئی تھی۔ ان کی سیرت میں اخلاقِ نبوی ﷺ کی پرچھائیاں نمایاں نظر آتی تھیں۔ وہ ایک ایسے استاد تھے جنہوں نے تیس برس سے زیادہ عرصے تک جامعہ سلفیہ (رحمانیہ)، بنارس میں تدریس کے ذریعے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔ ان کی پہچان صرف ایک انگریزی کے استاد کی نہیں تھی بلکہ ایک صالح رہنما، ایک مخلص دوست اور ایک مربی کی تھی۔
وہ محبت و شرافت کا گویا ایک خزانہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیش بہا نعمتیں اور بے پایاں خیر و برکتیں ان کی ذات میں سمو دی تھیں۔ مشفق و مہربان، شیریں زبان اور دلنشین گفتگو کے مالک تھے۔
به خلق و خوی نکو زنده دار خویشتن را
که هر کجا سخن از تو رود، ثنا گویند
(اپنے اخلاق سے زندگی کو سنوارو تاکہ جہاں بھی تمہارا ذکر ہو، تعریف ہو۔)
ان کے اخلاق و کردار اور علمی وقار نے ہر ایک کو مسحور کر دیا۔ نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ بھی ان کے گرویدہ تھے؛ جو بھی ان کے قریب آتا، ان کے سحر میں گرفتار ہو کر انہی کا ہو جاتا۔ جامعہ سلفیہ کے تمام اساتذہ، بشمول شیخ الجامعہ مولانا عبدالوحید رحمانی، وکیل الجامعہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری، اور منتظم جامعہ شیخ انیس الرحمن اعظمی، سب ماسٹر صاحب کو غیر معمولی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہر استاد، خواہ سخت مزاج ہو یا نرم، ان کے اعلیٰ اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ان کا قدردان بن جاتا۔
یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
جامعہ رحمانیہ کے تمام اساتذہ بالخصوص صدر مدرس مولانا عزیز احمد ندوی، مولانا امراللہ رحمانی، مولانا احسان اللہ، مولانا ابو القاسم فاروقی، مولانا محمد یحییٰ اور دیگر اساتذہ کرام اور تمام طلبہ بھی ان کی شخصیت کے دلدادہ اور ان کے اخلاق و کمالات کے گرویدہ تھے۔
خوشتر آن باشد که سر دلبران
گفته آید در حدیثِ دیگران
(سب سے بہتر یہ ہے کہ محبوب ہستی کا حال دوسروں کی زبانی بیان ہو۔)
میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں اپنے والد، ماسٹر محمد اقبال خان (حفظہ اللہ) کے ساتھ جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلے کے لیے دارالاقامہ پہنچا۔ ماسٹر احمد حسین صاحب بھی وہیں مقیم تھے۔ ہمارے گاؤں سے ہم پانچ ہم سبق طلبہ اس مقصد کے لیے بنارس آئے تھے۔ اُس زمانے کا دستور یہ تھا کہ جس کے پاس پہلے سے فارم موجود ہو، اس کا داخلہ فوراً ہو جاتا تھا۔
میرے دو ساتھی عبدالمنان اور آفتاب چونکہ فارم ساتھ لائے تھے، اس لیے ان کا داخلہ فوراً ہوگیا۔ لیکن راقم، زبیر اور قطب الدین فارم نہ ہونے کی وجہ سے داخلے سے محروم رہ گئے۔ زبیر اور قطب الدین تو واپس لوٹ گئے اور مدرسہ سراج العلوم بونڈھیار میں داخلہ لے لیا، لیکن میرے والد صاحب جو خود بھی ایک گورنمنٹ اسکول میں ماسٹر تھے، ان کی ماسٹر احمد صاحب سے قربت ہوگئی۔ انہوں نے والد صاحب کو تسلی دی کہ آپ رک جائیے، ہفتہ یا عشرہ میں کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کچھ دن کے بعد اعلان ہوا کہ جو امیدوار باقی بچ گئے ہیں ان کا داخلہ انٹرویو کے ذریعے ہوگا۔ الحمدللہ، میں نہ صرف انٹرویو میں کامیاب ہوا بلکہ ایک جماعت آگے بڑھا کر مجھے دوسری جماعت میں داخلے کی پیشکش کی گئی۔ یوں یہ پہلا موقع تھا جب میرا تعارف ماسٹر احمد حسین صاحب سے ہوا، اور پھر یہ تعلق اس حد تک گہرا ہوگیا کہ وہ میرے والد کے دوست بن گئے اور ایک روحانی باپ کی طرح انہوں نے جو شفقت اور محبت مجھے عطا کی، وہ آخری لمحے تک جاری رہی۔
ماسٹر صاحب کے ملبوسات میں سادگی اور وقار جھلکتا تھا۔ ابتدائی دنوں میں وہ سفید قمیص اور کشادہ پاجامہ زیبِ تن کیا کرتے تھے، جو ان کی شخصیت کی متانت کا آئینہ دار تھا۔ بعد ازاں جامعہ سلفیہ کے دستور کے مطابق جب کرتا لازم قرار پایا تو قمیص کی جگہ کرتا آگیا اور یہی ان کا مستقل اور پر وقار لباس بن گیا۔ وقار و متانت ان کی شخصیت کا حصہ تھی؛ کبھی ننگے سر نہ دکھائی دیتے اور نہ ہی لنگی میں کمرے سے باہر نکلنا ان کی طبیعت کو گوارا تھا.
