تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی
ماخوذ: مشاہیر علماء کرام (زیر طبع)
اہل سمہ نے جب سید صاحب کے عاملین کو جو ادھر اُدھر گاؤں میں مختلف کاموں کے لیے متعین کئے گئے تھے شہید کر ڈالا تو ان کی شقاوت وبدعہدی کا سید صاحب کے قلب صافی پر اتنا اثر پڑا کہ اس ملک میں قیام سے بیزار ہو گئے اور وہاں سے آپ نے ہجرت کا قطعی ارادہ کر لیا، ایک روز عصر کی نماز ادا کر کے غازیوں کی ایک جماعت کے ساتھ باہر تشریف لے گئے، دامن کوہ کے ایک میدان میں وعظ فرمایا اور کہا :
’’مسلمانوں کو چاہیے کہ خواہش نفسانی اور اس کے مشتہات مثلاً لذیذ کھانا، شیر، میوہ وغیرہ میں مسلمان بھائیوں کو اپنے اوپر مقدم رکھے اور خود پیچھے رہے، لیکن مقام رنج وتکلیف میں اپنے نفس کو دوسروں پر مقدم سمجھے اور پسند نہ کرے کہ انہیں کوئی بلا یا تکلیف پہنچے‘‘۔پھر آپ نے فرمایا کہ اس بات پر سب کو بیعت کرنی چاہئے۔ چنانچہ شیخ محمد اسحاق گورکھپوری کے ساتھ دوسرے جن لوگوں نے بیعت کی اس میں حبیب اللہ خاں گورکھپوری بھی شامل تھے، پنجتار واپسی کے بعد دو روز تک بیعت کا سلسلہ جاری رہا، یہ تقریباً ۱۲۴۶ءکا زمانہ تھا۔ (سید احمد شہید، جلد:۲؍۳۳۳ – ۳۳۴)