Articles مضامین

کانگریس: جمہوریت کی قاتل یا علٰحدگی پسندوں کی محافظ؟

تحریر ….9911853902….مطیع الرحمن عزیز

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کانگریس کے اندرونی ڈھانچے میں سنگھی ذہنیت کے نیتاﺅں نے اس کی جمہوریت کی روح کو مجروح کر رکھا ہے، اور زمانہ ماضی میں کانگریس نے ہی آج کے سخت گیر سنگھی پارٹیوں کو بڑی نرمی سے تربیت کی ہے، جس کے سبب آج وہی سانپ نما لیڈر کانگریس کو اور اس کے پیغام محبت کی مہم کو ملیامیٹ اور ناپید کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، آج کانگریس پارٹی کی حکومت نہیں ہے، تو سوائے یہ کہنے کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ ”اب کا ہوئے پچھتات، جب چڑیا چگ گئی کھیت“۔ راہل گاندھی ہر طرح کی کدوکاوش کر رہے ہیں کہ کانگریس کی بیتی ہوئی وقار کو واپس لایا جائے، جس کے لئے وہ کبھی ملک گیر یاترا کر رہے رہیں تو کبھی سماج اور ملک کے الگ الگ خطے کے عوام کی کمزور نبض پر ہاتھ رکھ رہے ہیں، اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے کیونکہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم کی امیدواری پر فائز ہیں۔
ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے اور کانگریس کچھ نہیں کر سکتی، مگر حال میں اژدہے، جن کو کانگریس پارٹی دودھ پلا رہی ہے، اور نظرانداز کرتے ہوئے اس کو موقع فراہم کر رہی ہے، یہ غلطی یا تو کانگریس کا ڈھکوسلہ ہے، یا پھر ملک کے جمہوریت پسند عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے کانگریس۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کی سرکار ہے، اور تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر جو شخص براجمان ہے وہ سنگھ کے اے بی وی پی میں پروان چڑھا ہوا کارکن ہے، اور کانگریس بڑی پراطمینان انداز میں تلنگانہ وزیر اعلیٰ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، بھلا عوام نے کانگریس پر اس لئے اعتماد ظاہر کیا تھا کہ انہیں ایک سنگھی وزیر اعلیٰ دے کر عوام پر وہی راج قائم کرے جو کے سی آر اور بی جے پی سے ملتا تھا؟ تو پھر اس سے بہتر ہے بی جے پی ہی بہتر سرکار تھی، جس کو ڈائرکٹ برسر اقتدار پرلایا جا سکتا تھا۔
دوسری جانب دنیا روز روشن کی طرح مشاہدہ کر رہی ہے کہ علاحدگی پسند بھارتیہ جنتا پارٹی کے اشاروں پر مجرا کرنے والے ایم آئی ایم کے صدر اسد اویسی نے ملک کے کونے کونے میں جمہوریت کو ملیا میٹ کیا ہوا ہے، اور آئندہ بھی اویسی کا جمہوریت کو قتل کرنے اور علاحدگی پسندی کو فروغ دینے سے باز آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اور اس کا سب سے بڑا نقصان کانگریس اور جمہوریت پسند عوام کو ہو رہا ہے، اس کا سیدھا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہو رہا ہے، جب کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کون کس طرح جیت حاصل کر رہا ہے؟ راہل گاندھی جی کے الگ الگ خلاصے میں سب کچھ واضح ہوا، اس کے باوجود حیدر آبادی ایم پی اسد الدین اویسی کے علاحدگی پسندی اور اس کے شرور و فتن کو کانگریس آنکھ مودے دلا کر رہے رہی ہے اور اسے شہہ دے رہی کہ جمہوریت کا قتل کرو اور علاحدگی پسندی کو فروغ دو۔ یہ سب دوہری پالیسی کانگریس کے پلیٹ فارم پر براجمان باپ داداﺅں کے زمانے سے جموریت پسندوں کو ہر گز اچھی نہیں لگ رہی ہے۔ جب کہ شدت پسند و علاحدگی پسندی کی بیج بونے والا، مسلمانوں کو الگ الگ طریقے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے پلیٹ فارم پر لے جانے والا اور جمہوریت پسند ہندو بھائیوں کو جمہوریت پسند پارٹیوں سے متنفر کرکے بی جے پی کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے والا، یہ حیدرآبادی اژدہا ہی ہے، جس کے گناہوں کی لنکا بہت بڑی ہے، آج تلنگانہ میں کانگریس کی حکومت ہے اگر وہ چاہ لے تو اس اژدہے کو دوبارہ حیدرآباد میں ہی سمیٹ اس کو اوقات میں رکھ سکتی ہے، آج اس مضمون کے ذریعہ میں خود اور عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہوں کہ کیا کانگریس کی جمہوریت اور محبت کا پیغام محض ایک ڈھکوسلہ ہے؟ جسے کانگریس سمیت ملک کی تمام پارٹیاں محض دکھاوے کیلئے استعمال کرتی ہیں، اور پردے کے پیچھے سب کا مقصد ایک ہے؟ اسی لئے تو علاحدگی پسند ہو یا شدت پسند ہر کسی پر کبوتر کی طرح آنکھ بند کرکے کانگریس اور دیگر پارٹیاں تماشہ دیکھ رہی ہیں اور عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ جمہوریت کی محافظ کانگریس اور اس کی لائنس پارٹیاں ہیں؟جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سب سے پرانی پارٹی کانگریس آج خود اپنی جمہوریت کو سنگھی عناصر سے بچانے میں ناکام نظر آ رہی ہے، اور دوسری طرف وہ علٰحدگی پسند اور فرقہ پرست قوتوں کو بھی کھلے عام رعایت برت رہی ہے۔ یہ دوہرا کردار اب اتنا واضح ہو چکا ہے کہ عوام بھی پوچھنے لگی ہے کہ آخر کانگریس کا اصل چہرہ کیا ہے؟ کیا وہ واقعی جمہوریت کی محافظ ہے، یا محض ایک موقع پرست جماعت جو اپنی کرسی بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے؟
کانگریس کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے خود اپنے اندر کئی ایسے لیڈر پروان چڑھائے جو بعد میں سنگھ پریوار کی فکر کے سب سے بڑے ترجمان بنے۔ نہرو کے دور میں بھی کئی ایسے لوگ پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے جو دل سے سنگھی تھے۔ آج بھی تلنگانہ جیسے اہم صوبے میں کانگریس کی حکومت ہے، اور وزیراعلیٰ کا عہدہ ایک ایسے شخص کے پاس ہے جو کھلے عام اپنے ABVP (اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کے دنوں کو فخر سے یاد کرتا ہے۔ سنگھ کا طالب علم تنظیم، جو کیمپس میں تشدد اور فرقہ واریت پھیلانے کیلئے بدنام ہے، اسی کی گود میں پل کر آیا ہوا شخص آج تلنگانہ کا چیف منسٹر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تلنگانہ کے عوام نے بی آر ایس اور بی جے پی سے تنگ آ کر کانگریس کو ووٹ دیا تھا کہ ایک پوشیدہ سنگھی ان پر مسلط کر دیا جائے؟ اگر کانگریس کو لگتا ہے کہ سنگھی وزیراعلیٰ رکھ کر وہ بی جے پی کو خوش رکھ سکتی ہے، تو یہ سراسر دھوکہ ہے۔ یہ وہی پالیسی ہے جس نے 1980-90- کی دہائیں میں جن سنگھ اور آر ایس ایس کو مضبوط کیا تھا۔ آج وہی سانپ کانگریس کو ڈسنے کو تیار ہیں، اور کانگریس اب بھی انہیں دودھ پلا رہی ہے۔