ماسٹر احمد حسین رحمہ اللہ سے رحمانیہ میں مجھے دوسری، تیسری اور چوتھی جماعت میں انگریزی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، جبکہ پہلی جماعت میں مولانا ابو القاسم فاروقی حفظہ اللہ نے انگریزی کے اسباق پڑھائے۔ ماسٹر احمد حسین صاحب نے کلاس میں اور کلاس سے باہر انگریزی گرامر کی جو باریکیاں اور نکات سمجھائے، ان کا اثر یہ ہوا کہ جامعہ سلفیہ کے زمانۂ طالب علمی ہی میں میرا ایک انگریزی مضمون مجلہ "المنار” میں شائع ہوا۔ بعد ازاں جامعہ سلفیہ میں ماسٹر طارق صاحب (جو بی ایچ یو، بنارس کے فارغ التحصیل تھے) نے بھی نہایت عمدہ اور دل نشین انداز میں انگریزی پڑھائی۔ یوں ان دونوں استادوں کی بدولت انگریزی کی ایسی مضبوط بنیاد میسر آئی جس نے میری علمی زندگی پر گہرا اور دیرپا اثر ڈالا۔
جامعہ سلفیہ میں انگریزی مضمون میں جو نمبرات حاصل ہوئے، انہی کی بنیاد پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے انگلش میں بھی میرا داخلہ ہو گیا۔ اس طرح میرے سامنے ایک ہی وقت میں دو راستے کھل گئے: ایک طب (یونانی) کی تعلیم اور دوسرا بی اے انگلش۔ میں نے گہری سوچ کے بعد طب کو ترجیح دی۔ پھر جب علی گڑھ پہنچا تو انگریزی مزید نکھرتی گئی اور رفتہ رفتہ میں نے زیادہ تر مضامین انگریزی ہی میں لکھنے شروع کر دیے، البتہ اردو میں سنجیدہ تحریر کا آغاز صرف چند برس قبل کیا۔
زِ کارِ استاد بود اندیشه ‌ام
کز سخن دانا شود بینش فزوں
(میری فکر استاد کی بدولت بنی، کہ دانا کی بات سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔)
ماسٹر احمد حسین رحمہ اللہ کو ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔ ان کی تحریر خوشخطی و شستگی کا ایسا حسین مرقع ہوتی جو ان کے ذوقِ سلیم اور علمی وقار کی آئینہ دار تھی۔ اگرچہ ان کی تعلیم ہندی میڈیم کے تحت یو۔پی۔ بورڈ سے ہوئی اور عملی میدان میں ان کی پہچان انگریزی کے استاد کی حیثیت سے قائم ہوئی، لیکن اردو زبان پر بھی انہیں دسترس حاصل تھی۔ اردو ادب کا مطالعہ ان کا محبوب مشغلہ تھا، اور وہ اپنی گفتگو اور تحریر میں ایسے نفیس، دلنشیں اور دلآویز الفاظ استعمال کرتے کہ سننے والا حیرت و مسرت سے سرشار ہو جاتا۔
وہ جامعہ کے ضابطوں کے سختی سے پابند تھے، مگر طلبہ کے لیے سراپا شفقت و مہربانی۔ کسی طالب علم کو فیل کرنا ان کے شیوے میں نہ تھا۔
ماسٹر احمد حسین صاحب کا تعلق ضلع بستی کے ایک علمی گاؤں، پیکولیا مسلم، کے قریب واقع بھوکھری سے تھا۔ ماسٹر صاحب کا خاندان بڑا اور خوشحال ہے۔ آپ کے کئی بھائی ہیں اور اللہ نے آپ کے خاندان کو علم و تعلیم کی دولت سے نوازا ہے۔ زیادہ تر بھائی اور رشتہ دار اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اکثر نے سرکاری محکموں میں اہم مناصب پر خدمات انجام دیں۔ یوں ماسٹر صاحب ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے علم، تعلیم اور باوقار ملازمتوں کی وجہ سے معاشرے میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ماسٹر صاحب کے بڑے بھائی کا انتقال جوانی میں ہو گیا تھا، اس لیے ان کی اولاد سے وہ اس قدر محبت کرتے کہ گویا وہ اپنی ہی اولاد ہوں، خصوصاً اپنے بھتیجے اختر سے ۔آج وہی اختر، گاؤں کے پردھان ہیں۔
جب ماسٹر احمد حسین صاحب جامعہ رحمانیہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تو اپنے گاؤں اور اطراف کے تمام طلبہ مثلا قدرت اللہ، نثار احمد، جواد، عتیق الرحمن، امیر الحق، مظہر، اعجاز، شاہد، اور متعدد طلبہ کے لیے ایک سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے۔
ان کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کا اعلیٰ اخلاق اور بے مثال سلوک تھا۔ جو بھی ان سے ملتا، یہی محسوس کرتا کہ ماسٹر صاحب اسی کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں اور اسی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یہی دراصل ان کے اخلاق کی معراج تھی۔ سوچیے! اگر کسی کے برتاؤ سے یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ آپ کو سب سے زیادہ چاہتا ہے، تو اس سے بڑھ کر اخلاق کی بلندی اور کیا ہو سکتی ہے؟ مجھے بھی ہمیشہ یہی کیفیت ان کے بارے میں رہی کہ وہ مجھے سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
وہ مجھے اپنے اہلِ خانہ کا فرد سمجھتے تھے۔ ان کے بھتیجے اور بھتیجی کی شادیوں میں مجھے بنفسِ نفیس شریک ہونے کا موقع ملا۔ چنانچہ جب میں ان کے گاؤں پہنچا، تو انہوں نے نہایت محبت و شفقت کے ساتھ میرا تعارف نہ صرف گاؤں کے معززین سے کرایا بلکہ اطراف کے گاؤں پیکولیہ اور پڑار بھی لے گئے، جہاں کی معزز شخصیات سے ملاقات کروائی۔ پھر ببھنان لے گئے اور وہاں کے معتبر اہلِ علم و بزرگان سے روشناس کرایا۔ اس کے بعد بستی شہر میں اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملوایا، اور وہاں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ ماسٹر صاحب کو کس والہانہ محبت اور بے پناہ عزت سے یاد کرتے اور ان کی تکریم بجا لاتے ہیں۔
یہ بھی میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ ماسٹر صاحب خود بھی دو مرتبہ ولیمے کے موقع پر میرے غریب خانے کو اپنی تشریف آوری سے رونق بخش چکے ہیں۔
وہ حد درجہ عزت دینے والے اور نہایت شفقت سے پیش آنے والے انسان تھے۔ جب کبھی ہمارے علاقے گینسڑی یا بڑھنی تشریف لاتے اور میں وہاں موجود ہوتا تو لازمی طور پر اطلاع بھجواتے اور ملاقات کی خواہش کا اظہار فرماتے۔ یہ ان کی محبت اور تعلق کا وہ پہلو تھا جو مجھے ہمیشہ ان کے قریب رکھتا۔ ایک بار حافظ عبدالحکیم رحمہ اللہ کے بھتیجے، حافظ رضوان کی شادی شنکر نگر، بلرامپور، میں تھی۔ اس موقع پر بھی انہوں نے خصوصی طور پر مجھے یاد فرمایا اور میں ان کی دعوت پر حاضر ہوا، جہاں ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔
ایک مرتبہ وہ گینسڑی بازار، بلرامپور، تشریف لائے تو ملاقات کے لیے خاص طور پر مجھے بلایا۔ اتفاق سے جمعہ کا دن تھا، ہم دونوں نے ساتھ نماز پڑھی۔ لیکن اس روز خطیب موجود نہ تھے، چنانچہ مجھے زبردستی منبر پر کھڑا کر دیا گیا اور میں نے برجستہ خطبہ دیا۔ بعد ازاں وہیں کے ایک بزرگ سیاست دان، شیخ منیر رحمہ اللہ نے کہا: "آپ نے اتنا بہترین خطبہ دیا ہے کہ دل چاہتا ہے آپ کی زبان کو چوم لوں۔” یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا، اور در حقیقت یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی ممکن ہوا۔ نماز کے بعد شیخ منیر صاحب نے دوپہر کے کھانے کا بھی انتظام کیا، جس میں سنگرام پور کے مشہور ٹھیکیدار سمیع اللہ خان رحمہ اللہ اور گورنمنٹ ہائی اسکول کے ایک معروف استاد، دیالی پور کے ماسٹر تنہا انقلابی بھی موجود تھے۔
