ابونصر فاروق:رابطہ:8298104514
بدعقل ، ناسمجھ،بے دین،دنیا پرست،خدا بیزار، آخرت فراموش، سنت نبویﷺ سے غافل اور بدنصیب لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ کی کائنات میں اُس کی زمین پر رہتے ہوئے یہ اپنی من مانیاں کرتے رہیں گے اور اُن کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔اہل تقویٰ اور اہل علم ہمیشہ لوگوں کو کافرانہ، مشرکانہ، فاسقانہ اور فاجرانہ روش کے برے انجام سے ڈراتے رہے ہیں اور اُن کو گناہوں سے توبہ کر کے اُن سے الگ رہنے کی تلقین و تاکید کرتے رہے ہیں۔ لیکن حد سے زیادہ بہکے ہوئے لوگو ں پر کچھ بھی اثر نہیں ہوا اور اُن کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔جلتی ہوئی آگ میں گھی ڈالنے کی مثال یہ ہوئی کہ جاہل، دنیا پرست، خود غرض اور خوف خدا سے محروم نام نہاد عالموں اور پیروں نے لوگوں کو اپنے فائدے کے لئے دین و شریعت سے الگ کر کے گمراہ کرنا اور اپنا الو سیدھا کرنا شروع کر دیا اور لوگ اپنے فائدے کے لئے اصلی لوگوں کو چھوڑ کر نقلی عالموں کی پیروی کرنے لگے اور فتنہ و فساد کی راہوں پر بے دھڑک چل پڑے۔نتیجہ یہ ہوا کہ انسانوں کی زندگی میں دنیا کے سامانوں کی فراوانی ہوگئی اور دولت بھی ضرورت سے زیادہ آ گئی، لیکن لوگ زندگی کی سچی خوشی اور سکون و چین سے محروم ہو گئے۔اس بدنصیبی کا احساس سبھوں کو ہو رہا ہے مگر پھر بھی خود کو سدھارنے کا رجحان نہیں پیدا ہو رہا ہے۔
جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اُن کی بہت بھاری اکثریت اسلام اور ایمان کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی ہے۔جو لوگ ایمان کی رٹ لگاتے پھرتے ہیں وہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ ایمان کیا ہے ؟ ایمان کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ کہ کلمے کا زبان سے اقرار، دل سے یقین اور عمل سے اُس کا اظہار ایمان کی دلیل ہے۔مثال کے طور پر ایک فردکو یہ بتایا گیا کہ آگ جلا دیتی ہے اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا ہے۔اُس آدمی نے اس کا زبان سے اقرار کر لیا۔ اب اُسے کوئی کتنی بھی لالچ دے اور بہکائے کہ اپنا ہاتھ آگ میں ڈالو تمہیں اتنا فائدہ ہوگا۔ اُس کے دل کا یقین اور اطمینان کبھی بھی اُس کو آگ میں ہاتھ ڈالنے پر آمادہ نہیں کرے گا۔یعنی اس بات کا اُس آدمی نے زبان سے اقرار کیا، دل سے یقین کیا اور عمل سے اس کو ظاہر کیا۔ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ کبھی بھی کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اللہ ناراض ہوتاہے۔اللہ کو ناراض کرنا اپنے آپ کو آفت میں ڈالنا ہے۔اب ذرا مسلمانوں کے رویے کودیکھئے، مسلمان نہ تو ایمانیات کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی اُن کی پیروی کرنے پرآمادہ ہیں۔کل ملا کر کہاجائے گا کہ یہ لوگ مسلمان صرف اس لئے ہیں کہ مسلمان نامی گھروں میں پیدا ہو گئے ہیں لیکن ان لوگوں نے اپنی مرضی اور پسند سے ایمان اور اسلام کو اپنایا ہی نہیں ہے اور نہ ہی اپنانا چاہتے ہیں۔اللہ اور اُس کے نبیﷺ کے نزدیک یہ لوگ اہل ایمان ہیں ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی کس کس طرح کی تباہی اور بربادی کا شکار ہوتی ہے اس کودرج ذیل حدیثوں کی روشنی میں سمجھئے:
(۱) خیانت:(بے ایمانی)’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی قوم میں ملی اور قومی امانت میں خیانت کی عادت راہ پا جائے تو اللہ تعالیٰ اُس سے جرأت چھین لیتا ہے۔‘‘(بیہقی)
زکوٰۃ اور صدقہ مجبور، محتاج ،فقیر، مسکین، بیوہ اور یتیم کا حق ہے۔ہر صاحب نصاب کو اپنی زکوٰۃ ایسے لوگوں کو تلاش کر کے اُن تک پہنچانافرض ہے ورنہ زکوٰۃ ادا ہی نہ ہوگی۔یہ رقم مسلمانوں کی قومی امانت ہے ۔یہ غیر مسلم کو بھی نہیں دی جا سکتی ہے۔اب دیکھئے کیا پورے ملک میں مسلمان جو کروڑوں روپے زکوٰۃ اور صدقہ کے نام پر نکالتے ہیں کیا وہ رقم اوپر لکھے ہوئے حقداروں تک پہنچ رہی ہے۔ اگر نہیں تو کون لوگ ہیں جو اس کو بیچ ہی میں ناجائز طور پر ہڑپ کر جا رہے ہیں۔کیا اس کا یہ انجام نہیں ہے کہ مسلمانوں کے جو مذہبی ذمے داران ہیں وہ حق کی حمایت میں اور باطل کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں رکھتے ہیں ۔ سب کے سب ڈر او رخوف کے مارے باطل اور مسلم دشمن سیاست کاروں کے تلوے چاٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ بات ہم نہیں میڈیا والے کہہ رہے ہیں۔
(۲) زناکاری:’’ نبیﷺ نے فرمایا:جس قوم میں زناکاری پھیل جائے اُس کی نسل ختم ہونے لگتی ہے۔‘‘(بیہقی)
مرد اورعورت کو خدا نے ایک دوسرے کے لئے پیدا کیا ہے۔لیکن یہ ساتھ اور جوڑا نکاح کے بعد جائز اور حلال طورپر بنتا ہے۔نکاح کے بغیر اگر کوئی مرد کسی عورت سے یا کوئی عورت کسی مرد سے ازدواجی رشتہ قا ئم کرتی ہے تو یہ زناکاری ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔اس طریقے سے عورت کا نقصان ہوتا ہے مرد کا کچھ نہیں بگڑتا سوا گنہگار ہونے کے۔عورت جب اس زناکاری کے نتیجے میں ماں بن جاتی ہے توپیدا ہونے والا بچہ زندگی بھراُس کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے جبکہ مرد اس کا اقرار کرتا ہی نہیں ہے کہ بچہ اُس کے نطفے کا ہے۔بے درد بن کر عورت اُس بچے کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ضائع کر دینا چاہتی ہے۔ایسا کرنے سے بیشمار بچے دنیا میں نہیں آ پاتے ہیں اور کسی قوم کی نسل رفتہ رفتہ گھٹنے لگتی ہے۔اس کا تجربہ ہر اُس ملک کو ہوا اور ہو رہا ہے جہاں زناکاری عام طور پر رواج پا گئی ہے۔
(۳) ناپ تول میں کمی: ’’نبیﷺ نے فرمایا:جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو اس سے خوش حالی رخصت ہو جاتی ہے۔‘‘(بیہقی)
قرآن میں لکھا ہے کہ شعیب علیہ السلام کی قوم ناپ تول میں کمی کرنے کا گناہ کرتی تھی۔ اس گناہ کی وجہ سے اُس پر عذاب آیا تھا۔ایک دور تھا جب مسلمان تاجر کی ایمانداری مشہور تھی لیکن آج مسلمان بھی مسلمان تاجر پر بھروسہ نہیں کرتا تو غیر مسلم اس پر کیسے اعتبار کریں گے۔کھانے کا سامان بیچنے والے مسلمان تول میں کمی کرنے میں اپنا نام پیدا کر چکے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ آج ہر مسلمان کے گھر میں روپے پیسے کی بہتات ہو گئی ہے ، لیکن گھر میں جائیے تو معلوم ہوگا کہ نحوست برس رہی ہے ۔ زیادہ دولت آجانے کے باوجود خوش حالی اور برکت مسلمانوں کے گھروں سے رخصت ہو چکی ہے۔
(۴) غلط فیصلے :’’ نبیﷺ نے فرمایا:جس قوم میں غلط فیصلے ہونے لگتے ہیں تو اُس کے اندر خون خرابہ ہونے لگتا ہے۔‘‘(بیہقی)
اس وقت پوری دنیا میں غلط فیصلے ہو رہے ہیں چنانچہ ساری دنیا میں خون خرابہ حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔غلط فیصلہ کرنا دین و ایمان سے محروم ہو جانا ہے۔اس دور کے مسلمانوں کی وہ خاصیت ختم ہو چکی ہے کہ یہ حق اور انصاف کا ساتھ دیتے تھے اور ناحق اور ظلم و زیادتی کے خلاف بولتے تھے چاہے معاملہ اپنوں کا ہی کیوں نہ ہو۔اب مسلمان ناحق اور ظلم و زیادتی کا کھلم کھلا ساتھ دے رہے ہیں۔چنانچہ مسلمانوں میں خون خرابہ بڑھتا جا رہا ہے۔دولت اور جائداد کے لئے آئے دن خاندانوں میں خون خرابہ ہونے لگا ہے
(۵) بد عہد ی:’’ نبیﷺ نے فرمایا:جب کوئی قوم بد عہد ہوجائے تو اُس پر دشمن مسلط کر دیا جاتا ہے۔‘‘(بیہقی)
اس دور کی دنیا میں بد عہدی یعنی کسی بات کا اقرار کر کے اُس سے پھر جانا عام بات ہو گئی ہے۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام حکومتوں پر امریکہ اپنا پنجہ گڑائے ہوئے ہے۔کوئی بھی ملک امریکہ سے الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔سب امریکہ کوانسانیت کا دشمن بتا رہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ اُس کے تلوے بھی چاٹ رہے ہیں۔خود امریکہ کا صدر بھی خوفزدہ ہے کہ معاشی میدان میں دوسرے ملکوں کی ترقی اُس کی سرداری کو ختم کر دے گی۔وطن عزیز کے مسلمان پہلے اس عیب سے پاک تھے، لیکن ضرورت سے زیادہ دولت کی ہوس اور دنیا پرستی نے اُن کے اندر یہ خرابی حد سے زیادہ پیدا کردی ہے۔مسلمانوں کا مسلمانوں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ کوئی کسی کو قرض دینا نہیں چاہتا ۔ ڈرتا ہے کہ یہ قرض واپس نہیں کرے گا بے ایمانی کر لے گا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سارے مسلمان غیروں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔یہ اپنی مرضی سے اپنی پسند کی زندگی بھی نہیں گزار سکتے ہیں۔اپنے دین پر عمل کرنا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ختم کی جا رہی ہے۔
یہا ں تک اُن گناہوں کاذکر کیا گیا جن کی بدولت تباہی اور بربادی آتی ہے۔ا ب اُن گناہوں کا ذکر کیاجارہا ہے جن کے نتیجے میں گناہ کرنے والے کا رشتہ اللہ اور اُس کے رسول سے کٹ جاتا ہے۔ لعنت کرنے کا مطلب ہے کہ رشتہ ختم ہو گیا جیسے طلاق کے بعد شوہر اور بیوی کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں چھ قسم کے لوگوں پر لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ نے بھی اُن پر لعنت کی ہے، یقین رکھو ہر نبی کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے:
