Articles مضامین

عبدالحمید نعمانی کی اپیل:مسلمان اویسی طرزِ سیاست سے بچیں

تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز

جمعیت علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالحمید نعمانی نے حال ہی میں ایک واضح، صاف گو اور فکر انگیز بیان دیا ہے جس میں انہوں نے براہِ راست اسدالدین اویسی اور ان کی پارٹی آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین (AIMIM) کی طرزِ سیاست کو بھارت کے سیکولر و جمہوری نظام کے لیے نقصاندہ ”مضر“ قرار دیا۔ انہوں نے خاص طور پر بہار کے سیمانچل علاقے کے علمائ، مولویوں اور مسلم رائے دہندگان سے اپیل کی کہ وہ اویسی طرز کی جذباتی، علیٰحدگی پسند اور پولرائزیشن پر مبنی سیاست سے مکمل گریز کریں اور مین اسٹریم سیکولر سیاست کا راستہ اختیار کریں۔ یہ بیان محض ایک رائے نہیں، بلکہ ایک طویل تاریخی تجربے، سیاسی مشاہدے اور مسلم قومی مفادات کے گہرے شعور کا نتیجہ ہے۔ آئیے اسے تفصیل سے سمجھیں کہ اویسی طرزِ سیاست کے نقصاندہ عناصر کیا ہیں اور کیوں مولانا نعمانی جیسے بزرگ عالمِ دین اس سے گریز کی اپیل کر رہے ہیں۔
اویسی طرزِ سیاست کے پانچ بڑے نقصاندہ عناصر: مسلم ووٹ کا تقسیم (Vote Splitter Effect) اویسی صاحب جہاں بھی جاتے ہیں، وہ مسلم اکثریتی یا مسلم اثر و رسوخ والی سیٹوں پر اپنا امیدوار کھڑا کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلم ووٹ دو یا تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور فائدہ ہمیشہ ہندوتوا طاقتوں کو پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پر 2020 بہار اسمبلی انتخابات میں سیمانچل کی 5 سیٹوں پر AIMIM کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم ہوا، چار سیٹیں بی جے پی۔ جے ڈی یو اتحاد کے پاس گئیں۔ اور 2022 اتر پردیش انتخابات میں 100 سے زائد سیٹوں پر AIMIM نے امیدوار کھڑے کیے، مسلم ووٹ کٹا، بی جے پی کو براہِ راست فائدہ ہوا۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں، بلکہ ایک تسلسل ہے۔
پولرائزیشن کو ہوا دینا:اویسی صاحب کی تقریریں، زبان اور اندازِ بیان عموماً انتہائی جذباتی اور اشتعال انگیز ہوتا ہے۔ وہ ہندوتوا لیڈروں کے بیانات کو ”کوٹ“ کر کے جواب دیتے ہیں، جس سے ہندو۔ مسلم تقسیم مزید گہری ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اعتدال پسند ہندو بھی ڈر کر بی جے پی کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یعنی اویسی صاحب بی جے پی کے ”بی۔ٹیم“ کا بظاہر غیر ارادی کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
مسلم نوجوانوں میں علیٰحدگی پسندی کا جذباتی بیانیہ: نوجوانوں کو بار بار یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ”سیکولر پارٹیاں تمہیں دھوکہ دے رہی ہیں، تمہارا کوئی سہارا نہیں، صرف ہم تمہاری آواز ہیں“۔ یہ بیانیہ طالب علموں اور نوجوانوں میں مین اسٹریم سے دوری، غصہ اور مایوسی پیدا کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم، روزگار اور ترقی کی سیاست سے ہٹ کر صرف ”شناخت“ کی سیاست میں الجھ جاتے ہیں۔