ماسٹر احمد حسین صاحب نے علماء کی صحبت میں رہ کر اسلامیات میں بھی خاصی بصیرت حاصل کر لی تھی۔ ایک مرتبہ مجھ سے کہا: آپ قرآن کی کوئی بھی آیت پڑھیں، میں ان شاء اللہ اس کا مفہوم بتا دوں گا کہ اللہ تعالیٰ اس میں کیا کہنا چاہتا ہے۔ یہ ان کے علمی ذوق اور بصیرت کی جھلک تھی، حالانکہ وہ باضابطہ عربی داں نہیں تھے۔
مجھے یاد ہے رحمانیہ میں ان کے قریببی دوستوں میں حافظ عبدالحکیم، حافظ نصراللہ رحمھم اللہ، مولانا ابوالقاسم فاروقی، اور مولانا احسان اللہ، حفظھم اللہ، وغیرہ شامل رہتے۔ ان سب کی محبت اور شفقت بھی مجھے حاصل رہی۔ ماسٹر احمد حسین کے اندر حسِّ مزاح بھی کمال درجے کی تھی۔ اپنے دو بے تکلف دوستوں، مولانا ابوالقاسم فاروقی اور حافظ عبدالحکیم کے ساتھ بیٹھتے تو خوب لطیفے اور دلچسپ باتیں کرتے، اور محفل قہقہوں سے گونج اٹھتی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طالب علمی کے دنوں کی ایک حسین یاد آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ اُس وقت مرکزِ فروغِ سائنس کے زیرِ اہتمام ایسے پروگرام منعقد ہوتے جن میں دینی مدارس کے نمائندوں کو مدعو کیا جاتا اور سائنس کے موضوعات پر ماہرین نہایت سلیقے اور مہارت کے ساتھ اردو زبان میں لیکچرز دیا کرتے تھے۔ انہی علمی نشستوں میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب جامعہ سلفیہ بنارس کی طرف سے ماسٹر احمد حسین صاحب علی گڑھ تشریف لائے۔ لیکچر کے اختتام پر جب انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا تو بڑے متاثر اور والہانہ انداز میں فرمایا: "یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے سائنس کے مضامین کو پروفیسرز کے ذریعہ اردو زبان میں اس قدر عمدہ اور واضح طریقے سے سنا۔ واقعی لوگ کمال مہارت سے پیچیدہ باتوں کو نہایت سہل انداز میں سمجھا رہے تھے۔”
یہ جملے نہ صرف ان کی وسعتِ نظر اور علم دوستی کے آئینہ دار تھے بلکہ اردو زبان سے ان کی گہری محبت اور سلیقہ فہمی کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔
اسی سفر کے دوران مجھے ماسٹر صاحب کے ساتھ آگرہ جانے کا موقع ملا۔ ہم نے تاج محل کی سفید سنگِ مرمر میں ڈوبی ہوئی شام دیکھی، پھر فتح پور سیکری کے تاریخی در و دیوار کی زیارت کی۔ وہ دن صرف علم و فکر ہی کا نہیں بلکہ تاریخ اور تہذیب سے قریب تر ہونے کا بھی ایک خوبصورت تجربہ تھا۔
ماسٹر احمد حسین سنتِ نبویؐ کے سچے شیدائی تھے۔ میرے طالب علمی کے ایام میں ان کی داڑھی مختصر ہوا کرتی تھی، مگر بعد ازاں انہوں نے مستقل طور پر مکمل داڑھی رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک ملاقات کے دوران مسکراتے ہوئے انہوں نے بڑی محبت بھری سادگی سے فرمایا: "جب میں نے پوری داڑھی رکھی تو میرے ایک بے تکلف دوست نے ہنستے ہوئے کہا: یار! تم نے تو ہمیں مشکل میں ڈال دیا۔ لوگ اب یہ کہیں گے کہ ایک ماسٹر ہو کر تم نے مکمل داڑھی رکھ لی اور ہم مولوی کہلا کر بھی چھوٹی داڑھی پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ اب تو ہمیں بھی پوری داڑھی رکھنی پڑے گی۔”
یہ سن کر میں بے اختیار ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ یہ واقعہ نہ صرف ان کی سنت سے محبت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کے خوش مزاج اور دلنشین اندازِ گفتگو کی جھلک بھی دکھاتا ہے۔
ماسٹر صاحب اپنے شاگردوں سے اس قدر والہانہ تپاک اور شفقت سے پیش آتے کہ استاذ و شاگرد کے درمیان موجود حدِ فاصل مٹتی ہوئی محسوس ہوتی۔ وہ ہر دم خیرخواہی و نصیحت کے پیکرِ مجسم اور اخلاص و محبت کے آئینہ دار تھے۔ شاگردوں کی علمی و عملی رہنمائی میں انہوں نے کبھی کوئی کمی نہ چھوڑی۔ نہ کبھی کسی کے لبوں پر ان کے خلاف نامناسب جملہ سننے میں آیا اور نہ ہی ان کی ذات کبھی کسی کدورت یا تلخی کا باعث بنی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر دلعزیز استاد اور طلبہ کے دلوں کے محبوب تھے۔
ان کی طبیعت ہمیشہ شکوہ و شکایت سے پاک رہی؛ نہ معاصرین کے ساتھ کسی چشمک کا شائبہ ہوا اور نہ ہی شاگردوں کے ساتھ کسی ناخوشگواری کا موقع آیا۔ مشکل سے مشکل مسئلہ پیش آ جائے یا کوئی پیچیدہ صورتِ حال سامنے آ جائے، ان کے پاس گویا اس کا حل موجود رہتا۔ ان کی رائے و مشاورت مشعلِ ہدایت اور چراغِ رہنمائی بن کر دلوں کو سکون اور ذہنوں کو اطمینان عطا کرتی تھی۔
ماسٹر احمد حسین ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گاؤں میں سکونت پذیر ہو گئے تھے اور ایک خوبصورت و کشادہ بنگلہ تعمیر کر لیا تھا۔ کئی بار میرا ارادہ ہوا کہ جب بھی حیدرآباد سے یوپی اپنے وطن جاؤں گا تو ان سے ضرور ملاقات کروں گا، مگر یہ سعادت بالآخر 2022 میں ہی نصیب ہو سکی۔ انہی دنوں مجھے ان کی علالت کی خبر ملی اور معلوم ہوا کہ ان کا علاج لکھنؤ سے جاری ہے۔ چنانچہ مارچ 2022 میں جب میں اپنے گاؤں پہنچا تو دل میں پختہ عزم کیا کہ اس بار ضرور ان سے ملاقات کروں گا۔
میرا گاؤں ان کے گاؤں سے تقریباً سو کلومیٹر دور تھا اور راستے نہایت خراب، مگر شوقِ دید نے حوصلہ بخشا اور میں نے خود گاڑی ڈرائیو کر کے ان کے گھر کا سفر کیا۔ برسوں بعد ملاقات نصیب ہوئی۔ میرے ذہن میں ان کی پرانی شبیہہ نقش تھی—صحت و توانائی سے بھرپور، باوقار اور شاداب—مگر جب دیکھا تو وہ لاغر ہو چکے تھے، البتہ چہرے پر وہی سکون اور وقار جھلک رہا تھا۔ ملاقات کے دوران ہم ان کے ہمراہ بستی شہر بھی گئے اور ان کے احباب سے ملنے کا موقع ملا۔
یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم اور شکر و احسان ہے کہ ان کے انتقال سے محض ایک سال قبل مجھے ان سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ورنہ یہ حسرت شاید ہمیشہ دل میں رہ جاتی۔
بالآخر 18 فروری 2023ء کو وقتِ موعود آپہنچا اور وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ إنا لله وإنا إلیه راجعون۔ یہ خبر میرے لیے نہایت جانکاہ اور دل خراش تھی؛ دل غم سے لبریز ہوگیا اور کئی دنوں تک اس صدمے کا اثر باقی رہا۔ بارہا ارادہ کیا کہ ان کی یاد میں چند سطور رقم کروں، مگر دل و دماغ نے ساتھ نہ دیا۔ اب جبکہ اس حادثۂ فراق کو دو برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے، تب جاکر قلم ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آمادہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور انہیں بہترین اجر و ثواب سے نوازے۔ یہی ہماری مخلص دعا ہے۔
