ڈاکٹر سیّد احمد قادری
ہم اس بات سے نکار نہیں کر سکتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں ملک میں انتخابات کے بعد نتائج کا جو ناقابل یقین منظر نامہ دیکھنے کو ملا ہے،اسے دیکھنے کے بعدہونے والے انتخابات کی شفافیت اور معتبریت کو کھو دیا ہے ۔ ای وی ایم سے ہونے والے انتخابات کا سچ چند برسوں قبل دلّی اسمبلی کے اندر اروند کیجریوال حکومت ا جاگر کر ہے کہ کیسے ای وی ایم کو ہیک کیا جا تا ہے اورمن مطابق ای وی ایم سے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں ۔یہی سچ چند روز قبل دہلی کے جنتر منتر پر سپریم کورٹ کے مشہور وکلأ بھانو پرتاپ سنگھ اور محمود پراچا کی رہنمائی میں عوامی طور پر پریس والوں کی بھاڑی بھیڑ کے درمیاں دکھایا گیا ۔ ان دونوں وکلأ نے ای وی ایم کے خلاف زبردست تحریک چھیڑ دی ہے اوران کا مطالبہ ہے کہ اب پورے ملک کے اندر انتخابات ای وی ایم سے کرانے کے بجائے بیلیٹ پیپر سے کرائے جائیں۔اپنے اس مطالبہ کے لئے انھوں نے گزشتہ دنوں جنتر منتر پرزبردست احتجاج اور مظاہرہ بھی کیا ۔یہ دونوں اپنے ہمنواؤں کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر سے ملنا چاہتے تھے لیکن ملاقات کی بجائے انھیں وقتی طور پر حراست میں لے لیا گیا ۔جس کے بعد ان کی تحریک میں کافی شدت پیدا ہو گئی ہے اور اپنے مطالبہ کو پورا کرانے کے لئے ان لوگوں نے پوری طاقت جھونک دی ہے ۔ ای وی ایم کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کی بڑھتی تپش اب دھیرے دھیرے پورے ملک میں پہنچ گئی ہے اور آئے دن ملک کے طول و عرض میں ای وی ایم کے استعمال کے خلاف مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے وکلأ بھانو پرتاپ اور محمود پراچہ کا کہنا ہے جب پورے ملک کے لوگ ای وی ایم کی مخالفت کر رہے ہیں اور عام انتخابات میں شفافیت اور معتبریت چاہتے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کیوں ملک کی اس آواز کو دبا نا چاہتا ہے اور حکمراں کے اشاروں پر ای وی ایم سے ہی انتخابات کرائے جانے پر بضد ہے ۔ ان دونوں نے اس سلسلے میں ایک نعرہ بھی دیا ہے کہ ’’ ای وی ایم ہٹاؤ ، دیش بچاؤ، آئین بچاؤ جمہوریت بچاؤ‘‘۔ اس نعرے کے ساتھ ان لوگوں نے اپنی آواز اور مطالبے میں شدت لانے کے لئے پورے ملک کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے ایک فون نمبر 9667722062 بھی جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ پورا ملک اس نمبر پر مس کال کرے اور اپنا احتجاج درج کرائے ۔ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اس بات سے صاف انکار کرتاہے کہ ای وی ایم میں کسی طرح کی بھی تبدیلی یا ہیکنگ ممکن نہیں ، ایسے میں الیکشن کمیشن ہم لوگوں کو صرف پچاس ای وی ایم حوالے کرے ،ہم یہ بات ثابت کر دینگے کہ ای وی ایم میں من مطابق تبدیلی ممکن ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر الیکشن کمیشن ملک کے عوام کے خدشات اور شک و شبہ کو دور کرنے کے لئے مظاہرین کے اس مطالبے کو مان لیتا اور عوامی طور پر ڈیمو کراکر اپنی معتبریت کو بحال رکھتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس الزام میں ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے بڑی تعداد میں یعنی تقریبا‘‘ 19 لاکھ ای وی ایم خریدے تھے اور پھر یہ سب کے سب غائب ہو گئے ہیں ۔ ان ہی غائب ہونے والی ای وی ایم کو اکثر استعمال میں اور اپنے موافق نتیجے کے لئے استعمال کئے جانے کا بھی اکثر الزام لگایا جاتا ہے۔لوگوں کا یہ بھی الزام ہے کہ ان ہی مشینوں میں پیگاسس کی طرح کوئی چپس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ ای وی ایم پر حکمراں پارٹی کو اتنا ہی بھروسہ ہے کہ گزشتہ لوک سبھا کے انتخاب میں کہا تھا اس بار تین سؤ کے پار اور لوگوں نے دیکھا کہ واقئی بی جے پی تین سؤ کے پار کامیاب ہوئی ۔ اسی طرح اگلے 2024ء کے انتخاب میں حکمراں جماعت کا نعرہ ہے ا س بار 400 کے پار ۔ اس اعتماد اور اس بھروسہ کے پیچھے آخر کو ن ساراز مضمر ہے ۔ جب کہ ملک کا بیشتر طبقہ موجودہ حکومت کی ناکامیوں سے پریشان اور خفا ہے ۔ پھر حکمراں جماعت کی کامیابی کیونکر ممکن ہے ۔یہی وہ وجوہات ہیں جن کے باعث ملک کے عوام کا ای وی ایم پر سے بھروسہ ختم ہو گیا ہے اور وہ احتجاج ، مظاہرے ، مخالفت اور تحریک کے لئے مجبور ہوئے ہیں ۔ ای وی ایم کے بجائے بیلیٹ پیپر سے انتخاب کے مطالبے پر چند ہفتہ قبل اورنگ آباد(مہاراشٹر) کے سماجی کارکن اننت کیرباجی بھورے نے یہاں کے ڈویژنل کمشنر کے دفتر کے سامنے بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھے تھے ۔انھوں نے اس سلسلے میں کہا تھا کہ دستور کی دفعہ(ک) کے تحت انھیں اظہار رائے کی آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے ،اسی کے تحت انھوں نے تمام شہریوں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے ملک میں انتخابات ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر سے کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ بھارت مکتی مورچہ کے کارکنان نے ملک کے 567 اضلاع کے صدر مقام پر 5 جنوری سے 16 جنوری تک ڈی ایم دفتر کے سامنے احتجاج اور مظاہرہ کئے جانے بعد ہر جگہ سے ڈی ایم کے ذریعہ ملک کی صدر جمہوریہ کو میمورینڈم دینے کی بھی بات کہہ چکی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ 31 جنوری کو نئی دہلی کے الیکشن کمیشن کے دفتر پر مہا مورچہ کا انعقاد کئے جانے کا بھی پروگرام ہے۔ ای وی ایم کی مخالفت حال ہی میں راجیہ سبھا میں بھی ہو چکی ہے ۔ حزب مخالف جماعتوں کانگریس، سپا اور بسپا وغیرہ نے شدت کے ساتھ بیلٹ پیپر سے ہی الیکشن کا کرانے کا مطالبہ کیا تھا ۔ اس کے جواب میں ڈپٹی چئیرمین پی جے کورین نے کہا تھا کہ اپوزیشن کو یہ موضوع یہاں اٹھانے کی بجائے الیکشن کمیشن کے سامنے اٹھانا چاہئے۔
ملک میں انتخاب ای وی ایم کی بجائے بیلٹ پیپر سے کرائے جانے کا مطالبہ کوئی نیا نہیں اور نہ ہی اچانک سامنے نہیں آیا ہے ۔ بلکہ ملک میں 2014 ء کے بعد سے جب کبھی کوئی انتخاب ہوا اور خلاف توقع نتیجہ سامنے آیا تب تب ای وی ایم کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہوئے ہیں ۔سابق الیکشن کمشنر ٹی ایس کرشنا مورتی نے جنوری 2018ء میں ہی کہا تھا کہ اتر پردیش ،اترا جھنڈ ، گجرات اور ہماچل پردیش وغیرہ میں انتخاب صرف اور صرف بی جے پی نے ای وی ایم کے ہیکنگ کی وجہ کر کامیابی حاصل کی تھی ۔ یہ کہہ کر ٹی ایس کرشنا مورتی نے پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی تھی ۔ایک ذمہّ دار شخصیت کے یسے الزام کے خلاف اپنی صفائی میں الیکشن کمیشن کو کچھ کہنا چاہئے تھایا پھر الزام لگانے والے پر تادیبی کاروائی کرنا چاہئے تھا ۔ایسا نہ کر کہ عوام کے شک و شبہات کو مذید بڑھا دیا گیا ۔شک و شبہات یوں بھی بڑھتے رہے کہ ہر انتخاب کے بعد کبھی اسٹرونگ روم میں دھاندلی ہوتے دیکھا گیا ، کبھی رزلٹ سے قبل ٹرکوں پر بڑی تعدا د میں ای وی ایم پکڑا گیا ، ہریانہ کے پانی پت میں ای وی ایم مشین لے جاتے ہوئے پکڑے جانے پر جو ہنگامہ ہوا یا پھر کانگریس ترجمان پون کھیڑا کے مطابق انتخاب کے دن آخری وقتوں میں یعنی شام میں ناقابل یقین حد تک بڑی تعداد میں ووٹنگ کا تناسب دیکھا گیا یا پھر حالیہ مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں جس طرح بے ضابطگیاں اور کھلم کھلا دھاندلی دیکھی گئیں۔ یہاں تک کہ مدھیہ پردیش میں یہ بھی تماشہ ہوا کہ خود ایک امیدوار کا بھی ووٹ ای وی ایم میں شامل نہیں ہو سکا۔ یہ سب اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ای وی ایم اب معتبر نہیں رہی ۔ شیو سینا ( ادھو ٹھاکرے گروپ) کے بے باک رکن پارلیمنٹ اور پارٹی کے ترجمان سنجے راوت نے چند روز قبل ہی اپنی ایک پریس کانفرنس میں ای وی ایم سے ہونے والے ووٹنگ کو مشکوک قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اگر انتخابات ای وی ایم کے بجائے بیلیٹ پیپر سے ہوتے ہیں تو حکمراں بی جے پی گرام پنچائیت انتخابات بھی نہیں جیت سکتی ہے ۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک میں انتخاب کے لئے ای وی ایم کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے تو پھر دنیا کے سب سے مضبوط جمہوری ملک کے انتخابات میں ای وی ایم پر اتنا زور اور ضدکیوں ہے ۔ سنجے راوت نے طنزیہ انداز میں یہ بھی کہا کہ بی جے پی کے لوگ وزیر اعظم کو وشنو بھگوان کا اوتار مانتے ہیں اور ملک کے عوام ان کے ساتھ ہیں تو پھر لوگوں کے مطالبہ پر بیلیٹ پیپر سے انتخاب کرانے میں کیا قباحت ہے ۔ سنجے راوت نے چند ماہ قبل پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں مدھیہ پردیش انتخاب کے نتائج کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پوسٹل بیلیٹ میں کانگریس 150 سیٹوں پر آگے چل رہی تھی تو پھر اچانک ای وی ایم کے نتائج میں وہی رجحان کیوں نہیں نظر آیا ۔اس کا جواب بہت ہی صاف اور واضح ہے ۔ ای وی ایم تنازعہ کے درمیان سابق الیکشن کمشنر اس وائی قریشی نے بھی یہ کہتے ہوئے شک و شبہ کا اظہار کیا ہے کہ کچھ VVPAT کا خراب ہونا ممکن ہے لیکن ساڑھے چھ لاکھ VVPAT کا خراب ہوجانا ایک گمبھیر معاملہ ہے ۔انھوں نے ٹی وی چینل کے ایک مباحثہ میں اس بات پر سخت اعتراض کیا ہے حزب مخالف کے رہنمأ الیکشن کمشنر سے ای وی ایم کے سلسلے میں اپنے شک وشبہات کو دور کرنے کے لئے ملنا چاہتے ہیں تو الیکشن کمشنر ملنے سے انکار کیوں کر رہے ہیں ۔ خاص طور کانگریس رہنما اور ترجمان جئے رام رمیش نے الیکشن کمیشن سے ملنے کا وقت مانگا لیکن وقت نہیں دیا گیا اور ان کے لکھے دو خطوط کے جواب میں 9 صفحات پر مشتمل ایک خط ان کے پاس بھیج دیا گیا۔ایسے میں اب یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ آخر الیکشن کمیشن اور ای وی ایم کی معتبریت اور شفافیت پر کیونکر اعتماد کیا جائے ۔
الیکشن کمیشن کے تعلق سے سپریم کورٹ کے مشہور وکیل پرشانت بھوشن کے پی آئی ایل کے جواب میں جس برق رفتاری سے الیکشن کمشنر کی تقرری دیکھی گئی ، اس پر سپریم کورٹ نے بھی حیرانگی کا اظہار کیا تھا اور الیکشن کمیشن کے لئے ایک رہنما اصول بھی بنا یا تھا ۔اس اصول کو جس طرح حزب مخالف کے ممبران پارلیمنٹ کو معطل کر ان کی عدم موجودگی میں قانون پاس کیا گیا ، اسے دنیا نے دیکھا ۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوک سبھا کا انتخاب بس اب سر پر ہے اور ملک کے عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے خفا بہت زیادہ ہیں ۔ ہر چہار جانب مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن جیسے بنیادی مسئلوں سے پریشان ہیں۔ایسے میں ایسے لوگ ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں ،جو انتخاب میں ہی ممکن ہے ،لیکن انتخاب کے طریقۂ کار پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ ادھر حکومت کو اپنے ذریعہ مقرر کئے جانے والے الیکشن کمیشن اور ای وی ایم کا ہی سہارا ہے جو انھیں ایک بار بر سر اقتدار لائے گا۔ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ کے وکلأ کا ساتھ دینے والے عوام الناس کی بڑھتی مخالفت کون سا کروٹ لیتی ہے ،اس پر ملک اور بیرون ممالک کی نظریں ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