تحریر ….9911853902 ….مطیع الرحمن عزیز
صبح سویرے جب میں ملک بھر کے اردو اخباروں کی سرخیوں سے روبرو ہوا تو ایک بہت ہی مضحکہ خیز خبر میرے سامنے سے گزری۔ بلکہ کئی اخباروں نے اچھی جگہ پر اس خبر کو شائع کیا تھا۔ خبرکیا تھی وہ ایک ڈرامہ بازی کا جملہ تھا۔ کہ اکبر الدین اویسی کسی جلسے میں بولتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ”بہت جلد ہم دونوں بھائیوں کو جیل کرا دی جائے گی اور زہر دے کر مار دیا جائے گا“۔ واللہ ملک کے پڑھے لکھے اور غیور افراد ان دونوں بھائیوں کی ڈرامے بازی اور جذباتی باتوں سے لوگوں کو کب رو برو کرائیں گے؟ مجھے بہت افسوس ہوا اور میں سوچنے لگا اور غور کیا کہ ان دونوں بھائیوں نے ایک طرف جھوٹ، فریب، جھلاوے اور مکار جذباتی باتوں سے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیںاور دوسری طرف یہ لوگ قوم اور ملک والوں کی آنکھوں میں سامنے سے دھول جھونکنے کا کام کر رہے ہیں۔ آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان فریبی بھائیوں نے صرف جذباتی تقریروں سے ہی نہیں بلکہ جذباتی ڈرامہ بازی سے بھی لوگوں کی آنکھوں نہ صرف دھول جھونکا ہے بلکہ مرچ پاﺅڈرانڈیل دی ہے۔ کام کے نام پر کچھ نا کرنے والے، غیروں کے ہاتھوں میں کھیلنے اور کھانے والے لوگ جذباتی تقریروں کے بعد جذباتی ڈرامہ بازی پر اتر آئیں گے۔ کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا، لیکن نکمے اور بہروپئے پن کی بھی ایک حد ہوتی ہے کہ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ کتنی غضبناک بات ہے کہ قوم سمجھ رہی ہے کہ جب تک اویسی برادران زندہ ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کی سیاست اور اقتدار سے کبھی بے دخل نہیں ہوگی۔ وجہ ملک کا بچہ بچہ جان چکا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جہاں جہاں کمزور پڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے یہ ڈرامے باز برادران اپنی جذباتی تقریروں سے ایک طرف فریق کے بھارتیہ جنتا پارٹی خیمہ کے لوگوں کو اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہیں ووٹوں کی تقسیم کاری کرکے بی جے پی کے ووٹوں کو اکثریت اور جمہوریت پسند پارٹیوں کے ووٹوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا کام کرتے ہیں۔ پہلے بہار، پھر اتر پردیش اس بات کا جیتا جاگتا مثال ہے کہ 2022 میں اتر پردیش کے الیکشن میں 100سیٹیں ایسی تھیں جن پر اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کو محض ہزار ووٹوں کے اندر سے ہار کا سامنا کرنا پڑا نتیجہ کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوگی آدتیا ناتھ فتحیاب ہوئے، اس فتح و شکست کے کھیل میں اویسی برادران اور ان کی پارٹی مکمل اتر پردیش پر اثر انداز ہوئے تھے۔
