تحریر:جاوید اختر بھارتی
یوں تو سوشل میڈیا پر خوب تذکرہ کیا جاتا ہے کہ بیٹی رحمت ہوتی ہے ، بیٹی باپ کی لاٹھی ہوتی ہے ، بیٹی ماں کے گلے کا ہار ہوتی ہے ، بیٹی باپ کے سر کی پگڑی ہوتی ہے ، گھر و آنگن کا اجالا ہوتی ہے آنکھوں کا تارا ہوتی ہے ،مگر یہ ساری کہاوت محاورے محدود ہیں یعنی بیٹی کے اندر جتنی بھی خصوصیات ہیں وہ صرف اپنی بیٹی میں نظر آتی ہیں دوسرے کے بیٹی میں نظر نہیں آتی ،، بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو آج بھی مسلم اور غیر مسلم دونوں میں دیکھی جاتی ہیں لیکن ہمیں غیروں سے شکوہ نہیں ہمیں تو اپنوں سے مطلب ہے ،، اسلام کے اندر مساوات ہے مگر مسلمانوں میں نہیں ، اسلام میں اونچ نیچ ، بھید بھاؤ ، چھوا چھوت نہیں لیکن مسلمانوں میں ہے ، اسلام میں خرافات نہیں لیکن مسلمانوں میں ہے ، اسلام میں آتش بازیاں نہیں لیکن مسلمانوں میں ہے، اسلام میں بارات نہیں لیکن مسلمانوں میں ہے ، اسلام میں لڑکی کے باپ کے گھر ولیمہ نہیں لیکن مسلمانوں میں ہے ،اسلام میں بیوہ کی عزت ہے مگر مسلمانوں میں نہیں، اسلام میں غریبوں کی عزت ہے مگر مسلمانوں میں نہیں، اسلام میں بہو کی عزت ہے مگر مسلمانوں میں نہیں،، اسلام نے ایک عورت کو بیٹی ، بہن ، بہو اور ماں اور دادی و نانی کا درجہ دیا ہے اور سب کا مقام بتایا ہے مگر مسلمانوں کو یہ سب کچھ نظر بھی آتا ہے تو صرف تقریر و تحریر کے انداز میں عملی طور پر معاملہ بہت خراب ہے صرف غیروں میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے وہاں بھی بہو کو ستانے کا سلسلہ جاری ہے اور حد تو تب ہوجاتی ہے جب اپنے کو متقی اور پرہیزگار سمجھنے والے بھی بہو کو ستاتے ہیں بات بات پر طعنے مارے جاتے ہیں وہاں انھیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی کسی کی بیٹی ہے صرف واہ واہی لوٹنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ بیٹی رحمت ہے زحمت نہیں ،، ذرا آجکل کے حالات پر نگاہ ڈالیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر غور کریں کہ جس گھر سے 9 بیٹیوں کا جنازہ ایک ساتھ نکلا وہ بیٹیاں رحمت تھیں یا زحمت ؟ جس نے اپنی بیٹی کو پال پوس کر بڑا کیا پڑھایا لکھایا اور رشتہ لگایا تو جہیز کی فہرست باپ کے ہاتھوں میں تھما دی گئی باپ قرض لے لے کر سارے مطالبات پورے کئے قرض کے بوجھ تلے باپ کی کمر ٹوٹ گئی چیخیں مارتے ہوئے اور آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے بیٹی کو رخصت کرتا ہے اور صبح ہوتے ہی باپ کو خبر دی جاتی ہے کہ تیری بیٹی کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی تیری بیٹی کا انتقال ہوگیا باپ جب بیٹی کی سسرال پہنچتا ہے تو دیکھتاہے کہ سفید کپڑا بیٹی کی لاش پر اوڑھایا گیا ہے باپ کو خیال آتا ہے کہ میں نے تو سب کچھ دیا مگر اس فہرست میں سفید کپڑا تو نہیں لکھا تھا آخر یہ کہاں سے آیا باپ نے بیٹی کا چہرہ دیکھا اور چیخیں مارتے ہوئے کپڑا اٹھا کر پھینک دیا اور اپنی چادر اوڑھاکر کہا کہ ائے میری بیٹی کے قاتلوں نہیں چاہئے تمہارا کوئی احسان ساری چیزیں تو تم نے مجھ سے مانگی تو یہ کفن کیوں نہیں مانگا ،، آج تو میرے پاس کفن بھی خرید نے کے لئے پیسہ نہیں ہے مگر پھر بھی میں اپنی چادر میں اپنی بیٹی کو دفن کرونگا مگر تمہارا کپڑا نہیں چاہئے بتائیے اس گھر کی چہار دیواری میں بہو کو اپنی بیٹی سمجھا گیا یا غیر کی بیٹی سمجھا گیا ؟ بیٹی شہزادی ہوتی ہے مگر باپ کے آنگن میں ، یہی بیٹی جب سسرال جاتی ہے بہو کہلاتی ہے ،،تو ستائی جاتی ہے ، جلائی جاتی ہے ، گالیاں دیجاتی ہیں ، طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور اسی چہار دیواری میں اپنی بیٹی کے ہر عیب کو چھپایا جاتاہے یہ دوہرا معیار اور ڈھکوسلا نہیں تو اور کیا ہے اسی وجہ سے ایک بھری عدالت میں ایک جج نے سوال کیا تھا کہ گھر کی چہار دیواری میں صرف بہو کیوں حادثے کا شکار ہوتی ہے آخر نند حادثے کا شکار کیوں نہیں ہوتی ؟ وہ بیٹی رحمت ثابت ہوئی یا زحمت؟جہاں تک بات مذہب اسلام کی تعلیمات کی ہے تو شادی بیاہ آسان بنایا گیا ہے مگر مسلمانوں نے شادی بیاہ کو مشکل سے مشکل بنادیا اور فضول خرچیوں کا انبار لگا کر شادی بیاہ کو نمائش بناکر رکھ دیا اور یہ سب کچھ آج وہ لوگ کررہے ہیں جنہیں مذہبی مافیا کہا جاسکتاہے آج مسلمانوں کی یونیورسٹیاں نہیں بن رہی ہیں بلکہ بڑی تیزی سے مسلم علاقوں میں میرج ہال بن رہے ہیں اور اسی میں شادی بیاہ کی تقریبات اور فضولیات پر مبنی رسومات کا اہتمام و انعقاد کیا جاتا ہے اور جہاں میرج ہال نہیں ہے وہاں مدارسِ اسلامیہ کے صحن میں کیا جاتا ہے مدارس کے ذمہ دار ایک بار نہیں کہتے ہیں کہ ہم فضول خرچیوں کا اظہار کرنے کے لئے صحن نہیں دیں گے،، کیوں: اس لئے کہ چندہ متاثر ہو جائے گا ایسے ذمہ داران کو مذہبی مافیا نہیں تو اور کیا کہا جائے گا جو غریبوں کی بیٹیوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں،، اور انہیں لوگوں کی دین ہے کہ آج مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں اور مرتد بھی ہو رہی ہیں مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں نمائشی انداز میں ہونے والی شادیوں میں وہ ہستیاں بھی شوبھا بڑھانے کے لئے پہنچتی ہیں جن کے کندھوں پر یہ ساری خرافات و رسم ورواج کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہونے کی ذمہ داری ہے،، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ جہیز لعنت ہے اور دوسری طرف یہ لعنت ٹرکوں اور ٹریلاؤں پر لاد لاد کر لے جایا جاتاہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ ترقی یافتہ زمانہ ہے ،، ارے یاد رکھیں جو شادیاں فاقوں کی حالت میں سادگی کے ساتھ ہوئی اس کا تذکرہ آج ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی ہورہاہے اور اس تذکرے پر اجر و ثواب بھی ملتاہے اور آج کی مہنگی مہنگی شادیوں کو ویڈیو گرافی کے بعد بھی بھلا دیا جاتا ہے کسی بھی کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ہوتا-
ہر بیٹی کسی نہ کسی کی بہو بنتی ہے اور ہر بہو کسی نہ کسی کی بیٹی ہوتی ہے پھر بھی آج تک بیٹی کو رحمت مانا جاتاہے مگر صرف اپنی بیٹی کو اور دوسرے کی بیٹی کو زحمت مانا جاتاہے ،، گھر کی چہار دیواری میں صرف بہو حادثات کا شکار ہوتی ہے بیٹی اور نند نہیں کیونکہ بہو دوسرے کی بیٹی ہے اپنی نہیں ،، بیٹی بستر پر سوئی رہے تو بیمار اور بہو کو بخار بھی ہو جائے تو وہ مکار کیونکہ وہ دوسرے کی بیٹی ہے،، ارے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ گھر کی چہار دیواری کے اندر بہو سارا کام اپنا گھر سمجھ کر کرتی ہے اسے تو بچے کو دودھ پلانے کی اجرت تک سسرال والوں سے لینے کی اجازت بھی ہے اور حق بھی ہے مگر پھر بھی وہ نہیں لیتی یہ اس کا احسان ہے بہت بڑی قربانی ہے مگر احساس نہیں کیونکہ وہ اپنی نہیں بلکہ دوسرے کی بیٹی ہے ،، باتیں تلخ ضرور ہیں مگر یہی سماج و معاشرے کی سچائی ہے