Articles مضامین

دینی اداروں اورجمیعت کےنظماءکےاموال کی ای ڈی(ED)کے ذریعے تفتیش ہونی چاہئے

تحریر آصف علی سلفی

(قارئین میں آپ سے بڑے ہی ادب کے ساتھ گذارش کرتا ہوں کہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اس مضمون کو ذرا غور سے پڑھنے کی زحمت کریں۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں اکثریت کا اعتبار کیا گیا ہے نہ کہ سب کو شامل کیاگیا ہے)۔✒️✒️✒️: آصف سلفی۔

مساجد کے متولیان!
مکاتب کے ذمہ داران!
مدارس کے صدور!
جامعات کے سیکرٹریز!
جمیعت کے نظماء!
وقف املاک کے نگہبان!
الغرض دینی،رفاہی اورسماجی اداروں کے ذمہ داران کی من جملہ املاک اور جائیداد کی ای ڈی(ED) کے ذریعے تفتیش ہونی چاہیے۔کیونکہ آج کل دینی اداروں کے ذمہ داران کی حرام خوری،جمع خوری،سود خوری اور کرپشن کچھ زیادہ ہی عروج پر ہے۔ یہاں تک کہ دینی اداروں:مسجدوں،مدرسوں،اور یتیموں کے نام پر برآمد چندہ اور مختص فنڈز کو بھی ہضم کر جاتے ہیں۔
تجربات،مشاہدات اوربڑوں کی زبانی کہاوتیں شاہد ہیں کہ:
جس ناظم صاحب کے پاس دنیوی سکونت کے لیے ڈھنگ کا مکان تک نہیں تھا آج وہ جمعیت کےناظم بنتے ہی مہانگروں اورنگر نگموں میں کئیے ایک مکانات کے مالک ہے۔
جس صدر صاحب کے پاس گاؤں میں رہنے کےلیےذاتی مکان تک نہیں تھا آج وہ کسی مدرسہ کے ذمہ دار ہونے کے سبب اس کےپاس سماں بوش عالی شان عمارت ہے۔
جس سیکرٹری صاحب کے پاس سفر کے لیے موٹر گاڑی تک نہیں تھی؛ آج سیکرٹری بنتے ہی کئیے ایک چمچماتی گاڑیوں کے اونر ہے۔ان میں سے ایک بلٹ پروف بھی ہے۔
جس ڈائریکٹر صاحب کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ اپنی اولاد کو انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم دلا سکے؛آج ڈائریکٹر بننے کے سبب ان کی اولادیں خارجی ملکوں میں انجینئر اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
جس متولی کے پاس گاؤں میں کچھ ہی کٹھا زمین تھی آج متولی ہونے کے سبب کا کئیے ایک زمینات کے مالک ہے۔
جس وقف کےمتولی اور نگراں کے پاس اتنی رقم میسر نہیں تھی کہ ڈھنگ سے اپنا یااپنےرشتہ دارکاعلاج کسی بڑے ڈاکٹر سےکراسکے.وقف کے نگراں بنتے ہی ایک شفاخانہ،دو دوا خانہ اور لبارٹی کے مالک بن بیٹھے ہیں۔
جس مدنی صاحب کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ گزران معاش خوشحال ہوسکے آج وہ مدنی صاحب رقوم برائے بنائے مساجد کے رکن رکین بنتے ہی کروڑوں کےمالک ہے۔
جس شیخ محترم کے پاس اتنی فراوانی نہیں تھی کہ خود کا بزنس اسٹارٹ(تجارت شروع) کر سکے آج کسی مکتب یابنات کے ڈائریکٹر صاحب ہونے کے سبب بہت ساری کمپنیوں میں شیئرز کے مالک ہے۔
بےشک!دینی،رفاہی اور سماجی اداروں کے ذمہ داران کے پاس بیش بہا دولتیں مکانات،زمینات،محلات،جائیداد،گاڑیاں،سواریاں،کمپنیوں میں شیئرز،برینڈڈ موبائل ولیپ ٹاپ،ریشمی نما لباسیں،عمدہ اور ذائقہ دارطعام وشراب، انواع واقسام کی تکلفات اور لائف اسٹائلز یقینا کسب حرام پر مبنی ہے۔
