نئی دہلی (پی ایم ڈبلیو نیوز)ڈاکٹر امام اعظم اچانک 23 ؍ نومبر کی صبح اچانک سفر آخرت پر روانہ ہو گئے ۔ یہ خبر ایسی غمناک تھی کہ جس نے بھی سنا ششدر رہ گیا ، کسی کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ہر وقت ادب اور صحافت کے تئیں اس قدر مصروف رہنے والا شخص اس طر ح اچانک ہمارے درمیان سے اٹھ جائے گا ۔انا للہ و اناالیہ راجعون۔ اردو کے معروف افسانہ نگار اور صحافی ڈاکٹر سید احمد قادری نے ڈاکٹر امام اعظم کے اچانک سانحئہ ارتحال پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مرحوم ڈاکٹر امام اعظم کے اچانک گزر جانے سے پوری ادبی دنیا سوگوار ہو گئی ہے ۔ڈاکٹر سید احمد قادری نے مرحوم سے اپنے گہرے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم سے اکثر فون پر باتیں ہوتی رہتی تھی ۔ گزشتہ 4 ؍ ستمبر 22 ء کو جب میں دربھنگہ ایک سیمینار میں شرکت کرنے گیا ہو اتھا ، اس سیمینار میں وہ بھی مدعو تھے اور انھوں نے سیمینار کے درمیانی وقفہ میں وہ بڑی محبت سے اپنے گھر گنگوارہ لے گئے ، جہاں انھوں نے اپنی شاندار لائبریری قائم کی ہے ، جس سے متھلا یونیورسٹی کے طلبا اکثر استفادہ کرنے پہنچتے تھے ۔ افسوس کہ یہ قیمتی لائبریری بھی اب ویران ہو جائے گی ۔ اس دن مرحوم نے شاندار ضیافت کی تھی ۔ ادب اور ادبی صحافت میں ان کی جو گرانقدر خدمات ہیں ، انھیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے ڈاکٹر امام اعظم کی شخصیت اور ان کی خدمات کے حوالے سے بتایا کہ ان کا اصل نام سید اعجاز حسن امام اعظم، ان کے والدکا نام محمود ظفر المنان فاروقی تھا ۔ان کی تاریخ پیدائش 20جولائی1960ء اور جائے پیدائش دربھنگہ ہے۔ڈاکٹر سید احمد قادری کے مطابق امام اعظم کی تعلیم لوک مانیہ مادھیمک اسکول چھپرہ سے شروع ہوئی۔ ان کے والد سرکاری ملازمت میںتھے ،اس لئے ان کے تبادلے کی وجہ کرامام اعظم کی تعلیم گاہیں بھی بدلتی رہیں ۔ 1975ء میں اردو ہائی اسکول بہٹاسے میٹرک پاس کیااور 1977ء میںایم جے کالج بہٹا (بہار یونیورسٹی ،مظفرپور ) سے انٹر میںکامیاب ہوکر اپنے وطن دربھنگہ لوٹ آئے ۔جہاں سے انہوںنے اردو اورفارسی میںماسٹر ڈگری حاصل کی ۔1989ء میںمتھلایونیورسٹی سے معروف شاعر مظہر امام پرڈاکٹریٹ کی ۔اس کے بعد وہ درس وتدریس میںمشغول ہوگئے ۔ انتظامی صلاحیتوں اورادبی فعالیت کے باعث انہیں مولاناآزادنیشنل اردویونیورسیٹی کاریجنل سینٹردربھنگہ کے ڈائرکٹرکے عہدہ پرفائز کیا گیا ۔ امام اعظم نے 2001ء سے اپنے وطن دربھنگہ سے ادبی رسالہ سہ ماہی ’’تمثیل نو‘‘ کا اجراء کیا جس کے ہرشمارہ میںاس قدر محنت سے مواد کی ترتیب وتزئین ہوتی تھی کہ تقریباًہرشمارہ ایک دستاویز کی حیثیت سے قارئین کے سامنے آتاتھا۔ خاص طور پر ’’سہرا‘‘ ،’’سات سمندرپارکے ہم عصر ادب نمبر‘‘ اور’’ہندوستانی فلمیںاور اردو‘‘جیسے خصوصی نمبرنے ادبی صحافت میںایک مقام بنایا۔تحقیق ،اعلیٰ اور معیاری تخلیقات ، متوازن تبصرے اورمعاصر ادب پرخصوصی توجہ نے ان کے رسالہ کوپوری اردو دنیا میں ایک خاص مقام عطاکیا۔جس کے معترف بہت سارے ادیبوں ،شاعروں ، صحافیوں کے ساتھ ساتھ نامور انگریزی صحافی خشونت سنگھ بھی تھے جنہوںنے اس رسالہ میں شامل مضامین ،افسانے اور شعری تخلیقات کی پسندیدگی کااظہار اپنے خصوص کالم میں 7؍ فروری 2004 ء کوکیاتھا ۔ اس ایک شمارہ پراپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسرگوپی چندنارنگ نے امام اعظم کی صحافتی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے لکھاتھا ’’آپ نے’’تمثیل نو‘‘ میں1985ء کے بعداردوشاعری،فکشن،اردوتنقید کے منظرنامے میںجوتبدیلیاں آئی ہیں،ان پرمباحثہ قائم کرکے ایک اچھااقدام کیا ہے۔‘‘ابراہیم احمدعلوی کے مطابق’’تمثیل نو‘‘ایک ایساجریدہ ہے جوان کوآئینہ دکھاتا ہے ۔جواردوکی رفتار ترقی سے مایوس نظرآتے ہیںاس رسالے میںتمام اردو کو کھنگال کر رکھ دیاجاتاہے۔‘‘ ڈاکٹر امام اعظم کی کمی کا احساس ہمیشہ رہے گا ۔ افسوس کہ ادبی دنیا اب کئی لحاظ سے سونی سونی ہو گئی ہے ۔
previous post
Related posts
Click to comment