(۱) اللّٰہ کی کتاب میں اضافہ کرنے والا۔(اللہ اور نبیﷺ کی لعنت کا حقداربن جاتا ہے)
اللہ کی کتاب قرآن کی جو تفسیر عربی زبان میں لکھی گئی ہے، اُس کی ہو بہو نقل فارسی، اردو اور انگریزی زبان میں لکھنے والوں نے لکھی ہے۔وہ جانتے تھے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اللہ کے کلام میں اضافہ کرنے کے جرم میں جہنم میں چلے جائیں گے۔لیکن آج ایسے بد نصیب عالم، مولوی اور مسجدوں کے خطیب و امام پیدا ہو گئے ہیں جوقرآن کی آیات کا وہ مطلب بتاتے ہیں جو قرآن کی کسی تفسیر میں نہیں لکھا ہو اہے۔چنانچہ دینی معاملات میں جو بدعت و خرافات ، فسق و فجور اور تعصب و تنگ نظری دکھائی دے رہی ہے وہ سب اسی روش کا نتیجہ ہے۔ہر مذہبی گروہ اپنے دنیاوی فائدے کے لئے قرآن اور دینی احکام کی صحیح تعبیر کرنے کی جگہ اپنی من مانی تعبیر کر کے مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے اورتفرقہ بازی میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایسے گمراہ، جاہل اور بدکار عالم و فاضل، امیر اور اماموں کا اللہ اور اُس کے رسول سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔
(۲) اللّٰہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا۔(اللہ اور نبیﷺ کی لعنت کا حقداربن جاتا ہے)
تقدیر کوماننے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ چاہتا کچھ اور ہے اور ہو کچھ اور رہا ہے۔جو اچھائی یا برائی پیدا ہو رہی ہے اُس کا کوئی نہ کوئی سبب ہے اور اللہ نے یہ اصول طے کر رکھا ہے کہ انسان جب قدرت کے قانون کے مطابق زندگی گزارے گا تو اچھائی سامنے آئے گی اور جب جب قدرت کے قانون کے خلاف کرے گا تو خرابی پیدا ہوگی ۔انسان کی تدبیر اور کوشش اس فارمولے کو بدل نہیں سکتی ہے۔لیکن آدمی جب زیادہ پڑھ لکھ گیا تو وہ کہنے لگا کہ تقدیر کیا چیز ہوتی ہے۔ہر آدمی اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ یہ کہنا دراصل تقدیر کا انکار کرنا ہے۔تقدیر پر ایمان رکھنے والے کا جب کوئی کام اُس کی غلطی کی وجہ سے یا بہترین کوشش کے بعد بھی بگڑ جاتا ہے تو وہ ہمت نہیں ہارتاہے اور اُس کا حوصلہ پست نہیں ہوتاہے۔وہ کہتا ہے کہ یہی اللہ کی تقدیر تھی۔وہ اپنی بگڑی بنانے میں دوبارہ لگ جاتا ہے اور کامیاب ہو جاتا ہے۔غیر مسلم اگر تقدیر کا انکار کرے تو ٹھیک ہے لیکن بہت سے بدنصیب مسلمان بھی ایسے ہیں جو تقدیر کو نہیں مانتے ہیں۔
(۳) جبر و تشدد کے ساتھ حکومت کرنے والا عزت دار کو ذلیل اور ذلیل کو عزت دینے والا۔(اللہ اور نبیﷺ کی لعنت کا حقداربن جاتا ہے)
اس وقت دنیا کی بیشتر حکومتیں اپنی رعایا کے ساتھ جبر و تشدد سے کام لے رہی ہیں اور ہر اُس عزت دار آدمی کو جو حکومت کی خوشامد کرنے کو تیار نہیں ہے ذلیل کر رہی ہیں۔غیر مسلم حکومتیں ایسا کر رہی ہیں تو ٹھیک ہے لیکن مسلم حکومتیں ایسا کر رہی ہیں تو کیا وہ مسلم حکومتیں کہلانے کی حقدار ہیں ؟ اور ہندوستان میں رہنے والے دنیا پرست مسلمان جو ظالمانہ ناپاک سیاست اور زرپرستی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے نہیں غوطہ خوری کے لئے آمادہ اور تیار ہیں اُن کی کیا حیثیت ہے سمجھ لیجئے۔کیا طاقت ور مسلمان کمزورمسلمان پر ظلم و ستم نہیں ڈھا رہا ہے ؟
(۴) اللّٰہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والا۔(اللہ اور نبیﷺ کی لعنت کا حقداربن جاتا ہے)
جوا، سود، شراب اورناجائز مال شریعت میںحرام ہے، لیکن آج کے مسلمانوں نے غیر مسلموں کی دیکھا دیکھی ان چیزوں کو حلال کر لیا ہے۔مسلمان جوا بھی کھیلتا ہے، شراب بھی پیتا ہے، سود بھی کھاتا ہے اور ڈھیٹ بن کے حرام کمائی بھی کر رہاہے۔کیا یہ مسلمان کہلانے کا، اللہ کی رحمت کا اور نبیﷺ کی شفاعت کا حقدار ہے ؟
(۵) میری اولاد میں ہوتے ہوئے بھی حلال چیزوں کو حرام کرنے والا ۔(اللہ اور نبیﷺ کی لعنت کا حقداربن جاتا ہے)
جو لوگ اپنے آپ کورسول اللہﷺ کے خاندان سے جوڑتے ہیں او ر اس پر فخر کرتے ہیں۔لیکن موجودہ سماج میں جتنی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ تمام برائیاں اُن کے اندربھی موجود ہیں۔نبیﷺ کی اولاد ہوتے ہوئے اللہ کے حرام کو حلال کرنے والے نبیﷺ کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے ہیں؟ نبیﷺ تواُن پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ یہ عزت والے تو کیا ہوں گے مسلمان بھی نہیں ہیں۔
(۶) میرے طریقے کو چھوڑنے والا۔(اللہ اور نبیﷺ کی لعنت کا حقداربن جاتا ہے)
نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت قریب آئے گی تو مسلمان تہتر فرقوں میں بٹ جائیں گے، اُن میں صرف ایک فرقہ نجات پانے والا ہوگا۔پوچھا گیا کہ وہ فرقہ کو ن ہوگا ؟ تو نبی ﷺ نے جواب دیا کہ جو اللہ کی کتاب اور میری سنت کی پیروی کرے گا وہی جنتی ہوگا۔ (بیہقی)
غور سے دیکھئے اور سمجھئے مسلمانوں میںآج ایسا کوئی فرقہ ہے جو خالص قرآن و سنت کی پیروی کر رہا ہو اور اپنے پیچھے چلنے والوں سے ایسا کرا رہا ہو۔ سارے فرقے تفرقہ بازی کر رہے ہیںقرآن وسنت کی تعلیم سے اُن کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، پھر بھی جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم نجات پانے والے فرقے ہیں۔جو لوگ غلط راہوں پر چل رہے ہیں اُن کا انجام اُن کے سامنے ہے۔آپ کب ان چیزوںکو سمجھیں گے ؟ انسان کا اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اللہ کا فرماں بردار نہیں بننااوراس کے نتیجے میں آفت کا شکار ہونے پراپنی اصلاح کی جگہ اللہ کوذمہ دار ٹھہرانا اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔
جن مسلمانوں پر اللہ اور اُس کے نبیﷺ لعنت بھیج رہے ہیں کیا وہ ایمان والے اور اسلام والے باقی رہے۔کیا پیارے نبی ﷺ ایسے لوگوں کی قیامت میںشفاعت کریں گے ؟ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے کہہ دیا ہے کہ اے نبیﷺ ! آپ ان جھوٹے منافقوں کے لئے مغفرت کی دعا کیجئے گا بھی تو میں قبول نہیں کروں گا۔