تاریخی مجلس (1948ءوالی) کی طرز کی سیاست کا احیا:مولانا عبد الحمید نعمانی نے بالکل درست نشاندہی کی کہ موجودہ AIMIM کی سیاست 1948ءوالی مجلسِ اتحاد المسلمین (قاسم رضوی، نواب بہادر یار جنگ) کی طرز کی سیاست کا دوبارہ احیا ہے۔ وہ مجلس تقسیم در تقسیم چاہتی تھی، حیدرآباد کو پاکستان میں ضم کرنا چاہتی تھی، اس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان مارے گئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، اور حیدرآباد کے مسلمان آج بھی اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اویسی صاحب اسی ”مجلس“ کے جانشین ہیں، وہی جھنڈا، وہی نشان، وہی جذباتی نعرے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ راستہ تباہی کا راستہ تھا، آج بھی ہے۔
مسلم نمائندگی کا دھوکہ:اویسی صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ ”ہم مسلم نمائندگی کر رہے ہیں“، لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2024 لوک سبھا میں صرف 24 مسلم ایم پی ہیں جن میں سے صرف اویسی صاحب کی اپنی پارٹی کے ہیں۔ یعنی باقی 23 مسلم ایم پی مین اسٹریم پارٹیوں سے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یعنی مسلم نمائندگی کا بڑا حصہ اب بھی مین اسٹریم پارٹیوں سے آ رہا ہے، نہ کہ اویسی صاحب سے۔ پھر بھی وہ مین اسٹریم پارٹیوں کو ”مسلم دشمن“ قرار دے کر نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
مولانا نعمانی کا متبادل راستہ بالکل درست ہے، مولانا عبدالحمید نعمانی نے جو راستہ بتایا ہے، وہ آزمودہ۔ کار اور کامیاب راستہ ہے،مولانا ابوالکلام آزاد، کانگریس کے صدر، وزیرِ تعلیم، ہندوستان کی آزادی اور سیکولرازم کے معماران ہی دیگر پارٹی سے نکلے ہوئے سیاستدان تھے جو ایسی تاریخ تحریر کرگئے جو کبھی نا مٹنے والی ہے، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی: جمیعت علماءہند کے سرگرم رکن، آزادی کی تحریک کے بہت بڑے لیڈر، سیکولر جمہوری سیاست کے داعی۔ ڈاکٹر مختار انصاری، مخدوم محی الدین، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالمحاسن سجاد وغیرہ۔
یہ سب لوگ مین اسٹریم میں رہے، طاقتور رہے، اور مسلمانوں کی خدمت بھی کی، قوم کی ترقی میں بھی حصہ ڈالا۔ انہوں نے کبھی السبلاغی، جذباتی یا علیٰحدگی پسندانہ سیاست نہیں کی۔ سیمانچل میں 2025 کے انتخابات کے موقع پر جو مولانا نعمانی نے کہا کہ اگر وہاں AIMIM کو مزید سیٹیں مل گئیں تو مسلم ووٹ مزید بٹے گا، بی جے پی کو مزید فائدہ ہو گا، اور ترقی، تعلیم، روزگار کے ایشوز پسِ پشت چلے جائیں گے۔ اور وہی ہوا۔مولانا عبداللہ سالم قاسمی جیسے معزز علماءنے شروع دن سے AIMIM کا ساتھ دیا، لیکن اب وقت ہے کہ علماءاور عوام سوچیں کہ آخر کار فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ مولانا عبدالحمید نعمانی کی اپیل کوئی ذاتی دشمنی یا حسد کی بات نہیںہے، بلکہ ایک بزرگ عالمِ دین، تجربہ کار سیاست دان اور مسلم قوم کے خیر خواہ کا خالص مشورہ ہے۔ اویسی طرز کی سیاست جذباتی طور پر تو دلکش لگتی ہے، لیکن سیاسی، سماجی اور قومی سطح پر یہ مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مولانا آزاد اور مولانا حفظ الرحمٰن والا راستہ اپنائیں، مین اسٹریم سیکولر جمہوری قوتوں کو مضبوط کریں، ووٹ تقسیم ہونے سے بچائیں، اور اپنی توانائی تعلیم، ترقی اور قومی دھارے میں شامل ہونے پر لگائیں۔یہی راستہ امن، ترقی اور عزت کا راستہ ہے۔یہی راستہ بھارت کے مسلمانوں کا تاریخی اور مستقبل کا راستہ ہے۔

Related posts

 اویسی برادران جھوٹے ڈرامہ بازاور جذباتی مداری

Paigam Madre Watan

اسلامی ادب کائنات میں حسن کے ساتھ صالحیت کو فروغ دیتا ہے

Paigam Madre Watan

علامہ عبد الحمید رحمانی: جن کی نیکیاں زندہ ہیں، جن کی خوبیاں باقی

Paigam Madre Watan

Leave a Comment