ای ڈی(ED) کو پوچھنا چاہیے کہ: شیخ الجامعہ صاحب! آپ نے جئے پور اور جودھپور جیسے شہروں میں زمین خرید کر بنگلہ نما محل بنائے ہیں.پیسہ کہاں سے آیا ؟؟؟
ای ڈی() کو پوچھنا چاہیئے کہ: ڈائریکٹر صاحب آپ نے راجہ،بادشاہ کے قلعہ(Fort) کو خرید کر کے اسے منی تاج محل(چھوٹا تاج محل) بنا دیا ہے اتنی خطیر رقم کہاں سے آئی؟؟؟
ای ڈی (ED)کو پوچھنا چاہیئے کہ: ناظم جمیعت صاحب دہلی این.سی.آر میں آپ کا ایک مکان ہے.ساتھ ہی ساتھ کئیے ایک پراپرٹی بھی ہے خریداری کے لیے اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی؟؟
ای ڈی(ED) کو پوچھنا چاہیئے کہ: صدر صاحب آپ کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ آپ مکھیا کا الیکشن لڑ سکے؛مگر آپ سیمانچل سے ممبر آف اسمبلی کاالیکشن فائٹ کر رہے ہیں۔اتنا سارا الیکشنی صرفہ کہاں سے ملا؟؟
ای ڈی* کو پوچھنا چاہیئے کہ: متولی صاحب آپ کی اولادیں فورین سے تعلیم یافتہ ہیں؛آپ کا چھوٹا بیٹا بھی آج کل خارجی ملک میں ایم.بی.بی.ایس(MBBS)کر رہا ہے اتنی گاڑھی تعلیمی فیس ادا کہاں سے کرتے ہیں؟؟؟
یقین جانیے دینی اداروں کے اکثر ذمہ داران دولت کے پیچھے اس قدر پاگل ہیں بلکہ دولت نے انہیں اس قدر پاگل کر دیا ہے کہ ان میں سے اکثر دن بدن ظالم،جابر،حرام خور،سود خور،جمع خور،بداخلاق،بدکردار اوربدگفتار بنتے ہی جا رہےہیں۔دولت کے نشہ میں چور ذمہ داران اپنے مدارس میں اور اداروں میں واجب الاحترام فضلاء،علماء،مدرسین،مفتیان،شیوخ،ائمہ اور عملہ کو کچھ نہیں سمجھتے.
بلکہ نہایت ہی حقیر اور بے بس سمجھتے ہیں.
معمولی سی غلطی پر مدرسین کو ڈانٹ دیتے ہیں.
جب چاہے دوران سال ادارے سے فارغ کر دیتے ہیں.
وقت پرتنخواہ نہیں دیتے ہیں.
ہمیشہ ڈرائے دھمکائے رکھتے ہیں.
ان کے پیچھے اپنا جاسوس متعین کر دیتے ہیں.
سہولیات کے باوجود فیملی رہائش نہیں دیتے ہیں.
یہاں تک کہ ضروری تقاضا کے مطابق ڈھنگ کا کھانا تک نہیں دیتے ہیں .
قارئین!
انہیں نا اہل نظماء کی بدتمیزی،بدگفتاری،ظلم،تشدد،جبر،من مانی،خودغرضی،اناپسندی،خودمختاری اور ڈکٹیرشپ کے سبب دینی اداروں بالخصوص جامعات کا تعلیمی معیار دن بدن گھٹتاجارہا ہے؛تربیتی پہلو بھی عنقا ہوتےجارہا ہے؛طلبہ جری،نیڈر اور بےحس ہوتے جا رہے ہیں؛طلباء کے دل سےاساتذہ کی عزت ختم ہوتی جارہی ہے-
مُجھے یقین ہے کہ صرف ایک بار اگر ای ڈی کا چھاپا پڑ جائے تو یقین مانیے ان کی ساری ہٹلری،جمع خوری،حرام خوری نکل جائےگی۔
ہیکڑی بھی نکل جائےگی۔
ہم ای ڈی کے افسران سے گزارش کرتے ہیں کہ:ذرا دینی اداروں،مدرسوں،مسجدوں،مکتبوں اور جمیعت کے ناظموں کےدروازے پر علیک سلیک کرنے کے لیے ضرور تشریف لے جائیں تاکہ ان کی ساری اصلیت دنیا کے سامنے واضح ہو جائے۔اور بھولی بھالی عوام جان جائے کہ ان کے مدرسے اورجمیعت کےناظم صاحب کتنا بڑا کرپٹ ہے۔

Related posts

بچوں کی تعلیم اور صحت، ایک قومی سرمایہ

Paigam Madre Watan

” اردو ناول کی پیش رفت”

Paigam Madre Watan

کیا واقعی ہم اس دنیا میں کسی بھی چیز کے مالک نہیں؟ 

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar