ممبئی : قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام اور انجمن اسلام کے اشتراک سے 26 واں قومی اردو کتاب میلہ جاری ہے ، جس میں اردو زبان اور کتابوں سے محبت کرنے والے شریک ہوکر اپنی پسندیدہ کتابیں خرید رہے ہیں۔ پانچ دنوں کے اعداد و شمار کے مطابق یومیہ تقریباً سات لاکھ کی کتابیں فروخت ہو رہی ہیں اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں شائقینِ کتب و زبان مزید کثیر تعداد میں اس میلے سے استفادہ کریں گے۔
میلے کے چھٹے دن کے پرو گراموں کی میزبانی آئیڈیل فاؤنڈیشن کے تعلیمی شعبے کوکن ٹیلنٹ فورم نے کی اور پہلے سیشن میں اسکولی طلبہ و طالبات کے مابین ڈبیٹ کا پروگرام ہوا ، جس میں جج کے فرائض امین مہمتولے ، ضیاء الدین شیخ اور جاوید مقصود نے انجام دیے۔ کمال مانڈلیکر اور داؤد چوگلے نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ علی ایم شمسی نے صدارت کی۔ مفتی سفیان ونو اور یاسین دلوی مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شریک پروگرام تھے۔ یہ مباحثہ مصنوعی ذہانت کے فوائد و نقصانات کے موضوع پر تھا، جس میں چار چار طلبہ و طالبات کے دو گروپ نے حصہ لیا اور تین راؤنڈ میں ایک گروپ نے اے آئی کی حمایت میں، جبکہ دوسرے گروپ نے اس کی مخالفت میں تقریریں کیں۔ اس مباحثے میں پہلی پوزیشن آمنہ عثمان شیخ ، دوسری پوزیشن حافظ محمد اور تیسری پوزیشن ملک آفرین شکیل نے حاصل کی۔کمال مانڈلیکر کے اظہار تشکر کے ساتھ اس پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔
اردو فارسی اور عربی تدریس کی صورت حال کے حوالے سے دوسرے سیشن کا انعقاد ہوا۔ جس کا اہتمام شعبۂ اردو، فارسی و عربی نے کیا۔ اس سیشن کی صدارت پروفیسر انور پاشا نے کی اور ڈاکٹر تابش خان نے نظامت کی۔ مہمانان خصوصی پروفیسر اخلاق احمد آہن، پروفیسر شفیع شیخ اور مہمانان اعزازی ڈاکٹر عبداللہ امتیاز اور ڈاکٹر جمشید احمد ندوی رہے۔ ڈاکٹر جمشید ندوی نے ہندوستان، خصوصا ممبئی میں عربی کی تدریسی صورت حال پر گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی سطح پر تو عربی کی تدریسی صورت حال بہتر ہے اور ملک بھر میں پچاس سے زائد یونیورسٹیز میں عربی کی اعلی تعلیم کا نظم ہے، مگر اسکول کی سطح پر حالات اتنے اچھے نہیں ہیں، جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ پروفیسر شفیع شیخ نے ممبئی یونیورسٹی میں اپنے 35 سالہ تدریسی تجربات کی روشنی میں غیر مادری زبان کی تحصیل و تدریس کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا دلچسپ انداز میں جائزہ پیش کیا۔ پروفیسر اخلاق احمد آہن نے ہندوستان میں فارسی زبان کی تدریسی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ فارسی بیرونی زبان ہے، حالانکہ یہ درست نہیں ہے،یہ ہمارے برصغیر کی ہی زبان ہے جس کی کئی سوسالہ تاریخ ہے۔ عہد وسطی میں فارسی ایک عالمی سطح کی زبان تھی اور ہمارے یہاں کی تقریبا سبھی زبانوں کو بنانے سنوارنے میں اس کا حصہ رہا ہے۔ اس کی اصطلاحات و محاورات ساری ہندوستانی زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستانی علمی روایت کو عالمی پیمانے پر تعارف اسی زبان سے حاصل ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ فارسی زبان کی تعلیم کو ہمیشہ سے اہمیت حاصل رہی ہے اور آج بھی 150 یونیورسٹیوں میں اس کی تعلیم ہورہی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں بھی فارسی کو ایک کلاسیکی ہندوستانی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اسکولوں میں اس کی تدریس پر خصوصی توجہ دیے جانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پروفیسر آہن نے کہا کہ اردو کے بڑے شعرا کو بغیر فارسی جانے ہم نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ اچھی طرح پڑھ سکتے ہیں۔ اس زبان میں نہ صرف اسلامیات بلکہ سناتن دھرم ، سکھ دھرم اور دیگر مذاہب کا بڑا تصنیفی سرمایہ موجود ہے اس لیے اس کی تعلیم و تدریس کی غیر معمولی اہمیت ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔ ڈاکٹر عبداللہ امتیاز نے اردو زبان کو تدریسی سطح پر درپیش مسائل کی جانب توجہ دلائی اور کہا کہ ہمیں اپنی مادری زبانوں کی حفاظت کرنی ہے تو نئی نسل کو اردو کی تعلیم دینی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں جو خطے اردو کا مولد رہے ہیں وہاں حالات اتنے اچھے نہیں، مگر مہاراشٹر اور ممبئی میں اردو کی تدریسی صورت حال بہت اچھی ہے، یہاں پندرہ سو گورنمنٹ ایڈڈ اور پانچ ہزار غیر سرکاری اردو اسکول کامیابی سے چل رہے ہیں اور ممبئی یونیورسٹی کا شعب? اردو زبانوں کے تمام شعبوں سے زیادہ کامیاب ہے۔ پروفیسر انور پاشا نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو زبان ناموافق حالات و مسائل کے باوجود نہ صرف زندہ ہے، بلکہ ممبئی کے اس کتاب میلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو زبان کے شیدائی کس جوش و خروش کے ساتھ اردو سے اپنی محبت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ زبان کا تعلق ثقافت سے ہوتا ہے، جذبات اور روح سے ہوتا ہے اس لیے اسے تمام تر کوششوں کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکتا۔ زبان صرف بولی نہیں ہے، ہماری شناخت کا وسیلہ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو ہی نہیں، ہر زبان کی تدریس کا مسئلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، انھوں نے تعلیم کو معیشت سے جوڑنے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ اگر کسی زبان کا معیشت سے رشتہ کٹتا ہے تو اس کا منفی اثر اس کی تعلیم پر بھی پڑتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اردو کے ساتھ دوسرے تعلیمی شعبوں میں بھی سنجیدہ جد و جہد کرنی چاہیے تاکہ ہم ہر شعبے میں اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ آخر میں کتاب میلے کے مقامی کوآرڈینیٹر امتیاز خلیل نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مہاراشٹر میں اردو کی بہتر صورت حال کے حوالے سے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مراٹھی بولنے والے بھی اردو کو اپنی دشمن زبان نہیں سمجھتے، بلکہ اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے اس زبان کو ہر اعتبار سے پھلنے پھولنے میں مدد ملی ہے۔ اس موقعے پر ممبئی یونیورسٹی اور مختلف سکول ، کالجز کے طلبہ و اساتذہ کی بڑی تعداد موجود رہی۔
تیسرے سیشن میں اسکولی طلبہ و طالبات کے درمیان غزل سرائی کا پر گرام ہوا ، اس کی میزبانی 8 ڈی ایڈ کالجز نے مشترکہ طور پر کی، جس کی نگراں پرنسپل سائرہ خان (آر سی ڈی ایڈ کالج آف ایجوکیشن امام باڑہ) تھیں۔ 13 کالجوں کے طلبہ نے معروف شعرا کا کلام پیش کیا۔ حکم کے فرائض وجاہت حسین خان، عبداللہ زکریا اور ہمایوں خان نے انجام دیے۔ پروگرام کی صدارت معروف غزل و صوفی گلوکارہ سربونی چودھری نے کی، مہمان خصوصی ڈ اکٹر مسرت صاحب علی تھیں اور نظامت کے فرائض حنیف شیخ نے انجام دیے۔اس پروگرام میں کئی ڈی ایڈ کالج کے پرنسپل صاحبان نے شرکت کی۔
چوتھے سیشن میں ادبی چوپال کے تحت صوفی سنگیت کا اہتمام کیا گیا ، جس میں ریحان خان اور ہمایوں کبیر نے سامعین کو اپنی گلوکاری سے محظوظ کیا۔
previous post
next post
Related posts
Click to comment