جذباتی ڈرامے بازی کی بات کریں تو جذباتی تقریروں میں وہ دن کبھی نہیں بھلایا جائے گا جب اسد اویسی قوم کی زبوں حالی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”میں اپنے والد کو قبر میں اتارتے ہوئے خود کو اتنا لاچار و بے بس نہیں سمجھا جتنا آج سمجھ رہا ہوں“۔ بھلا ڈرامے بازی کی بھی حد ہوتی ہے، 2014کے بعد سے اویسی برادران کی جائیدادوں اور رسوخ میں آئے دن اضافہ اس بات کا کھلم کھلا اعلان کرتا ہے کہ اسد اویسی اپنے والد کے زمانے سے ایک بینک برانچ لے کر اپنا کام چلا رہے تھے، لیکن نوٹ بندی کے 22 دن پہلے سات (7) برانچیز کا افتتاح عمل میں لاتے ہیں۔ اسد اویسی صاحب مجبور اپنے والد کو قبر میں اتارنے کے وقت تھے یا آج یہ عوام اندازہ لگا کر ضرور بتائے گی۔ اسد اویسی صاحب ڈرامے بازی کے ایک مداری ہیں۔ اترپردیش میں خود پر گولی چلواتے ہیں اور گجرات میں پتھراﺅ کا اعلان کرتے ہیں۔ بعد میں گجرات پولس اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ مکمل گجرات میں کسی بھی طرح کی پتھر بازی کی کوئی واردات نہیں ہوئی ہے۔ سب باتیں جھوٹ اور افواہ پر مبنی ہیں۔ سچ سے ان باتوں کا دور دور تلک کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسی طرح اتر پردیش الیکشن میں اپنے اوپر گولیاں چلوائی جاتی ہیں۔ نیوز میں خوب پذیرائی حاصل کی جاتی ہے۔ عوام کی جذباتی طور طور پر توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ نتیجہ کے طور پر اسد اویسی صاحب پر جتنی بھی گولیاں اتر پردیش میں چلی تھیں، وہ سب گاڑی کے ٹائر کے نیچے چلی تھیں، کارروائی کرتے ہوئے کچھ نوجوان گرفتار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ان مجرمین کا کیا ہوا آج تک کسی میڈیا اور اخبار میں اس بات کی خبر شائع نہیں ہوئی۔
مداری نمبر دو جناب اکبر اویسی صاحب اپنی ڈرامے بازی کے آبائی اور خاندانی پیشہ کو آگے بڑھاتے ہوئے چار قدم آگے نکل جاتے ہیں۔ حیدر آباد میں اویسی برادران اور ان کی پارٹی کے چیلوں چپاڑوں سے پریشان عوام کراہ رہی ہے۔ کسی وقت پہلوانوں سے پنگا مول لے کر اکبر اویسی برے پھنس گئے۔ ان کو گھیر کر زدو کوب کیا گیا۔ مکہ مسجد میں اس بات کے بیان کے درمیان اکبر اویسی نبی کریم کی شان میں بھی گستاخی کر بیٹھتے ، اور ان الفاظ کی ادائیگی کرتے ہیں گویا وہ نبیوں سے بھی بڑی مرتبت اور اعلیٰ مقام رکھنے والے ہوں۔ اکبر اویسی اپنی ڈرامے بازی میں سرشار مد مست مگن ہوکر کہتے ہیں ” جب مجھے لہولہان حالت میں گاڑی میں لٹایا گیا، اور اسپتال میں لے جایا گیا، تو میں دیکھتا ہوں کہ غوث اعظم دستگیر رحمة اللہ میرے پاس آئے ہیں، خواجہ معین الدین، اور خواجہ اجمیری رحمہ اللہ تشریف لائے ہیں۔ ”اکبر اویسی کہتے ہیں“ اسی درمیان دیکھتا ہوں کہ ایک سفید لفاس، سفید داڑھی اور نورانی چہرے والے بزرگ آتے ہیں، میں پوچھتا ہوں آپ کون ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں میں محمد الرسول اللہ ہوں“۔ لعنت ہو اس صدی کے جھوٹے لعین مداریوں اور جذبات کے سودا گروں پر۔ یہ جھوٹے مکار لوگ ملک کے نوجوان، کم پڑھے لکھے اور معصوم لوگوں کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ بدلے میں ظالم اور ملعون قسم کے لوگوں کو ملک ایوان بالا پر بیٹھا کر اپنی غاصب شخصیت کے لئے عافیت اور پرُیقین ہو جاتے ہیں۔