دوسری طرف حیدرآباد کی سرزمین سے ملک بھر میں ایک ایسی پارٹی کھلے عام کام کر رہی ہے جو نہ صرف فرقہ واریت پھیلاتی ہے بلکہ کھلم کھلا بی جے پی کے بی-ٹیم کا کردار ادا کر رہی ہے۔ AIMIM کے صدر اسد الدین اویسی ہر الیکشن میں مسلمانوں کو خوف زدہ کر کے ووٹ لیتے ہیں، اور پھر سیکولر ووٹ تقسیم کر کے بی جے پی کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ مہاراشٹر ہو یا بہار، اتر پردیش ہو یا گجرات، جہاں جہاں MIM نے سیکولر ووٹ تقسیم کیا، وہاں بی جے پی کو سیدھا فائدہ ہوا۔ راہل گاندھی خود کئی بار کہہ چکے ہیں کہ MIM بی جے پی کی بی-ٹیم ہے۔ پھر بھی تلنگانہ میں کانگریس حکومت MIM کو نہ صرف برداشت کر رہی ہے بلکہ خاموش رضامندی دے رہی ہے۔ حیدرآباد کی ۷ میں سے ۶ سیٹیں MIM کے پاس ہیں، اور باقی تلنگانہ میں کانگریس کو اکثریت ملی۔ یعنی کانگریس کی حکومت MIM کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بات کانگریس کے لیڈر بھی مانتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس جمہوریت کی خاطر ایک فرقہ پرست اور ممکنہ طور پر علٰحدگی پسند سوچ رکھنے والی پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر سکتی ہے؟یہ کوئی نئی بات نہیں۔ کانگریس نے ہمیشہ موقع پرستی کو ترجیح دی ہے۔ 1984 میں آر ایس ایس پر پابندی لگائی، لیکن 1994 میں ہی ہٹا دی۔ 1984 میں سکھ مخالف فسادات کے ذمہ داروں کو بچایا۔ 1992 میں بابری مسجد گرنے دی۔ اور آج بھی جب جب موقع ملا، فرقہ پرستوں کو شہہ دی۔ آج تلنگانہ میں ایک طرف سنگھی وزیراعلیٰ، دوسری طرف MIM کی سپورٹ یہ سب کچھ کانگریس کی اسی پرانی دوہری پالیسی کا تسلسل ہے۔
اگر کانگریس واقعی جمہوریت کی محافظ ہے، تو اسے فوراً دو فیصلے کرنے چاہئیں:۱. تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کو ہٹا کر ایک حقیقی سیکولر اور جمہوری لیڈر کو عہدہ دیا جائے۔۲. MIM کے ساتھ ہر قسم کا براہ راست یا بالواسطہ گٹھ جوڑ ختم کیا جائے، اور اس پارٹی کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کیا جائے۔ورنہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ کانگریس محض اقتدار کی خاطر جمہوریت کو قربان کرنے کو تیار ہے۔ وہ نہ سنگھیوں سے لڑ رہی ہے، نہ فرقہ پرستوں سے۔ وہ صرف اپنی کرسی بچانے کی کوشش کر رہی ہے، اور اس کوشش میں وہ جمہوریت کی قاتل بنتی جا رہی ہے۔عوام اب جاگ رہے ہیں۔ اب وہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر کانگریس کب تک سنگھیوں کو گود میں بٹھائے گی اور علٰحدگی پسندوں کو شہہ دیتی رہے گی؟ اگر کانگریس نے اب بھی اپنی پالیسی نہیں بدلی، تو آنے والے دنوں میں وہ خود اپنی قبر کھودتی نظر آئے گی۔جمہوریت بچانا ہے تو کانگریس کو پہلے خود کو بچانا ہوگا اپنے اندر کے سنگھیوں سے اور باہر کے فرقہ پرستوں سے۔ ورنہ تاریخ ایک بار پھر لکھے گی:”اب کا ہوئے پچھتات، جب چڑیا چگ گئی کھیت”۔ ”کسی بھی شہر کے غنڈے بڑے نہیں ہوتے۔ دلار کرکے حکومت بگاڑ دیتی ہے“۔

Related posts

मीर सादिक और मीर जाफ़र द्वारा मुस्लिम अर्थव्यवस्था पर आक्रमण

Paigam Madre Watan

اسد اویسی کا کارنامہ۔جسے کم لوگ جانتے ہیں

Paigam Madre Watan

رواداری کے چراغ، تعصب کی آندھیوں میں: عید الاضحی کا ہندوستانی منظر نامہ!

Paigam Madre Watan

Leave a Comment