وہ نہایت فیاض، خوش اخلاق اور دل آویز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی ساری زندگی اس فرمانِ نبوی ﷺ کی عملی تفسیر تھی: "وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ” (اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔)
ان کی سرپرستی اور رہنمائی نے بے شمار طلبہ کی زندگیاں سنوار دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے وفات کے بعد شاگردوں نے کثیر تعداد میں ان پر مقالات قلم بند کیے۔ ان میں بالخصوص طارق اسعد سلفی، فرحان سعید بنارسی، اور مولانا عبدالغفار سلفی بنارسی کے مضامین نمایاں ہیں، جو ان کی بے مثال مقبولیت اور اثر انگیز شخصیت کا روشن ثبوت ہیں۔
اپریل 2024 میں جب میں حیدرآباد سے اپنے وطن گیا تو خاص طور پر اپنے بچوں کے ہمراہ ان کے گاؤں بھی حاضر ہوا۔ ان کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی، تعزیت پیش کی اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے قیمتی لمحات کو یاد کیا۔
ان کی یادیں، ان کا اخلاق، ان کا علم و فضل اور ان کی شاگرد نوازی ہمیشہ دلوں کو مہکاتی رہیں گی۔ ان کی شخصیت کا چراغ صرف علمی و اخلاقی جہان کو ہی منور نہ کرتا رہا بلکہ ہزاروں شاگردوں کی صورت میں ایک ایسا صدقۂ جاریہ اور تابندہ ورثہ چھوڑ گیا جو نسل در نسل رہنمائی و ہدایت کا مینارِ نور بنا رہے گا۔ وہ چراغ بجھا نہیں، بلکہ ہزاروں دلوں میں شعلہ بن کر روشن رہا اور ہمیشہ کے لیے مشعلِ راہ بن گیا۔
هر نفس نو می ‌شود دنیا و ما
بے ‌خبر از نو شدن اندر بقا
(دنیا ہر لمحہ نئی ہو رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ بقا ہے، حالانکہ فنا ہے۔)
ان کے انتقال سے ہر ایک نے اپنا کوئی نہ کوئی قیمتی سرمایہ کھویا۔ کسی نے اپنا عزیز دوست کھویا، کسی نے اپنا مشفق ساتھی، کسی نے باپ کا سایہ، کسی نے استاد کی شفقت، اور میں نے اپنا ایک عظیم سرپرست کھو دیا۔
ماسٹر احمد حسین رحمہ اللہ نے ہم پر جو احسانات فرمائے، ہم ان کے عشر عشیر کی ادائیگی سے بھی عاجز رہے۔ استاد کا حق بھی درحقیقت ایک عظیم حق ہے، اور شاگرد کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس کا پورا حق ادا کر سکے۔ ربِّ کریم سے یہی دستِ دعا ہے کہ وہ اپنی رحمتِ واسعہ سے انہیں بہترین اجر عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کی نیکیوں کو تا قیامت جاری و ساری رکھے۔
بمیرد آن‌که نامش نیست نیکو
که زنده است نام نیکو بعدِ مرگ
(وہی مرتا ہے جس کا نام نیک نہ ہو، نیک نامی مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔)

Related posts

Heera Group is coming out of tough times through struggle

Paigam Madre Watan

The Enforcement Directorate and Accomplices:

Paigam Madre Watan

(۱) تڑپ تو اور فزوںہوگئی …

Paigam Madre Watan

Leave a Comment