جھوٹے مداریوں کے سرغنہ اسد اویسی اپنے جذباتی بیانوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے ایک مجلس میں یہ کہہ جاتے ہیں کہ ”کسی حادثہ میں میں وہیں قریب موجود تھا۔ متاثرین کو اسپتال میں نے پہنچایا، اسپتال میں خون کی کمی تھی۔ ڈاکٹروں نے اعلان کی کہ فلاں گروپ کا خون کسی کے پاس ہے کیا؟ تو میں نے کہا ۔ہاں میرا ہے۔ تو ڈاکٹروں نے کہا کہ آﺅ میرے ساتھ۔ میں ان کے ساتھ گیا تو میں نے پچیس بوتل خون دیا۔ اور نہ صرف خون دیا بلکہ خون کی بوتل لے کر میں خود ہی جائے استعمال پہنچاتا تھا۔ اسد اویسی صاحب جذباتی ڈرامے بازی کے اتنے بڑے فریبی کہ آج تک دنیا کے تمام کلکولیٹر اس تخمینے کا تعین کرنے میں ناکام ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کی بدن میں صرف پانچ بوتل خون ہو سکتا ہے۔ پچیس بوتل خون کیسے دے سکتا ہے۔ چند ایک تخمینہ کاروں نے اندازہ لگایا ہے اور بیان کیا کہ ” اسد صاحب کے اس جھوٹ میں اگر ان کے بدن کے خون کے علاوہ پانی کو بھی شامل کر لیا جائے تب بھی پچیس بوتل خون مکمل نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علاوہ بدن کے دوسرے اجزا کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو جیسے سیال چیزوں میں ان کے بدن کا پیشاب، ان کی ہڈیوں کے اندر کی گدی کو بھی پگھلا دیا جائے تو بھی پچیس بوتل سیال چیز جسے خون کہا جائے، جمع نہیں ہو سکتا اور اگر کسی طرح مکمل کر بھی لیا جائے تو یہ بات تو نا ممکنات میں سے ہے کہ وہی شخص ان خون عطیات کو لے کر دوڑے اور لیب تک خود ہی پہنچائے۔ کیونکہ ایک بوتل خون دینے کے بعد انسان کو غشی طاری ہونے لگتی ہے، پچیس بوتل خون دینے پر انسان کے لئے ممکنات کے زمرے میں آ جاتا ہے کہ وہ اس دار فانی سے کوچ کر جائے۔
کل ملا کر مضمون کا ما حصل اور لب لباب یہ ہے کہ یہ مداریوں کی ٹولی اور جھوٹوں کی اندھی قیادت جب اپنے اندر سے ڈرامے بازی کو میسر نہیں پاتی تو دیگر لوگوں کے فوت شدہ معاملات پر گھڑیالی آنسو بہا کر لوگوں کی نظروں میں معصوم مداری اور ڈرامے بازی کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اندر ہی اندر قوم کو کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں۔ کہیں لوگوں کی تجارت کو مسمار کر رہے ہیں۔ کہیں قوم کی سیاست اور قیادت کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ کہیں لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرا رہے ہیں۔ تو کہیں اپنے سود کے فکر میں لوگوں کی حلال تجارت پر دھاوا بول کر لاکھوں کروڑوں لوگوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ قوم و ملک ان ڈرامے باز مداریوں کو آواز اٹھانے والا سمجھتی ہے۔ جب کہ ان کے جذباتی بھاشن بازیوں کو ملک کا پڑھا لکھا طبقہ بہت بہتر بھلی بھانتی سمجھ رہا ہے، لیکن بول کچھ نہیں رہا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہر کوئی نہیں بولا۔ کچھ نے اشاروں اشاروں میں بولا۔ کچھ نے علیٰ الاعلان بولا ۔ لیکن ان سب کے درمیان ایک طاقت ایسی بھی ہے جو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی کہ دیکھو میرا جھوٹا ڈرامے باز مداری کتنا شاطر ہے۔ کس طرح ہمارے ڈمرو کی ڈگڈگی پر اپنے لوگوںکو جال میں پھنسا رہا ہے۔یہ بالکل نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ ہمارے پھینکے گئے پھندے (لکھی گئی اسکرپٹ) کو ایسے پیش کر رہا ہے کہ اکثریت یہی سمجھ رہی ہے کہ مداری بہت آب و تاب سے اپنا کھیل کھلا رہا ہے۔ باقی اس کے چیلے چپاٹے مداری کی ڈگڈگی پر تالیاں بجا رہے ہیں۔