محمد تنویر القادری بہاری
حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ آسمان پر ستاروں کی تعداد کتنی ہے؟ آپ رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا ، وضو کے فرائض کتنے ہیں؟ اس شخص نے کہا، آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا اور اپنا سوال کر ڈالا ، میں تو آپ کو بہت بڑا عالم سمجھ رہا تھا لیکن یہ کام آپ کے شایان شان نہیں ۔ آپ رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا : قیامت کے دن آسمان کے ستاروں کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی بلکہ وضو، نماز اور بنیادی امور کے بارے میں استفسار اور سوال ہوگا۔ سوشل میڈیا پر مختلف خیالات اور آراء کی بھر مار ہے۔ جس طرح بہت بڑی شاہراہ پر ٹریفک کا بے ہنگم شور ہو یا مصروف ترین بازار میں لوگوں کا بے تحاشا رش اور بھیڑ ہو، بالکل اسی طرح الیکٹرانک میڈیا صبح و مسا شور شرابے کا جہان ہے، جہاں خیر کا پہلو کم اور شر و فساد روز افزوں ہے، جہاں تعمیر نا پید اور تخریب وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ ان حالات میں اگر اپنی مصروفیات اپنے مقصود تک محدود نہ ہوں تو کچرے کے ڈھیر سے ذہن ودماغ کا ماحول اتھل پتھل ہو سکتا ہے اور دماغ گندگی کا ڈھیر بن سکتا ہے، بلکہ بن رہا ہے اور بہت سوں کا بن چکا ہے۔ کتاب سے، علماء سے، والدین سے، اسلاف سے، استاذ سے، اپنی تاریخ اور اپنی ثقافت سے نسل نو کا رشتہ تیزی سے کٹ رہا ہے۔ ان کی سے کٹ رہا ہے۔ ان کی شکلیں (حلیے دونوں بدل چکی ہیں ۔ آنے والے دن مزید مایوس کن محسوس ہورہے ہیں ۔ سرکاری سکولز ، کالجز اور یونی ورسٹیز کے امتحانات کے نتائج ریڈ سگنل دے رہے ہیں، والدین کی نافرمانی چیخ کر نوجوانوں کی حالت زار بتا رہی ہے، اندر کی دنیا میں مادیت ناچ رہی ہے اور روحانیت موت وحیات کے بیچوں بیچ دلوں میں آخری سانسیں لے رہی ہے، عقل و فکر اور دانش و آگاہی سے کھوپڑیاں خالی ہوتی جا رہی ہیں اور محض کھو کھلے خیالات کی جھونپڑیوں کا روپ دھار رہی ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں نشہ پروان چڑھ رہا ہے، حکومتی ادارے پریشان ضرور ہیں لیکن گاہے بگاہے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ میڈیا پر روز بے حیائی کے نئے نئے سکینڈلز بھی ان اداروں کے چہرے کا بد نما داغ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین سے دوری نے ہمیں در بدر پھرایا لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اگر ہاتھ آئی تو ذلت و رسوائی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے مطالعے کا قبلہ درست کیا جائے ، معلومات کی کانٹ چھانٹ کی جائے ، رطب و یابس کے حصول سے پر ہیز کیا جائے ، ذہن کو بلا وجہ پابند خواہش نفسانی نہ رکھا جائے ، دماغ کو اپنے مقصود و مطلوب تک محدود رکھ کر دین و دنیا میں کامیابی کے حصول کو یقینی بنایا جائے ۔ اسلاف کے دامن کو مضبوطی سے تھاما جائے ، ان کے نقش قدم کو حرز جاں بنایا جائے ، ان کی تعلیمات کو من و عن تسلیم کیا جائے اور نت نئے فرقوں اور فتنوں کی آواز پر کان نہ لگایا جائے اور اپنی روشن تاریخ سے وابستگی کا ثبوت دیا جائے۔ روشن حقائق اور دلائل کو سمجھا جائے۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے قرآن و سنت ، حضرات صحابہ کرام ، حضرات تابعین سیم کی تعلیمات اور اسلام کی چودہ سو (1400) سالہ تاریخ میں اسلاف کے روشن اور بین حقائق کافی ہیں۔ قدم قدم پر دین فروشی کرنے والے اپنی دکان سجائے لوگوں کو گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، خاص کر سوشل میڈیا پر تو طوفان بد تمیزی بپا کیا ہوا ہے۔
حدیث پاک میں آیا : جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنالیا تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہو گا اور جس کی تمام تر سوچیں دنیاوی احوال میں پریشان رہیں تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پروا نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہو جائے ۔۔ سنن ابن ماجہ : ۴۱۶۰
مثبت سوچ پر ذہن مطمئن ہوتا ہے ، دل سکون پذیر ہوتا ہے، امن و آشتی کا ماحول بنتا ہے، لیکن منفی سوچ دباؤ ، مینشن اور ڈ پریشن کا پیش خیمہ ہوتا ہے، گھبراہٹ اور پریشانی کو جنم دیتا ہے۔ باہر کی ظلمت یعنی اندھیرے سے اندر یعنی سوچ کی ظلمت زیادہ نقصان دہ ہے، آپ کی زندگی آپ کی سوچ کی تعبیر ہے، جیسے آپ کی سوچ ہو گی اسی سانچے میں آپ کی زندگی ڈھل جائے گی۔ سوچ کی طاقت کو مائنڈ پاور کہتے ہیں ، اس مائنڈ پاور سے انسان بہت کچھ کر سکتا ہے۔ چونکہ زندگی کے ہر کام کے پیچھے آپ کی سوچ ہوتی ہے، جس قدر آپ کی سوچ مضبوط مستحکم مثبت ہو گی اس قدر آپ کا کردار، رویہ، مضبوط اور طاقت ور ہو گا۔ اور حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے دل سے فتویٰ لیا کرو، نیکی وہ ہے جس پر طبیعت جسے اور جس پر دل مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جو طبیعت میں چھے اور دل میں کھٹکے، اگر چہ لوگ اس کا فتوی دیں — مسند احمد : ۱۸۰۰۶ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ مذکورہ حدیث میں یہ بھی آیا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت وابصه اسدی رضی اللہ عنہ علی کے سینے پر دست اقدس رکھا، پھر فرمایا، دل سے فتویٰ لے۔ معلوم ہوا جس دل پر مصطفیٰ کریم ﷺ کا دست شفقت ہو، اس سے فتوی طلب کیا جا سکتا ہے، سوال کیا جا سکتا ہے۔ ہر دل اس قابل نہیں کہ اس میں اٹھنے والا خیال فتوی بن جائے اور اس پر ہر بندہ عمل کرتا پھرے، بلکہ حضرات صحابہ کرام کے قلوب مقدسہ کو تزکیہ کے عمل سے گزارا گیا اور یزکیھم کی عملی تصویر بن گئے ۔ بہر صورت ذہن کو آلودگی سے بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انسان اپنے مطالعہ، معلومات اور حواس کا دائرہ کار شریعت مطہرہ کو بنائے اور یہ امام ، رہبر اور پیشوا کے بغیر ممکن نہیں، پھر زندگی کا ہر گام منزل مراد کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔ الله پاک ہمیں لایعنی سوالات سے بچائے اور علماء کی احترام بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین